0
Wednesday 10 Sep 2014 18:19
موسم حج کی آمد پر

اللہ کے گھر میں دوسروں کو یاد رکھنے والے

اللہ کے گھر میں دوسروں کو یاد رکھنے والے
تحریر: ثاقب اکبر

 غلام حر کے ساتھ مجھے بھی اُس سرزمین پاک کی حاضری نصیب تھی جہاں سے انھوں نے پیغام بھیجا۔ انھوں نے لکھا کہ وہ اللہ کے گھر میں ہیں اور ہمارے لیے دعائیں کر رہے ہیں اور ہمیں بھی دعا کرنے کو کہا۔ اللہ اُن کی دعائیں اور حاضری قبول و منظور فرمائے۔ اُن کے پیغام نے خانہ کعبہ کے جلال و جمال کا منظر آنکھوں میں پھر زندہ کر دیا۔ وہ ایسا سرچشمۂ فیض ہے جس کے آب حیات کا گھونٹ تشنگی کے ایک طوفان کو حرکت دیتا ہے۔ اُس کا دیدار آنکھوں کو ہمیشہ کے لیے بے تاب کر دیتا ہے۔ اُس کی جاذبیت دور والوں کو بھی اپنے گرد باندھے رکھتی ہے۔ وہ انسانی زندگی کا ایسا مرکز ہے جس کے گرد طواف سے پائے حیات تھکتے نہیں۔ وہ اپنے گرد طواف کرنے والوں کو اپنے گرد ہمیشہ کے لیے یوں باندھ لیتا ہے کہ پھر کسی اور کے گرد طواف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی اُس کے گرد طواف کے بعد کسی اور مرکز کے گرد طواف کرتا دکھائی دے تو دونوں میں سے کوئی ایک طواف ضرور باطل ہے، ضرور دھوکہ ہے۔

غلام حر نے وہاں پہنچ کر اپنی دعاؤں میں ہمیں یاد رکھا، اس لیے کہ وہ ان محمد مصطفیٰؐ کے امتی ہیں جنھوں نے معراج کے مقام بلند پر پہنچ کر خلق خدا کو یاد رکھا۔ علامہ اقبالؒ نے ایک صوفی کے بارے میں لکھا ہے، جس کا خیال تھا کہ وہ قرب خدا کو پا کر واپس نہ آتا۔ جس کے جواب میں کہا گیا کہ صوفی اور نبی میں یہی فرق ہے۔ نبی فیض پا کر خلق خدا کو اس میں شریک کرنے کے لیے لوٹ آتا ہے۔ اُس کی پیاسی روح سیراب ہوتی ہے تو اُسے پیاس میں بلکتے اور تڑپتے لوگ یاد آجاتے ہیں۔ وہ سرچشمہ فیض سے ایک ایسا اتصال پیدا کرنے کی تدبیر کرتا ہے کہ دوسرے بندے بھی شریکِ وصل ہوجائیں۔ وہ خدا اور بندوں کے مابین رابطہ بن جاتا ہے۔ وہ خود ہی جلوہ و رعنائی کا تماشا بیں ہوکر نہیں رہ جاتا۔ وہ زندگی کے تاریک صحراؤں میں بھٹکنے والوں کو یاد رکھتا ہے اور انھیں مرکز نور کا پتہ دینے کا عزم کرتا ہے۔ وہ لوٹ آتا ہے تاکہ سب کو معراج کی دعوت دے۔ معراج کا راستہ بتائے۔ اُس نے اسی لیے تو کہا کہ ’’نماز مومن کی معراج ہے۔‘‘ وہ اللہ سے بندوں کو جوڑتا ہے۔ وہ بندوں کو باہم جوڑتا ہے، تاکہ سب مل کر نور ازلی سے فیض یاب ہوں۔

بہت سے لوگ حج پر جاتے ہیں اور باقی لوگوں کو بھول جاتے ہیں۔ زیادہ تر اپنے بچوں، بیوی، دوستوں اور ’’التماس دعا‘‘ کہنے والوں کو یاد رکھتے ہیں۔ اُن کی دعاؤں کو اپنی دعاؤں میں شریک کرتے ہیں۔ اُن کی اپنی دنیا بس اتنی سی ہوتی ہے۔ محدود سی دنیا، محدود سی دعائیں۔ کسی کے امتحان میں پاس ہونے کی دعا، کسی کے روزگار کی دعا، کسی کی شادی کے لیے دعا، کسی کی صحت یابی کے لیے دعا، ایسی ہی بعض اور دعائیں اور بس۔ بعض لوگ اپنے ملک کی سلامتی کی بھی دعا کرتے ہیں۔ اُن کی دعا پہلے والوں کی دعا سے کچھ وسیع ہوجاتی ہے، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو یاد آتی ہے کہ وہ اس اللہ کے گھر میں آئے ہیں جو رب العالمین ہے۔ جو سارے جہانوں کا پالنے والا ہے۔ اُس سے مانگنے میں کنجوسی کیوں کی جائے۔ وہاں جا کر تو اللہ کے سارے محروم بندوں کو یاد کرنا چاہیے۔ اُن سب کو یاد کرنا چاہیے جنھیں زندگی کے آرام اور چین سے محروم کر دیا گیا ہے۔ جن کے وسائل لوٹ لیے گئے ہیں اور جنھیں لوٹا جا رہا ہے۔ صرف محروم لوگوں کی نجات کی دعا ہی کیوں مانگی جائے، وہاں پر ظالموں اور ستمگروں کی نابودی کی دعا بھی کی جانا چاہیے۔

اللہ کے گھر میں پہنچ کر ابراہیمی جذبوں سے سرشار ہونا چاہیے۔ یہ ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ کا بنایا گیا گھر ہے۔ وہ خالص اللہ کے بندے تھے۔ ابراہیمؑ نے غیر اللہ کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ نمرود کے سامنے ڈٹ گئے تھے۔ نمرود جو طاغوت زمانہ تھا، اُس کی اطاعت سے انکار کر دیا تھا۔ اُس کے سامنے ابراہیم نے توحید کا پرچم لہرایا تھا۔ وہ پورے بت پرست معاشرے کے سامنے سینہ سپر ہوگئے تھے۔ انھوں نے آگ میں کود جانا گوارا کر لیا لیکن طاغوت اور کسی بت کے سامنے سر جھکانے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ خانۂ کعبہ میں پہنچ کر اپنے دور کے طاغوت کے خلاف عزم صمیم کیا جانا چاہیے۔ وہاں پہنچ کر بندوں کو بتوں کی غلامی سے نجات دلانے کا جذبہ پانا چاہیے۔

دعا کی ہمہ گیریت کا سبق بھی حضرت ابراہیمؑ سے پانا چاہیے۔ انھوں نے خانہ کعبہ کی تکمیل کی تو اپنے اللہ کے حضور اس عمل کی قبولیت کی دعا کی اور پھر اپنی دعا میں سب کو شریک کیا۔ وہ اللہ کے حضور عرض کرنے لگے:
اے میرے رب:
مجھے اپنی عبادت کے راستے پر قائم رکھ، میری ذریت اور اولاد میں سے بھی ایسے ضرور ہوں جو تیری عبادت کے راستے میں قیام کریں(اور تیری توحید پرستی کا پرچم بلند رکھیں) اور اے ہمارے پالنے والے! ہماری فریاد رسی کر، ہماری دعا قبول فرما۔ اے ہماری پرورش کرنے والے! حساب کا دن آئے تو مجھے بخش دینا، میرے والدین کی مغفرت فرمانا اور سارے مومنین کو بھی بخش دینا۔
خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم ؑ کی مانگی ہوئی ایک ایک دعا یاد آتی ہے اور دل کی گرہیں کھولتی جاتی ہے۔

آج کا مسلمان جب حج کرنے جاتا ہے تو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیونکر وہ عالم اسلام کے زوال و تنزل کا نوحہ نہ پڑھے اور اللہ کے حضور اُس کی پس ماندگی سے نجات کی دعا نہ مانگے۔ کیسے ایک بیدار مسلمان عالم اسلام کے پارہ پارہ اور زخمی زخمی بدن کا احساس کرکے اللہ کے حضور اُس کی چارہ گری کی فریاد نہ کرے۔ کیونکر ممکن ہے کہ وحشی استعماری درندوں کے قدموں میں پامال مسلمانوں کی یاد اللہ کے گھر میں ابراہیمیؑ و محمدیؐ مسلمان کو بے تاب نہ کر دے۔ اتنا ہی نہیں رحمت عالمینؐ کا ماننے والا تو سارے ستم رسیدہ انسانوں کی نجات کی دعا کرے گا اور اس کی نجات کے لیے قدم اٹھا نے کے لیے اللہ سے حوصلے اور مدد کا بھی طلب گار ہوگا۔

غلام حر کا نام آیا تو مجھے کربلا کا حر یاد آگیا۔ جو واقعی حر ثابت ہوا۔ یزید کی فوج سے نکلا۔ سرداری چھوڑی اور امام حسینؑ کی غلامی کو اختیار کر لیا۔ اگرچہ موت یقینی تھی لیکن حقیقی آزادی پر زندگی نچھاور کر دی، مولودِ کعبہ کے فرزند کے دائرہ جذب میں جا پہنچا:
دائرۂ جذب میں پہنچا تو شیدا ہوگیا 
دیکھ لیجئے حر کو، کیسے غیر اپنا ہوگیا
 
خانہ کعبہ کے دائرہ جذب میں پہنچ کر انسان حر ہوجاتا ہے جو وہاں جا کر بھی آزاد نہ ہو وہ بڑا ہی بدنصیب ہے۔
خبر کا کوڈ : 409090
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش