0
Tuesday 10 Jan 2012 11:12
کیا یہ مسلم اُمہ کی بیداری کا وقت نہیں؟

پاکستان اور ایران کو امریکی جارحانہ دھمکیاں اور ہماری سلامتی کے تقاضے

پاکستان اور ایران کو امریکی جارحانہ دھمکیاں اور ہماری سلامتی کے تقاضے
امریکہ نے دھمکی دی ہے کہ پاکستان میں ڈرون حملوں میں تعطل اسکی کمزوری نہیں، یہ جان لیوا مشین دوبارہ حرکت میں آ سکتی ہے۔ اس سلسلہ میں امریکی اخبار ”نیویارک ٹائمز“ نے امریکی سی آئی اے اور دوسرے حکام کے حوالے سے اپنی گزشتہ روز کی اشاعت میں ایک خصوصی رپورٹ شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ڈرون حملوں میں تعطل اور پاکستان کی ناکافی کوششوں نے شدت پسندوں کو پھر منظم ہونے کا موقع فراہم کیا ہے اور پاکستان میں گزشتہ دو ماہ سے ڈرون حملے نہ ہونے کے باعث القاعدہ اور دوسرے پاکستانی عسکریت پسند گروپوں کی ہمت بڑھی ہے، جس کا نتیجہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافے اور افغانستان میں اتحادی افواج پر کارروائیوں کے خطرے کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند پاکستان اور امریکہ کے مابین کشیدگی سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، تاہم سی آئی اے کو توقع ہے کہ صورتحال کو بدترین ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں 64 ڈرون حملے ہوئے جبکہ 2010ء میں پاکستان میں ہونیوالے ڈرون حملوں کی تعداد 117 تھی۔
 
دنیا کی تھانیداری کا کردار ازخود سنبھالنے والے امریکہ کو صرف مسلم ممالک ہی اپنے جارحانہ، توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنتے نظر آتے ہیں، اس لئے وہ آئے روز کسی نہ کسی حیلے بہانے سے کسی نہ کسی مسلم ریاست کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتا اور اسکی سلامتی کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے۔ اس وقت امریکہ جنوبی ایشیا میں صرف پاکستان ہی نہیں، برادر اسلامی ملک ایران کو بھی آنکھیں دکھا رہا ہے اور اسکی ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی کوششیں، امریکہ سے برداشت نہیں ہو رہیں۔ گزشتہ روز بھی امریکی وزیر دفاع لیون پینٹا نے ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی کوشش کی تو امریکہ اس کا بھرپور جواب دیگا اور آبنائے ہرمز کو طاقت کے بل بوتے پر دوبارہ کھول دیگا۔ پینٹا کے بقول ایران کا یہ اقدام ریڈلائن عبور کرنے کے مترادف ہو گا۔ پینٹا ہی نہیں، امریکہ کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل مارٹن نے بھی ایران کو یہ باور کرانا ضروری سمجھا ہے کہ وہ اپنی ایٹمی صلاحیت کو ایٹمی ہتھیار بنانے کیلئے بروئے کار لائے گا تو اسے زبردستی اس کام سے روک دیا جائیگا۔
 
اس وقت جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر خطوں میں کوئی بھی مسلم ریاست ایسی نہیں جو انسانی حقوق اور امن و سلامتی کے نام نہاد چیمپئن امریکہ کی جنونیت اور اسکے توسیع پسندانہ عزائم سے محفوظ ہو اور انسانیت کیخلاف اسکے جرائم کی زد میں نہ آئی ہو۔ کہیں وہ براہ راست کسی مسلم ملک کی سلامتی کو چیلنج کرتا ہے اور کہیں وہ اپنے کسی طفیلی کی سرپرستی کر کے اس سے اپنے جنونی عزائم کی تکمیل کراتا ہے۔ فلسطین اور لبنان میں امریکی بالشتیئے اسرائیل نے عرصہ دراز سے خلفشار برپا کیا ہوا ہے، جو فلسطین کی آزادی کی راہ میں بھی رکاوٹ ہے۔

عرب ریاستوں تیونس، الجزائر، مصر، لیبیا میں حکومت مخالف خونیں تحریکوں کو بھی امریکی سرپرستی میں فروغ حاصل ہوا، جہاں کی آمریتوں کا تختہ الٹانے کے بعد امریکی من مرضی کا نظام مسلط کرنے کی کوششیں بدستور جاری ہیں۔ خود ساختہ نائن الیون کی آڑ میں امریکہ نے عراق اور افغانستان کو بھی تہس نہس کر دیا، عراق میں دس سال پر محیط جارحیت کے بعد اب امریکی افواج نے وہاں سے انخلاء کیا ہے، مگر اب بھی عراق میں امریکی عمل دخل برقرار رکھنے کی سازشیں جاری ہیں جبکہ افغانستان میں امریکی نیٹو افواج کے 2014ء تک انخلاء کا فیصلہ کرنے کے باوجود امریکہ کی وہاں مستقل قیام کی منصوبہ بندی چل رہی ہے۔
 
اسی تناظر میں پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا گیا ہے، جس کے سابق جرنیلی اور موجودہ سول جمہوری حکمرانوں کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا کر اسکی دھرتی کو ادھیڑا گیا جبکہ اسکے ڈرون حملوں اور اسکے ایماء پر جاری فوجی آپریشن اور اسکے ردعمل میں ہونیوالے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں میں پاکستان سکیورٹی فورسز کے چھ ہزار کے قریب ارکان سمیت اب تک چالیس ہزار سے زائد شہریوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ملکی معیشت کو امریکی دست برد سے پہنچنے والا 70 ارب ڈالر کا نقصان اسکے علاوہ ہے۔
 
اس امریکی ننگی دہشتگردی سے عاجز آ کر ہی پاکستان کی حکومتی اور عسکری قیادتوں نے امریکہ کے ساتھ تعاون کے معاملہ میں اپنی پالیسی کو تبدیل کرتے ہوئے اسکے جارحانہ عزائم کا توڑ کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ سلالہ چیک پوسٹوں پر نیٹو ہیلی کاپٹروں کے حملوں کے بعد نیٹو کی سپلائی روک کر، شمسی ایئربیس خالی کرا کے اور بون کانفرنس میں شریک نہ ہو کر پاکستان کی جانب سے امریکہ کو سخت پیغام دیا گیا اور اسے یہ بھی باور کرا دیا گیا کہ اب پاکستان کی دھرتی پر اسکے ڈرون حملے بھی برداشت نہیں کئے جائینگے۔ 

نتیجتاً امریکہ نے پسپائی اختیار کرتے ہوئے ڈرون حملوں کا سلسلہ روک دیا، جس کے ہمارے لئے مثبت اثرات خودکش حملوں کا سلسلہ رک جانے کی صورت میں برآمد ہوئے ہیں۔ تاہم بچھو کی طرح ڈنک مارنے کی عادت سے مجبور امریکہ اب پھر پیچ و تاب کھاتا نظر آ رہا ہے اور اپنی بے چین روح کی تشفی کیلئے وہ پاکستان ہی نہیں، ایران کو بھی دھمکانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ پہلے اس نے ایران پر یورپی یونین سے اقتصادی پابندیاں لگوانے کی دھمکی دی، جس کے جواب میں ایران نے آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی دھمکی دی، جس کے ذریعے سے دنیا کے 20 فیصد تیل کی سپلائی رک سکتی ہے، چنانچہ اب امریکہ طاقت کے زور پر آبنائے ہرمز کو دوبارہ کھولنے کی ہی دھمکی نہیں دے رہا، ایران کی ایٹمی صلاحیتوں کے حصول کی کوششوں کو بھی سبوتاژ کرنے کے جنونی عزائم کا اظہار کر رہا ہے، جبکہ قومی غیرت کے جذبے سے سرشار ایرانی قیادت اسکی کسی دھمکی اور کسی حربے سے مرعوب نہیں ہو رہی اور جواباً امریکہ کو اس سے بھی زیادہ سخت لہجے میں دھمکی دی جاتی ہے۔

نتیجتاً امریکہ کو آج تک ایران کیخلاف عراق، افغانستان اور پاکستان جیسی جارحیت کرنے کی جرات نہیں ہوئی، جبکہ ایران جاسوسی کے لئے آنے والے امریکی ڈرون کو گرا کر بھی اسکے جارحانہ عزائم کے غبارے سے ہوا نکال چکا ہے۔ اپنے لئے کسی بھی ”ریڈلائن“ سے بے نیاز امریکہ تو جارحیت کا پیغام دینے والا ہر حربہ اختیار کر کے بھی ایران سے اپنے تباہ شدہ ڈرون کا ملبہ حاصل نہیں کر پایا، وہ آبنائے ہرمز بند ہونے کی صورت میں بھی ایران کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گا، کیونکہ ایرانی قوم اپنے باہمت صدر محمود احمدی نژاد کی قیادت میں ہر امریکی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلئے پرعزم ہے۔
 
اگر ہماری حکومتی اور عسکری قیادتیں بھی کسی امریکی دھمکی سے مرعوب ہونے کے بجائے ملکی اور قومی سلامتی کی خاطر ایران کی طرح امریکہ کے سامنے ڈٹ جائیں اور آئندہ کوئی بھی امریکی ڈرون یا حملے کی نیت سے کوئی بھی گن شپ ہیلی کاپٹر پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو تو اسے وہیں پر گرا دیا جائے اور ایران ہی کی طرح اسکے ملبے تک بھی امریکہ کو رسائی نہ دی جائے۔ اس سے یقیناً امریکہ کے ہوش ٹھکانے آئینگے اور دنیا میں اسکی برتری کا ازخود زعم بھی ٹوٹ جائیگا۔ 

حالیہ امریکی دھمکی کے بعد تو اب ضروری ہو گیا ہے کہ قومی دفاعی سلامتی کمیٹی میں امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کے معاملہ میں جو بھی فیصلہ کیا گیا ہے، اس کا فی الفور اعلان کر کے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا جائے۔ نیٹو کی سپلائی زمینی راستے کے ساتھ ساتھ فضائی راستے سے بھی بند کر دی جائے، امریکی سی آئی اے اور بلیک واٹر کی جانب سے یہاں پھیلایا گیا جاسوسی کا نیٹ ورک سمیٹ کر امریکہ کے حوالے کر دیا جائے اور واشنگٹن انتظامیہ کو واضح اور ٹھوس پیغام دیا جائے کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے اور ہماری سلامتی سے متعلق کسی معاملے میں ٹانگ اڑانے سے گریز کرے ورنہ ہم اپنی ایٹمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس کا سارا نشہ ہرن کر دینگے۔ 

اگر خطے کے تمام مسلم ممالک متحد ہو کر اور مشترکہ حکمت عملی کے تحت امریکی جارحانہ، توسیع پسندانہ عزائم کا جواب دینے کا سلسلہ شروع کریں تو اس بدمست ہاتھی کو آئندہ کسی مسلم ملک کے معاملات میں مداخلت کی جرات نہ ہو۔ اس حوالے سے کیا یہ مسلم امہ کی بیداری کا وقت نہیں ہے؟

"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 129085
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش