0
Tuesday 16 Sep 2014 02:27

داعش کیخلاف کارروائی کے بہانے (1)

داعش کیخلاف کارروائی کے بہانے (1)
تحریر: عمران خان

امریکی وزیر خارجہ جان کیری ان دنوں ابوبکر البغدادی کی نام نہاد اسلامی خلافت یعنی داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلے عرب ممالک کے وزراء خارجہ سے ملاقات کی۔ ملاقات کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ عرب ممالک داعش کے خلاف امریکی فوجی کاروائی کا باقاعدہ حصہ بنیں گے۔ جنگ میں داعش کے مالی وسائل کی روک تھام، ان کے نفرت انگیز نظریات کا توڑ اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ سعودی عرب، بحرین، کویت، عمان، قطر، یو اے ای، مصر، عراق، اردن اور لبنان نے امریکی منصوبے کی حمایت کی ہے۔ جان کیری کے مطابق اس جنگ میں عرب شراکت دار داعش کے خلاف قائدانہ کردار ادا کرینگے۔ بعدازاں جان کیری نے مصر میں جنرل السیسی سے بھی ملاقات کی، ملاقات میں موجود مصری وزیر خارجہ نے کہا کہ مصر کے اندر اور باہر دہشت گردی میں کوئی فرق نہیں ہے اور ان کی حکومت دونوں جگہوں پر دہشتگردوں کو نشانہ بنائے گی۔ گرچہ جان کیری انقرہ میں ترک حکام کو اس بات پر قائل کرنے میں ناکام رہے کہ ترکی داعش کے خلاف بننے والے امریکہ، مغرب عرب اتحاد میں فرنٹ لائن کردار ادا کرے، تاہم ترکی میں امریکی وزیرخارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں چالیس سے زائد ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ ترک وزیراعظم احمد داود نے کہا ہے کہ داعش کے خلاف امریکی فضائی حملے ضروری ہیں تاہم خطے میں سیاسی استحکام اور امن و امان کے قیام کیلئے یہ کافی نہیں ہیں۔   دوسری جانب نومنتخب عراقی وزیراعظم حیدرالعبادی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے خلاف عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں ادا کرے، اقوام متحدہ کو جنگ سے تباہ حال عراق کی بھرپور مدد کرنی چاہیئے۔ اوبامہ حکومت نے عراق و شام میں داعش کے خلاف آپریشن کا ٹاسک جنرل جون ایلن کے سپرد کیا ہے۔ جو کہ افغانستان اور عراق میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف آپریشنز کے انچارج رہ چکے ہیں جبکہ امریکی سفارتکار بریٹ میک گورک کو جنرل ایلن کا نائب مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے داعش کے ہاتھوں امدادی کارکن ڈیود ہینز کے قتل کے بعد داعش کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے سخت اقدام کی دھمکی دی ہے۔ داعش نے چوالیس سالہ ہینز کے قتل کی ویڈیو جاری کی ہے، جس میں ایک نقاب پوش سفاک جنگجو اس کا سرقلم کررہا ہے۔ برطانوی دفتر خارجہ نے اس ویڈیو کے مصدقہ ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اس ویڈیو میں ہینز کے ساتھ کھڑا نقاب پوش قاتل ڈیوڈ کیمرون سے مخاطب ہوکر کہہ رہا ہے کہ اس برطانوی شخص کو آپ کے وعدے کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ اس کے بعد وہ ہینز کا سرقلم کردیتا ہے۔ ویڈیو کے آخر میں نقاب پوش ایک اور برطانوی شہری ایلن ہیننگ کو دکھا رہا ہے اور اس نے دھمکی دی ہے کہ اگر ڈیوڈ کیمرون نے داعش کے خلاف حمایت جاری رکھی تو اس کو بھی اسی انداز میں قتل کردیا جائے گا۔ اس ویڈیو میں مقتول نے اپنے قتل کا ذمہ دار ڈیوڈ کیمرون کو قرار دیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم نے ڈیوڈ ہینز کے بہیمانہ انداز میں قتل کے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کا ملک داعش کے جنگجوؤں کو تباہ کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے گا۔

10 ڈاننگ اسٹریٹ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ہم داعش کو تباہ کرنے کے لیے قدم بہ قدم آہنی عزم کے ساتھ اقدامات کریں گے۔ ہم یہ کام اپنے طور پر نہیں کریں گے بلکہ امریکا اور یورپ کے علاوہ خطے میں موجود اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کریں گے۔ ڈیوڈ کیمرون نے عراق میں داعش کے خلاف امریکا کے فضائی حملوں اور ان جہادیوں سے لڑنے کے لیے صدر براک اوباما کی حکمت عملی کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔  ایک جانب امریکہ داعش کیخلاف بڑی کاروائی کیلئے راہ ہموار کررہا ہے اور حلیف ممالک کو نئی جنگ میں کودنے پر رضامند کرنے کے لیے کوشاں ہے تو دوسری جانب امریکی موقف کو تائید فراہم کرنے کے لیے داعش کی جانب سے سفاکانہ قتال کی وڈیوز بھی دھڑا دھڑ سامنے آرہی ہیں۔ جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہو چکا ہے کہ داعش اسلامی خلافت کے قیام میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے یا عراق اور شام پر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی فوجی کاروائی کی خواہشمند ہے۔ ماضی قریب میں امریکہ جو فوجی کاروائی بشارد حکومت پر زہریلی گیس کے استعمال کا الزام عائد کرکے نہیں کرسکا، وہی کاروائی داعش کو ختم کرنے کے بہانے کرنا چاہتا ہے، اور ’’معصوم داعش‘‘ جہاد اور اسلام سے اتنی ’’مخلص‘‘ ہے کہ امریکی اتحادیوں کی تعداد بڑھانے کے لیے بےگناہوں کے سرکاٹ کاٹ کر وڈیو بناکے ان کی حکومتوں اور لواحقین کو ارسال کررہی ہے تاکہ وہ اس سے عراق و شام میں آکر اس سے لڑائی کریں اور اس کا ’’شوق شہادت‘‘ یا ’’عشق جہاد‘‘ پورا ہو سکے۔ داعش کے کمانڈرز قومیت، لسانیت کے بارے میں بھی بڑے حساس ہیں، انگریزی بولنے والے کا سر انگلش مین کے ہاتھ سے ہی کٹواتے ہیں، اور برطانوی تلفظ میں ہی ان بڑی طاقتوں کو خبردار کرتے ہیں کہ خبردار ہم سے ’’دور‘‘ رہو۔ معلوم نہیں یہ اظہار نفرت ہے یا اقرار محبت، کہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے، داعش امریکہ و مغرب کو عراق و شام سے دور رکھنا چاہتی ہے یا بلانا چاہتی ہے۔  

اول الزکر حالات واقعات سے عیاں ہے کہ امریکہ داعش کے خلاف کاروائی کے نام پر پورے خطے کو بڑی جنگ میں جھونکنے کی تیاریاں مکمل کرچکا ہے۔ یہ جنگ کتنے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے گی، کتنے دورانیے پر محیط ہوگی، کتنی جانیں بھینٹ چڑھیں گی، اس بارے میں تاحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ امریکی وزیر خارجہ نے اس جنگ میں چالیس ممالک کی حمایت حاصل ہونے کا دعویٰ کیا ہے، کیا واقعی داعش اتنی ہی طاقتور ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے چالیس ملکوں کی ضرورت پڑے۔؟ یقیناً ایسا نہیں ہے۔ امریکہ داعش کے بہانے خطے کو ایک نئی جنگ میں جھونک کر اپنے مخصوص اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے، جن میں شام میں اسرائیل دوست حکومت کا قیام، گریٹر کردستان کا قیام، عراق و شام کی سنی و شیعہ ریاستوں کے ذریعے تقسیم، اور اسلحہ کی فروخت کیلئے نئی منڈیوں کا قیام واضح ہیں۔ جبکہ عرب ملکوں کی مثال اس لشکر کی ہے جو میدان جنگ میں ادھار لیکر شراب سے بدمست ہاتھی تو لے آئے مگر داعش نامی وہی ہاتھی جب شام سے پلٹ کر بھاگے تو اپنا ہی لشکر کچلتے ہوئے سعودی محل تک آن پہنچے۔ اب امریکہ اپنے انہی ہاتھیوں کا خوف دلا کر نہ صرف عربوں کو اس جنگ میں براہ راست کودنے پر راضی کرچکا ہے بلکہ جھوٹے سچے خواب دکھا کر جنگی اخراجات کی مد میں وسائل خرچ کرنے پر بھی رضامند کرچکا ہے۔

1999ء میں جماعت التوحید والجہاد نامی تنظیم وجود میں آئی، جس نے 2003ء کے اوائل میں القاعدہ عراق کا روپ اختیار کرلیا۔ یہ وہی وقت تھا جب عراق پر امریکہ نے حملہ کیا تھا۔ رواں صدی کے دوسرے عشرے میں جب حزب اللہ اور حماس کی خطے میں واحد حلیف حکومت (بشاردالاسد) کے خاتمے کے لئے امریکہ زیادہ سرگرم ہوا تو عربوں کے دل میں بھی ایران دوست حکومت کے خاتمے کی خواہش نے شدت سے انگرائی لی۔ جس کے بعد وہی القاعدہ جس کے خلاف ایشیاء میں امریکہ بم برسا رہا تھا، اسی القاعدہ پر عراق میں ڈالر اور اسلحہ کی بارش جاری تھی۔ داعش کے کمانڈروں کا ماضی دیکھیں تو ان میں اکثریت انہی خطرناک دہشتگردوں کی ہے جنہوں نے امریکی قید میں کچھ نہ کچھ عرصہ گزارا ہے۔ یہ امریکی قید کے ’’روحانی اثرات‘‘ کا ہی ثمر ہے کہ ان دہشتگردوں نے نہ صرف بشارد حکومت کے خلاف ’’جہاد ‘‘ کا آغاز کیا، بلکہ اسلامی خلافت کے قیام کا بھی اعلان کرڈالا۔ وہی عراقی القاعدہ جو کہ داعش کے نام سے اپنے وجود کو شام اور عراق کی سرحد میں سمیٹے ہوئے تھی، اس کا حجم اتنا پھیل گیا کہ امریکہ جیسی نام نہاد سپرپاور کو اسکے خاتمے کیلئے چالیس ملکوں کے اتحاد کی ضرورت پیش آئی ہے۔ داعش کے دہشتگردوں نے ہی شام میں داخل ہوکر مختلف دہشتگرد گروہوں کے نام سے مختلف علاقوں میں کاروائیاں شروع کیں۔ جن میں فری سیرین آرمی، النصرہ فرنٹ وغیرہ بھی شامل ہیں۔ بشارد حکومت کے خلاف دہشتگردی نے طول پکڑا، امریکہ سمیت عرب ممالک کو متوقع وقت میں مطلوبہ نتائج نہیں ملے تو وہ کھل کر سامنے آگئے۔ امریکہ نے شام پر حملے کی تیاری کی تو ترکی وغیرہ نے شام کی فضائیہ کے لیے دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کو نو فلائی زون میں تبدیل کردیا۔ اس دوران بھی خلیجی ممالک کی تنظیم کے اجلاس ہوئے، جس میں امریکہ اور مغربی ممالک پر زور دیا گیا کہ وہ شام میں سرگرم ان دہشتگردوں کو اعلانیہ اسلحہ سپلائی کرے۔  (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 409886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش