0
Saturday 30 Aug 2014 18:33
ایران میں موجود امنیت اور ںظافت و نفاست نے بہت متاثر کیا

سنی شیعہ اتحاد کسی بھی سطح پر ہو یہ خوش آئند بات ہے، علامہ عقیل انجم

سنی شیعہ اتحاد کسی بھی سطح پر ہو یہ خوش آئند بات ہے، علامہ عقیل انجم
معروف اہلسنت رہنماء علامہ سید عقیل انجم جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) سندھ کے جنرل سیکرٹری ہیں، آپ انجمن طلباء اسلام پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، آپ کراچی سمیت صوبہ سندھ میں جے یو پی (نورانی) کی فعال ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔ حال ہی میں جمعیت علمائے پاکستان کے ایک خیر سگالی کاروان نے علامہ سید عقیل انجم کی سربراہی میں ایران کا دورہ کیا، ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ سید عقیل انجم کے ساتھ دورہ ایران اور انقلاب مارچ کے دوران سنی شیعہ اتحاد کے منظر کے حوالے انکی رہائش گاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جمعیت علمائے پاکستان کے نمائندہ وفد نے رواں ماہ اگست میں اسلامی جمہوری ایران کا دورہ کیا، کیا تفصیلات ہیں۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ ایرانی تنظیم ”فرزندان روح اللہ“ نے بطور جماعت جمعیت علمائے پاکستان کو ایران کے دورے کی دعوت دی کہ جے یو پی کا ایک نمائندہ وفد ایران کا خیر سگالی کا دورہ کرے، ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا اور انقلاب اسلامی ایران کو بھی سب سے پہلے پاکستان نے تسلیم کیا، دونوں برادر پڑوسی اسلامی ملک ہیں، اس کے باوجود حالات کی وجہ سے دونوں ممالک اور انکی عوام میں وہ تعاون اور ربط نہیں پایا جاتا جو ہونا چاہئیے تھا، ایک جھجک سی پائی جاتی ہے، ہمارا اس دورے کا مقصد دونوں ممالک اور عوام کے درمیان اس جھجک کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہے، جمعیت علمائے پاکستان کا ایران کیلئے 18 رکنی خیر سگالی کاروان میں تمام صوبوں سے نمائندگی شامل تھی، ہماری کوشش رہی کہ کاروان میں علماء کرام نمایاں طور پر موجود ہوں اور دوسرا نشر و اشاعت کے شعبے کے افراد اس میں شامل ہوں، لہٰذا علماء کرام کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کے سیکریٹری نشر و اشاعت اس میں خصوصی طور پر خیر سگالی کاروان میں شامل رہے۔ ایرانی میزبانوں نے ہر قدم پر ہمیں اپنی اچھی میزبانی کا احساس دلایا۔

اسلام ٹائمز: کن اداروں کے دورہ جات کئے اور کن شخصیات سے ملاقات ہوئیں۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
روزانہ کی بنیاد پر ہمارے دو سیشن رکھے گئے، جن میں صبح و شام دو دو جگہوں اور بعض اوقات تین تین جگہوں پر ہمیں وزٹ کرانے کیلئے لے جایا جاتا، زیادہ تر ہم علمی مراکز گئے، موزہ دفاع مقدس اور سینٹرل لائبریری تہران کے دورے ہوئے جو ہمارے لئے حیرت انگیز تجربہ تھا، میلاد ٹاور بھی گئے جو دنیا کی چھٹی بلند ترین عمارت اور ایرانی ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔ ایران میں مختلف علمی شخصیات سے ملاقاتیں ہوئیں، جن میں سرفہرست آیت اللہ شیخ عباس کعبی تھے جو ایک ادارے سربراہ بھی ہیں اور شاید ایرانی مجلس خبرگان کے رکن بھی ہیں، آیت اللہ شیخ عباس کعبی نے بڑی شفقت سے کہا کہ ایران آپکا دوسرا گھر ہے، یہاں آپ کو غریب الوطنی اور گھر سے دوری کا احساس نہیں ہوگا، ایسا ہی ہم نے محسوس کیا، معروف اہلسنت ایرانی شخصیت مولانا اسحاق مدنی سے ملاقات ہوئی، آیت اللہ خمینی کے گھر کے برابر میں قائم مسجد و حسینیہ کے امام جمعہ سے ملاقات ہوئی، بہت محبت اور خلوص کے ساتھ پیش آئے۔

اسلام ٹائمز: ایران کے دورے میں وہاں کی کس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
ایران میں جس چیز نے ہمیں سب زیادہ متاثر کیا وہ امنیت ہے کہ وہاں امن و امان پایا جاتا ہے، سکون ہے، وہاں انصاف ہے، وہاں سکیورٹی گارڈز نہیں ہیں، وہاں کوئی بھی شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ تصور نہیں کرتا، اس چیز نے ہمیں اس دورے میں سب سے زیادہ متاثر کیا، دوسری چیز ایران میں عوام کے اندر جو نظافت و نفاست ہے یعنی وہ صفائی پسند لوگ ہیں، اس چیز نے ہمیں بہت متاثر کیا، اس کے مقابلے میں پاکستانی اتنے صفائی پسند نہیں ہیں اور نہ ہم اتنی امنیت کے حامل ہیں پاکستان میں۔ ایرانی قوم آرٹ و ادب کو پسند کرنے والے لوگ ہیں اور آج سے نہیں، ان کی صدیوں سے تاریخ یہی ہے، آرٹ، فنون لطیفہ میں جتنی ترقی ایران نے کی ہے، دنیا کے دیگر ممالک میں اتنی ترقی نہیں کی گئی، یہ انکا ایک تہذیبی ورثہ ہے، اسکے مقابلے میں پاکستان ایک جدید ملک ہے، اسلئے اسکی جو تہذیبی بنیادیں ہیں وہ اتنی گہری اور قدیم نہیں ہیں جتنی ہونی چاہیئے۔ علمی مراکز کے لحاظ سے ایران نے بے انتہا ترقی کی ہے، ایران کبھی انگریزوں، فرانسسیوں، اطالویوں کی غلامی میں نہیں رہا، ایرانیوں نے تمام جدید علوم کو اپنی زبان فارسی میں حاصل کیا اور اسکا ابلاغ کیا ہے، وہاں پر تعلیم کا تناسب انتہائی بلند ہے، وہاں پی ایچ ڈی کرنے والے محققین کا تناسب بہت زیادہ بلند ہے، جبکہ ایسی صورتحال ہمیں پاکستان میں نظر نہیں آتی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں نظام کی تبدیلی کے نعرے بلند ہیں، نظام کی تبدیلی کیسے ممکن، اس حوالے سے مختصراً کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
نظام کو تبدیل کرنے کیلئے ہر چیز کو تبدیل کرنا ہوگا، اگر ہم کرپٹ انتخابی نظام سے نالاں ہیں تو ہمیں ایک ایماندارانہ نظام لانے کیلئے ایماندار لوگوں کی بھی ایک بڑی تعداد چاہئیے، افراد کو تیار کرنا ہوگا، ایران میں جب کچھ لوگوں نے سوال کیا تھا تو میں نے یہی کہا تھا کہ ایران میں جو اسلامی انقلاب آیا تھا تو آیت اللہ خمینی نے دس بیس ہزار لوگوں کو فعال نہیں کیا تھا بلکہ آیت اللہ خمینی نے کروڑوں لوگوں کی ذہن سازی کی تھی اور انہیں اس بات ہر آمادہ کیا تھا کہ وہ میدان میں نکل کر فعال ہوں اور انقلاب برپا کیا۔

اسلام ٹائمز: انقلاب مارچ میں شیعہ سنی وحدت کے مناظر کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
سنی شیعہ اتحاد کسی بھی سطح پر ہو یہ خوش آئند بات ہے، کسی بھی مقام پر اتحاد اور جوڑنے کا عمل کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو، کتنا کثیر کیوں نہ ہو، یہ خوش آئند ہوتا ہے، اس کو تو ہم ہر مقام پر ویلکم کرینگے، دوسری بات یہ کہ آئندہ یہ جو سنی شیعہ عناصر ہیں یہ جو حقیقی وارثان پاکستان ہیں، یہ پاکستان کی سیاست میں غالب نظر آئیں گے، یہ بات بھی انتہائی خوش آئند ہے، لیکن زمینی حقائق کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ جن لوگوں نے پچاس سال محنت کرکے اپنا سیٹ اپ بنایا ہے وہ اسے آنے نہیں دینگے یا آجائے گا تو برداشت نہیں کرینگے، لہٰذا ہماری تیاری ایسی ہونی چاہئیے کہ ہم آئیں تو نہ جانے کی نیت سے آئیں۔ تیسری بات یہ کہ اس تمام کے اندر بہت بڑا عنصر وہ بھی ہے جس نے ماضی میں افغان جہاد کا اسکرپٹ بنایا تھا اور کچھ قوتیں پیدا کی گئیں جو اب ان کے منہ کو آنے لگیں، اب اس کے ردعمل کیلئے انہوں نے ایک نیا اسکرپٹ تحریر کیا ہے جس کے ذریعے وہ ان عناصر کو لانا چاہتے ہیں جو افغان جہاد کے اسکرپٹ کے نتیجے میں آنے والے عناصر کا رد کر سکیں۔
میری اپنی ذاتی رائے یہ ہے کہ آدمی کو ایجنٹ کا کردار ادا نہیں کرنا چاہئیے جو بھی جدوجہد کی جائے خالص اللہ اور اسکے رسول اور عوام کیلئے کرے، کسی کا ایجنٹ بن کر جدوجہد نہیں کرنی چاہئیے۔ جن لوگوں نے پچاس ساٹھ سالوں سے اپنی ایک اجارہ داری قائم کی ہوئی ہے اور وہ کافی حد تک غالب بھی ہیں، وہ کسی بھی قیمت پر چاہے وہ مذہبی عناصر ہوں یا سیاسی، وہ نہیں چاہیں گے کہ نئے لوگ اس سیٹ اپ میں اپنی جگہ بنائیں اور نمایاں جگہ بنائیں، وہ اس کا ردعمل تو کریں گے، پاکستان اور پاکستان سے باہر بہت ساری قوتیں ہیں جو اس اتحاد اور آنے والی تبدیلی کو ناپسندیدہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ آخر میں، میں ایک بات اور کہنا چاہوں گا کہ علامہ راجہ ناصر عباس صاحب اہل تشیع کے ایک نمائندہ ہیں لیکن وہ جز ہیں کل نہیں ہیں، اسی طرح حامد رضا اور ڈاکٹر طاہر القادری اہلسنت کے نمائندہ ہیں، جز ہیں کل نہیں ہیں، ان دونوں لوگوں کو وسعت قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے دور عناصر جو ان کے ہم مسلک ہیں ان عناصر کو بھی اپنے ساتھ ملانا چاہئیے، تاکہ آواز اور توانا ہوسکے، تحریک کے اندر یکجہتی نظر آئے، کامیابی کی منزل قریب تر آئے۔

اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ انقلاب مارچ کے دوران سنی شیعہ اتحاد نے استعمار کی فرقہ واریت پھیلانے کی سازش جس پر اربوں روپے خرچ کئے گئے اسے ناکارہ بنا دیا، لہٰذا کالعدم تنظیموں کے ذریعے سنی شیعہ اتحاد کی فضاء کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی، کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید عقیل انجم:
مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے کیلئے اسلام دشمنوں نے بہت سرمایہ کاری کی ہے، کچھ ممالک کی جانب سے تکفیری سوچ کو بہت زیادہ پروان چڑھایا گیا، اس موقع پر ہم جتنی رواداری سے کام لیں گے اتنا ہمارا اتحاد کا جذبہ قوی اور کامیاب و کامران ہوگا۔ اب یہ چھوٹا سا بھی اتحاد ہے یہ ایک اندھیرے میں ایک روشنی کی مانند ہے، ایک چھوٹے سے چراغ کی مانند ہے اور یہ ایک بہت ہی خوش آئند بات ہے اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ اتحاد و وحدت کسی بھی سطح، کسی بھی درجہ کا کیوں نہ ہو، خوش آئند بات ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 407259
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش