0
Monday 30 Dec 2013 20:31

کشمیر ایک متنازعہ سرزمین ہے کوئی فریب یا الیکشن اس کا حل نہیں ہوسکتا، محمد یاسین ملک

کشمیر ایک متنازعہ سرزمین ہے کوئی فریب یا الیکشن اس کا حل نہیں ہوسکتا، محمد یاسین ملک
محمد یاسین ملک کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر خاص سے ہے، آپ عسکری محاذ سے جموں و کشمیر کے پرامن تحریک سے وابستہ ہوگئے، یاسین ملک نے اپنی اکثر زندگی بھارتی جیل خانوں اور انٹراگیشن سنٹرز میں گزاری ہے، عسکری محاذ کے بعد 1990ء سے آپ نے پرامن تحریک کا آغاز کیا، 1990ء سے آپ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں، آپ پر 6 بار جان لیوا حملے بھی ہوئے ہیں، 1986ء میں آپ جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس لیگ کے جنرل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں، بارہا آپ کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار بھی کیا جاچکا ہے، اکثر زندگی قید خانوں میں گذارنے کی وجہ سے آپ جسمانی طور پر کمزور ہوچکے ہیں، فائر بندی و پرامن تحریک کے ہوتے ہوئے آپ کے رفقاء کار کو شہید کیا گیا جن کی تعداد 600 بتائی جاتی ہے، 2007ء میں آپ نے سفر آزادی کی مہم چلائی جس میں آپ نے مقبوضہ کشمیر کے شہر و گام کا دورہ کیا جس میں آپ نے 4 ہزار دیہاتوں کا دورہ کیا جہاں 1.5 ملین کشمیریوں نے پرامن جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کیا، زلزلہ متاثرین اور بھارتی مظالم کے شکار افراد کے لئے ریلیف کارروائیاں بھی آپ انجام دیتے ہیں، کشمیر حل کے سلسلے میں آپ نے پاکستانی صدر، وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم ہندستان اور دنیا کے کئیں نامور سیاست دانوں سے ملاقات کی، اسلام ٹائمز نے محمد یاسین ملک سے ایک ملاقات کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت و پاکستان کے درمیان کشمیر کو سائڈ لائن کرکے مذاکرات کرنے کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور مسئلہ کشمیر کو بالائے طاق رکھنے پر آپ کا احتجاج کیا ہوگا۔؟

محمد یاسین ملک: ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ تجارت، پانی اور دیگر مسائل پر بات کرنے سے قبل کشمیر کا بنیادی مسئلہ حل کریں، کوئی بھی ذی ہوش انسان مذاکراتی عمل کی اہمیت و افادیت کی نفی نہیں کرسکتا کیونکہ مسائل مذاکرات سے ہی حل ہوجاتے ہیں اور ہر قوم کیلئے یہ آخری امید ہوتی ہے، ہم بھی مذاکراتی عمل اور بات چیت کے خلاف نہیں ہیں کیونکہ تنازعات کا حل بہرحال باہمی بات چیت اور مذاکراتی عمل سے ہی نکالا جاسکتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے 1947ء سے آج تک کی تاریخ شاہد ہے کہ مذاکراتی عمل بے سود رہی ہے اور تاریخ کے کسی دور میں خواہ کسی نے بھی اس عمل میں حصہ لیا ہو، اس سے کچھ نکل نہیں آیا ہے، آج کل بھی بھارت اور پاکستان کے حکمران انتہائی گرم جوشانہ ماحول میں باہم بات چیت کررہے ہیں، دنیا کے مسائل کرائسس سے ہی حل ہوتے ہیں اور ہند و پاک بات چیت بھی ہمیشہ جموں کشمیر میں یا اسکی سرحدوں پر کرائسس کے بعد ہی وقع پذیر ہوتی رہتی ہے، 1948ء ہو یا 1965ء، کرگل جنگ ہو یا حالیہ سرحدی کشیدگی، ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ مرتے ہیں، انکے مکان تباہ ہوتے ہیں، یہ بے گھر ہوجاتے ہیں اور ان پر عذاب و عتاب نازل ہوتا ہے اور جب یہ سب کچھ کسی کرائسس میں تبدیل ہوجاتا ہے تو دنیا دو ایٹمی ملکوں کے مابین جنگ روکنے کی غرض سے بیچ میں آجاتی ہے اور انہیں مجبور کرتی ہے کہ یہ کشیدگی کے ماحول کو ختم کرتے ہوئے مذاکراتی عمل کا آغاز کریں۔

جس کشمیر مسئلے کی وجہ سے یہ کشیدگیاں بار بار پیدا ہوتی ہیں اور جو کشمیری بار بار ان کشیدگیوں کے نتیجے میں پستے رہتے ہیں، بات چیت کے عمل کا آغاز ہوتے ہی انہیں فراموش کردیا جاتا ہے اور باہمی تجارت، بجلی، پانی کی تقسیم اور آپسی سرحدی معاملات پر بات کی جاتی ہے اور اگر کبھی توفیق ہوئی تو محض ’’بشمول کشمیر‘‘ کے الفاظ استعمال کرکے وقتی کرائسس کو فرو کردیا جاتا ہے، کیا کشمیری قوم صرف کرائسس کیلئے ہے جبکہ بات چیت دیگر مسائل پر کرنی ہے؟ بھارت تو کشمیریوں پر جبر کر ہی رہا ہے لیکن آج ہم حکومت پاکستان سے بھی سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ کشمیر انکے مذاکراتی ایجنڈے میں کہاں گم ہے، کیا کشمیری ہمیشہ مرنے اور تباہ ہونے کیلئے ہیں تاکہ آپ اپنے لئے تجارتی اور دوسرے باہمی معاملات آسانی سے حل کر پائیں؟ آج وقت آگیا ہے کہ کشمیری مزاحمت کار بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکمرانوں سے یہ سوال پوچھیں کیونکہ ہم کشمیری بھی انسان ہیں اور انسانوں کی طرح زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں، فی الوقت ہمیں بھارت کو ایک طرف رکھ کر پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات شروع کرنے چاہئیں کیونکہ بقول ان کے اگر پاکستان کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہوتے تو مصیبت جاری رہے گی۔

کشمیری اپنی تقدیر کا فیصلہ ہندوستان اور پاکستان کے ذریعے ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے قبول نہیں کریں گے بلکہ وہ مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہتے ہیں،  فی الوقت ہند و پاک مذاکراتی عمل میں کشمیر پر کوئی فوکس نہیں ہے بلکہ فوکس تجارت پر ہے اور آج اگر ہم بات کریں گے تو شاید فوکس میں آئیں گے اور اگر خاموش رہیں گے تو ہم فراموش ہی رہیں گے، پاکستان نواز مزاحمتی قیادت سے اپیل کی کہ وہ پاکستان سے پوچھیں کہ اگر بات چیت کرنی ہے تو کشمیریوں کو شامل کیوں نہیں کیا جاتا اور کشمیر مذاکرات میں شامل کیوں نہیں ہے، ہم انشاء اللہ عنقریب جموں و کشمیر کے تمام اضلاع میں ایک مہم شروع کرے گا جس کے ذریعے ہند و پاک مذاکراتی عمل میں کشمیر کو بنیادی مسئلہ کے طور شامل کرنے پر زور دیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں کرائے جانے والے الیکشن کے بارے میں آپ کی رای کیا ہے۔؟

محمد یاسین ملک: کشمیر ایک متنازعہ سرزمین ہے اور کوئی فریب یا الیکشن اس کا حل نہیں ہوسکتا، جموں کشمیر عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک متنازعہ سرزمین ہے اور کشمیری عرصہ دراز سے اپنی تقدیر سازی کے لئے برسر جدوجہد ہیں۔ اس مسئلے کے حل سے تساہل اور تغافل امن و استحکام کے لئے سم قاتل ہے، 1947ء میں متنازعہ الحاق کی دستاویز میں بھی لکھا گیا تھا کہ یہ ایک عارضی انتظام ہے اور لوگوں سے اس بارے میں پوچھنے کے بعد ہی جموں کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا، خود بھارت اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا جہاں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کی بات کی گئی، ہندوستان کے پہلے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے لال چوک سرینگر میں لوگوں کے سامنے اپنے اس وعدے کو دہرایا اور اعلان کیا کہ کشمیریوں کو مستقل سازی کا جمہوری حق دیا جائے گا، مسٹر جواہر لعل نہرو نے اس کے بعد بھارت کی پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری کوئی بکاﺅ مال نہیں ہیں جن کی خرید و فروخت کی جائے گی۔ کشمیریوں کو مستقبل کے تعین کا حق دیا جائے گا اور اگر کشمیری بھارت کے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ بھی کریں گے تو ہمیں دکھ ضرور ہوگا لیکن اُس فیصلے کو تسلیم کیا جائے گا۔

بھارت نواز سیاستداں الیکشن کے وقت آکر ہم سے سڑک، بجلی، پانی، نوکری اور ایسی ہی دوسری ضروریات کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں لیکن الیکشن کے بعد یہ لوگ اور ان کے بھارتی آقا ان الیکشنوں کو کشمیریوں کی مستقبل سازی سے جوڑ کر دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان بیانات سے ہمیں اندازہ ہوجانا چاہئے کہ الیکشنی سیاست ہمارے لئے کتنی تباہ کن اور ہماری آزادی کی راہ میں کتنی بڑی رکاوٹ ہے۔ آج ہم اُن تحریک والوں کو بھی جو ایک طرف تو الیکشن بائیکاٹ کا نعرہ دیتے ہیں لیکن دوسری جانب میچ فکسنگ کرتے ہوئے اس میں حصہ بھی لیتے ہیں کو بھی اپنی روش سے باز رہنے کی اپیل کرتے ہیں اور ان پر واضح کرتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے جماعتی مفادات کے لئے قومی مفاد کو قربان کرنے کے عمل کو ترک کردیں، ہند نواز سیاست دان اور الیکشنی عمل میں شریک ہونے والے لوگ کسی بھی صورت میں کشمیریوں کے ہمدرد نہیں ہوسکتے ہیں بلکہ یہ ہر لحاظ سے بھارتی مفادات کے ترجمان اور رکھوالے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت فوجی جماؤ کے ہوتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟

محمد یاسین ملک: جموں کشمیر کے مظلوم لوگوں کے انسانی حقوق کو قابض فوجی و فورسز کے جوتوں تلے روندھا جارہا ہے، جموں کشمیر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لحاظ سے ایک بدترین جگہ ہے۔ جہاں نہ صرف قتل عام جاری ہے بلکہ پرُامن تحریک کو دبانے کے لئے معصوم بچوں سے لیکر معمر ضعیف اور بیمار بزرگوں تک کو زنداں خانوں کی نذر کرنے کا سلسلہ دراز تر کیا گیا ہے۔ کشمیریوں کی آواز کو دبانے کے لئے چھاپوں، گرفتاریوں، قدغنوں اور دوسرے استعماری حربوں کا استعمال کیا جارہا ہے، آج بھی کالے قوانین کے ہتھیاروں سے لیس پولیس اور فورسز ہمارے معصومین کا قافیہ حیات تنگ کئے ہوئے ہیں اور پی ایس اے لگاکر لوگوں کو جیل خانوں میں سڑانے کا عمل جاری ہے، فوجی اور پولیسی جبر کے ساتھ ساتھ کشمیریوں پر عدالتی جبر کے ہتھکنڈے بھی آزمائے جارہے ہیں، حد یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں ہمارے بیسیوں لوگوں کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئیں ہیں۔

دنیا جموں کشمیر کے لوگوں کی جائز، پرامن اور جمہوری جدوجہد کو عزت دینے میں ناکام ہورہی ہے اور ایسا کرکے ہمارے معصومین کو پس دیوار کیا جارہا ہے، ہم ایک بار پھر دنیا پر باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ اگر دنیا اور برصغیر میں امن، استحکام، تعمیر و ترقی اور تبدیلی کے خواہاں ہیں تو انہیں ترجیحی بنیادوں پر مسئلہ جموں کشمیر کو حل کرانے کی کاوشیں کرنا چاہئے، جموں کشمیر کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے حل میں ہی برصغیر کا دائمی امن و استحکام مضمر ہے، نام نہاد جمہوری حکمرانوں نے یہاں ہر طرح کی سیاسی جگہ مسدود کررکھی ہے اور صرف اور صرف اُن سیاست دانوں کو جو اسمبلی میں بیٹھ کر قاتل فوجیوں کے تحفظ، انہیں قانون کی گرفت سے محفوظ رکھنے، انہیں قتل عام کی کھلی چھوٹ فراہم کرنے، انہیں کسی بھی بازپرسی سے بچانے کے لئے قانون بناتے ہیں کے لئے ہی ہر قسم کی space موجود ہے، قاتل فوجیوں اور انکی پشت پناہی پر مامور بھارت نواز سیاست کاروں کو گھومنے پھرنے کی مکمل آزادی میسر ہے۔

اسلام ٹائمز: اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے آپ کا رول قابل ستائش ہے، اتحاد و اتفاق کو آپ کس قدر اہم تصور کرتے ہیں اور دانشوران ملت کا اس حوالے سے کیا رول بنتا ہے۔؟

محمد یاسین ملک: سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ (ص) کی ذات تقدس مآب ہمارا محور ہے اور اپنے اسی نبی (ص) کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر آج ہمیں اپنی صفوں کو انتشار و افتراق سے پاک کرکے ایک ہونا پڑے گا، اگر ہم نے اس سلسلے میں تساہل و تغافل سے کام لیا تو ہماری دنیا اور آخرت کے برباد ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نامناسب رویے سے باز آجائیں اور ایک دوسرے کے تئیں معافی اور درگزر کا قرآنی و نبوی (ص) نسخہ آزماکر اپنی صفوں کو درست کرلیں، خاص طور پر پڑھے لکھے، اصحاب حل و عقد، دانشوارن قوم و ملت، علماء کرام اور خطباء عظام نیز معزز مشائخ کی اس ضمن میں ذمہ داریاں اہم ہیں، پڑھا لکھا طبقہ چونکہ زیادہ ہوشیار اور اصحاب فہم پر مشتمل طبقہ ہوتا ہے اور حق یہی ہے کہ اسی طبقے کا اثر پوری قوم و ملت لیتی ہے اسلئے اِن کا آج کڑا امتحان ہے، یہ لوگ اللہ کے حضور اس معاملے میں جوابدہ ہوں گے اور ان سے پوچھا جائے گا کہ مسلمانوں کے انتشار کو فرو کرنے میں انہوں نے کیا رول ادا کیا تھا، کشمیری مسلمانوں کی مذہبی رواداری پورے عالم انسانیت میں منفرد مقام کی حامل ہے اور ہماری تاریخ کے مشکل ترین ادوار میں بھی ہم نے اپنی اس انفرادیت کو زائل نہیں ہونے دیا۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کی حقیقت اور ہند و پاک مذاکرات کے دوران اس مسئلہ کو پس پشت ڈالنے کے بارے میں آپ کی نگاہ کیا ہے۔؟

محمد یاسین ملک: مسئلہ جموں و کشمیر ایک روشن حقیقت ہے جسے حل کئے بغیر برصغیر میں حقیقی امن، استحکام، تعمیر و ترقی ناممکن ہے اسلئے بھارت اور پاکستان کے قائدین پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے کشمیریوں کی مالکانہ حیثیت قبول کریں اور مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کو فریق اول کی حیثیت سے شامل کرکے اس مسئلے کا دائمی اور پائیدار حل نکالنے کی سعی کریں، بھارت اور پاکستان کے حکمران کشمیریوں کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل کر اپنی نئی نسل کو روشنی سے نہیں نواز سکتے ہیں، کشمیر ایک ایسا سلگتا ہوا انگارا ہے جسے بجھانے کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ جموں کشمیر کے لوگ اس نئی پہل اور بحالی تعلقات کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن جس پُراسرار طریقے پر بات چیت کے اس عمل میں مسئلہ جموں کشمیر سے پہلوتہی کی گئی ہے اور بنیادی مسئلے پر توجہ مبذول کرنے کے بجائے اسے پش پشت ڈالنے کی سعی کی گئی ہے اُس نے کشمیریوں کے ساتھ ساتھ باضمیر انسان دوست بھارتیوں اور پاکستانیوں کو بھی مضطرب کردیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کی قیادت بارود کے ایک ایسے ڈھیر جس کے اندر کشمیر نام کی آگ اور چنگاری پنہاں ہے پر مٹی ڈال کر آرزوﺅں اور تمناﺅں کے نئے محل تعمیر کرنا چاہتے ہیں لیکن دنیا کے سبھی باحس اور عقل مند جانتے ہیں کہ ایسے عمل کو محض وقت کا زیاں اور بے وقوفانہ طرز عمل ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ وقت کے حکمرانوں کو اِسی میں اپنی حکمرانی کا دَوام نظر آتا ہو لیکن ان کا یہ خود غرضانہ عمل دراصل پوری دنیا اور خاص طور پر برصغیر کےلئے دائمی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا مسئلہ کشمیر کا پرامن تحریک کا جاری رکھنے میں مضمر ہے یا عسکری محاذ کے ذریعے اس مسئلہ کا دائمی حل نکالا جاسکتا ہے۔ اور پرامن تحریک کے ہوتے ہوئے بھارت کا ردعمل کیا ہونا چاہئے۔؟

محمد یاسین ملک: ہمیں ہر حال میں دنیا کے دئے گئے مصائب و آلام اور ناقدری کو برداشت کرتے ہوئے اپنی پُرامن جدوجہد کو مضبوط تر بنانے اور اسے جاری رکھنے کےلئے پُرعزم ہوکر آگے بڑتے رہنا ہوگا کیونکہ کامیابی بہرحال اسی پُرامن جدوجہد کی ہوگی، مسئلہ کشمیر کے حل کے ذریعے ہم سب مل کر اپنی نئی نسل کے لئے ایک مستحکم اور مضبوط مستقبل کو یقینی بناسکتے ہیں جموں کشمیر کا مسئلہ انسانی المیہ کی ایک بدترین مثال ہے اس مسئلے کا ترجیحی اور حتمی حل دنیا کے ساتھ ساتھ برصغیر کے حقیقی امن و استحکام کےلئے ضروری ہے، بھارت اور پاکستان اپنے مسائل کے حل کے لئے جامع مزاکراتی عمل میں مشغول ہوچکے ہیں، یہ ایک مستحسن عمل ہے لیکن ابھی تک اس عمل میں مسئلہ جموں کشمیر پر کوئی واضح پیش رفت اور توجہ نظر نہیں آرہی ہے، ہمارے بچوں کے مقدس لہو سے سیراب پرامن اور جمہوری جدوجہد کی قدر کرنا پر مہذب شخص اور قوم پر فرض ہے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ دنیا میں تشدد اور بدامنی کا خاتمہ چاہنے والے لوگ ہماری تاریخ ساز پُرامن جدوجہد کی قدر کریں گے اور بھارت و پاکستان کو راغب کریں گے کہ مسئلہ کشمیر جیسے انسانی المیے کے حل کے لئے مثبت اور ترجیحی اقدامات اٹھائے جائیں، عالمی برادری اور بھارت کے حکمرانوں کو عالمی امن و استحکام کےلئے مسئلہ جموں کشمیر کے پُرامن حل کے لئے مثبت اقدامات اُٹھانے ہی پڑیں گے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو کشمیر ایک اور افغانستان بن کر پوری دنیا کے لئے ایک خطرہ بن جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 335444
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش