1
0
Monday 26 May 2014 07:02

القاعدہ، مغرب اور عرب بادشاہتیں (2)

القاعدہ، مغرب اور عرب بادشاہتیں (2)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

(گذشتہ سے پیوستہ) القاعدہ سے مغرب اور عرب بادشاہتوں کی اس ظاہری دشمنی کے باوجود اکثر لوگوں کا یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ تینوں گروہ ایک طرح کی ہم آہنگی کے ساتھ دنیا میں سرگرم عمل ہیں۔ مغربی طاقتوں اور عرب بادشاہتوں کی ہم آہنگی کے حوالے سے تو کسی قسم کے ثبوت کی ضرورت نہیں، مسئلہ تو دراصل القاعدہ اور اس کے ذیلی گروہوں کا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس تعلق کے حوالے سے مختلف آراء منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ القاعدہ کو بنیادی طور پر مغرب اور عرب بادشاہتوں نے تشکیل دیا اور وہ آج بھی ان کے اہداف کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس رائے کے حامل افراد اپنے موقف کے حق میں متعدد دلائل دیتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ القاعدہ اور اس کے ذیلی گروہوں کا اسرائیل کے بارے میں موقف ایک سا ہے۔ القاعدہ ہر اس قوت کے خلاف ہے جو اسرائیل سے برسر پیکار ہے، نیز یہ کہ القاعدہ نے کبھی بھی اسرائیل کے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔

اسی طرح شام میں لڑنے والے القاعدہ کے نظریاتی گروہوں کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے۔ جن پر قطر، سعودیہ اور بالواسطہ طور پر مغربی قوتوں کی عنایات عیاں ہیں۔ عراق کا معاملہ بھی شام سے مختلف نہیں ہے۔ عراق میں القاعدہ اور اس کے ذیلی گروہوں بالخصوص ’’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام (داعش)‘‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو ہمسایہ عرب ممالک مدد مہیا کر رہے ہیں۔ عراق میں گرفتار ہونے والے داعش کے کئی کمانڈرز نے بیان دیا کہ انہیں ایک ہمسایہ عرب ملک سے امداد ملتی ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں، کیونکہ شام میں ہم دیکھتے ہیں کہ سعودیہ، قطر، اردن، عرب امارات اور کویت داعش، النصرہ اور احرار شام کو جدید ہتھیار، تنخواہیں اور دیگر سہولیات بہم پہنچا رہے ہیں، جس میں انہیں نیٹو کا تعاون بھی حاصل ہے۔

اس تصویرکا ایک اور رخ بھی ہے اور وہ یہ کہ مغربی طاقتوں بالخصوص برطانیہ، امریکہ، فرانس اور جرمنی نیز خطے کی عرب بادشاہتوں نے القاعدہ اور اس کے ذیلی گروہوں میں سے اکثر کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے اور یہ قوتیں القاعدہ کے خلاف عملی اقدامات بھی کرتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے عراق حکومت کو داعش سے لڑنے کے لیے کچھ جدید ہتھیار اور تکنیکی معاونت مہیا کی، اسی طرح القاعدہ اور اس کے ذیلی گروہوں کے لیے خطے کے دیگر عرب ممالک میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ یمن اور اردن میں القاعدہ کے کئی ایک راہنماوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے قتل کیا گیا۔ القاعدہ سے متمسک بہت سے علاقائی راہنما عرب ریاستوں کی جیلوں میں قید ہیں۔ اسی طرح لیبیا، الجزائر، نائجر، صومالیہ میں مغربی قوتیں بالخصوص نیٹو القاعدہ اور اس سے متمسک گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتی رہتی ہیں۔ اس صورتحال میں درست طور پر اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ القاعدہ دوست ہے یا دشمن۔ ایک جانب اس کی مدد کی جا رہی ہے اور دوسری جانب اس پر حملے۔ معاملہ واقعاً انتہائی پیچیدہ ہے۔

القاعدہ، مغرب اور عرب بادشاہتوں کے تعلق کے معمہ کو حل کرنے کے لیے بہت سے مفروضے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ افغان جہاد کے وقت قائم ہونے والا اتحاد اب بھی باقی ہے اور وہ عالم اسلام میں کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے سرگرم عمل ہے۔ یہ بڑا مقصد القاعدہ کی نظر میں خلافت کا قیام جبکہ مغرب کی نظر میں عالم اسلام میں کمزور جمہوریتوں، آمریتوں اور بادشاہتوں کا خاتمہ نیز اسلامی نظام کی ہر اس شکل کا سدباب ہے جس میں مغرب کا کوئی کردار نہ ہو۔ اگر اس مفروضے کو درست مان لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس خفیہ ڈیل میں عرب اتحادیوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، بلکہ یہ معاہدہ القاعدہ اور مغرب کے مابین ہوا۔ جس کے تحت یہ دونوں قوتیں بظاہر تو ایک دوسرے کی دشمن ہیں، تاہم عملاً یہ ایک ہی مقصد کی جانب بڑھ رہی ہیں۔

القاعدہ، مغرب اور عرب بادشاہتوں کے پیچیدہ تعلق کے حوالے سے دوسرا مفروضہ یہ ہوسکتا ہے کہ القاعدہ کے خلاف مغربی قوتوں نیز عرب حکمرانوں نے ایک اتحاد قائم کیا ہو، جس کا مقصد القاعدہ اور اس کی جہادی افکار کو مختلف محاذوں پر الجھا کر نیست و نابود کرنا ہو، تاکہ مغرب کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی حکومتیں بھی کسی غیر یقینی صورتحال سے محفوظ رہیں۔ پہلے مفروضے کی مانند اس مفروضے میں بھی حقیقی اسلامی افکار سے ہم آہنگ کسی بھی فکر کا سدباب مغرب اور عرب بادشاہتوں کا مطمع نظر ہوسکتا ہے۔ اس کو ہم صفائی کا عمل بھی کہ سکتے ہیں، یعنی اس مفروضے کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مغرب اور عرب حکومتوں نے مل کر جس جہادی فکر کو افغانستان میں زندہ کیا، اب وہ اس کی نابودی کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ اس مفروضے کے تحت کہا جاسکتا ہے کہ القاعدہ اپنی جہادی فکر کا دفاع کر رہی ہے۔ جس میں اسے عوامی سطح پر کامیابیاں مل رہی ہیں۔

مذکورہ بالا دونوں مفروضوں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک تیسرا مفروضہ قائم کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، امید ہے قارئین کرام اپنی مفید آرا کے ذریعے میری اصلاح فرمائیں گے۔
مغربی قوتیں جہاد افغانستان کے دوران مسلمانوں سے آگاہ نہیں ہوئیں بلکہ جب سے انھوں نے مسلمان خطوں کو فتح کرنا اور ان علاقوں میں اپنی کالونیاں بنانا شروع کیا، وہ اس وقت سے ہی مسلمانوں کے مختلف مکاتب کے عقائد اور رجحانات کا جائزہ لے رہی ہیں۔ برطانیہ نے جب برصغیر پر حکومت کی تو اپنی حکومت کے ابتدائی سالوں میں ہی انھوں نے اپنے کمشنرز کے ذریعے برصغیر کے مختلف علاقوں سے متعلق متعدد معلومات جمع کیں، ان معلومات میں بعض کا تعلق براہ راست طور پر حکومتی امور سے تھا اور بعض معلومات معاشرتی نوعیت کی تھیں، مثلاً انھوں نے یہ جانا کہ برصغیر میں کون کون سے مذاہب آباد ہیں۔ ان مذاہب کے عقائد کیا ہیں۔ ان کی رسومات کس نوعیت کی ہیں۔ اسی طرح انھوں نے یہ معلومات بھی جمع کیں کہ برصغیر میں کس کس ذات سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں۔ برصغیر کے معاشرے میں ان ذاتوں کی کیا اہمیت ہے۔ کون سی ذاتیں کن خصوصیات کی حامل ہیں۔ اپنی انہی معلومات کی بنیاد پر وہ مختلف نوعیت کے کام مختلف افراد کے سپرد کیا کرتے تھے۔

بوڑھے استعمار نے تقریباً تمام مسلمان ممالک میں کچھ وقت گزارا، اگر برصغیر کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام کے بارے میں جتنی معلومات اس بزرگ کے پاس ہیں، کسی اور قوم کے پاس نہیں ہیں۔ معلومات کا ہونا ایک جانب ان معلومات کو سائنسی بنیاد پر پرکھنا اور پھر ان سے استفادہ کرنا بھی ایک فن ہے۔ بوڑھا استعمار اس فن میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھنے والی اقوام کو اسی درجے پر کام کرنا چاہیے۔ آج کا استعمار دنیا میں حکومت کرنے کے لیے اس بزرگ کے اشاروں اور ہدایات پر عمل پیرا ہے۔ اسے بوڑھے کی فراست کہیے یا زیرکی کہ اس نے خود تو اپنے پنجے سمیٹ لیے ہیں لیکن ایک جوان کو آگے کر رکھا ہے، جو اس کے اشاروں پر دنیا میں دنددناتا پھرتا ہے اور وسائل لوٹ لوٹ کر اس بوڑھے کی جھولی میں لا پھینکتا ہے۔

جہاد افغانستان اور اس کے بعد کی کہانی سب اسی بوڑھے استعمار کا کارنامہ ہے۔ اپنی معلومات کی روشنی میں برطانیہ کو معلوم تھا کہ مسلمانوں میں سے کون سے مسالک تحریکی اور جہادی افکار کے حامل ہیں، علاوہ ازیں وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان مسالک کے افراد کو کس طرح سے اس جہاد میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ تمام جہادی اس کے اشاروں پر ناچنے والے نہیں ہیں، لہذا اس مقصد کے لیے مخصوص گروہوں کا انتخاب کیا گیا۔ عربوں پر خصوصی توجہ دی گئی، یوں ایک تیر سے دو شکار ہوئے، ایک جانب تمام تحریکی فلسطین کے بجائے افغانستان کی جانب متوجہ ہوگئے، حتی کہ فلسطین سے بھی لوگ جہاد افغانستان میں شرکت کے لیے جوق در جوق پہنچنا شروع ہوئے۔ اس اجتماع کا دوسرا فائدہ امت مسلمہ کے تحریکی اور جہادی گروہ کو منظم کرنا تھا۔ تکفیری افکار کا حامل یہ گروہ خصوصی طور پر افغانستان میں اکٹھا کیا گیا۔ یہ لوگ دیگر اہل قبلہ کی تکفیر کے حوالے سے ایک شاندار ماضی رکھتے تھے، تاہم ان کو منظم کرکے ایک قوت کی شکل دینے سے بوڑھے استعمار اور اس کے نوجوان فرزند کا کام بہت آسان ہوگیا۔ اب عالم اسلام کو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت نہ رہی تھی، بلکہ عالم اسلامی کی قوت کو پارہ پارہ کرنے کے لیے خود اس کے اپنے فرزندوں کا ایک گروہ تیار ہوچکا تھا۔

فلاں کافر، فلاں مشرک، یہ بدعت، وہ کفر، کچھ بھی محفوظ نہ رہا۔ عمارتیں تو اپنی جگہ انسانی جان کا تقدس بھی پامال ہونے لگا۔ مقصد خلافت اسلامیہ کا قیام۔ اب جو شے بھی اس مقصد کی راہ میں حائل ہو سب مٹا دو، جمہوریت، آمریت، بادشاہت سب دشمن قرار پائیں، مختلف مسالک مشرک، ان کے عقائد کفر، مسلمان ہوں تو صرف میں، کسی اور کو یہ نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں۔ اس فکر نے عالم اسلام میں بدامنی اور بے چینی کا وہ ماحول پیدا کیا، جس سے استفادہ کا خواب بوڑھے استعمار نے افغان جہاد سے بہت پہلے دیکھا تھا۔ جہاد افغانستان میں اسے اپنا یہ خواب عملی ہوتا نظر آیا۔ عرب بادشاہتیں جو پہلے سے ہی اس کی کاسہ لیس تھیں، اس خواب کی تکمیل میں اس کی مددگار بن گئیں۔ دنیا بھر سے مخلص مجاہدین جہاد میں شرکت کے لیے جمع ہوتے رہے اور القاعدہ کے سابق مرکزی راہنما شیخ نبیل نعیم کے بقول استعمار کے ہاتھوں کھلونا بن گئے۔

ان کھلونوں پر ہی کیا بس تھی، تقریباً پوری امت مسلمہ ہی اس استعماری کھلاڑی کے ہاتھ میں کھلونا تھی۔ سلفی مجاہدین کے منظم گروہ جہاد افغانستان کے بعد جب اپنے اوطان میں پہنچے تو وہاں بھی انھوں نے اپنے نظم کو مزید وسعت دی۔ سامراج ان پر پل پڑا۔ اس جنگ کا مقصد ان گروہوں کا خاتمہ نہیں بلکہ ان کے لیے ہمدردیوں میں اضافہ تھا، تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس قوت کا حصہ بن کر میدان عمل میں اتریں۔ جیسے جیسے یہ گروہ قوت پکڑتا ویسے ویسے استعمار کا کام آسان تر ہوتا چلا جاتا۔ یہ گروہ مغرب کے دشمن تو تھے ہی، اپنوں سے بھی ان کی نہ بنتی تھی۔ آج عراق، شام، مصر، یمن، اردن، افغانستان، پاکستان، آذربائیجان، لبنان، صومالیہ، نائجر، لیبیا کس اسلامی ملک کا نام لیا جائے، جہاں ان مخلصین نے ملک کو بدامنی سے دوچار نہیں کیا ہوا۔
 
ان کھلونوں کو شہ دینے کے بعد اب ان کے کنٹرول کا وقت آتا ہے۔ یہی وقت ہے جب استعمار اپنے لاؤ لشکر کے ہمراہ مسلمان آمروں، بادشاہوں اور کمزور جمہورتوں کے پاس پہنچتا ہے۔ مگر افسوس مقصد مدد نہیں بلکہ لوٹنا ہے۔ لہذا نہ کھلونے کنٹرول ہوتے ہیں اور نہ ہی مسئلہ ختم ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں دیکھ لیجئے آپ کا قیمتی سرمایہ اسی کھیل پر صرف ہو رہا ہے۔ سب سے قیمتی متاع آپ کا وقت اور دین ہے۔ وہ وقت جو عالم اسلام کی ترقی اور اسے ایک عالمی قوت بنانے میں صرف ہونا چاہیے تھا، وہ کھلونوں سے لڑنے میں برباد ہو رہا ہے۔ ان جنگوں نے اقوام عالم کے سامنے ہمیں کسی قابل نہیں چھوڑا۔ وہ دین جو پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے آیا تھا، آج وحشیوں کے مذہب کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔ اسلام کا نام سن کر لوگوں کے اذہان میں گولہ، بارود، انسانوں کے کٹے ہوئے گلے، سربریدہ لاشے، خون کے سوا کچھ نہیں آتا۔
خبر کا کوڈ : 386239
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اتنا تو میں پڑھا لکھا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ جانتا ہوں کہ جب تک مسلمانوں کا خون بہتا رہے گا ۔۔۔ اتحادیوں کے مزے ہیں، جنگیں ہمیشہ فائدہ مند ہوتی ہیں، تباہ صرف وہی ہوتا ہے جس پہ جنگ مسلط کی جائے۔ باقی سب کے مزے ہیں، پاکستان نے ہمیشہ اپنا کندھا اپنوں کے کہنے پر پیش کیا مگر پھر وہی اپنے اور مفاد حاصل کرتے ہیں۔ جب تک جنگیں جاری رہینگی کنسٹرکشن بھی ہوتی رہے گی، اب دیکھتے ہیں کون سا ملک سرمایہ داروں کی ہوس کا نشانہ بنتا ہے۔
اکرام حسین
ہماری پیشکش