0
Saturday 12 Oct 2019 21:40

امریکی ہدف فلسطین نہیں بلکہ ایران پہ امریکی تسلط کو واپس حاصل کرنا ہے، سید حسن نصراللہ کا خصوصی انٹرویو (حصہ سوئم)

فلسطینی قوم کے ارمانوں کا پرچم آیت اللہ خامنہ ای کے توانا ہاتھوں میں ہے
امریکی ہدف فلسطین نہیں بلکہ ایران پہ امریکی تسلط کو واپس حاصل کرنا ہے، سید حسن نصراللہ کا خصوصی انٹرویو (حصہ سوئم)
ادارہ حفظ و نشر آثار، رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مجلہ ’’مسیر‘‘ کی ٹیم نے حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصراللہ کیساتھ طویل دورانیئے پہ مشتمل انٹرویو کا اہتمام کیا۔ اس انٹرویو کو ذرائع ابلاغ کی دنیا کا طویل ترین انٹرویو بھی کہا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ انٹرویو لگاتار دو راتوں پہ محیط ہے اور اس انٹرویو کی اہمیت یوں بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ طلسماتی شخصیت رکھنے والے سید حسن نصراللہ نے اپنی گفتگو میں کئی اہم باتوں اور رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ اس انٹرویو کا تیسرا حصہ پیش ہے۔

سوال: ۳۳ روزہ جنگ ایک اچھا موقعہ تھا کہ آپ دیکھ سکیں کہ اسرائیل کتنے پانی میں ہے اور اس کے مقابلے میں حزب اللہ اور مقاومتی حصار کتنی مضبوطی اور قوت رکھتا ہے۔ آپ اس جنگ کا کیا تجزیہ کرتے ہیں اور اس میں جو اسرائیل کو شکست ہوئی، وہ اپنے اہداف تک نہیں پہنچ سکا، حقیقت میں اس کے نتائج تل ابیب کو کس طرف لے جائیں گے۔؟ 
سید حسن نصراللہ:
 ہم اس میں وسیع سطح پر گفتگو کر سکتے ہیں اور گیارہ ستمبر کے بعد پیش والے واقعات نیز امریکہ میں نئے محافظہ کار یعنی جارج بش کے بارے میں بھی گفتگو کو شامل کیا جاسکتا ہے کیونکہ لبنان کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ اِسی پروجیکٹ اور بڑی سازش کا حصہ تھی۔ یہاں خطے میں حضرت آیت اللہ خامنہ ای کی قیادت کا کردار پہلے سے زیادہ نمایاں نظر آتا ہے۔ جارج بش اور اس کے ساتھیوں نے خطے کے ممالک پر حملہ کرنے کے لیے گیارہ ستمبر کے واقعات کو بہانہ بنایا کیونکہ وہ گیارہ ستمبر سے پہلے ہی اِن ممالک پر حملہ کرنا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے مہلک ایٹمی ہتھیار رکھنے کے الزام میں عراق کا انتخاب کیا لیکن گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد مجبور ہو گئے کہ پہلے افغانستان جائیں پھر عراق۔ 

یہ امریکی پراجیکٹ سن ۲۰۰۰ اور ۲۰۰۱ میں شروع ہوا۔ امریکہ کا خیال تھا کہ خطے میں عرب اسرائیل کے درمیان صلح کے مراحل میں جمود پیدا ہو گیا ہے۔ دوسری جانب لبنان میں مقاومت کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی اور اس کے نتیجہ میں اسرائیل کو جنوب لبنان سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ یہ لبنان، شام، ایران اور حتیٰ فلسطین کے مقاومتی گروہوں کے لیے بھی ایک بڑی کامیابی تھی۔ ایران بھی دن بہ دن اندرونی اعتبار سے اور خطے میں مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اِس صورتحال کو برداشت نہ کرتے ہوئے امریکیوں نے خطے میں بڑی فوجی کارروائی کرنے کا ارادہ کیا تاکہ پہلے نمبر پر حصول مفادات کی خاطر، تیل کے ذخائر اور ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کیا جائے، دوسرا یہ کہ اسرائیل کے لیے خطے میں کوئی سیاسی راہ حل نکالا جائے اور اس کی موجودگی کو استحکام دیا جائے۔ 

اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر ضروری تھا کہ تمام رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔ اس پراجیکٹ کی رکاوٹیں فلسطین میں مقاومت، لبنان میں مقاومت، شام کی حکومت اور اِسی طرح ایرانی حکومت تھیں۔ تمام شواہد اِس بات پر گواہ ہیں، البتہ گیارہ ستمبر کے واقعہ کے بعد وہ مجبور تھے کہ پہلے افغانستان جائیں کیونکہ نئے محافظہ کار سیاست دان اور جارج بش کے اس پروجیکٹ کا اہم حصہ ایران کا محاصرہ اور اسے تنہا کرنا تھا۔ پاکستان میں موجود امریکی فوجی دستے، خلیجی ممالک اور خلیج فارس میں موجود امریکی دستے، شام اور اس کے ہمسایہ میں تعینات امریکی فوجی دستے، افغانستان پہنچے اور پھر عراق کے لیے روانہ ہوئے تاکہ ایران کا محاصرہ مکمل کیا جائے۔ واضح بات تھی کہ ایران کو تنہا کرنے اور اس پر حملہ کرنے سے پہلے امریکیوں کو عراق پر مکمل کنٹرول کرنا تھا اور فلسطین و لبنان کی مقاومت کو ختم کرنا ضروری تھا۔ پھر دمشق کی حکومت کا تختہ الٹتے یعنی خطے میں ایران کے دوست اور جنہیں امریکی، ایران کے پیمان کار اور مضبوط بازو سمجھتے تھے، اُن پر امریکی حملہ آور ہو رہے تھے۔

اِسی طرح وہ اُن کی بھی تباہی چاہتے تھے جو اسرائیل کے ساتھ ذلت آمیز صلح کے خلاف کھڑے ہو سکتے تھے کیونکہ اسرائیل کے ساتھ صلح، ایران کو تنہا کرنے اور اس پر حملہ کرنے کے لیے ایک اہم شرط تھی۔ یعنی پہلا ہدف، فوجی دستوں کے ساتھ محاصرہ میں وسعت ، بعض ممالک پر قبضہ، مقاومت کا خاتمہ نیز عرب اسرائیل صلح کی برقراری کے بعد ایران پر حملہ اور اسلامی جمہوری حکومت کے خاتمہ اور اس پر تسلط کی خاطر واشنگٹن کی قیادت میں عرب اسرائیل مشترکہ فوجی اتحاد کا قیام تھا۔ یہ تھا امریکی پراجیکٹ۔ اس ترتیب سے پہلا قدم افغانستان کی جنگ تھی، دوسرا قدم عراق کی جنگ، ان کے بعد تیسرے قدم کے بارے میں بتاؤں گا کہ کیا واقعہ پیش آیا۔ 

عراق پر قبضہ کرنے کے بعد، اگر آپ کو یاد ہو  کہ کولن پاول اُس زمانہ میں امریکی وزیر خارجہ تھا وہ امریکی شرائط و پابندیوں کی ایک لمبی فہرست لے کر دمشق روانہ ہوا اور بشار اسد سے ملاقات کی۔ وہ چاہتا تھا کہ خوف و دہشت کی قائم شدہ فضا سے استفادہ کرتے ہوئے اور خطے میں امریکی حملہ کی دھمکی کے ذریعہ اسد پر اپنی شرائط لاگو کرے، بالخصوص جولان، فلسطین، مقاومت فلسطین اور حزب اللہ لبنان وغیرہ کے حوالے سے فائدہ اٹھائے۔ البتہ بشار اسد امریکی دھمکیوں کے باوجود اِس طویل و عریض فہرست کی شرائط کے سامنے تسلیم نہ ہوا۔ امریکی ناکام رہے اور اپنے تیسرے قدم کی طرف بڑھے۔ اُس زمانہ میں فلسطین کے اندر قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے والے تھے۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ فلسطینی حکومت محمود عباس کی سربراہی میں انتخابات جیت جائے گی۔ حماس اور دوسرے مقاومتی گروہ ہار جائیں گے۔ پھر یہ خودگردان حکومت فلسطین میں مقاومتی گروہوں کے ساتھ صلح کرے گی اور یوں صلح اسرائیل کے مراحل کا آغاز کرے گی، لیکن کیا ہوا؟

ایک ناقابل یقین واقعہ، حماس انتخابات میں اکثریتی ووٹوں کے ساتھ قانون ساز اسمبلی میں پہنچ گئی۔ اس کے بعد تھا کہ امریکہ نے اپنا اگلا قدم اٹھا لیا اور وہ لبنان پر حملہ تھا۔ یہ وہ موقع تھا کہ جب ۳۳ روزہ جنگ اور مقاومت حزب اللہ کی تاریخ رقم ہوئی۔ منصوبہ یہ تھا کہ امریکہ، فلسطین میں حماس اور جہاد اسلامی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور پھر حزب اللہ لبنان پر حملہ کریں۔  اُن کا ارادہ تھا کہ اس مقصد کو پورا کرنے کے بعد شام کی طرف جائیں گے اور دمشق کی حکومت کو گرا دیں گے پھر اس کے بعد صلح اسرائیل اور عرب اسرائیل تعلقات کو معمول پر لانے کا کام کریں گے۔ اس کے بعد ایران کا محاصرہ تنگ کرتے ہوئے اُسے ہر کسی سے کاٹ دیں گے۔ اُس وقت میں فلسطینی مقاومت پر کامیابی، حزب اللہ لبنان پر اسرائیل کا غلبہ اور بشار الاسد کی حکومت کو گرانا، جارج بش کے لیے بہت واضح کامیابی ہو سکتی تھی، اس کے ذریعہ سے وہ چاہتے تھے کہ کانگریس کے انتخابات
اور صدارتی انتخابات میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں۔
 
ایک بڑا امریکی مصنف، جب ۲۰۰۶ کے آخر میں امریکی کانگریس میں انتخابات کی بحث چل رہی تھی اور جارج بش کو ضرورت تھی کہ کانگریس کی دو تہائی نشستیں حاصل کرے۔ اس مصنف نے مجھ سے کہا تھا کہ ’’جارج بش کو کانگریس کے انتخابات اور صدارت کے لیے اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ وہ ایک کاؤ بوائے کی طرح انتخابی میدان میں اُترے اور تین خونی سر اپنے ہاتھ میں پکڑے، فلسطینی مقاومت کا سر، حزب اللہ کا سر اور بشار اسد کا سر۔ اگر بش اپنے اِن تین مقاصد میں کامیاب ہو جاتا، تو وہ اپنی جماعت والوں کے لیے کانگریس میں دو تہائی اکثریت کو تحفہ میں حاصل کرتا۔ نیز ایران کے ساتھ جنگ بھی حتمی ہو جاتی۔‘‘ 

جو کچھ ہو رہا تھا، اس کا اصل مقصد مسئلہ فلسطین کا مکمل خاتمہ اور ایران کے خلاف جنگ کے مقدمات فراہم کرنا تھا۔ میں اس بات کی وضاحت کروں گا اور مجھے اُمید ہے کہ کسی دن موقعہ ملے گا کہ میں ایرانی قوم کے لیے اس بات کی تشریح کر سکوں تاکہ وہ بخوبی اس حقیقت کو جان سکیں کہ خطے میں جھگڑوں اور اختلافات کا اصل ہدف فلسطین نہیں بلکہ اصل ہدف ایران پر امریکی تسلط کو واپس حاصل کرنا ہے، ایران کے وسائل و ذخائر پر تسلط، اس ملک کو شاہ کے دور میں واپس لے جانا ہے۔ خطے کی تاریخ کے اس مرحلہ میں ایران کی حیثیت اور السید القائد کا مقام، خاص طور سے نفسیاتی پہلو بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جب امریکہ خطے میں داخل ہوا، نہ شوروی اتحاد موجود تھا، نہ سوشلسٹ محاذ تھا بلکہ دنیا میں تسلط کی خواہش رکھنے والی، مغرور، متکبر اور بے رحم صرف ایک  طاقت بنام ’’امریکہ‘‘ موجود تھی۔ اس طاقت نے خطے میں فوجی جنگ کا ارادہ کیا اور اپنی فوجی و عسکری سازوسامان کے ہمراہ خطے میں اُتر آئی۔ سب سوائے بعض کے ڈرے ہوئے تھے اور لرز رہے تھے۔ اس موقعہ پر السید القائد کا افغانستان اور عراق پر امریکی حملہ سے متعلق موقف ہمیں یاد ہے۔ السید القائد ایران کے مختلف شہروں میں جا رہے تھے، ایرانی قوم، خطے کی اقوام اور مقاومتی گروہوں کی ہمت بڑھا رہے تھے، اپنی گفتگو کے ذریعہ، خطے میں امریکی جارحیت کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے اور ڈٹ جانے کی ترغیب دلا رہے تھے۔ سچ میں یہ ایک بہت مشکل ذمہ داری تھی۔
 
مجھے یاد ہے کہ جنگ افغانستان کے بعد اور جنگ عراق سے پہلے ہم ایران گئے اور السید القائد سے ملاقات کی۔ ہم نے اِن سے کہا کہا خطے میں بہت پریشان کن ماحول پیدا ہو رہا ہے۔ آپ ملاحظہ کریں کہ اُن کی نظر کیا تھی۔ السید القائد نے میری طرف رخ کیا اور فرمایا ’’ہمارے تمام بھائیوں سے کہو کہ نہ ڈریں، بات بالعکس ہے، خطے میں امریکہ کا آنا، مستقبل کی آزادیوں کے لیے بشارت ہے۔‘‘ میں یہ جملہ سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ انہوں نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اشارہ کیا اور فرمایا ’’امریکی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے ہیں لیکن افغانستان پر حملہ کرنے کے وقت سے اُن کا زوال شروع ہو چکا ہے، اگر امریکیوں کو یقین ہوتا کہ اسرائیل، عربی حکومتیں اور خطے میں اُن کے گماشتے، واشنگٹن کے مفادات کی حفاظت کر سکتے ہیں تو وہ کبھی بھی اپنی فوج اور اپنے بیڑوں کو اس خطے میں گھسیٹ کر نہ لاتے۔ لہذا اس کا یہ عسکری اقدام، اس کی شکست پر گواہ ہے اور یہ خطے میں اِس کی سیاسی چالوں کی ناکامی ہے  اگر یہ کامیاب ہوتے، ان کاموں کی ضرورت ہی نہ تھی۔ جب امریکی اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خطے میں اپنے مفادات کو حاصل کرنے کی خاطر براہ راست خود میدان عمل میں اُتریں، تو یہ اِن کی کمزوری کی علامت ہے، طاقت کی نہیں۔ جب کوئی فوج، چاہے بڑی اور طاقتور ہو، (حملہ آور ہونے کی غرض سے) ہزاروں میل سفر کرتی ہے اور ایسے خطے میں پہنچتی ہے، جہاں زندہ اقوام زندگی بسر کر رہی ہیں تو بلا شک ایسی فوج شکست کھائے گئی اور ٹوٹ کر بکھر جائے گی، لہذا خطے میں امریکہ کا آنا، اس کے زوال اور سقوط کا آغاز ہے، اُن کے کسی نئے دور کا آغاز نہیں۔‘‘ 

السید القائد نے اِن مطالب کو مختلف مواقع پر مختلف الفاظ و جملوں کے ساتھ بیان کیا ہے۔ انہوں نے اس موضوع کو اسی وضاحت اور تفصیل کے ساتھ مجھے بتایا اور میں دوسرے ساتھیوں کے سامنے اسے بیان کیا۔ ہم نے اس موضوع پر تمام جہات سے گفتگو کی بہرحال سن ۲۰۰۶ آ گیا اور ہم نے راہ مقاومت کو جاری رکھا۔ اگر آپ کو یاد ہو تو جنگ کے پہلے ہی دن، السید القائد نے ایک بیان دیا اور اس میں انہوں نے مقاومت کی حمایت اور حملہ آوروں کے مد مقابل ثابت قدمی، جوانمردی پر تاکید کی۔ اِن کا یہ اقدام ہمارے لیے، ہماری قوم اور اسی طرح ہمارے مجاہدوں کے لیے اتنہائی قابل قدر تھا کیونکہ ہم ایسی جنگ کی بات کر رہے ہیں، جس میں خون دیا گیا، شہید دیے گئے، جس میں لوگوں زخمی ہوئے۔ جب ہم نے دیکھا کہ ہمارے زمانے کے ولی امر ، ہمارے رہبر، ہمارے پیشرو اور ہمارے مرجع اس طرح ہمیں مقاومت کی ترغیب دلا رہے ہیں تو ہمارے حوصلے بہت زیادہ بلند ہو گئے اور ہم اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آوروں کے خلاف جنگ میں اُترے۔ امریکی تھوڑے ہی عرصہ بعد، صرف چار یا پانچ دن، یعنی جب اسرائیل جن تمام جگہوں کو جانتا تھا، بمباری کرچکا تھا، انہوں نے تصور کیا کہ ہم کمزور پڑ گئے ہیں، ڈر گئے ہیں اور ہمارے تسلیم ہونے کا وقت آ گیا ہے، اُس وقت امریکیوں نے ’’سعد الحریری‘‘ کہ جو اِس وقت لبنان کا وزیر اعظم ہے، سے رابطہ کیا۔

حریری اُس زمانہ میں وزیر اعظم نہ تھا بلکہ پارلیمنٹ کی کسی کمیٹی کا سربراہ تھا، جس کی طرف اُس وقت کا وزیر اعظم فواد سنیورہ جھکاؤ رکھتا تھا۔ سعد الحریری نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ امریکی کہتے ہیں، یعنی یہ امریکی تھے جو مذاکرات کر رہے تھے، تین شرائط مان لینے کی صورت میں جنوب لبنان کے خلاف جنگ روک دیں گے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ حزب اللہ نے جو دو اسرائیلی قیدی بنا رکھے ہیں، چھوڑ دے۔ دوسری شرط یہ تھی کہ حزب اللہ مکمل طور پر ہتھیار پھینک دے اور ایک سیاسی جماعت میں تبدیل ہو جائے۔ تیسری شرط یہ تھی کہ حزب اللہ جنوب لبنان میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی فوج نہیں بلکہ چند قومی فوج کے آنے پر راضی ہو جائے۔ اُس زمانہ میں چند قومی فوج عراق میں داخل ہو چکی تھیں۔ یہ فوج اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل سے وابستہ نہیں ہے بلکہ امریکہ سے وابستہ ہے اور امریکہ کی سربراہی میں کام کر رہی ہے۔ ہدف یہ تھا کہ ہم لبنانی سر زمین، لبنان اور فلسطین کی سرحد، لبنان اور شام کی سرحد، اسی طرح ائیر پورٹس، تمام ساحل، سمندری راستوں یعنی لبنان کے داخلی اور خارجی سمندری راستوں پر اِس چند قومی فوج کے پڑاو کو قبول کر لیں۔ یعنی ایک بین الاقوامی قبضہ اور امریکی قبضہ کو
مان لیں۔

واضح ہے کہ ہم نے یہ تینوں شرطیں ماننے سے انکار کر دیا اور دفاع جاری رکھا۔ اُس زمانہ میں ’’ کونڈو لیزا رائس لبنان آئی۔ اس نے لبنانیوں کو حتمی جنگ کا اشارہ دیا اور بتایا کہ حزب اللہ یقینی طور پر شکست سے دوچار ہو گی اور تباہ ہو جائے گی۔ نیز یہ مشہور جملہ کہا ’’یہ خطہ ایک نیا مشرق وسطیٰ پیدا کرنے کی تکلیف سے گزر رہا ہے۔ ‘‘ اور کہا کہ یہ وہی نیا مشرق وسطیٰ ہے جس کے متعلق ہم بات کیا کرتے تھے۔ اس سب کے باوجود مقاومت نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور فتح حاصل کی لہذا امریکیوں کے پراجیکٹ کو پہلی شکست فلسطینی انتخابات میں ہوئی۔ دوسری شکست لبنان میں یعنی حزب اللہ کی نابودی کا خواب چکنا چور ہوا۔ اِسی طرح اس زنجیر کی تیسری کڑی بھی ٹوٹ گئی کیونکہ یہ طے تھا کہ حزب اللہ کی تباہی کے بعد شام پر جنگ مسلط کی جائے اور اسرائیل و امریکہ شام کی حکومت پر چڑھائی کریں۔ یہ خواب بھی پورا نہ ہو سکا۔ یہ تھی امریکہ کی پے در پے پہلی دوسری تیسری شکست۔
 
عراق کے حوالے سے السید القائد کا موقف بالکل واضح تھا۔ اُن کا اصرار تھا کہ عراق میں امریکہ بعنوان قابض جانا جائے، اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام سرکاری دفاتر بھی عراق میں امریکہ کو قابض ہی قرار دیتے تھے۔ کچھ ہی عرصہ بعد عراق میں عوامی مقاومت شروع ہو گئی جبکہ تصور کیا جا رہا تھا کہ امریکہ عراق میں پاؤں جما لے گا اور اس پر تسلط قائم کر لے گا، اس کے اداروں کو اپنے قبضہ میں کر لے گا، بالآخر عراق میں جبہۃ النصرہ، القاعدہ اور تکفیریوں کے جیسے نہیں بلکہ مسلحانہ اور مخلصانہ مقاومت کے نتیجہ میں، نیز مضبوط سیاسی حکمت عملی، ملکی سطح پر مستحکم قومی ارادہ کے تحت کیے جانے والے دفاع کی بنا پر امریکہ کو راہ فرار کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سُجائی نہ دیا چنانچہ امریکہ ایک معاہدے کا سہارا لیتے ہوئے عراق سے نکل گیا۔ جب امریکی عراق سے نکلے تو میں نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ یہ واقعہ عراقی مقاومت کا حاصل اور اس کی بہت بڑی کامیابی شمار ہوتی ہے لیکن افسوس کہ کسی نے عراقی قوم کی اس بڑی کامیابی کا جشن نہیں منایا۔ عراقی عوام کی اس بڑی کامیابی پر کہ جس کی وجہ سے ۲۰۱۱ میں امریکہ مجبور ہو کر سرزمین عراق سے نکل گیا، جشن منایا جانا چاہیے تھا۔ 

آخر کار خطہ میں امریکہ کے تمام پراجیکٹ (وہی نئے مشرق وسطیٰ کا منصوبہ  وغیرہ) اس مرحلہ میں یعنی ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۱ تک ناکام ہوئے۔ اسرائیل کے ساتھ ذلت آمیز صلح ، فلسطین کو مٹانے کی خاطر عرب اسرائیل تعلقات معمول پر لانے، مقاومتی تحریکوں کی تباہی، ممالک پر قبضہ، اسی طرح ایران کو تنہا کرنے اور اس پر حملہ کرنے کے مقصد کے تحت تسلط قائم کرنے کی خاطر خطہ پر امریکی جارحیت ہر حوالے سے ناکام ہو گئی۔ ایسا کیسے ہو گیا؟ یہاں السید القائد، اسلامی جمہوریہ ایران، اسی طرح اِن کے اتحادی اور خطے میں اِن دوستوں کے کردار کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، یہ تھے جنہوں نے اِن تمام منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ اب ظاہر ہے کہ آل سعود، عربی ممالک اور خلیج فارس کے ہمسایہ ممالک کے بہت سے حکام، خطے میں اس امریکی منصوبہ کے جزو لاینفک تھے اور ایک طرح سے امریکی منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کا ذریعہ بھی شمار ہوتے تھے، اِن کے درمیان خطے کے منصوبوں میں سب سے بڑا امریکی ذریعہ اسرائیل تھا لیکن وہ جو امریکی منصوبوں اور پراجیکٹس کے سامنے کھڑے ہو گئے، اِن میں اسلامی جمہوریہ ایران السید القائد کی رہبری میں، شام اپنے صدر اسد کی قیادت میں، لبنان میں مقاومت اور اس کے اتحادی، فلسطین میں مقاومت اور اس کے اتحادی، عراق میں مخلص سیاسی اور عوامی قائدین اور اِن میں سرفہرست نجف اشرف کی دینی مرجعیت نیز خطے کے دیگر اسلامی اور عوامی گروہ شامل ہیں۔
 
اِن کے درمیان کس کا کردار سب سے نمایاں ہے ، جو دوسروں کو ہمت دے رہا تھا ، اُن کی حمایت کر رہا تھا؟ اسلامی جمہوریہ ایران، اس کا مقام و موقف اور حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا عزم تھا۔ واضح ہے کہ ہم اُکھاڑ پچھاڑ کی فضا میں تھے جوکہ سن ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۱ تک ایک دہائی کے دوران موجود تھی اور اس کا نمایاں نتیجہ امریکہ کی شکست کی صورت میں نکلا۔ آج کسی کو اس مسئلہ میں شک نہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کا جو عزم و ارادہ ہے، جو اِس کی توانائی ہے، یہ اُم القراء ہے، اصل مغز، حقیقی مرکز ہے جو محورِ مقاومت کو میدان میں رکھتا ہے۔ آج اس بات میں کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے کہ فلسطینی قوم کے ارمانوں کا پرچم حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے توانا ہاتھوں میں ہے۔ اپنی گفتگو کے اس حصہ میں السید القائد کے ایک واقعہ کو بیان کرنے پر ختم کروں گا ۔ ۳۳ روزہ جنگ کے دوران، البتہ ۳۴ دن تھی، لیکن ۳۳ روزہ جنگ کہلائی جاتی ہے۔ ظاہر ہے لبنانی لوگ ابتدائے جنگ میں آئندہ جو کچھ ہونے والا تھا، اس کے حوالے سے سخت پریشان تھے، حتیٰ بعض لبنانی حکام نے سعودی حکام سے رابطہ کیا تاکہ ’’ریاض‘‘ ثالثی کا کردار ادا کرتے ہوئے، جنوب لبنان کی جنگ ختم کروا دے۔

سعودیوں نے لبنانی حکام کو جواب دیا کہ ’’کوئی اس میں مداخلت نہیں کرے گا، امریکہ، اقوام عالم اور خطے کا ارادہ اور اجماع ہے کہ حزب اللہ کا خاتمہ ہو جائے، حقیقت میں اِسے کچل دیا جائے۔ حزب اللہ کے پاس اب کوئی راستہ نہیں ہے یا تسلیم ہو جائے یا نابود ہو جائے۔‘‘ اب ہمارا ارادہ ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا تھا، جنگ کے لیے پختہ ارادہ اور کربلائی روح ساری حزب اللہ پر حاکم تھی۔ ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کا یہ فرمان ہمیشہ ہمارا نصب العین رہا ہے، آپ نے فرمایا کہ ’’ألا اِن الدعی ابن الدعی قد رکز بین اثنتین ، بین السلۃ و الذلۃ و ھیھات منا الذلۃ‘‘ ہم دو موضوع ’’جنگ‘‘ یا ’’ذلت کے ساتھ تسلیم ہونا‘‘ کے بیچ میں تھے، ہم نے جنگ کا انتخاب کیا۔ جنگ کے ابتدائی دنوں میں ہمارے دوست اور عزیز بھائی یعنی جناب قاسم سلیمانی نے ہم سے رابطہ کیا۔ وہ دمشق آئے، بیروت کے ساتھ رابطہ کیا اور کہا کہ وہ ہر صورت خود ہم تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم نے اُن سے پوچھا کہ آپ کس طرح یہ کام انجام دینا چاہتے ہیں؟ اسرائیلی سارے پل، تمام راستوں اور ہر گاڑی کو نشانہ بنا رہے ہیں، آپ خود کو ہم تک نہیں پہنچا سکتے۔ ہمارے اس عزیز دوست نے کہا کہ مجھے ہر صورت آپ تک پہنچنا ہے کیونکہ میرے پاس السید القائد کی جانب سے آپ کے لیے ضروری پیغام ہے۔ ہم نے کوئی چارہ کار کیا اور بالآخر جنگ کے ابتدائی دنوں میں جناب قاسم سلیمانی جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ میں پہنچے۔

انہوں نے کہا کہ السید القائد جب مشہد میں تھے، آپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے تمام ذمہ داران، منجملہ موجودہ
صدر، سابقہ تمام صدور، موجودہ وزیر خارجہ، سابقہ تمام وزرائے خارجہ، موجودہ وزیر دفاع، سابقہ تمام وزرائے دفاع، سپاہ کے موجودہ سپہ سالار، سابقہ تمام سپہ سالاروں اور دوسرے اہم عہدیداروں کے ہمراہ ایک مشترکہ اجلاس طلب کیا۔ جناب قاسم نے مجھے تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ اس اجلاس میں لبنان کے خلاف جنگ اور اس کے اہداف پر غور و فکر کیا گیا۔ اس بات کا تجزیہ کیا گیا کہ اس جنگ میں دشمن کہاں تک جانا چاہتا ہے؟ اسلامی جمہوریہ ایران، لبنان کے خلاف شروع کی جانے والی جنگ کو خطے میں کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ امریکی منصوبہ کا حصہ قرار دیتا رہا ہے۔ جناب قاسم سلیمانی نے کہا کہ اجلاس میں شرکت کرنے والے تمام اراکین نے یک زبان ہو کر کہا اسلامی جمہوریہ ایران کو لبنانی مقاومت، حکومت، لبنانی قوم اور اسی طرح شام  کے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ خطرہ موجود ہے کہ جنگ کا دائرہ شام تک وسیع ہو جائے۔ اِسی بنا پر ایران اپنی تمام سیاسی، اقتصادی اور عسکری طاقت کو مقاومت کی کامیابی کے لیے کام میں لائے۔ جناب قاسم نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جب اجلاس ختم ہوگیا تو مغرب عشا کی نماز کے بعد جب شرکاء واپسی کا ارادہ کر رہے تھے السید القائد نے فرمایا کہ ’’سب تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ جائیں، مجھے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔‘‘ باقاعدہ رسمی اجلاس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا۔ 

جناب قاسم نے مجھے بتایا کہ السید القائد نے جناب قاسم کی طرف رخ کیا اور کہا کہ میں جو کچھ کہوں، آپ اُسے تحریر کرتے جائیں۔ پھر بیروت چلے جائیں اور فلاں شخص تک یہ پیغام پہنچا دیں۔ وہ شخص صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے، اِن باتوں کو اپنے دوستوں کے سامنے رکھے گا۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کے بعد جناب قاسم نے السید القائد کی باتوں کو میرے لیے پڑھنا شروع کیا۔ بعض امور میں سے ایک یہ بات تھی کہ جہاں بہت سے افراد اسرائیلی فوجیوں کے قید کرنے کو بہت بڑی مشکل تصور کر رہے تھے وہاں السید القائد نے اپنے پیغام کی ابتدا میں فرمایا کہ ’’مقاومت لبنان کی جانب سے اسرائیلی فوجیوں کو قید کرنا، ایک پوشیدہ لطف الہی ہے کیونکہ اس کارروائی نے اسرائیل کو اُبھارا کہ وہ اس کا جواب دینے کی خاطر لبنان میں داخل ہو جبکہ اسرائیلی اور امریکی، لبنان اور حزب اللہ پر حملہ کے لیے ۲۰۰۶ کی گرمیوں کے آخر یا خزاں کے شروع کا ذہن بنا رہے تھے۔ دوسری جانب آپ اُس وقت میں جنگ کے تیار نہ ہوتے اور غافلگیر ہو جاتے لہذا اسرائیلی فوجیوں کا آپ کے ہاتھوں پکڑے جانا، ایک لطف الہی تھا کہ جس نے وقت کو کچھ آگے بڑھا دیا تاکہ اس طرح امریکہ اور اسرائیل نے جنگ کے لیے جو زمان بندی کر رکھی تھی، وہ خراب ہو جائے اور جنگ اُس وقت میں شروع ہوئی جب وہ تیار نہ تھے بلکہ ابھی تیاری کے مراحل میں تھے، دوسری جانب آپ لوگ تیار تھے یعنی جب آپ کو غافل کرنے یا رکھنے والا کوئی سبب کارفرما نہ تھا۔ 

حضرت آقا کی یہ بات وہ تھی جس کی بزرگان نے بعد میں تائید کی اور اسے درست قرار دیا۔ مثال کے طور پر جب اس مسئلہ کو میں نے میڈیا میں بیان کیا تو استاد محترم ’’محمد حسنین ہیکل‘‘ نے ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی کے ایک پروگرام میں اس بات کی تائید کی۔ اسی طرح ایک بڑے امریکی مصنف بنام ’’سیمور ہرش‘‘ نے بھی اس بات کی تائید کی۔ البتہ میں اس نکتہ کی وضاحت کردوں کہ جب میں اس  مسئلہ کو میڈیا میں بیان کر رہا تھا تو میں نے اس بات کی نسبت حضرت آقا کے ساتھ نہیں دی تھی۔ دوسرا مسئلہ جس کی طرف حضرت آقا نے پیغام میں اشارہ کیا، یہ تھا کہ آپ نے فرمایا کہ ’’یہ جنگ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں ہونے والی جنگ احزاب کے ساتھ بہت زیادہ شباہت رکھتی ہے، یہ جنگ بہت شدید اور طاقت فرسا ہو گی اور آپ کے بقائے وجود کے لیے خطرہ بن جائے گی، آپ کے لیے ضروری ہے کہ اس جنگ میں صبر سے کام لیں۔ ‘‘انہوں نے اپنے پیغام میں اس جگہ آیت کریمہ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَناجِرَ وَ تَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منہ کو آنے لگے اور تم خدا کے بارے میں طرح طرح کے خیالات میں مبتلا ہو گئے۔ (احزاب، آیه‌۱۰) سے استفادہ کیا۔ اسی طرح حضرت آقا نے فرمایا تھا کہ آپ کا خدا پر مکمل بھروسہ ہو۔ ‘‘ اسی طرح اِن کے پیغام کے تیسرے حصہ میں تھا کہ ’’آپ اس جنگ میں کامیاب ہونگے۔‘‘ میں نے اس جیسا جملہ ایک مرتبہ ابتدائی دنوں میں، اچھی طرح یاد نہیں حضرت آقا کے پیغام سے پہلے یا بعد میں سنا تھا۔ آیت اللہ بہجت سے کسی نے نقل کیا تھا، انہوں نے ہم سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ مطمئن رہیں اور یقین رکھیں آپ جنگ میں ان شاء اللہ کامیاب ہونگے۔

حضرت آقا کے پیغام میں اہم، دلچسپ اور قابل توجہ نکتہ یہ تھا کہ آپ نے فرمایا کہ ’’آپ جنگ میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس کے بعد آپ خطے کی ایک ایسی طاقت میں تبدیل ہو جائیں گے کہ کسی کو آپ کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہوگی۔‘‘ اس موقعہ پر میں مسکرایا اور جناب قاسم سے کہا کہ ’’ہم خطے کی طاقت میں تبدیل ہو جائیں گے؟ ہم موجودہ جنگ سے صحیح و سالم نکل جائیں اور اپنے وجود کو بچا لیں، تو بہت بڑا تیر ماریں گے۔‘‘پھر میں نے مزاح کے انداز میں کہا کہ ’’برادر عزیز، ہم نہیں چاہتے کہ خطے کی طاقت میں تبدیل ہو جائیں۔‘‘ بہرحال اُس دن حضرت آقا کی بات نے میرے دل کے یقین میں اضافہ کر دیا تھا۔ میں نے اُس دن یقین کر لیا کہ ہم جنگ میں فتح حاصل کریں گے اور اس کے بعد خطے کی ایک طاقت بن کر اُبھریں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ 

سوال: ۳۳ روزہ جنگ میں کیا حضرت آقا کی جانب سے دعائیں اور ذکر و اذکار پڑھنے کی بھی نصیحت تھی۔؟ 
سید حسن نصراللہ:
 جنگ کے ابتدائی دنوں میں حضرت آقا کی جانب سے ایک خط مجھے موصول ہوا، وہ خط آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ اسی طرح اُس زمانہ میں ایک خط مجھے میرے بھائی و میرے عزیز دوست جناب حجازی کی طرف سے ملا۔جناب حجازی نے اپنے خط میں مجھے کچھ دعاؤں اور بعض اذکار کی نصیحت کی۔ لیکن مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں کہ انہوں نے اِن دعاؤں کو حضرت آقا سے منسوب کیا تھا یا نہیں۔ ابھی اس وقت بالکل ٹھیک بات میرے ذہن میں نہیں۔ البتہ یہ یاد ہے کہ دعائے جوشن، حضرت آقا کی نصیحت میں شامل تھی۔ ابھی جو میرے ذہن میں آ رہا ہے وہ دعائے جوشن صغیر، امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے توسل، دعائے یابقیۃ اللہ اغثنا یا بقیۃ اللہ ادرکنا، اسی طرح زیارت عاشورہ، یہ اُس مشہور و معروف زیارت کے علاوہ ہے، دوسری نصیحتوں کے ساتھ اِن باتوں کی طرف بھی توجہ
دلائی تھی۔ بہرحال میں اس حوالے سے چاہتا ہوں کہ خود حضرت آقا کے بارے میں اپنے کچھ تجربات بیان کروں۔ ہم بھی اپنے دوستوں، عزیزوں کو ایسی نصیحتیں کرتے ہیں۔ جنگوں میں یہ چیز حزب اللہ کے نقاط قوت میں سے ہے۔ دعا، توسل، استغاثہ، خداوند متعال سے متوسل ہونا، ہمارے اہم امور میں شامل ہے اور حضرت آقا کی جانب سے ہمیشہ اس بات پر تاکید رہی ہے۔

جب سے ہماری حضرت آقا کے ساتھ آشنائی ہوئی ہے، اُن کی جانب سے روحانی معنوی امور کی طرف متوجہ رہنے کی نصیحت کی جاتی رہی ہے یعنی اعتماد بہ خدا وند متعال اور اُس پر توکل۔ وہ ہر ملاقات اور اجلاس میں اس آیت إِن تَنصُرُوا اللَّهَ یَنصُرکُم وَیُثَبِّت أَقدامَکُم (محمد، آیه۷) پر تاکید کیا کرتے تھے اور ہم سے کہتے تھے پروردگار عالم، ہم سے مذاق نہیں کرتا، خداوند عالم واضح طور پر ہم سے بات کر رہا ہے اور یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔ ‘‘وہ ہمیشہ خدا کے وعدوں پر اعتماد کی تاکید کیا کرتے تھے اور حتیٰ اب بھی وہ اپنی تقاریر میں، ہر مرحلہ پر تاکید کے ساتھ اس بات کا ذکر کرتے ہیں۔ اُن کی تاکیدات میں بنیادی ترین چیز یہی دعا، خداوند سے توسل اور اس سے استغاثہ ہے۔ 

سوال: استعمار نے منصوبوں کو عملی کرنے، پراجکٹس کو چلانے اور سازشوں کو آگے بڑھانے کی خاطر خطے میں شام کا انتخاب کیوں کیا گیا اور اس بحران کے دیگر جوانب کیا ہونگے؟ نیز یہ ہے کہ بھاری اخراجات کے باوجود کیوں اسلامی جمہوریہ ایران اور حزب اللہ شام کے اس واقعہ میں شامل ہو گئے؟ اگر یہ لوگ اس میں شامل نہ ہوتے تو کیا ہوتا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے، جنہیں دیکھتے ہوئے ایران اور حزب اللہ نے شام کے اس واقعہ میں شمولیت کو ضروری سمجھا؟
سید حسن نصراللہ:
 یہ مسئلہ ۲۰۰۱ سے ۲۰۱۱ کے دوران خطے میں پیدا ہونے والے حالات پر ہماری گفتگو سے متعلق ہے۔ ہم نے کہا کہ خطے میں امریکیوں کا انجام، عراق سے انخلا، لبنان میں شکست، شام میں شکست، فلسطین میں شکست اور خطے میں تمام منصوبوں کی ناکامی کے ساتھ ہوا۔ ۲۰۱۱ سے اب تک خطے میں امریکیوں کے لیے یہ ناکامی کا دور جاری ہے۔ یہ دور خطے کے لیے، اسلامی جمہوریہ ایران اور حضرت آقا کی رہبری کے لیے ایک اہم اور تاریخی مرحلہ ہے کیونکہ ۲۰۱۱ کے آغاز میں حضرت آقا نے اس مرحلہ کو ’’بیداری اسلامی‘‘ کا نام دیا تھا، جسے خطے میں بہار عربی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ شام کی بحث میں وارد ہونے سے پہلے خطے میں بیداری اسلامی پر کچھ بات کروں۔ خطے میں بہار عربی، بیداری اسلامی یا بڑی سطح پر عوامی احتجاج کا سلسلہ پہلے تیونس سے شروع ہوا، اس کے بعد لیبیا، مصر اور یمن تک جا پھیلا۔ پھر اِن واقعات نے شام میں جنگ کی صورت اختیار کر لی، بطور اختصار عرض کروں کہ در حقیقت اُس زمانہ میں جو اتفاقات پیش آئے، ہم سمجھ گئے کہ امریکی منصوبوں اور اس کی جارحیت میں شکست کے بعد اوباما آیا تاکہ وہ اس شکست کے اثرات کو زائل کر سکے اور ماحول کو تبدیل کرے۔

خطے کی قومیں جاگ گئیں اور تبدیلی کی اُمید پر اپنی تحریکیوں کو شروع کیا۔ اس شور شرابے پکڑ دھکڑ میں عربی حکومتیں کی کمزوریاں نمایاں ہو کر سامنے آنے لگیں۔ اقوام کے پاس اہم موقع اور بڑی مہلت تھی کہ وہ حکومتوں کو گرا دیں۔ میرا اور دوسرے بہت سوں کا تجزیہ وہی تھا، جس کے بارے میں حضرت آقا نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ ’’یہ عوامی تحریکیں، اصلی اور حقیقی عوامی تحریکیں ہیں۔‘‘ تیونس کی تحریک، تیونس کی عوامی اُمنگوں کی نمائندہ تھی، مصری تحریک، مصری عوام کی اُمنگوں کی نمائندہ تھی، لیبیا کی تحریک، لیبیا کی عوامی اُمنگوں کی نمائندہ تھی اور یمنی تحریک بھی اِسی طرح تھی۔ اِن تحریکیوں میں جتنے بھی نعرے لگائے جا رہے تھے اور جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جا رہی تھی، اُن کے عوامی اور قومی مفادات سے ماخوذ تھے اور انہی سے جڑے ہوئے تھے۔ یوں ہم نے حقیقی اسلام، اسلام پسند تحریکیوں کے اثرات کو بیداری اقوام اور اس بڑے تحرک میں دیکھا۔ ٹھیک یہی وجہ ہے کہ حضرت آقا نے اسے ’’بیداری اسلامی‘‘ کا نام دیا ہے لیکن اس بیداری اسلامی کی اصل مشکل کیا تھی؟ اس کی اصل مشکل قیادت اور وحدت کا نہ ہونا تھا۔ آپ دیکھیں، ایران میں اسلامی انقلاب ایک عظیم اور وسیع عوامی انقلاب تھا۔ لیکن جس چیز نے اس انقلاب کو ثمر آور بنایا اور کامیابی سے ہمکنار کیا پھر کامیابی کے بعد اسے استحکام بخشا، ایک رہبر کا وجود تھا، یعنی امام خمینی رضوان اللہ علیہ تھے۔ اس انقلاب کی کامیابی کا دوسرا سبب، عوام کے مختلف طبقوں میں وحدت کلمہ ہے۔ عہدیداران اور علما سب اکٹھے امام کے ساتھ کھڑے تھے۔ 

علاوہ ازیں اُس زمانہ میں ایک متحد قوم تھی اور ایک قیادت تھی جو لوگوں کی ایک سمت کا تعین کر رہی تھی، جو معاملات کو منظم طور پر آگے بڑھانے کے اصول اور طریقے بیان کر رہی تھی لہذا اِن عربی انقلابات میں جو مشکل تھی۔ سوائے شام کے کہ اس کے بارے میں گفتگو آئے گی۔ قابل اعتماد اور ایک قیادت نہ ہونا تھی۔ کئی ایک قائدین تھے اور اسی طرح بہت ساری جماعتیں تھیں کہ ان کے درمیان ہم آہنگی نہ تھی، ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھتے تھے، جب کبھی ایک دوسرے کے سامنے مذاکرات کے لیے بیٹھتے تو اختلافات کے ڈھیر لگ جاتے۔ یہ چیز عوام پر بھی اپنے بُرے اثرات چھوڑتی اور وہ بھی آپس میں اختلافات کا شکار ہو جاتے۔ بعض جگہوں پر ایسے حالات میں خانہ جنگی تک شروع ہو جاتی تھی۔ بہرحال امریکی اور خطے کے بعض ممالک اپنی خفگی مٹانے اور عظیم عوامی تحریکیوں کو دبانے کی خاطر میدان میں اُترے۔ یہاں امریکہ کا کردار وسیع تر دیکھائی دیتا ہے۔ شمال افریقہ میں فرانس متحرک نظر آتا ہے۔ وہ میدان میں آیا تاکہ عوامی تحریکوں کو روک سکے۔ دوسری جانب سعودیہ عرب اور متحدہ عرب امارات بھی بہار عربی، بیداری اسلامی اور عوامی تحریکیوں کو کچلنے کی خاطر میدان میں اُتر آئے۔ انہوں نے اپنے ذرائع ابلاغ کو ایک صف میں کھڑا کردیا اور خطے میں فوجی اقتدار کی حمایت کر کے اپنے مذموم مقاصد حاصل کر نے کی کوشش کی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ تیونس، لیبیا اور مصر میں حالات کس طرف جا رہے تھے لیکن یمن میں صورتحال مختلف ہے۔ انہوں نے کوشش کی کہ یمن میں عوامی تحریک کو اپنے مفاد میں استعمال کریں لیکن یمنی قوم کا ایک بڑا حصہ سیاسی اور قومی مقاومت کے ساتھ برادر عزیز السید عبد الملک الحوثی، انصار اللہ اور اس کے اتحادیوں کے شانہ بشانہ ڈٹ گیا۔ انہوں نے اپنے سے بیگانہ لوگوں کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ اُن پر غیر متوازن جنگ مسلط کر دی گئی اور آج تک یہ جنگ جاری ہے۔ اب
ہم شام کے مسئلہ پر بات کرتے ہیں۔ جو کچھ شام میں رونما ہوا، اس کا بہار عربی یا بیداری اسلامی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ جو کچھ شام میں پیش آیا، اس کا تعلق امریکی منصوبوں کو عملی بنانے نیز سعودیہ اور خطے کے بعض ممالک کی جانب سے مقاومت کی کامیابیوں کو روکنے سے تھا۔ بالخصوص اُس وقت مصر کے عوامی انقلاب نے اسرائیل کو خطے میں اپنے مستقبل کے بارے میں سخت پریشان کر دیا تھا۔ اس زمانہ میں اسرائیلی لوگ کانفرنسیں منعقد کر رہے تھے جس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر باتیں ہو رہی تھیں وہ حتیٰ بعض نئے فوجی گروہ تشکیل دینے اور انہیں سینا کے سرحدی علاقے میں روانہ کرنے کی فکر کر رہے تھے۔ مصر میں ہونے والی تبدیلیوں سے اسرائیل اس حد تک خوفزدہ اور پریشان ہو گیا تھا۔ دشمن شام کی حکومت کو اپنی طرف راغب کرنے سے عاجز آ گئے، شام میں مطلوبہ ہدف حکومت اور حاکم نظام کی سرنگونی تھا۔

وہ چیز جس سے بہت سے لوگ آگاہ نہیں ہیں، یہ ہے کہ دمشق کی حکومت کو گرانے کی کارروائی شروع کرنے سے پہلے بہت زیادہ کوشش کی گئی کہ صدر بشار اسد، شام کے رہبر اور ملک شام کو کسی دوسرے محور کی طرف موڑ دیا جائے۔سعودی اس مسئلہ پر کام کر رہے تھے، یہاں تک کہ ملک عبداللہ بن عبد العزیز، اس کے باوجود کہ شام پر پابندیاں لگا چکا تھا، ذاتی طور پر دمشق گیا۔ قطریوں نے بھی اس مقصد کو حاصل کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا۔ ترکی اور بعض دوسرے عربی ممالک منجملہ مصر نے حسنی مبارک کے زمانہ میں بھی، شام پر بہت زور دیا کہ وہ  دوسری طرف جا ملے۔ امریکیوں اور اِن کے حامیوں نے اسد کے ساتھ سیاسی وعدے کیے، بڑی بڑی رقموں کی پیش کش کی تاکہ شام دوسرے محور بعنوان ’’اعتدال عربی‘‘ جسے ہم ’’تسلیم عربی‘‘ کہتے ہیں،  کی طرف چلا جائے لیکن صدر بشارد الاسد اور شام کے اعلیٰ حکام ہمیشہ اپنے موقف پر قائم رہے اور مقاومت کی حمایت پر تاکید کرتے رہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ عرب اسرائیل لڑائی جاری ہے۔ بشارد الاسد کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جولان کا مسئلہ حل کیے بغیر، نیز فلسطینیوں کے چھینے گئے حقوق واپس کیے بغیر، خطے میں دیر پا صلح ممکن نہیں۔ بہرحال، جو واقعہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ امریکی، شام کو اپنا ہم نوالہ بنانے میں ناکام ہو گئے۔ واشنگٹن اچھی طرح جانتا تھا کہ مقاومت کے حصار کی حمایت جاری رکھنے سے شام کی مرکزی حیثیت باقی رہے گی۔

اگر ہم چاہیں کہ شام کے متعلق کوئی بہترین جملہ کہیں تو وہی جملہ ہے جسے حضرت آقا نے اس ملک کے بارے میں استعمال کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’شام، خیمے کا ستون ہے۔‘‘ آج شام کے بغیر، لبنان میں مقاومت کو ایک طرف کر دیا جائے گا۔ شام کے بغیر، فلسطین میں مقاومت کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے گا چونکہ شام خطے میں وجودِ مقاومت کا ایک حقیقی جزو ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شام، مقاومت کے لیے ایک پل کی حیثیت رکھتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ ملک ایک پُل سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتا ہے کیونکہ شام، خطے میں پیکر مقاومت کا بڑا اور حقیقی حصہ ہے، وہ مقاومت کے تفکر، ثقافت اور ارادے کا جزو لاینفک ہے۔ مقاومت کی حمایت سے پیچھے نہ ہٹنے والی بات، خاص طور سے ۳۳ روزہ جنگ اور اسی طرح جنگ کے بعد بھی ثابت ہوئی کیونکہ ممکن تھا کہ جب امریکہ عراق کے اندر اور شام کی سرحد پر موجود تھا، اسرائیل جنگ کے دائرہ کو بڑھا دیتا، شام پر حملہ کرتا اور شام کے خلاف ایک بڑی جنگ شروع کر دیتا لیکن بشار اسد کمزور نہ پڑا اور ۳۳ روزہ جنگ کے دوران مقاومت کی حمایت کے حتمی اور جرات مندانہ موقف پر باقی رہا۔ ۳۳ روزہ جنگ کے بعد اسرائیلیوں نے نتائج کا جائزہ لیا اور آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ لبنان اور فلسطین میں مقاومت کے خاتمہ کی خاطر پہلے شام کا کام تمام کرنا ضروری ہے، لہذا اس مقصد کے تحت انہوں نے سازش تیار کی۔

وہ سیاسی میدان میں شام کو نہیں گھیر سکے تھے لہذا فوجی طاقت کے ساتھ اُس کی طرف بڑھے۔ اگر وہ شامی فوج کے اندر بغاوت کروا سکتے ہوتے تو ضرور پہلے اس کام کو کرتے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتے تھے، اس ناکامی کے بعد امریکیوں اور اسرائیلیوں نے شام کے اندر موجود آزادی صحافت اور آزاد سیاست سے سوء استفادہ کیا۔ اس ملک میں حالات و واقعات کو فساد، ہرج مرج اور خانہ جنگی کی طرف لے گئے۔ شام میں حکومت مخالف مظاہروں کے ابتدائی دنوں میں، میں خود اس بات کا شاہد ہوں کہ صدر بشارد اسد مظاہرین کے سرکردہ افراد کے ساتھ خود براہ راست ملاقات کیا کرتے تھے اور اُن کے مطالبات کو پورا کرتے تھے، لیکن اس کے بعد مظاہرے عسکری کارروائیوں میں تبدیل ہو گئے۔ بالکل وہی شہر درعا پر قبضہ کرنے کا انداز اپنایا گیا۔ امریکی، سعودی اور خطے کے بعض دوسرے ممالک نے تکفیریوں، داعش اور جبہۃ النصرہ کے گماشتوں کو دنیا بھر سے شام کی طرف روانہ کیا تاکہ وہ اس پر قبضہ کرنے کے بعد اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیں، اس کام سے کس کے مقاصد کو پورا کیا جا رہا تھا؟ امریکہ و اسرائیل کے مقاصد کو پورا کیا جا رہا تھا، اُن مقاصد کو پورا کیا جا رہا تھا، جن کا نتیجہ مسئلہ فلسطین کا خاتمہ تھا، جن کا نتیجہ ایران کا محاصرہ تھا، ایران کو تنہا کرنے اور اس پر حملہ کے لیے راہ ہموار ہو رہی تھی۔
 
حقیقت یہ ہے کہ شام کا مسئلہ کبھی بھی یہ نہیں تھا کہ لوگ انتخابی قوانین میں تبدیلی یا اصلاحات چاہتے تھے کیونکہ بشارد الاسد عوام کی ہر خواہش پر بات کرنے کے لیے آمادہ تھا لیکن دشمن تیزی کے ساتھ مختلف علاقوں پر قبضہ کر رہا تھا، شامی فوج، امنیتی اداروں اور حکومتی اداروں کے خلاف کارروائیاں کر رہا تھا۔ وہ عسکری کارروائیوں سے بشارد الاسد کو گرانا چاہتے تھے۔ سرحدوں کو کھول دیا گیا، اسلحے سے لدھے ہوئے بحری جہاز پہنچنا شروع ہو گئے۔ ’’جو بایدن‘‘ خود کہتا ہے کہ لاکھوں ٹن جنگی اسلحہ اور گولہ بارود شام پہنچایا گیا تھا۔ امریکیوں نے سینکڑوں ملین ڈالر اِس ملک میں کارروائیوں پر اڑا دیے، کس لیے؟ کیا شام میں جمہوری نظام لانے کی خاطر؟ کیا داعش اور جبہۃ النصرہ شام میں جمہوریت کے نفاذ کی کوشش کر رہی تھیں؟ جو لوگ انتخابات کو کفر، انتخابات میں شرکت کرنے والوں کو کافر قرار دیتے تھے، ان کا خون بہانا مباح قرار دیتے تھے، کیا وہ شامی قوم کے لیے انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کریں گے؟ یہ بات روز روشن کی طرح واضح تھی اور آج ہر طرح سے ثابت ہوچکا ہے کہ جو کچھ شام میں ہوا، اس کا انتخابات یا اصلاحات یا جمہوریت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا کیونکہ بشارد الاسد اِن موضوعات پر گفتگو کرنے کے لیے ہمیشہ سے تیار تھا لیکن دشمن، شامی حکومت کے خاتمہ اور اس پر قبضہ کرنے میں جلد بازی سے کام لے رہا تھا۔ 
خبر کا کوڈ : 821561
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش