5
0
Tuesday 18 Nov 2014 22:17

لبنان کے سیاسی حقائق اور ہمارے بقراط

لبنان کے سیاسی حقائق اور ہمارے بقراط
تحریر: عرفان علی
 
یہ بندہ حقیر پر تقصیر بیٹھا بحرین کی تازہ ترین صورتحال پر مقالہ لکھنے کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ ایک دوست نے مطلع کیا کہ ڈیموگرافی کی سیاست کے بارے میں میری تحریر پر ایک صاحب نے سوشل میڈیا کے ایک ایسے فورم پر تبصرہ کیا ہے کہ جس کی رکنیت مخصوص افراد کے لئے ہے۔ بندہ اس فورم کا رکن نہیں اور نہ ہی غیب کا علم رکھتا ہے کہ کہاں کہاں کیا کیا تبصرے ہوتے ہیں۔ بہرحال ایک اتفاق ہے کہ یہ تبصرہ مجھے معلوم ہوگیا۔ بحرین کے موضوع کو ملتوی کرتے ہوئے مجھے ایک وضاحت لبنان کے بارے میں کرنا پڑ رہی ہے۔ میری تحریر پر عابد گیلانی صاحب کا یہ تبصرہ ملاحظہ فرمائیں:
’’کالم نگار حقیقت سے بے خبر ہے یا پھر جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کر رہا ہے۔ لبنان میں 1990ء سے ایک فارمولے کے تحت شیعوں کے پاس تیس سیٹیں موجود ہیں، حرکت امل لبنان میں شیعوں کی بڑی سیاسی جماعت ہے، لبنان کی پارلیمنٹ میں نبی بری اسپیکر ہیں اور لبنان کی کابینہ میں شیعوں کے چار وزیر ہیں، جن میں دو حرکت امل اور دو حزب اللہ کے ہیں۔" دوسرا تبصرہ یہ فرمایا: ’’دوسری بات انقلاب ایران سے پہلے پاکستان میں اسرائیل کی مخالفت جاری تھی اور انقلاب ایران کے بعد سب سے پہلے پاکستان میں ہی اسرائیل کے خلاف بھرپور مہم چلائی گئی۔‘‘
 
یہ 18 نومبر کی دوپہر تک کے 2 تبصرے تھے جو ایک دوست نے مجھے دکھائے اور میری درخواست پر کاپی پیسٹ کرکے مجھے ارسال کر دیئے۔
ان کے پہلے تبصرے کے بارے میں یہ وضاحت کر دوں کہ لبنان کی پارلیمنٹ کے کل 128 اراکین ہوتے ہیں اور ان میں شیعہ مسلمانوں کے لئے صرف 27 نشستیں ہیں۔ یہ 3 اضافی نشستیں جو ہمارے محترم نقاد کے پاس ہیں، اگر یہ حزب اللہ اور امل کے افراد کو واپس کروا دیں یا اس کی نشاندہی کر دیں کہ ان 3 نشستوں پر کون براجمان ہے، تو مہربانی ہوگی۔ یہ حقیر بندہ ڈیموگرافی کی سیاست کو بیان کر رہا تھا نہ کہ ہر ملک کی تفصیلی سیاسی صورتحال کو۔ لبنان کی صورتحال پر 2003ء سے ماضی میں ہم ماہنامہ منتظر سحر میں اپنی معروضات پیش کرچکے ہیں۔ تازہ ترین حالات پر بندہ اپنی رائے سحر اردو ٹی وی کے پروگرام انداز جہاں میں جناب علی عباس رضوی کے سوالات کے جواب میں پیش کرچکا تھا اور وہاں بھی لبنان کے سیاسی نظام کو غیر عادلانہ کہا تھا اور جناب رضوی صاحب نے وضاحت کی تھی کہ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ لبنان کا سیاسی نظام عادلانہ ہے۔ لبنان پر اگلے ماہ لکھنے کا ارادہ تھا اور انشاءاللہ توفیقات الٰہی سے ضرور لکھوں گا۔
 
چونکہ عدم رکنیت کی بنیاد پر میں اس فورم پر تبصرہ نہیں کرسکتا تھا، اس لئے یہ معروضات یہاں پیش کرنے کی معذرت چاہتا ہوں۔ لبنان سمیت دیگر ممالک کی شیعہ ڈیموگرافی بیان کرنے کا مقصد یہی تھا کہ شیعہ آبادی کو کم تعداد میں ظاہر کرکے دنیا کے مختلف سیاسی نظاموں اور معاشروں میں انہیں مارجینلائز کر دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شیعہ مسلمان لبنان کی سنگل لارجیسٹ اکثریتی آبادی ہے۔ فرض کرلیں کہ اگر چالیس فیصد بھی ہیں تب بھی کسی اور کمیونٹی کی آبادی ان سے زیادہ نہیں ہے۔ مسیحی آبادی بھی ان سے کم ہے اور سنی آبادی بھی کم ہے۔ سیاسی عدل کا تقاضہ یہ تھا کہ صدر یا وزیراعظم کا عہدہ شیعوں کو دیا جاتا، مگر ایسا نہیں ہوا۔ اب اس کا موازنہ شام سے کرلیں، جس کے بارے میں امریکہ اور اس کے اتحادی دن رات پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ شام کا وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی بھی سنی عرب ہیں اور کابینہ میں ان کی واضح اکثریت ہے جو ہم ’’شام کے صدارتی الیکشن کا آنکھوں دیکھا حال‘‘ کے عنوان کے تحت جون 2014ء میں بیان کرچکے ہیں۔ 

انتہائی معذرت کے ساتھ مجھے ایک سندھی دوست کی آج سے تقریباً 25 سال قبل بیان کی گئی کہاوت یاد آئی۔ چری ہش میں خوش! یعنی اگر کسی پاگل کو ’’ہش‘‘ کہہ کر تحقیر کریں تو وہ اس ’’ہش‘‘ کہنے پر بھی خوش ہوتے ہیں۔ یہاں شیعہ مسلمانوں کی زندگی موت کا مسئلہ درپیش ہے اور بعض افراد کو اٹھکیلیاں سوجھ رہی ہیں۔ فرض کر لیں شیعہ 40 فیصد ہیں تو لبنان کی پارلیمنٹ میں ان کی تعداد کتنی ہونی چاہئے تھی؟ اب آپ خود ہی حساب کتاب کرکے بتا دیں کہ 128 اراکین کا 40 فیصد کتنا بنتا ہے؟ حالانکہ شیعہ اثناء عشری آبادی کی تعداد 40 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہے، جو بندہ پچھلی مرتبہ بیان کرچکا۔ اگر پارلیمنٹ کے کل اراکین کی تعداد صرف 100 ہوتی تب بھی شیعہ اراکین کی تعداد 40 ہونی چاہئے تھی۔ 128 کا 40 فیصد 51.2 بنتا ہے۔ یعنی اس کم ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر بھی موجودہ لبنانی پارلیمنٹ میں شیعہ اراکین کی تعداد 51 ہونی چاہئے تھی اور ہے کتنی ؟محض 27! 

بندہ نے بہت کوشش کی کہ ہمارے نقاد نے 1990ء کے جس فارمولا کا تذکرہ کیا اس کو تلاش کرے لیکن وہ فارمولا مجھے نہیں ملا۔ 1989ء میں ایک معاہدہ طائف طے پایا تھا، شاید اس کی بات کر رہے ہوں۔ لبنانی کابینہ کے بارے میں بھی یاد رہے کہ کابینہ میں شیعہ تناسب بے حد کم رکھا جاتا ہے۔ ماضی میں 30 رکنی کابینہ میں شیعہ وزراء کی تعداد 5 تھی۔ اب اگر آپ 4 کی تعداد بتا رہے ہیں تو یہ کس معیار کی بنیاد پر ہے؟ کل اراکین کتنے ہیں؟ صرف صدر اور وزیراعظم کے کوٹہ پر بھی وزیر بنائے جاتے ہیں۔ اسپیکر کے کوٹہ پر کوئی وزیر نہیں ہوتا۔ اور صدر، وزیراعظم کی جانب سے نامزد کردہ وزراء میں کوئی شیعہ نہیں ہوتا۔ شراکت اقتدار کا انتہائی غیر عادلانہ فارمولا وضع کیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے بعض فورم پر ایسے دوستوں کی خدمت میں حقائق عرض کرچکا ہوں۔ ایک قابل احترام عالم دین کے چاہنے والوں نے بھی یہی دلیل قائم کی کہ لبنان میں شیعہ اکثریت نہیں۔ ڈیموگرافی کی سیاست پر اسی لئے لکھا تھا کہ غلط فہمی دور ہوجائے، لیکن مذکورہ نوعیت کا تبصرہ پڑھنے کو ملا! پہلے تو آپ خود پر غور فرمائیں، آپ کس کے طرفدار ہیں؟ دوستوں سے معلوم ہوا کہ مذکورہ ’’حضرت نقاد‘‘ ہمارے قابل احترام عالم دین کے چاہنے والوں میں سے نہیں بلکہ وہ ایک اور عالم دین کی تعریف تو کرتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ جس عالم دین کی تعریف کرتے ہیں، انہی کے سیاسی نظریات سے نابلد ہیں۔
 
جی ہاں! علامہ ساجد علی نقوی صاحب نے (جہاں تک مجھے علم ہے) پاکستان کی سیاست میں پہلی مرتبہ متناسب پارلیمانی نمائندگی کا مطالبہ کیا تھا۔ یعنی جس طرح لبنان میں شیعہ و سنی آبادی کی نشستیں مخصوص کر دی گئی ہیں، پاکستان میں بھی ایسا ہی کر دیا جائے۔ آج کل مجلس وحدت مسلمین کی طرف سے بھی اسی نوعیت کا مطالبہ سننے میں آرہا ہے۔ بندہ ان قائدین کی رائے سے 100 فیصد متفق ہے اور آج کی سب سے بڑی اچھی خبر پاکستانی شیعہ مسلمانوں کی پہلی نمائندہ سیاسی مذہبی جماعت پر حکومت کی عائد کردہ ظالمانہ پابندی کے خاتمے کا عدالتی حکم نامہ ہے۔ تحریک جعفریہ پر جنوری 2002ء میں محض اس لئے آمر وقت امریکی، صہیونی اتحادی جنرل پرویز مشرف کے دور میں پابندی عائد کر دی گئی کہ پاکستان میں ظالم و مظلوم کو ایک صف میں کھڑا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ نسل کشی بھی شیعوں کی اور پابندی بھی شیعہ جماعت پر۔ صرف اس لئے کہ حکمران سپاہ صحابہ پر پابندی کا ڈرامہ کرنا چاہتے تھے جو عملی طور پر آج بھی کھلے عام سرگرم عمل ہے۔ 2002ء میں کالعدم سپاہ صحابہ کا قائد مشرفی آمریت کے سائے میں رکن قومی اسمبلی منتخب کروا دیا گیا تھا جبکہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ علامہ ساجد نقوی کو پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔ تب شیعہ قیادت کو قیدی بنانے کے خلاف ماہنامہ منتظر سحر میں بندہ نے اپنا مقالہ شائع کروایا تھا۔
 
بات کہیں اور نہ نکل جائے۔ بندہ نے فلسطین پالیسی پر پاکستان پر تنقید ہی نہیں کی، لیکن پاکستان اور ایران کا موازنہ کیا جا رہا ہے۔ حضور، یہاں بھی آپ فراموش کر رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی اگر فلسطینیوں کی حمایت میں جو سرگرم ہیں وہ بندہ خود ہے یا ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس کے لئے ایک منظم فورم بنا رکھا ہے اور ماہنامہ مجلہ بھی شایع کرتے ہیں اور بندہ بھی اس کا یک ادنٰی سا حصہ ہے۔ بانیان پاکستان کی فلسطین پالیسی پر مقالے لکھنے سمیت تازہ ترین حالات سے آگاہ کرنے والے بھی ہم ہیں اور "ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے امریکہ مردہ باد ہے" کے نعرے کے حق میں یہ ناچیز ہی ہے جس نے اسرائیل کے قیام میں امریکی کردار کی تاریخ بیان کی تھی، ورنہ ماضی میں اسرائیل کے قیام میں برطانوی کردار کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے۔ 

جب میں یہ تحریر لکھ چکا تو دیکھا کہ بغیر نام کے یہی تبصرہ میرے آخری مقالہ کے نیچے رائے کے طور پر تحریر نظر آیا۔ بعض دوستوں کا مشورہ تھا کہ اس کو اہمیت نہ دی جائے لیکن الزام یہ تھا کہ یا میں بے خبر ہوں یا تاریخ مسخ کر رہا ہوں۔ بقول شہید باقر الصدر، ایک جاہل آدمی کسی دوسرے کو علم نہیں دے سکتا اور ایک عالم آدمی بھی دوسروں کو صرف اتنا علم دے سکتا ہے، جتنا اس کا اپنا علم ہے۔ جب آپ خود حقائق سے نابلد ہیں تو اپنی درستگی فرمائیں نہ کہ سچ لکھنے کی مخالفت کریں۔ پارا چنار اور گلگت بلتستان کی ڈیموگرافی والی رائے دینے والے دوست کا ممنون ہوں۔ انشاءاللہ موقع ملا تو ضرور لکھوں گا۔ آخر میں سارے دوستوں سے گذارش کہ میرے جس مقالے پر تنقید کی گئی، اسے اچھی طرح پڑھ لیں اور خود دیکھ لیں کہ جو تنقیدی رائے پیش کی گئی ہے، اس کا میرے مقالہ سے تعلق ہی نہیں تھا۔ اس لئے جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں، عابد گیلانی صاحب کی رائے پر فیض احمد فیض کا یہ شعر صادق آتا ہے:
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات ان کو بہت ناگوار گذری ہے
خبر کا کوڈ : 420260
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
عابد گیلانی صاحب آج کل شیعوں کی جملہ مشکلات کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرانے کا مبارک مشن انجام دینے میں دن رات مصروف عمل ہیں۔
ناکامی یا کامیابی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
چونکہ مجھے ان کے ایران کے بارے میں وہ نظریات معلوم نہیں جو آپ نے تحریر فرمائے ہیں، اس لئے میں اس پر رائے زنی نہیں کروں گا۔
Mumkin hay Abid Gilani sb ko apka yeh jumla acha na laga ho::
امریکا کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارہ سی آئی اے نے دنیا کے ممالک کے بارے میں ورلڈ فیکٹ بک مرتب کی ہے۔ اس میں مذکورہ حوالے سے غلط اعداد و شمار سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ شیطان بزرگ امریکا کس اسلامی مکتب فکر کی اصل تعداد کو چھپاتا ہے اور کس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ لبنان سے شروع کرتے ہیں۔ سی آئی اے کی ورلڈ فیکٹ بک کہتی ہے کہ لبنان کی کل آبادی 58 لاکھ سے کچھ زائد ہے اور یہاں مسلمان، کل آبادی کا محض 54 فیصد ہیں اور شیعہ و سنی دونوں ستائیس، 27 فیصد ہیں جبکہ مسیحی ساڑھے 40 فیصد ہیں۔ حالانکہ خود امریکا، کینیڈا اور یورپی ممالک سے شایع شدہ تحقیقی مقالوں اور کتابوں میں لبنان کے اثناء عشری شیعہ مسلمانوں کو فی صدی اعتبار سے سنگل لارجیسٹ آبادی تسلیم کیا جاچکا ہے۔
جیو عرفان علی صاحب، خدا آپ کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائیں اور زور قلم اور بڑھے (عقیل حسین)
التماس دعا۔ شکریہ۔ بندہ آپ جیسے دوستوں کی دعائوں کا محتاج تھا اور ہے۔
ہماری پیشکش