0
Thursday 30 May 2013 22:52

ایک لاکھ سے زائد برمی مسلمانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق

ایک لاکھ سے زائد برمی مسلمانوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق

برما یا میانمار میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، طاغوتی شکنجوں میں جکڑے عالمی میڈیا اور غلامانہ ذہنیت کے حامل مسلم ممالک کے حکمرانوں کی مسلسل چشم پوشی کے باوجود برما کی روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت انسانی حقوق کے علمبرداروں کے ضمیروں کو مسلسل جھنجوڑنے میں مصروف ہے۔ آج برما کی زمین مسلمانوں پر تنگ کردی گئی ہے، انسانی حقوق کا علمبردار عالمی ادارہ اقوام متحدہ بھی خاموش ہے اور او آئی سی کو بھی سانپ سونگھ گیا ہے۔ واضح رہے کہ ظلم و بربریت کی یہ انتہاء برما میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ 1978ء میں برمی انسان نماء بھیڑیوں نے ہزاروں مسلمانوں کو ملک سے بے دخل کیا۔ یہ مسلمان ہزاروں کی تعداد میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے بنگلہ دیش پہنچے۔ اور آج تو وہ وہاں مہاجرین کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ 

عالمی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق رواں سال 22، 23 اور 24 مارچ کو مظالم کی نئی داستان میں 40 مسلمان شہید اور 60 زخمی ہوئے۔ ظلم صرف یہاں تک ہی نہیں رہا بلکہ مسلمانوں کے کئی گھروں اور مساجد کو بھی ملیا میٹ کردیا گیا۔ اس بربریت کی کہانی میں تقریباً 9 ہزار مسلمان ایک مرتبہ پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے۔ رواں سال اپریل میں 400 انسان نماء وحشی بدھ بخشوں نے اوکان کے علاقہ میں تقریباً 100 سے زائد مسلمان گھرانوں پر حملہ آور ہوتے ہوئے انہیں تہس نہس کردیا۔ قبل ازیں 2009ء کے مسلم کش فسادات کے باعث ایک لاکھ 17 ہزار مسلمان برما سے دربدر ہوئے اور آج بھی برما اور تھائی لینڈ کی سرحد پر قائم 9 خیموں میں کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ عالمی ادارے خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر غفلت برتی گئی تو مون سون کی آمدہ بارشوں اور سیلاب میں ان پناہ گزینوں کا بہہ جانا یقینی ہے۔
 
دوسری جانب تھائی لینڈ کی حکومت بھی روہنگیا مسلمانوں کیلئے یزید وقت ثابت ہو رہی ہے۔ تھائی فوج نے فروری میں برمی مسلمانوں کی 5 کشتیوں کو کھلے سمندر میں جا کر چھوڑ دیا تھا۔ جو سمندری طوفان کی نذر ہو گئیں اور کئی بےگناہ برمی مہاجرین موت کی آغوش میں چلے گئے۔ امن کا پرچار کرنے اور عالمی ایوارڈ سمیٹنے والی آنگ سانگ سوچی بھی برما میں مسلمانوں پر ڈھائی جانے والی قیامت پر مکمل چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں، اور عالمی حقوق انسانی کے نام نہاد علمبردار بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن امریکی صدر اوبامہ برمی حکومت سے جیو اسٹریٹیجک تعلقات بڑھانے میں مصروف ہیں۔ او آئی سی اور عرب لیگ کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے اور کسی کو بھی مسلم آبادی پر ڈھائے جانے والے مظالم پر لب کشائی کی جرات نہیں ہو پا رہی۔

جب انصار برنی جیسے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن لندن میں سفارتخانہ میں درخواست جمع کرانے جائیں تو وہاں سفارتخانہ بند کر دیئے جاتے ہیں۔ آواز بلند کرنے پر لندن پولیس پہنچ جاتی ہے اور انسانی حقوق کے پاکستانی کارکنوں کو برما جانے سے روکا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت مختلف اسلامی ممالک نے بھی خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ پاکستان سمیت بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، بھارت بھی برما کے قریبی ممالک ہونے کے باوجود برمی حکومت پر کسی قسم کا دباو نہیں ڈال سکے۔ بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ برما میں مظالم کا شکار بننے والے مسلمان بنگلہ دیش کے شہری ہیں، جو کئی سال قبل برما جاکر مقیم ہوئے۔ اس کے باوجود بنگہ دیش کی حکومت بھی اپنے ان مظلوم سابقہ شہریوں کی زندگیاں بچانے پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔ 
 
تھائی لینڈ اور برما کی سرحد پر ایک لاکھ 17 ہزار مسلمان صرف 9 خیموں میں انتہائی مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جن میں بچوں اور خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ ان مہاجرین کو نہ کھانے پینے کی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی صحت اور دیگر حوالہ جات کے حوالے سے کوئی ریلیف مل رہا ہے۔ کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ ایک لاکھ 17 ہزار اسانی جانیں انتہائی خطرے میں ہیں۔ اگر ان قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ کیلئے عالمی برادری بلخصوص مسلم ممالک نے آواز بلند نہ کی تو ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے۔ نسلی اور مذہبی تعصب کی عینک اتار کر دیکھنا ہوگا کہ یہ اس وقت خالصتاً انسانی زندگیاں بچانے کا معاملہ بن چکا ہے۔

خبر کا کوڈ : 269171
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش