1
0
Thursday 9 Aug 2012 12:50

ملت پاکستان کا امتیاز، حزب اللہ کی حمایت

ملت پاکستان کا امتیاز، حزب اللہ کی حمایت
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ 

1988ء میں گلگت میں موالیان حیدر کرار (ع) اور پیرو کاران امام خمینی (رہ) کیخلاف ایک بہت بڑا آپریشن کیا گیا، جس کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس آپریشن کی نگرانی اس وقت کا امریکی سفیر ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر خود کر رہا تھا، اس آپریشن کے کئی اور عوامل بھی تھے، لیکن اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا کہ یہ آپریشن گلگت کے غیور مسلمانوں کو امام خمینی (رہ) کے فرمان پر یوم القدس منانے کی پاداش میں سبق سیکھانے کے لیے کروایا گیا تھا۔ اسی طرح 3 ستمبر 2010ء کو کوئٹہ میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے محافظ تکفیریوں نے خودکش دھماکہ کرکے قبلہ اول کی آزادی اور اسرائیل کی نابودی کے لیے آواز اٹھانے والے درجنوں افراد کو شہید کر دیا۔ لیکن پاکستان میں حزب اللہ اور مجاہدین فلسطین کی حمایت میں ذرا بھی کمی نہیں آئی۔ بلکہ ملت پاکستان شہداء قدس کے صدقے اپنے آپ کو لبنان اور فلسطین کے شہداء کے سامنے سرخ رو سمجھتی ہے۔ اس موقع پر قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کا ملت پاکستان کے نام پیغام پوری ملت کے لیے باعث صد اعزاز تھا اور رہے گا۔

فلسطین فائڈیشن پاکستان کی دعوت پر آئے ہوئے حزب اللہ کے سیاسی امور کے سربراہ ڈاکٹر احمد ملی کا یہ کہنا کہ حزب اللہ کے شہید قائد سید عباس موسوی پاکستان کے عوام سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور یہی وجہ ہے آج بھی حزب اللہ پاکستان کے عوام سے بے پناہ محبت اپنے دلوں میں رکھتی ہے، دراصل حزب اللہ کے لیے پاکستانیوں کے دلوں میں موجود محبت کا انعکاس ہے، کیونکہ شائد ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو جو حزب اللہ کو عالم اسلام کا عظیم سرمایہ اور کرہء ارض پر انہیں امام زمانہ (عج) کی حقیقی فوج کا حصہ نہ سمجھتا ہو۔ 

پاکستانیوں کے دل لبنان و فلسطین کے مجاہدین کی محبت سے لبریز ہیں۔ ایک موقع پر ڈاکٹر احمد ملی نے یہ بھی کہا کہ سنہ 1992ء میں حزب اللہ کے عظیم قائد سید عباس موسوی کی اسرائیلی حملہ میں شہادت کے بعد پاکستان وہ پہلا اسلامی ملک تھا اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے سربراہ میاں نواز شریف وہ پہلے اسلامی ملک کے لیڈر تھے کہ جنہوں نے شہید عباس موسوی کی شہادت پر حزب اللہ کو تعزیت پیش کی اور غاصب اسرائیل کی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ 

ڈاکٹر کا یہ کہنا صد در صد درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان جس دن سے وجود میں آیا ہے، بابائے ملت قائداعظم محمد علی جناح نے امریکہ اور بوڑھے استعمار برطانیہ کی لاکھ کوششوں کے باوجود اسرائیل کے ناجائز وجود کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ قائداعظم اگر آج بھی زندہ ہوتے تو دینا کے ہر فورم پر فلسطینیوں کی حمایت کا پرچم بلند رکھتے اور کبھی کسی دباو کو خاطر میں نہ لاتے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر بابائے قوم کے اخلاص اور اصول پسندی کی تعریف کرتے ہوئے حزب اللہ لبنان کے سیاسی امور کے انچارج ڈاکٹر احمد ملی نے کہا کہ پاکستان نے تمام تر سختیوں اور استعمار کے دباؤ کے باوجود اسرائیل کے غاصب وجود کو تسلیم نہیں کیا ہے۔

یہ پاکستانی قوم کا امتیاز ہے اور پوری قوم اس پر متحد اور متفق ہے۔ بارہا کوشش کی گئی کہ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان براہ راست یا کسی کے ذریعے تعلقات استوار ہوں، لیکن مشرف جیسے آمر کو بھی اس کی جرات نہیں ہوئی۔ پاکستانی قوم اسرائیل کو نہ صرف یہ کہ دشمن نمبر ایک سمجھتی ہے بلکہ اسرائیل کی نابودی کے لیے ہونے والی ہر کوشش کی حمایت بھی کرتی ہے۔ ہمارے شہداء پوری دنیا میں ملت عزیز پاکستان کے لیے سرفرازی اور افتخار کا سبب ہیں، جس کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر احمد ملی نے بھی کہا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے لیے نیک اور خاص جذبات ہیں۔
 
پاکستان کی نظریاتی بنیاد علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح نے رکھی، جبکہ اس کی بقا کے لیے مولانا مودودی، علامہ شہید عارف حسین الحسینی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی شخصیات کی کوششیں شامل ہیں۔ یہ اظہارات اس بات کی تصدیق بھی ہیں اور گواہی بھی کہ پاکستان کے اکابرین کے کردار کو امت مسلمہ تسلیم بھی کرتی ہے اور قدر کی نگاہ سے بھی دیکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر احمد ملی کے خیالات اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ حزب اللہ کی کامیابی کا راز عالم اسلام کے حالات اور اسلامی دنیا کے حقیقی کرداروں کی شناخت ہے۔
 
جیسا کہ انہوں نے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے ساتھ سرزمین پاکستان پر ولایت کے سچے سپاہیوں شہید علامہ عارف حسینی اور ڈاکٹر محمد علی نقوی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے بانی مولانا مودودی کو بھی نظریاتی لیڈر قرار دیا۔ خدا کرے کہ مسلم لیگ سمیت تمام سیاسی اور جمہوری قوتیں بابائے قوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فلسطین و لبنان کے مجاہدین کی حمایت سے منحرف نہ ہوں، اور ہم اپنے اسلاف کی قربانیوں کی لاج رکھتے ہوئے پاکستان کی عزت اور شان پر حرف نہ آنے دیں۔

اسی طرح ان کے یہ الفاظ کہ ہمارے جغرافیائی حالات تو ہمیں دور کرسکتے ہیں لیکن ہمارے اور پاکستانی قوم کے نظریات ایک ہیں، جہاں بھی یہ پاکیزہ خون بہے گا، ہم اس کے لیے آواز اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج عالمی سامراجی حکومتیں اور میڈیا کی کوشش ہے کہ مسلمانوں میں مذہبی منافرت اور انتشار پیدا کریں۔ یہ اس پروپیگنڈہ کی نفی کرنے کے لیے کافی ہے کہ فلسطین اور لبنان کے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں کو ہمارے مسائل اور دکھوں سے کوئی سروکار ہی نہیں، لہذا ہمیں بھی ان کی حمایت اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے گھروں سے نکلنے کی ضرورت نہیں۔

اسرائیل بھارت کی طرح پاکستان کا دشمن ہے اور عالم اسلام کے قلب میں واقع اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے اور مسلمانوں سمیت پوری انسانیت کو اس کے شر سے پاک کرنے والے ہراول دستہ حزب اللہ اور مجاہدین حماس کی طرف سے پاکستانی حمایت اور ملت پاکستان کے لیے محبت اور خلوص کا اظہار ظاہر کرتا ہے کہ دنیا میں پاکستان کا امیج خراب کرنے والی صیہونی اور بھارتی لابی کا پرپیگنڈہ فقط پاکستان میں موجود نام نہاد روشن فکروں اور امریکی استعمار کی کاسۂ لیسی کرنے والوں پر صادق آتا ہے، جو دنیا کے کرپٹ ترین حکمرانوں میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ 

جہاں تک ملت مظلوم پاکستان کی بات ہے، ہر پاکستانی سچے دل سے دین مبین اسلام کا شیدائی ہے اور کبھی بھی اسلام کی سربلندی، ملت اسلامیہ کو درپیش مسائل، قبلہ اول کی آزادی اور اسلامی سرزمینوں کی حفاظت سے پاکستان کے عوام غافل نہیں رہے۔ یہ پاکستانی عوام کے پاک دلوں میں موجود خلوص کا اثر ہے کہ پاکستان میں تشریف لائے ہوئے حزب اللہ کے معزز مہمانوں نے پاکستانیوں سے دلی طور پر لگا و کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان آنے کے بعد پاکستانی قوم سے محبت بڑھ گئی ہے، اور ان کا یہ کہنا کہ جس طرح دوسری اقوام ایران و مصر میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں، یہاں بھی سنی و شیعہ مل کر اپنا وظیفہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ بات پاکستان میں شیعہ سنی بھائی چارے کی موجودگی اور تمام مسالک کے درمیان ہم آہنگی کا مظہر ہے اور پاکستانی مسلمانوں میں اتحاد اور باہمی وحدت کے شعور کی طرف اشارہ ہے۔

پاکستان کا چہرہ بگاڑنے والے چاہے وہ جہاد کے مقدس نام پر دہشت گردی کرنے والے ہوں یا بیرونی امداد کے نام پہ عالمی طاقتوں سے ڈالر بٹورنے والے، ملت پاکستان ان سے ہمیشہ بیزار رہی ہے اور اسی لیے اسلام و مسلمانوں کے ازلی دشمن اسرائیل کو منظور کروانے کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دی گی۔ اسرائیل کے ناجائز وجود کے متعلق پاکستانی قوم کی حقیقت پسندانہ سوچ اور تکفیری دہشت گردوں کے متعلق پاکستان کے سنی شیعہ عوام اور اکابرین کی متفقہ رائے کہ وہ دین و امت کے لیے عظیم فتنہ اور برائی کا منبع ہیں اور سید حسن نصر اللہ کا یہ بیان کہ ہمارا خطہ (مشرق وسطیٰ) دو بڑے خطرات سے مواجہ ہے، ایک اسرائیل اور دوسرا تکفیری سوچ، جس کا اسلام، دین، مذہب اور قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں۔ دونوں مناطق کے مسلمانوں کے درمیان فکری ہم آہنگی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔
 
جس طرح سید حسن نصراللہ نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت عالم اسلام اور عرب دنیا میں تکفیری سوچ پھیلائی جا رہی ہے اور بعض عرب ممالک اپنی تیل کی آمدنی سے اس تکفیری سوچ کی حمایت کرنے میں مصروف ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے عوام اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ذمہ دار لوگ بھی پاکستان میں ہونے والی فرقہ وارانہ دہشت گردی اور فوج اور عوام کے خلاف ہونے والے حملوں کو بھارتی، اسرائیلی اور امریکی سازشوں کا شاخصانہ سمجھتے ہیں۔

سب سے اہم نکتہ جو عالم اسلام میں حق کے علمبرداروں بالخصوص حزب اللہ اور پاکستان کے سچے اور نیک دل مسلمانوں کے درمیان نکتہ اتصال بھی ہے اور وجہ انس و محبت بھی۔ وہ ہے حزب اللہ اور پاکستانی ملت دونوں کا ولایت فقیہ پر ایمان۔ جس کے حزب اللہ کے مہمانوں نے بھی ذکر کیا کہ ہماری کامیابی کا راز ولایت فقیہ کی اطاعت ہے۔ ایسے ہی شہید علامہ عارف حسین حسینی اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ شہیدین کی جان تو چلی گئی لیکن دنیا کی کوئی طاقت نائب امام کی اطاعت اور فرمابرداری سے شہیدین کو اور ان کے پیروکاروں کو ہٹانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ:
ہمت ہے گر کسی میں تو میثم سے چھین لے
یہ عشق بوتراب ہے باغ فدک نہیں
خبر کا کوڈ : 186139
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

VERY GOOD ANALYSIS KEEP IT UP
ہماری پیشکش