0
Thursday 12 Jan 2012 13:21

نیا سال، خدشات اور امکانات

نیا سال، خدشات اور امکانات
تحریر: قاضی حسین احمد 

نیا سال 2012ء پاکستان، امت مسلمہ اور عالم انسانیت کے لئے کیسا ہو گا۔ ہر سال کے شروع ہونے سے پہلے اس کے لئے منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے اور سیاسی معاشی تجزیے بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ پاکستان آج کل جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس کے پیش نظر آنے والا سال ہمارے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ 

امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ باہر کے سرمایہ کار پاکستان میں بدامنی کی وجہ سے یہاں کا رخ نہیں کرتے۔ ملک کے اندر کا سرمایہ بھی مسلسل باہر نکل رہا ہے۔ اہل ہنر اور سرمایہ کار بھی باہر جا رہے ہیں، جو شخص بھی ملک سے باہر نکلنے کی کوئی سبیل نکال سکتا ہے وہ ملک کے اندر رہنے کی بجائے ملک سے باہر رہنے کو ترجیح دیتا ہے، اس طرح ملک سرمایہ اور ہنر مندوں سے خالی ہو رہا ہے بلکہ محنت کش افراد کار بھی ملک سے باہر جانے کے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ امریکہ، یورپ اور خلیجی ممالک کے علاوہ افغانستان جیسے غریب ملک میں بھی روزگار کے مواقع پاکستان کی نسبت زیادہ ہیں، خاص طور پر تعمیراتی کاموں میں روزگار کی تلاش میں محنت کش افراد کار افغانستان کا رخ کر رہے ہیں۔
 
ہم اس پر خوش ہو رہے ہیں کہ بیرون ملک پاکستانی محنت کش زرمبادلہ بھیج رہے ہیں اور اس بات کی فکر کوئی نہیں کرتا کہ ملک کے اندر کارخانے بند ہو رہے ہیں۔ غربت بڑھ رہی ہے۔ افراط زر کی وجہ سے مہنگائی زوروں پر ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ قوم کو مژدہ سنایا جاتا ہے کہ تھر میں کوئلے کے ذخائر اگلے تین سوسال کے لئے ملکی انرجی کی ضروریات پوری کر نے کے لئے کافی ہیں۔ ریکوڈیک میں تابنے اور سونے کے ذخائر اگر استعمال میں لائے جائیں تو اگلے پانچ سال کے اندر اندر غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔ ملک کے شمال میں جو عظیم الشان گلیشیر ہیں وہ میٹھے پانی کے ذخائر ہیں جو دریائی آبشاروں کی صورت میں پن بجلی پیدا کرنے کے لئے طاقت اور قوت کا سرچشمہ بھی ہیں اور پورے ملک کی بنجر زمینوں کو آباد کرنے کا بھی وسیلہ ہیں۔ ملک کی پچاس فیصد آبادی تیس سال کی عمر سے کم جوانوں اور بچوں پر مشتمل ہے جو قوم کا اصل سرمایہ ہے۔
 
یہ سب کچھ درست ہے لیکن ان بے پایاں وسائل اور امکانات کو بروئے کار لانے کے لئے جس سیاسی استحکام، امن و امان، امانت و دیانت اور پر مغز اور روشن خیال قیادت کی ضرورت ہے وہ کہاں سے اور کیسے آئے گی۔ کیا ملک واقعی امین اور دیانت دار لوگوں سے خالی ہے۔ کیا سیاسی اور دینی جماعتیں واقعی بانجھ ہیں۔ جن لوگوں کے ہاتھوں میں زمام کار ہے کیا وہ سب لٹیرے، ڈاکو، چور اور وطن دشمن ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تو مایوسی کیوں چھائی ہوئی ہے۔ 

ایک حالیہ سروے کے مطابق پچاس فیصد ووٹر اتنے مایوس ہیں کہ وہ اگلے انتخابات میں ووٹ استعمال کرنے سے انکاری ہیں۔ جب عام ووٹر سے سوال کیا گیا کہ ملک میں ہر دلعزیز لیڈر کون ہے تو نصف لوگوں کا جواب ہے کہ کوئی نہیں ہے۔ یہ ہولناک خلا جس مایوسی کو جنم دے رہا ہے وہی ہماری قوم کا اصل روگ ہے۔ دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں اور نکلنے کے لئے تدبیر اور جدوجہد کی بجائے امید کا دامن چھوڑ کر بے بسی کا رونا رو رہے ہیں۔ ہمارے قومی شاعر اور مفکر علامہ محمد اقبال نے مثنوی اسرار رموز میں اس مایوسی، حزن اور ناامیدی کو ام الخبائث قرار دیا ہے۔ تمام مشکلات اور مصائب کی جڑ مایوسی، غم اور حزن ہے۔
کچھ مدت پہلے ایک شاعر نے قوم کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ،
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
لیکن اب کیفیت یہ ہے کہ لوگوں نے کسی کے ساتھ جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔
 
عوام جب بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے تنگ آ جاتے ہیں تو اضطراب اور پریشانی کے عالم میں بجلی اور گیس فراہم کرنے کی تنصیبات کو توڑ پھوڑ دیتے ہیں اور اپنے لئے مزید مشکلات پیدا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اپنی حالت بدلنے کے لئے جس بیداری اور فہم و فراست کی ضرورت ہے بدقسمتی سے اس کی شدید کمی ہے۔ ذرائع ابلاغ اور سیاسی تجزیہ نگاروں نے اگرچہ مسائل کا تجزیہ کر کے لوگوں کے سیاسی شعور کی بڑی حد تک آبیاری کی ہے لیکن ساتھ ہی بڑے سرمایہ دار ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے زیر اثر فکری انتشار اور انحراف پیدا کرنے میں بھی ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ ہے۔ 

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی کے لئے تحریک میں وکلاء کے ساتھ ملک کی اکثر سیاسی اور دینی جماعتوں نے بھرپور کردار ادا کیا۔ جماعت اسلامی کے امیر کی حیثیت سے میں نے پوری جماعت اسلامی کو اس تحریک کا ہراول دستہ بنا دیا۔ لیکن چیف جسٹس صاحب نے آج تک اہم مقدمات میں محض وارننگ دینے پر اکتفا کیا ہے۔ NRO کو سیاہ قانون کہنے کے باوجود چار سال سے NRO کے تحت سیاست میں آنے والوں کی حکومت چل رہی ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے کچھ فیصلوں پر عمل کرنے سے انکار کیا ہے اور کچھ فیصلے خود سپریم کورٹ نے معطل رکھے ہیں۔ میمو گیٹ کا بھی یہی حشر ہے۔ سوئس کیسوں کو نئے سرے سے شروع کرنے کے آرڈر پر حکمران پارٹی نے کابینہ میٹنگ میں علی الاعلان عمل درآمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
 
عدالت عظمٰی اور حکمران پارٹی کے درمیان جو کشمکش چل رہی ہے اس کو عام لوگ ایک تماشا سمجھنے لگے ہیں۔ اس طرح کا ایک تماشا نئے صوبوں کی تشکیل کے بارے میں چھیڑا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سزائے موت پر نظرثانی کی درخواست بھی لوگوں کی توجہ اصل مسائل اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی تفتیش سے ہٹانے کی ایک کرتب قرار دی جا رہی ہے۔ دوسری طرف بدانتظامی اور قومی وسائل پر ڈاکہ ڈالنے کے نئے نئے انکشافات سامنے آ رہے ہیں۔ ان میں ایک بڑا انکشاف یہ ہے کہ ملک میں روزانہ آٹھ کروڑ روپے کی گیس چوری ہو جاتی ہے یا مختلف وجوہات کی بناء پر ضائع ہو جاتی ہے جو کُل آمدنی کی تیرہ فیصد بنتی ہے جبکہ دوسرے ممالک میں مختلف وجوہات کی بنا پر گیس کا ضیاع صرف 2 فیصد ہے۔

یہی حال بجلی کا ہے۔ بجلی اور گیس کی چوری کا پورا بوجھ ان صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے جو دیانتداری سے باقاعدگی کے ساتھ ادائیگی کرتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے ان بینک اکاؤنٹس کا کھوج لگانے اور اس سرمایہ کو ملک میں واپس لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جاتی جو ناجائز طریقوں سے بیرون ملک منتقل کیا گیا ہے اخباری اطلاعات کے مطابق یہ رقوم تقریباً پانچ سو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہیں ان اعداد و شمار کے بارے میں حکومت کی طرف سے کوئی وضاحت بھی سامنے نہیں آئی۔
 
اس گھمبیر صورتحال میں مزید تشویش کا باعث بلوچستان کی صورتحال ہے، جہاں بلا مبالغہ سابقہ مشرقی پاکستان کی سی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ تربت سے ایک ساتھی نے صورتحال کا نقشہ کھینچتے ہوئے بتایا کہ پہلے پنجابیوں کو علاقے سے باہر کر دیا گیا اس کے بعد سندھیوں کو اور اب پشتونوں کو نکالنے کی کوشش ہو رہی ہے صرف بلوچی زبان بولنے والے ہی رہ سکتے ہیں، لیکن ان کے سرگرم کارکن بھی محفوظ نہیں ہیں اور آئے دن ان کی لاشیں ویرانوں میں مل جاتی ہیں۔ فوجی طاقت کے استعمال سے اہل وطن کو زیر کرنے کی کوشش کا عبرتناک انجام ہم مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ چکے ہیں، لیکن بدقسمتی سے بلوچستان میں اسی نسخے کو آزمایا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 129665
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش