0
Saturday 1 Jul 2023 06:30

فرانس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ناانصافی

فرانس میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ناانصافی
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

فرانس، جو خود کو تہذیب کا گہوارہ اور دنیا میں انسانی حقوق کے دفاع کا چیمپئین تصور کرتا ہے، حالیہ برسوں میں مظاہرین کے خلاف پولیس کی بربریت کی لہر کا مسلسل سامنا کر رہا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ناانصافیوں میں اضافہ اس ملک میں ایک عام رواج بن چکا ہے۔ منگل (27 جون) کو پیرس کے نواحی علاقے میں فرانسیسی پولیس کی جانب سے نائل ایم نامی ایک 17 سالہ لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے بعد، ملک بھر میں مظاہروں کا ایک نیا دور شروع ہوگیا ہے۔ جمعرات کو مسلسل تیسری رات بھی مختلف شہروں میں ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر آئے اور پولیس کی بربریت کے خلاف اپنی مخالفت کا اعلان کیا۔ پیرس اور دیگر بڑے شہروں میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کی شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز میں جنگ کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔

جیسا کہ فرانسیسی پولیس نے اعلان کیا، ان کی فورسز کو مارسیلی، لیون، پاؤ، ٹولوس اور لِل کے شہروں میں ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جن میں مظاہرین کی طرف سے آگ لگانا اور آتش گیر مواد پھینکنا شامل ہے۔ یہ ایسے وقت ہوا ہے، جب فرانسیسی وزیر داخلہ کے اعلان کے مطابق حالیہ بدامنی سے نمٹنے کے لیے ملک بھر میں تقریباً 40 ہزار پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔ صرف پیرس کی سڑکوں پر 5000 لوگ تعینات ہیں، لیکن اس کے باوجود مظاہرین نے کئی سرکاری دفاتر کو نذر آتش کر دیا۔ پیرس کے مغربی مضافاتی علاقے نانٹیرے میں جہاں نوجوان کو ہلاک کیا گیا تھا، مظاہرین نے کاروں کو آگ لگا دی، سڑکیں بند کر دیں اور پولیس پر اشیاء پھینکیں۔ مظاہرین نے عمارتوں اور بس اسٹاپوں پر "نیل کا بدلہ" کا نعرہ لگایا اور ایک بینک کو آگ لگا دی، جسے فائر فائٹرز نے بجھا دیا، تاکہ آگ کو بینک کے اوپر والی عمارت تک پھیلنے سے روکا جا سکے۔

پیرس پولیس نے اعلان کیا کہ دارالحکومت کے وسط میں موجود نائکی اور زارا کے جوتوں کی دکان کو لوٹ لیا گیا اور اس کی کھڑکیاں توڑ دی گئیں۔ پیرس میں مظاہرین نے نعرے لگائے: "ہم پولیس کے اس رویئے سے تنگ آچکے ہیں۔ یہ مظاہرے نیل کے لیے ہیں، ہم سب نیل ہیں۔" پیرس کے مرکز سے آٹھ کلومیٹر دور کولمار شہر میں مقامی حکام نے پیر تک رات کا کرفیو نافذ کر دیا اور پیرس کے ایک مقامی اہلکار نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق رات 9 بجے کے بعد تمام بس اور ٹرام سروس بند ہو جائے گی، کیونکہ کچھ بسوں اور ٹراموں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ پیرس سے 9 کلومیٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں احتجاج کی آگ سٹی ہال تک پہنچ گئی اور اس عمارت کو نقصان پہنچا۔ یہ آگ فرانسیسی نیشنل اسٹیڈیم کے قریب بھی لگی تھی، جو 2024ء کے پیرس اولمپکس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔

فرانس کے دوسرے بڑے شہر مارسیل میں بھی پولیس نے سیاحتی علاقے میں نوجوانوں کے ساتھ جھڑپوں کے دوران آنسو گیس کے گولے داغے۔ للی، لیون اور بورڈو میں پولیس کے خصوصی دستے تعینات کیے گئے اور گرینوبل میں ایک بس کو آگ لگانے والے مواد سے نشانہ بنایا گیا اور مقامی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ملازمین کو کام  سے روک دیا گیا۔ منگل اور بدھ کی راتوں کو مظاہرین نے پولیس کی بربریت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے اور پیرس اور ٹولوز، للی اور مارسیلے کے مضافات میں متعدد کاروں اور عوامی عمارتوں کو آگ لگا دی۔ مغربی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ ان بستیوں میں کم آمدنی والے خاندانوں کے نوجوانوں نے حالیہ دنوں میں احتجاج کیا ہے، جہاں سرکاری سماجی رہائش کے منصوبے لاگو کیے گئے ہیں۔

فرانس کے وزیر داخلہ جیرالڈ درمانیان نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ فرانس بھر میں ہونے والے مظاہروں میں 900 افراد کو گرفتار کیا گیا اور پولیس کی آنسو گیس کی شیلنگ سے درجنوں مظاہرین زخمی ہوئے۔ اعلان کردہ اعداد و شمار کے مطابق زیادہ تر حراست میں لیے گئے افراد کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان ہیں اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوان اس مسئلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان مظاہروں میں 250 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

احتجاج میں شدت آنے کا خدشہ
لیون، ٹولوز اور بریسٹ سمیت مختلف شہروں میں املاک اور عوامی مقامات کی تباہی کی مقدار نے فرانسیسی شہریوں اور حکام میں ردعمل کی لہر کو جنم دیا ہے۔ پیرس کے مضافات میں سے ایک کے میئر نے کہا کہ خدشہ ہے کہ آنے والی راتوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ مظاہروں کی نئی لہر فرانسیسی سیاست دانوں کے لیے اس قدر تشویشناک ہے کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے دو دن میں دوبار کابینہ کی ہنگامی میٹنگ بلائی۔ میکرون، جو برسلز کے دورے پر تھے، صحافیوں کے ساتھ اپنی پریس کانفرنس کو درمیان میں چھوڑ کر سکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے پیرس واپس آگئے۔ وزیر داخلہ اور فرانسیسی وزیراعظم الزبتھ بورن نے کہا ہے کہ مظاہرین کے خلاف حکومت کا ردعمل بہت مضبوط ہونا چاہیئے، تاہم انہوں نے موجودہ صورتحال میں ہنگامی حالت کے اعلان کے منصوبے کو مسترد کر دیا۔

حکومت کو مشکل صورتحال میں ڈالنے اور نقل و حمل کے نظام کو درہم برہم کرنے والے مظاہروں کی شدت کو دیکھتے ہوئے اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ حکومت آنے والے دنوں میں ہنگامی حالت نافذ کر دے۔ تاہم، میکرون نے بدھ کے روز صحافیوں کو بتایا:"ہمارے پاس ایک نوجوان ہے، جسے مارا گیا ہے اور یہ فعل ناقابلِ بیان ہے اور کسی بھی چیز سے نوجوان کی موت کا جواز نہیں بنتا۔" لیکن میکرون کے بیانات نے مظاہرین کو مطمئن نہیں کیا اور وہ جمعرات کو پوری طاقت کے ساتھ سڑکوں پر آگئے، جو فرانس میں گذشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ افراتفری کی راتوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ بائیں بازو کے سیاست دانوں نے بھی نوجوان کی سزا کی مذمت کی اور امریکی پولیس کے ہاتھوں لوگوں کے مارے جانے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر تنقید کی، جسے انہوں نے "پولیس کی امریکی کاری" کہا۔

کہانی کا آغاز
نئے مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا، جب ایک پولیس افسر نے شمالی افریقی نژاد ایک نوجوان کو اس وقت گولی مار دی، جب وہ پیرس کے نواحی علاقے نانٹیرے میں گاڑی چلا رہا تھا۔ پولیس کی گشتی موٹر سائیکل نے اس 17 سالہ نوجوان کو روکا اور جب نوجوان نے اچانک گاڑی چلائی تو پولیس اہلکار کے ہتھیار سے ایک مہلک گولی چلی اور وہ ہلاک ہوگیا۔ قتل کرنے والے پولیس اہلکار نے دعویٰ کیا کہ یہ نوجوان کار کو روکنے کے بعد ان پر چڑھانا چاہتا تھا، لیکن واقعے کی شائع شدہ ویڈیو میں دو پولیس اہلکار مقتول کی گاڑی کی کھڑکی کے قریب آتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ متاثرہ کار جائے حادثہ کے قریب ایک پوسٹ سے ٹکرائی اور رک گئی۔ اگرچہ قصوروار پولیس اہلکار کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس کے الزامات کی تحقیقات کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے، تاہم مظاہرین پیچھے نہیں ہٹے اور ہر روز اپنے احتجاج کا دائرہ بڑھا رہے ہیں۔

فرانس کے مختلف شہروں میں افراتفری کی صورتحال کی متعدد تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے، سوشل نیٹ ورکس پر صارفین نے لکھا: ’’فرانس کی موجودہ صورت حال گذشتہ ہفتے روس میں ویگنر کی بغاوت کے مقابلے میں بغاوت جیسی ہے، لیکن مغربی میڈیا اس کو کبھی نہیں مانے گا۔ حالیہ مظاہروں کا موازنہ 2005ء کے مظاہروں سے کیا جاتا ہے، جب شمالی پیرس میں پولیس کے تعاقب کی وجہ سے دو نوجوانوں کی کرنٹ لگنے سے ہلاکت ہوئی، جس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے، جو تین ہفتے تک جاری رہے اور آخرکار سابق صدر جیک شیراک نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے ہنگامی حالت نافذ کردی۔

پولیس کی بربریت کے خلاف احتجاج ایسے عالم میں جاری ہے کہ حالیہ برسوں میں میکرون کی حکومتی پالیسیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں۔ ایندھن کی اونچی قیمتوں کے خلاف نومبر 2018ء میں شروع ہونے والے یلیو جیکٹ کے مظاہروں نے میکرون کی حکومت کے خلاف ملک گیر احتجاج کو بھڑکا دیا، جو ایک سال تک ہفتہ وار جاری رہا۔ پچھلے سال، میکرون کی حکومت کے ریٹائرمنٹ کی عمر کو 62 سے بڑھا کر 64 کرنے کے منصوبے نے ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اور فروری سے اپریل تک کم و بیش جاری رہا۔ پنشن قانون کے مسودے کے حوالے سے حالیہ مہینوں کے مظاہروں میں گذشتہ ماہ اپریل میں فرانس کے مختلف شہروں میں 30 لاکھ سے زائد افراد سڑکوں پر آئے تھے۔ ان مظاہروں میں سینکڑوں مظاہرین زخمی اور گرفتار ہوئے جبکہ سکیورٹی فورسز کے سیکڑوں اہلکار بھی زخمی ہوئے۔

فرانس میں تارکین وطن کے ساتھ امتیازی سلوک
فرانسیسی نوجوان کے قتل کو پولیس کی بربریت کے علاوہ کسی اور زاویئے سے بھی پرکھا جا سکتا ہے۔ قتل ہونے والا نائل ایم الجزائری نژاد فرانسیسی شہری مسلمان تھا اور اس کے قتل نے ایک بار پھر تہذیب کا گہوارہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک میں تارکین وطن اور مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک کا ثبوت دے دیا۔ اگرچہ فرانس میں 60 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں، جو ملک کی آبادی کا تقریباً 10 فیصد ہیں، لیکن تارکین وطن کے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا جاتا ہے، وہ فرانس میں امتیازی سلوک، نسل پرستی اور منظم ناانصافی کے وجود کو ظاہر کرتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق تارکین وطن فرانسیسیوں کی طرح کام کے مواقع سے استفادہ نہیں کرسکتے اور بعض اوقات انہیں بھرتی کے عمل میں لمبے عرصے تک بھٹکنے کے بعد منفی جواب ملتا ہے۔ بعض اوقات ماہرین اور تعلیم یافتہ غیر ملکی بھی بے روزگار رہتے ہیں۔ فرانس میں کام کی دنیا میں کسی شخص کے داخلے میں نام، رنگ، نسل، قومیت، لباس اور مذہب ایک ناقابل تردید کردار ادا کرتے ہیں۔

2019-2020ء میں، 46% افریقی تارکین وطن نے فرانس میں غیر مساوی سلوک یا امتیازی سلوک کا شکار ہونے کی اطلاع دی۔ نیز، تارکین وطن کے بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے۔ 2021ء میں، 15 سے 74 سال کی فعال آبادی میں، 14% تارکین وطن خواتین اور 12% تارکین وطن مرد بے روزگار تھے۔ یہ اس وقت ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح ان مردوں اور عورتوں کے لیے 7% ہے، جو نہ تو تارکین وطن ہیں اور نہ ہی تارکین وطن کی اولاد ہیں۔ فرانسیسی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹیٹسٹکس اینڈ اکنامک اسٹڈیز کی ایک تحقیق جس کا عنوان ہے "فرانس میں تارکین وطن اور تارکین وطن کی اولاد" میں کہا گیا ہے کہ تارکین وطن کارکنوں کے پاس اکثر محدود مدتی ملازمت کے معاہدے ہوتے ہیں اور زیادہ تر ملازمتیں ان کے لیے کم فوائد، کم اجرت اور زیادہ مشکل کام کے ساتھ ہوتی ہیں۔

رائٹرز کے مطابق2017ء کے بعد سے پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے زیادہ تر سیاہ فام یا عرب نسل کے شہری تھے، جن میں سے تین 2021ء میں اور دو 2020ء میں ہلاک ہوئے تھے۔ 2020ء میں پیرس کے وسط میں واقع "کیلیس کیمپ" میں کئی سو غیر قانونی تارکین وطن نے خیمے لگا رکھے تھے، فرانسیسی پولیس نے ان تمام خیموں کو پرتشدد طریقے سے اکھاڑ پھینکا اور تارکین وطن کو اس علاقے سے باہر نکال دیا۔ حالیہ برسوں میں فرانسیسی عوام نے ظاہر کیا ہے کہ وہ اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لیے طویل عرصے تک احتجاج جاری رکھنے کے لیے تیار ہیں۔ فرانس کی تاریخ کے کم عمر ترین صدر میکرون اپنے 6 سالہ دور اقتدار میں عوام کو مطمئن نہیں کرسکے اور انہوں نے ہمیشہ کچھ چیلنجنگ منصوبوں کی منظوری دے کر عوام کو اپنی حکومت کے خلاف مظاہروں پر اکسایا اور اس بار پولیس کی بربریت نے نیا چیلنج کھڑا کر دیا۔

موصولہ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مظاہرے ختم نہیں ہوئے اور میکرون کی صدارت کے خاتمے تک جاری رہیں گے۔ فرانسیسی حکومت سینکڑوں مظاہرین کو زخمی اور گرفتار کرچکی ہے، جبکہ گذشتہ سال اس نے اسلامی جمہوریہ کے حکام پر ایران کے بعض شہروں میں داخلی فسادات کی لہر کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ میکرون نے ایران دشمی میں بلوائیوں اور مظاہرین کے رہنماؤں سے ملاقات اور گفتگو کی۔ حالیہ مہینوں میں مظاہرین کے خلاف فرانسیسی پولیس کے تشدد سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانس میں دیگر ممالک کے مقابلے میں انسانی حقوق کی زیادہ خلاف ورزی کی جاتی ہے اور اب یہ سلسلہ منظم شکل اختیار کرچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1066905
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش