0
Sunday 8 Jul 2018 04:16
دیرنیہ رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے پر دکھ ہے، قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسے ساتھیوں کا خیال رکھے اور انکے تحفظات کو سنے

نواز شریف کو انتقامی سوچ کے تحت سزا دی جا رہی ہے، اشرف صدا

گلگت بلتستان آرڈر 2018ء نافذ ہونے سے جی بی کونسل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا
نواز شریف کو انتقامی سوچ کے تحت سزا دی جا رہی ہے، اشرف صدا
اشرف صدا مسلم لیگ نون گلگت بلتستان کے صوبائی ترجمان اور جی بی کونسل کی سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ انکا تعلق سکردو سے ہے، ایک لمبے عرصے تک صحافت کے شعبے سے منسلک رہے، بعد میں مسلم لیگ نون میں شمولیت اختیار کی، سکردو میں مسلم لیگ نون کو فعال رکھنے میں اشرف صدا کا اہم کردار ہے، 2015ء میں گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات میں نون لیگ کے ٹکٹ پر رکن منتخب ہوئے، بعد میں سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بن گئے۔ احتساب عدالت کے فیصلے کے تناظر میں گلگت بلتستان پر متوقع اثرات اور صوبائی حکومت کی مستقبل کی پالیسی اور پارٹی موقف کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: احتساب عدالت کے فیصلے کے بعد نون لیگ کیلئے پریشانیاں یقیناً بڑھ گئی ہیں، گلگت بلتستان میں چونکہ مسلم لیگ نون کی حکومت ہے تو عدالتی فیصلے کے آفٹر شاکس کی زد میں گلگت بلتستان بھی آئیگا، ایسی صورتحال میں صوبائی حکومت اور پارٹی کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں۔؟
اشرف صدا:
دیکھیں ابھی تفصیلی فیصلہ سامنے نہیں آیا، لیکن ایک بات حقیقت ہے کہ نیب کورٹ بھی نواز شریف کیخلاف کوئی کرپشن ثابت نہ کرسکی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو تعمیر و ترقی اور پاکستان کو چار سالوں میں نواز شریف اور اس کی ٹیم نے اندھیروں سے نکالا اور سکیورٹی اداروں کو مکمل سپورٹ کرتے ہوئے ایک پرامن ملک بنایا، دہشتگردی کا خاتمہ کیا، اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے ملک کو نکالا اور ملک کو معاشی استحکام دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ نواشریف کو اس خدمت کی سزا دی گئی، لیکن 25 جولائی کو عوام اپنا فیصلہ دینگے کیونکہ اب تو ملک کا بچہ بچہ سمجھنے لگا ہے کہ نواز شریف کو ایک مخصوص انتقامی سوچ کے تحت سزا دی جا رہی ہے، اس کا جواب عوام 25 جولائی کو ہماری جماعت کو ووٹ کی شکل میں دینگے۔ عوام باشعور ہوچکے ہیں، اس فیصلے کیخلاف ہماری مرکزی قیادت ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کرے گی اور اس فیصلے کو معطل کرائیں گے، امید ہے کہ قائدین کے خلاف تمام مقدمات بھی ختم ہو جائیں گے۔ جہاں تک گلگت بلتستان کا تعلق ہے، یہ بات حقیقت ہے کہ نواز شریف نہ صرف پاکستان بلکہ گلگت بلتستان کے بھی محسن ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ گلگت بلتستان میں ایک سے دو سو ارب کے منصوبے شروع ہونگے، کیونکہ گلگت بلتستان کے مسائل خصوصاً صحت، تعلیم، انفراسٹرکچر کے مسائل کو گذشتہ ستر سال سے نظر انداز کیا جاتا رہا، نواز شریف نے ستر سالوں سے زیادہ کام کر دکھایا، ہم اس لئے نواز شریف کو گلگت بلتستان کا محسن سمجھتے ہیں۔

آپ دیکھیں سابقہ دور حکومتوں میں گلگت بلتستان میں بدامنی عروج پر تھی، سانحہ پہ سانحہ رونما ہو رہا تھا، مسلم لیگ نون کی حکومت آنے کے بعد عملی اقدامات کئے گئے، جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان آج پرامن ترین خطہ ہے۔ نواز شریف کے اقدامات کے نتیجے میں گلگت بلتستان کی معیشت کا پہیہ چل پڑا ہے، ترقیاتی عمل تیز ہوگیا، سیاحت عروج پر ہے، سالانہ پندرہ سے بیس لاکھ ملکی اور غیر ملکی سیاح آرہے ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آرہے ہیں۔ آج لوگ اپنے ذاتی گھروں کو گیسٹ ہاؤس میں تبدیل کر رہے ہیں، ٹرانسپورٹروں کو بے تحاشا منافع ہو رہا ہے، ہوٹل انڈسٹری ترقی کر رہی ہے۔ یہ صرف اور صرف نواز شریف کے ویژن کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے تو عوام انہیں محسن کیوں نہ سمجھیں۔ گلگت سکردو روڈ، کارڈیالوجی ہسپتال، میڈیکل اور انجینئرنگ کالج یہ سب نواز شریف کے مرہون منت ہیں۔ میں سمجھتا ہوں گلگت بلتستان کے عوام نواز شریف کی ان خدمات کو ہمیشہ یاد رکھیں گے اور 2020ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون کو ایک بار پھر بھاری اکثریت سے کامیاب بنائیں گے۔ صورتحال کا زیادہ اثر نہیں پڑے گا، کچھ مشکلات ضرور پیش آئیں گی، تاہم صوبائی حکومت میں یہ اہلیت موجود ہے کہ وہ ترقی کے سفر کو رکنے نہ دے اور گلگت بلتستان میں پارٹی کی موجودہ حیثیت کو برقرار رکھے۔

اسلام ٹائمز: صوبائی حکومت کے نزدیک نواز اور شہباز میں کوئی فرق ہے؟ شہباز شریف کی گلگت بلتستان میں دلچسپی کس حد تک ہے۔؟
اشرف صدا:
شہباز شریف نے بحثیت وزیراعلیٰ پنجاب گلگت بلتستان کے طلباء کیلئے پنجاب کے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کے کوٹے میں سو فیصد اضافہ کیا، پنجاب کے بجٹ سے ایک ارب روپے تحفے کے طور پر گلگت بلتستان کو دیئے، گلگت بلتستان کے ہسپتالوں کیلئے کروڑوں روپے کی ادویات فراہم کیں، 2010ء کے سیلاب کے دوران کروڑوں روپے کا امدادی سامان سینکڑوں ٹرکوں میں گلگت بلتستان روانہ کیا، ایم آر آئی مشین فراہم کی، جس کی وجہ سے پہلی مرتبہ گلگت بلتستان کے غریب عوام کا علاج گھر کی دہلیز پر ممکن ہوا، اس صورت میں ہمارے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وفاق میں نواز شریف کی حکومت آتی ہے یا شہباز شریف کی، کیونکہ مسلم لیگ نون کی پوری قیادت کے نزدیک گلگت بلتستان کی حیثیت واضح ہے اور مسلم لیگ ملک کے دیگر صوبوں سے بڑھ کر اس خطے کو اہمیت دیتی ہے۔ میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں کہ گلگت بلتستان میں پیپلزپارٹی بھی ہے اور تحریک انصاف بھی، سندھ میں گذشتہ دس سالوں سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، ان کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ گلگت بلتستان کیلئے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز کے کوٹے میں معمولی اضافہ کریں۔

سندھ کے اندر گلگت بلتستان کیلئے 1971ء کا کوٹہ چل رہا ہے، پیپلزپارٹی کم از کم گلگت بلتستان کیلئے کالجوں میں کوٹے کا اضافہ تو کرے، کے پی کے میں پانچ سال تک پی ٹی آئی کی حکومت رہی، لیکن کالجز کی سیٹوں میں ایک فیصد بھی اضافہ نہیں کیا۔ اب آپ دیکھیں ایک ڈاکٹر پر 60 لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں، اگر یہ پارٹیاں صرف 50 سیٹیں ہی بڑھائیں تو یہ کروڑوں میں جا پہنچتے ہیں، ان جماعتوں کی صوبائی قیادت اگر عوام سے اتنی مخلص ہے تو ہمارا مقابلہ کام سے کرے، نہ کہ دھرنوں کی سیاست سے۔ شہباز شریف نے پنجاب میں کام کر دکھایا ہے، ہمارا مقابلہ دھرنوں کی سیاست سے نہیں ہے، ہمارا مقابلہ گراؤنڈ میں کام سے ہے، سیاسی جماعتوں کے مابین مقابلہ گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی اور امن کے قیام کیلئے ہونا چاہیے، مقابلہ اتحاد و اتفاق اور مذہبی ہم آہنگی قائم کرنے کیلئے ہونا چاہیے۔ آج اگر آپ دیکھیں تو حکومت نے تمام اضلاع میں یکساں بنیادوں پر کام کئے ہیں۔ سکردو، غذر، دیامر، گلگت میں یکساں بنیادوں پر ترقیاتی کام ہو رہے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم نے مکمل کایا پلٹ دی ہے، لیکن ان تین سالوں میں جو کچھ کرسکتے تھے، وہ کر دکھایا ہے۔

اسلام ٹائمز: پیپلز پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں گلگت بلتستان کو واضح اہمیت دی ہے، لیکن مسلم لیگ نون کے انتخابی منشور میں جی بی کا کوئی ذکر نہیں، آخر کیوں۔؟
اشرف صدا:
گلگت بلتستان مسلم لیگ نون کے دماغ میں ہے، چاہے منشور میں شامل ہو یا نہ ہو۔ مسلم لیگ نون نے وفاق میں پانچ سالوں میں جبکہ صوبائی حکومت نے گلگت بلتستان میں تین سالوں میں 70 سالوں سے زیادہ کام کیا ہے، مسلم لیگ نون کو عوام نے دوبارہ موقع دیا تو پہلے سے زیادہ کام ہوگا اور ترقی کا یہ سفر پورے جذبے کے ساتھ جاری و ساری رہے گا۔ منشور میں خطے کا نام شامل نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تاہم پھر بھی صوبائی قیادت بہتر بتا سکتی ہے کہ منشور میں گلگت بلتستان کا ذکر کیوں نہیں۔ لیکن ایک بات میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے علاقے کے ساتھ پچھلے ستر سالوں میں کبھی مذہب، کبھی سیاست اور کبھی قومیت نام پر جو کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے، ہم نے ان زخموں پہ مرہم رکھنا ہے۔ میں آپکو ایک مثال دیتا ہوں کہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے گلگت بلتستان میں پہلی مرتبہ ایم آر آئی مشین نصب کی، جس کی وجہ سے مریضوں کو گھر کی دہلیز پر سہولت فراہم ہوگئی، اس سے پہلے ایک لاکھ روپے سے زیادہ خرچ ہوتا تھا، 36 ارب روپے کے گلگت سکردو روڈ منصوبے کو عملی شکل دیکر دکھایا، اس سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اربوں کے ترقیاتی پراجیکٹس پر کام بھی ہوگا۔ پیپلزپارٹی پانچ سال تک اقتدا میں رہی اور پانچ سال تک اسی روڈ پر چلتی رہی، لیکن انہیں ایک معمولی کھڈے کو بھی پر کرنے کی توفیق نہیں ہوئی، یہ تمام چیزیں منشور میں شامل نہیں تھیں۔ منشور بھی ایک اہم حصہ ہے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ عملی کام کون کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت میں حال ہی میں مسلم لیگ نون کے کئی سینیئر اور دیرینہ رہنماؤں نے پارٹی کو خیرباد کہہ دیا، کیا صوبائی قیادت دیرینہ ساتھیوں کو اہمیت نہیں دیتی؟ دیرینہ ساتھی ساتھ کیوں چھوڑ رہے ہیں۔؟
اشرف صدا:
دیکھیں جمہویت اسی کا نام ہے اور جمہوریت میں ہر فرد فیصلہ کرنے میں آزاد ہوتا ہے، بہرحال نون لیگ سے جانے والے ہمارے دیرینہ ساتھی تھے اور ان کے جانے پر بہت دکھ ہوا، ہماری جماعت کو بھی چاہیے کہ وہ دیرہنہ کارکنوں اور رہنماؤں کا خیال رکھے اور ان کی شکایات کو سنجیدگی سے لے۔ ہماری نیک تمنائیں ان کے ساتھ ہیں۔ باقی یہ جمہوریت اور سیاست کا حصہ ہے، ان کی طرف سے کوئی شکایات یا تحفظات سامنے نہیں آئے تھے، پھر بھی ان کے جانے پر دکھ ضرور ہے۔

اسلام ٹائمز: گلگت بلتستان کونسل کی اب تک کیا کاکردگی ہے؟ نئے آرڈر کے بعد کونسل کے معاملات پر کچھ فرق پڑا ہے۔؟
اشرف صدا:
کونسل نے اپنی بساط سے بڑھ کر کام کیا ہے، جس طرح ٹیکس کا معاملہ عوام لے کر اٹھے اور ایک تحریک کی شکل اختیار کی، عوام نے کونسل کے ذریعے وفاقی حکومت کو بتا دیا کہ ہم ٹیکس دینے کیلئے تیار نہیں ہیں، چونکہ یہ ٹیکس سابقہ حکومت کا فیصلہ تھا 2012ء میں پیپلزپارٹی کے دور میں ٹیکس کا نفاذ ہوا تھا، بعد میں ہمارے دور حکومت میں ٹیکس کا معاملہ اٹھا تو عوامی ایکشن کمیٹی، انجمن تاجران اور حکومت کے مابین ایک تین نکاتی معاہدہ ہوا، ادھر وزیراعظم نے بھی معاملے پر ایک کمیٹی بنائی، جس کی سربراہی اس وقت کے رکن قومی اسمبلی ملک ابرار کر رہے تھے، جبکہ باقی ممبران میں، میں اور رکن کونسل سید افضل شامل تھے، ہم نے من و عن عوام کے تمام مطالبات کو منظور کیا اور ٹیکس کو معطل کیا، یہ کونسل کی سب سے بڑی کامیابی تھی کہ پہلے ٹیکس کو عارضی طور پر روک دیا، بعد میں پانچ سال کیلئے مکمل ٹیکس چھوٹ فراہم کی۔ باقی پالیسی سازی میں کونسل نے اہم کام کئے ہیں۔ کونسل نے پاور پالیسی، منرلز پالیسی بنائی، یہ بہت زبردست پالیسی ہے، جس میں تمام سٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہے۔ اس کے علاوہ ٹورزم پالیسی، فاریسٹ پالیسی بھی بنائی، فاریسٹ پالیسی نہ ہونے سے دیامر میں لاکھوں فٹ لکڑی سڑ رہی تھی۔

جہاں تک کونسل ممبران کے بجٹ کا تعلق ہے تو یہ اپنے اپنے حلقوں میں تعلیم، صحت، واٹر سپلائی، لائبریری سمیت سینکڑوں سکیموں پر خرچ ہو رہا ہے، پہلے ایم ڈی پی(ممبر ڈویلپمنٹ فنڈ) 2کروڑ روپے تھا، بعد میں اراکین کونسل نے وزیراعظم پاکستان سے درخواست کرکے ایم ڈی پی کو 2 کروڑ سے بڑھا کر 5 کروڑ کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ترقیاتی منصوبوں کا دائرہ بھی کسی حد تک بڑھ گیا ہے۔ باقی نئے آرڈر کو فی الحال سپریم اپیلٹ کورٹ نے معطل کیا ہوا ہے، اب سننے میں آیا ہے کہ وفاق پاکستان نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے، لیکن جو بھی فیصلہ ہوگا، وہ پاکستان اور گلگت بلتستان کے عوام کے حق میں ہوگا، کونسل کا اپنا دائرہ کار ہے، نئے آرڈر کے نتیجے میں کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کونسل کی ترقیاتی سکیمیں اسی رفتار سے جاری رہیں گی۔
خبر کا کوڈ : 736423
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش