1
0
Thursday 28 Aug 2014 00:29

موجود ملکی حالات میں شیعہ سنی وحدت، مقاصد اور لاحق خطرات

موجود ملکی حالات میں شیعہ سنی وحدت، مقاصد اور لاحق خطرات
تحریر: علامہ صادق رضا تقوی

جب سے اہل تشیع نے نواز شریف کی سعودی نواز اور ظالم حکومت کے خلاف طاہر القادری صاحب سے اتحاد کیا ہے اور ان کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہیں تو حکومت کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان عوامی تحریک، سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کا یہ مارچ اس قدر جان پکڑ لے گا! 12 دنوں سے زیادہ قائم رہنے والے اس احتجاج نے نہ صرف یہ کہ حکومت کی چولیں ہلا دی ہیں بلکہ اس شیعہ سنی تاریخی اور مثالی اتحاد نے حکومت کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہ مسئلہ سیاسی حل سے حل نہ ہوا تو اب فرقہ وارانہ فسادات کے ذریعے شیعہ سنی کا رنگ دے کر کوشش کی گئی، سپاہ صحابہ کو میدان میں کدوایا گیا، مولانا فضل الرحمان کا متنازعہ بیان اور پھر جعلی جمہوریت کو بچانے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کا متحد ہو جانا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ سب اس سیاسی انقلاب سے خوفزدہ ہیں۔ یہ سیاسی اصلاحات کا انقلاب کیسا ہی سہی، خواہ کوئی اسے لولہ لنگڑا کہے، یہ وقت کی ضرورت ہے۔ حتٰی کہ پی پی، متحدہ اور جماعت اسلامی کو بھی اس جعلی جمہوریت کو ہٹانے کی بات کرنے چاہیئے تھی مگر یہ جماعتیں کہ جن میں متحدہ، پی پی اور نون لیگ شامل ہیں، سب دھاندلی کی نتیجے میں اپنے اپنے ووٹ بینک کو بچانے کیلئے سرگرم عمل ہیں۔

متحدہ قومی مومنٹ ایک عرصے سے عوامی قیادت اور جاگیردارانہ، وڈیرانہ، ظالمانہ اور زمیندارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کرتی رہی ہے اور ہم ایسی جدوجہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن اب کیا وجہ ہے کہ جب اس ظالمانہ نظام کی تبدیلی کی بات کی جا رہی ہے تو متحدہ خاموش ہے!! متحدہ کی قیادت کی یہ خاموشی انہیں چوروں کی صف میں لا کھڑا کرے گی اور ان کا ایسا سکوت انہیں جمہوریت کو بچانے کیلئے نہیں بلکہ قومی دولت لوٹنے والے چوروں اور مولویوں کی صف میں لا کھڑے گا۔ جس سے میرے اندازے کے مطابق متحدہ کی سیاسی ساکھ کو بہت نقصان پہنچے گا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ متحدہ کا سکوت اس کی تنظیمی مقاصد سے متصادم نظر آرہا ہے!! متحدہ نے اپنے سیاسی سفر کے آغاز میں جن اچھے نکات کے ساتھ سفر شروع کیا تھا، ان میں سے ایک یہ تھا کہ وہ عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ میں لانا چاہتی تھی اور وہ اس میں کامیاب بھی ہوئی، لیکن جس نظام کی تبدیلی کی وہ تن تنہا بات کر رہی تھی آج اسلام آباد میں اسی کی بات کی جا رہی ہے تو یہ متحدہ کا تبدیلی لانے والی جماعتوں سے ایک فطری اتحاد بن سکتا تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔

دوسری بات یہ کہ متحدہ نے شیعہ سنی اتحاد کا نعرہ لگایا، ہماری نظر میں شیعہ سنی اتحاد کا نعرہ اچھی بات اور قابل تحسین کام ہے لیکن متحدہ کے پلیٹ فارم سے اس کا دائرہ بہت چھوٹا ہے یعنی ان کی پارٹی پالیسی کا تابع ہے۔ یعنی جب بھی یہ اتحاد پارٹی پالیسی سے متصادم نظر آئے گا، اس اتحاد کا رشتہ توٹ جائے گا۔ اب جبکہ شیعہ سنی متحد ہیں اور اتحاد رکھتے ہیں تو ایسے وقت میں بھی متحدہ کو چاہئے تھا کہ وہ پارٹی پالیسی کے تحت اس شیعہ سنی اتحاد کی حمایت کرتی، لیکن یہاں بھی اس کا اس اتحاد کی حمایت نہ کرنا معنیٰ خیز ہے۔ تیسرا وہ نکتہ کہ جسے متحدہ قبول نہیں کرے گی وہ دھاندلی ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ جب جعلی ووٹوں اور دھاندلی کا نام آتا ہے تو سندہ خصوصاً کراچی میں متحدہ سر فہرست نظر آتی ہے۔

اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان کی ایک ایسی جماعت رہی ہے کہ جس نے اپنی ابتداء میں کافی قربانیاں دی ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو سے کئی اختلافات کے باوجود ان کے کئی اقدامات ایسے ہیں کہ جنہیں سراہنے کی ضرورت ہے۔ لیکن جب سے اس کا سیاسی اغواء ہوا ہے اس کے بعد سے اس کا حال قابل دید ہے۔ ماضی میں جمہوریت کی بقا کیلئے تحریک جعفریہ نے پیپلز ڈیموکرٹیک الائنس میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا لیکن وہ سیاسی اتحاد اس کی ضرورت تھی مگر شاید پی پی یہ سمجھ بیٹھی کہ یہ شیعہ ہمیشہ ہی سیاسی غریب و یتیم رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک جعفریہ پر پابندی کے بعد میدان خالی رہا اور قومیات میں وہ کامیابیاں ہمیں نصیب نہ ہوسکیں جو ہوسکتی تھیں۔

مجلس وحدت مسلمین کے قیام کے بعد پیپلز پارٹی نے اس شیعہ جماعت کو ساتھ ملانے اور نون لیگ اور متحدہ کے خلاف ایک پریشیر گروپ کی صورت میں سامنے آنے کیلئے گذشتہ انتخابات میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ مگر مجلس وحدت کے انکار کے بعد دھاندلی سے ایم ڈبلیو ایم کا مقابلہ کیا، گلگت بلتستان میں تاریخی جلسے کو روکنے کیلئے شیعہ دشمنوں سے گٹھ جوڑ کیا، اس کے علاوہ خیر پور میں سپاہ صحابہ کو آگے کیا اور دوسری جانب سے کراچی میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر کرائے کے قاتلوں کے ذریعے خون کا بازار گرم کیا۔

2013ء کے فیئر کے بجائے فری الیکشن کے نتیجے میں دھاندلی کیلئے ہر ایک جماعت کو آزاد قرار دے دیا گیا۔ اب ان حالات میں الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں، وہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہر ایک نے کھل کر دھاندلی کی، کراچی میں کسی نے، اندرون سندھ پی پی نے، پنجاب میں نون لیگ نے اور خییر پختونخواہ میں کسی نے اور بلوچستان میں کسی نے دھاندلی سے نتائج کو اپنے لئے مخصوص کر لیا۔ اب اس غیر آئینی، جعلی اور دھاندلے سے وجود میں آنے والی حکومت کی اس لئے تائید و حمایت کی جا رہی ہے کیونکہ ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کا چٹا پٹہ کھلنے والا ہے، زرداری صاحب نے جس طرح پی پی کو ڈبویا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور شاید پی پی کو اپنی سیاسی سج دھج کو بنانے میں کافی عرصہ لگ جائے گا۔

رہی جماعت اسلامی کی سیاست تو اس نے اپنے سیاسی پس منظر سے منہ موڑتے ہوئے مکتبی رنگ اختیار کر لیا ہے۔ اب جماعت اسلامی کے بارے میں بھی یہی تاثر پایا جاتا ہے کہ جب ایجنسیاں انہیں اشارہ کرتی ہیں وہ حرکت میں آجاتی ہے۔ جماعت اسلامی کی سابقہ قیادت نے جس طرح امام حسین اور کربلا کے بارے میں اپنے نظریات کا اظہار کیا وہ نہ صرف یہ کہ قابل مذمت ہیں بلکہ جماعت اسلامی کو ایک اسلامی میدان سے نکال کر ایک خاص مکتب کے زمرے میں لانے کیلئے کافی ہیں۔ اس تمام صورتحال میں جماعت ایک متوازن کردار ادا کرسکتی تھی مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جماعت کی موجودہ قیادت جماعت اسلامی کو اس بحران سے باہر لانے میں کامیاب ہوگی۔
 
عموماً شیعہ جماعتوں کیلئے ایران کے حامی اور سنی مذہبی جماعتون کیلئے سعودی عرب کے حامی ہونے کا تاثر پایا جاتا ہے۔ یاد رکھئے کہ سعودی عرب سے جتنا ایک سنی کو لگاؤ ہوسکتا ہے اس سے کہیں زیادہ شیعہ کو لگاؤ ہے۔ ہم صرف نظام حکومت اور نظریئے و مکتب کی بات کرتے ہیں۔ حال ہی میں ایرانی حکومت نے پاکستان میں جمہوری عمل کے جاری رہنے کی بات کی ہے تو وہ وہاں کی سیاسی حکومت کے سیاسی کردار سے وابستہ ہے، تو وہ ہم شیعوں کیلئے حجت نہیں رکھتا۔ جو چیز ہمارے لئے حجت رکھتی ہے وہ نظریہ ولایت فقیہ سے وابستہ ہونے کی بنیاد ہر ہوگی۔ بہرحال اس تمام تناظر میں حالات و واقعات کو حقائق کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے کہ اب صورتحال کافی بدلتی نظر آرہی ہے اور اب تو کرائے کے مولوی ملا، دہشت گرد اور مفرور قیدی جنہیں نوازو نے نوازتے ہوئے جیلوں سے آزاد کرا دیا ہے، میدان عمل میں سرگرم ہوگئے ہیں۔ انہیں شیعہ سنی افراد کا اتحاد کسی آنکھ نہیں بھا رہا ہے۔

اب مقدسات کی توہین بھی کی جا رہی ہے، نون لیگ بھی عوامی اجتماعات کرکے اس شیعہ سنی اتحاد کو ناکام بنانا چاہتی ہے، تاکہ جعلی حکومت اور اس کے حمایتیوں کا پول نہ کھلے۔ گذشتہ انتخابات اور اس کے بعد عالمی سیاست نیز مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کو گرا کر فوجی آمر لانے، شام میں پاکستان کے ذریعے دہشت گردوں کو بھیج کر بشار حکومت کا تختہ الٹ کر اسرائیل کو مضبوط کرنے، نیز شام پر امریکی حملے کی ناکامی اور بحرین سمیت عرب ریاستوں میں عوامی اسلامی جدوجہد کو سرکوب کرنے میں سعودی عرب بہت بڑا اور بنیادی حصہ دار ہے۔

یہ میرا ہی نہیں بلکہ اہل تشیع میں ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ جس کے نتیجے میں اب ہمیں یہ یقین کر لینا چاہیے کہ کراچی میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف پی پی نے سیاسی جماعتوں سے مل کر اپنا بدلہ لینے کی ٹھان لی ہے۔ اندرون سندھ یہی جماعت ہے جو دشمنان اہل بیت کے ساتھ مل کر اہل تشیع کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ایسے نازک حالات میں طاہر القادری صاحب کے گذشتہ بیانات پر مشتمل کچھ ویڈیوز نشر کی جا رہی ہیں جس میں وہ اپنے سنی العقیدہ ہونے کی بنا ہر شیعہ مذہب کے بارے میں گفتگو کرتے نظر آرہے ہیں۔ اپنے قارئین کی خدمت میں عرض کروں کہ کسی سنی کا شیعہ کی حمایت یا کسی شیعہ کا سنی کے ساتھ اتحاد کا اعلان اس معنٰی میں نہیں ہے کہ وہ دونوں اپنے اپنے عقائد سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ وہ سنی سنی رہ کر اور شیعہ شیعہ رہ کر اپنے عقائد پر قائم رہتے ہوئے اتحاد کی بات کرتے ہیں۔

بہت سے شیعہ عقائد پر علمی اختلاف رکھنا صرف طاہر القادری صاحب کا ہی نہیں بلکہ ہر سنی کا عقیدہ ہے اور ہر سنی اس طرح اپنے عقائد کو ثابت کرنے کیلئے شیعہ عقائد کی نفی کرتا ہے جیسا کہ شیعہ حضرات اہل سنت کے عقائد کے معاملے میں اپنے عقائد و نظریات کے اثبات کیلئے دلائل سے گفتگو کرتے ہیں۔ اگر آج ہم شیعہ کسی سنی کی حمایت یا اس سے اتحاد کرتے ہیں تو ہم شیعہ رہ کر شیعہ عقائد پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس سے اتحاد کی بات کرتے ہیں اور وہ سنی ہو کر سنی رہ کر ہم سے اتحاد کی بات کرتا ہے۔ ہم اسے سنی سمجھ کر قبول کرتے ہیں اور وہ ہمیں شیعہ سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ علمی اختلاف کا اپنا خاص مقام ہے، انہیں ایسے نازک حالات میں سامنے لانے سے وہابی قوتوں کو ہی فائدہ پہنچے گا کہ جس کی زندہ مثال القاعدہ، طالبان، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ سمیت دوسرے جتھے اور لشکر ییں جو اس ملک میں وہابی نظریات کو جمانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہی وہ دہشت گرد ہیں کہ جنہوں نے سنی شیعہ دونوں کو قتل کیا ہے۔
 
ایسے حالات میں شیعہ سنی عقائد میں اختلافی باتوں کو سامنے لانے سے ہم شیعوں اور سنیوں کے ایک ساتھ مل کر جعلی نواز انتظامیہ اور سعودی حمایت یافتہ ظالم حکومت کو ہٹانے کیلئے جدوجہد کرنے کی مشترکہ کوشش کو نقصان پہنچے گا۔ مجھے یقین ہے کہ جو افراد بھی ایسے حالات میں عقائدی اختلاف کی ان ویڈیوز کو نشر کر رہے ہیں وہ نادانی میں یہ کام کر رہے ہیں، مگر انہیں چاہیے کہ حالات کو بھی دیکھیں کہ وہ  کس رخ پر ہیں۔ کسی شیعہ کا طاہر القادری صاحب سے اتحاد کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ شیعہ اپنے عقائد سے دستبردار ہوگیا ہے، ہرگز نہیں۔ ہم اپنے اپنے مسلّمہ عقائد سے کبھی دستبردار نہیں ہوسکتے لیکن سیاسی اتحاد اور ظالم و سعودی نواز حکومت کو ہٹانے کیلئے ایک ساتھ جمع ہیں۔ یقیناً اس بارے میں طاہر القادری صاحب کا جو عقیدہ ہے وہ مولانا فضل الرحمان اور لدھیانوی کا بھی عقیدہ ہوسکتا ہے لیکن لدھیانوی اور فضل الرحمان کے مقابلے میں طاہر القادری صاحب کئی درجہ بہتر ہیں۔ 

اگر علامہ ساجد نقوی ایم ایم اے کے سیاسی اتحاد میں یا ملی یکجہتی کونسل میں مولانا فضل الرحمان سے ملتے یا اتحاد کرتے ہیں تو وہ شیعہ ہو کر ایک سنی اور دیوبندی مکتب کے نمائندے سے ملتے ہیں اور وہ بھی ایک دیوبندی عالم ہو کر شیعہ عالم سے ملتے ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور علامہ ساجد نقوی کے مولانا فضل الرحمان سے ہاتھ ملانے اور سیاسی یا دینی اتحاد کو ان کے شیعہ عقائد سے دستبرداری تصور نہیں کرسکتا۔ ماضی کی ایک مثال دوں کہ جب آیت اللہ خامنہ ایران کے صدر تھے اور جب وہ پاکستان آئے تو انہوں نے جنرل ضیاء سے ہاتھ ملایا اور سفارتی تعلقات استوار کئے، لیکن  قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے جنرل ضیاء سے ملنا تک گوارا نہیں کیا اور ایئرپورٹ کے باہر کھڑے ہو کر ایرانی صدر کا استقبال کیا۔ تو جنرل ضیاء جیسے آمر سے ہاتھ ملانے پر آیت اللہ خامنہ مرتد نہیں ہوئے اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے جنرل ضیاء سے ملاقات نہ کرکے کوئی گناہ کیا۔

اس بنا پر علامہ ساجد نقوی کا مولانا فضل الرحمان سے ملنا ان کے شیعہ عقائد سے دستبردار ہونے کے مترادف کبھی نہیں سمجھا جا سکتا، تو اسی طرح ہمارا طاہر القادری صاحب کی حمایت کرنا ظالم حکومت کو گرانے کیلئے ہے۔ یہ طاہر القادری صاحب ہیں جو مجالس امام حسین (ع) بھی پڑھتے ہیں، امام حسین (ع) کے مصائب پر گریہ کرتے ہیں، لبیک یاحسین کا نعرہ لگاتے ہیں اور دعائے کمیل پڑھتے ہیں جبکہ شاید یہ افعال و اعمال مولانا فضل الرحمان کے مکتب کی روشنی میں جائز نہ سمجھے جاتے ہوں۔ ہر شیعہ دیوبندی کے مقابلے میں ایک بریلوی سنی سے اتحاد کو عقلی سمجھتا ہے۔ قارئین اور احباب سے میری گزارش ہے کہ وہ تنظیمی وابستگیوں کے نتیجے میں اِس حساس اور نازک حالات میں تاریخ رقم کرنے والے اس اتحاد کو اپنی نادانی سے زک نہ پہنچائیں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ جماعتی و تنظیمی وابستگی کا اختلاف ملت تشیع کو دسیوں سال پیچھے دھکیل دے۔
خبر کا کوڈ : 406979
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

mashallah.logic and timely effort.keep it up.wel done mwm pak
ہماری پیشکش