0
Thursday 23 Aug 2012 10:07

شعور کی بیداری اور دانشمند طبقہ

شعور کی بیداری اور دانشمند طبقہ
تحریر: نذر حافی 

کسی بھی معاشرے میں جب فساد اپنے وجود کا اظہار کرنے لگے تو اصلاح کی ضرورت خود بخود محسوس ہونے لگتی ہے۔ یاد رہے کہ اصلاح کرنے کا عمل کبھی بھی دانشمندوں کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔ ایک اہم بات جو دانشمند طبقے کے پیشِ نظر رہنی چاہیے وہ خدمت اور اصلاح میں فرق کرنا ہے۔ ایک دانشمند کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس نے جس کام میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے وہ اس کام کے ذریعے خدمت کر رہا ہے یا اصلاح۔ معاشرے میں ہر شخص اپنی استعداد اور صلاحیت کے مطابق خدمت انجام دیتا ہے، لیکن اصلاح کرنا ہر شخص کے بس کا روگ نہیں۔ 

مثلاً خدمت کا کام ایک موچی، درزی، ٹیچر، عالم دین اور صحافی سبھی انجام دیتے ہیں، لیکن اصلاح کا کام سبھی انجام نہیں دیتے۔ اصلاح فقط وہی شخص انجام دے سکتا ہے جس کی پورے معاشرے پر نگاہ ہو۔ جو یہ سمجھتا ہو کہ خدمت کے باوجود خرابی کہاں پر ہے۔ اصلاح کرنے والا خدمت کے مراحل سے گزر کر خرابی کے مقامات کو ڈھونڈتا ہے اور ان کی اصلاح کرتا ہے۔
 
جیسے علامہ محمد اقبال (رہ) اگر صرف وکالت کرتے رہتے اور شاعری کرتے تو یہ بھی ایک خدمت تھی، اسی طرح محمد علی جناح (رہ) اگر صرف بے گناہوں کے مقدمات کی پیروی کرتے رہتے تو یہ بھی ایک خدمت تھی۔ ان لوگوں نے صرف خدمت کرنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ یہ خدمت کے مرحلے سے آگے بڑھے۔ انہوں نے پورے معاشرے کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھا اور معاشرے میں موجود فساد کی اصلاح کی۔
 
اسی طرح تاریخ اسلام میں امام عالی مقام حسین (ع) کی مثال موجود ہے۔ اگر سیدنا حسین (ع) ایک دینی مدرسہ کھول کر لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے تو یہ بھی ایک خدمت تھی، لیکن امام خدمت سے آگے بڑھے آپ (ع) نے پوری امت میں موجود فساد کی اصلاح کی۔ اس کے علاوہ حضور اکرم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ جب آپ (ص) چراغِ نبوت لے کر کوہِ حرا سے مکے کی وادی میں اترے تو لوگ تہذیب و تمدن سے عاری تھے، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، چھوٹے چھوٹے مسائل پر سالوں تک لڑتے رہتے تھے، خیانت اور دغابازی کا دور دورہ تھا۔
 
آپ نے لوگوں کو صرف اخلاقیات کے درس نہیں دیئے بلکہ وحشیوں کو انسان بنایا، بیٹی کو احترام بخشا، ضدی اور ہٹ دھرم قبائل کو آپس میں شیر و شکر کر دیا۔ عصر جاہلیت میں طلوعِ اسلام دراصل انسانی شعور کی بیداری کی تحریک تھی۔ البتہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ حضور (ص) نے پہلے دن ہی آکر معاشرے سے ٹکر نہیں لی، بلکہ 40 سال تک اپنے ارد گرد لوگوں کا شعور بلند کیا۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت بلال (ر) کو اُن کا مشرک مالک گرم ریت پر گھسیٹتا اور کوڑے مارتا تھا لیکن اس کے باوجود آپ کی زبان پر صرف ایک ہی کلمہ جاری تھا کہ "اللہ احد"۔ یہ حضرت بلال (ر) اپنے مالک سے ضد نہیں کر رہے تھے بلکہ آپ (ر) کا شعور بیدار ہو چکا تھا، آپ (ر) فکری طور پر توحید کی بلندی اور شرک کی پستی کو سمجھ گئے تھے۔
 
آج ہم بھی اگر معاشرے میں لوگوں کو کوڑے، ڈنڈے اور پتھر مار کر مسلمان بنانے کے بجائے ان کے شعور کو بیدار کریں اور انہیں قرآن و سنت کا پیغام بطریق احسن سمجھا دیں تو آج بھی آگ "انداز گلستان" پیدا کر سکتی ہے۔ اسی طرح مدینے میں حضور (ص) نے عسکری طاقت سے کئی گنا زیادہ توجہ افراد کے شعور کو بلند کرنے پر دی۔ آپ (ص) نے مدینے کے دشمن قبیلوں کی آپس میں صلح کرائی، غیر مسلموں کے سوالات کے جوابات دے کر ادیان و مذاہب کے درمیان مکالمے کا دروازہ کھولا۔ نفرتوں کا جواب محبتوں سے دے کر اور پتھروں کا جواب دلیلوں سے دے کر لوگوں کو اعلٰی انسانی اقدار سے آشنا کیا۔ 

چنانچہ فتح مکہ کے روز آپ (ص) نے اپنے بدترین دشمنوں کو معاف کرکے انسانی عقل کو جھنجوڑا، تاکہ انسانوں کی شکل میں دو ٹانگوں پر گھومنے پھرنے والی یہ مخلوق جان لے کہ تعصب، ضد، قتل و غارت اور انتقام کا نام بہادری نہیں، بلکہ عفو و بخشش کا نام بہادری ہے۔ آپ (ص) نے اپنے چچا حضرت حمزہ (ع) کا کلیجہ چبانے والی ہندہ زوجہ ابو سفیان کو بھی رہا کرکے عالم بشریت کو یہ پیغام دیا کہ وحشت و درندگی کا مقابلہ صبر و متانت کے ساتھ اور بہمیت و ظلم کا مقابلہ شرافت و احسان کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔
 
آپ (ص) نے اپنے سب سے بڑے نظریاتی اور ضدی دشمن ابوسفیان کے گھر کو دارُ الامان قرار دے کر حضرتِ انسان کو یہ پیغام دیا کہ انسانیت کی معراج انتقام میں نہیں بلکہ درگزر میں ہے۔ آپ (ص) کی بزم میں بہت سارے لوگ دلوں میں بغض لے کر بیٹھتے تھے لیکن جب آپ (ص) کے افکار سے آگاہ ہوتے تو مومن بن کر اُٹھتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ آنے والا آپ (ص) کو شہید کرنے کے ارادے سے آیا، لیکن جب اس نے آپ (ص) کی گفتگو سنی تو مسلمان ہو کر پلٹ گیا۔ یہ سب شعور کی بیداری تھی، الفاظ کا جادو نہیں تھا۔
 
خداوند عالم نے حضرت انسان کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے قرآن مجید میں بنی نوع انسان کو بار بار تفکر کی دعوت دی ہے۔ اس دعوت کے سلسلے میں سوشل سائنسز کے اصولوں، بہترین الفاظ اور اعلٰی ترین ادبی معیارات سے کام لیا گیا ہے۔ تاریخ ِ بشریت شاہد ہے کہ سوشل سائنسز، فصاحت و بلاغت اور ادبی اسالیب کو پسِ پشت ڈال کر فکر و شعور کی بیداری کا کوئی بھی خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوسکتا۔
 
ہمیں ہر لحظے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ انسان اپنے انسانی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک معاشرے میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ انسانی دنیا میں انسانی فکر ریل کی پٹڑی کی مانند ہے۔ ریل کی پٹڑی جس طرف جائے گی ریل بھی اسی طرف جائے گی اور اگر کہیں پٹڑی بچھی ہوئی نہیں ہوگی یا خراب ہوگی تو اس طرف ریل کو لے جانے کی کوشش ناکام ثابت ہوگی۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ شعور کے اعتبار سے انسانی دنیا میں بنیادی طور پر تین طرح کے لوگ موجود ہیں۔
1۔ معاشرے کو تشکیل دینے اور تعمیر کرنے والے
2۔ ہوا کے رخ پر زندگی گزارنے والے
3۔ معاشرے کو خراب کرنے اور بگاڑنے والے
 
اب ہم مذکورہ بالا تینوں قسموں کی کچھ وضاحت پیش کر رہے ہیں:
1۔ معاشرے کو تشکیل دینے اور تعمیر کرنے والے
یہ لوگ معاشرے میں اجتماعی شعور کو پروان چڑھانے کے حوالے سے متحرک، فعال، اجتماعی مسائل کا تجزیہ اور لوگوں کی رہنمائی کرتے ہوئے معاشرے کو ایک خاص سمت میں حرکت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر معاشرتی تحریک کے پیچھے انہی لوگوں کا دماغ کام کر رہا ہوتا ہے اور انہیں دانشمند طبقہ کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر دانشمندوں کے مقابلے میں تین طرح کے لوگ سرگرم ہوتے ہیں۔
1۔ پڑھے لکھے مفاد پرست
2۔ نیم پڑھے لکھے
3۔ ان پڑھ مفاد پرست
 
پڑھے لکھے مفاد پرست وہ ہوتے ہیں جو شعوری طور پر کسی معاشرے کو فاسد اور خراب کرنے کی مہم چلا کر اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہ علمی طور پر ٹھوس اور فنی طور پر ماہر ہوتے ہیں۔ یہ اپنے علم و فن کی مدد سے معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ معاشرے کے کمزور پہلوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے باقاعدہ نقشہ بناتے ہیں اور پھر اس نقشے کے مطابق ماحول تیار کرتے ہیں اور پھر ماحول سے بھرپور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔
 
مثلاً بعض مفاد پرست عناصر نے پاکستانی معاشرے کے اس کمزور پہلو کو بھانپ لیا ہے کہ یہاں کے لوگ بغیر کسی تحقیق کے ہر دینی تحریک کی خاطر تن من دھن قربان کرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ پڑھے لکھے مفاد پرست عناصر نے پاکستانی معاشرے کے سکون کو تہہ وبالا کرنے کے لیے ایک دینی نقشہ تیار کیا۔ اس نقشے کے مطابق پہلے ملک میں فرقہ وارانہ ماحول تیار کیا، پھر لشکر، گروپ اور سپاہیں بنائی گئیں۔ پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ بیچارے تو آج تک مسلسل فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں، جبکہ لوگوں کو فرقہ واریت میں استعمال کرنے والے اپنی تنظیموں کے نام تبدیل کرکے اسمبلیوں میں پہنچ گئے اور اپنے آپ کو سیاسی لیڈر کہنے لگے ہیں۔
 
یہ معاشرے میں موجود کشیدگیوں میں اضافہ کرنے کے لیے اختلاف آمیز خبروں اور کالمز وغیرہ کے چربے بنا کر منظرِ عام پر بھیجتے رہتے ہیں۔ حسبِ ضرورت ان کے پڑھے لکھے آقا ان کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں، جبکہ عام لوگ انہیں دانشمند سمجھ کر ان کی عزت و توقیر کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ معاشرے میں معاشرتی سکون کو تہہ و بالا کرنے میں وہ نیم پڑھے لکھے افراد بھی بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، جنہیں خود کسی علم پر عبور نہیں ہوتا بلکہ وہ دوسروں کے نظریات اور آرا کو ہی آگے پہنچانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح ان پڑھ مفاد پرست وہ ہوتے ہیں کہ انہیں جس طرف بھی مفاد کا جھانسہ دیا جاتا ہے، وہ اسی طرف مڑ جاتے ہیں، چاہے دوسروں پر شبِ خون ماریں یا اپنے آپ کو بم دھماکے میں اڑائیں۔
 
2۔ ہوا کے رخ پر زندگی گزارنے والے
دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی اپنی کوئی علمی و فکری بنیاد نہیں ہوتی،یہ یا تو غیرفعال ہوتے ہیں اور یا پھر سنی سنائی باتوں اور گرما گرم خبروں پر ادھر ادھر کی ہانکتے رہتے ہیں، تجزیہ و تحلیل سے عاری ہونے کے باعث اگر یہ کچھ پڑھے لکھے بھی ہوں تو اس کے باوجودان پڑھوں جیسے ہوتے ہیں۔ جدھر کی ہوا چلے یہ بھی ادھر کا رخ کرلیتے ہیں۔
 
3۔ معاشرے کو خراب کرنے اور بگاڑنے والے
تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو اجتماعی شعور کو پروان نہیں چڑھنے دیتے اور معاشرے کے امن و سکون کو تہہ و بالا کرتے ہیں۔ اگر معاشرے میں امن و امان قائم ہو جائے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ سوسائٹی کا پہیہ حرکت میں آئے گا۔ جس کے باعث لوگوں کو اپنے مسائل سلجھانے کے لیے غور و فکر کا موقع ملے گا، باہمی تعلقات کو فروغ ملے گا، افہام و تفہیم کے دروازے کھلیں گئے۔ تعلیم عام ہو گی، ذہنوں سے زنگ اتریں گئے۔ یہ سب کچھ ہونے سے بعض لوگوں کے مفادات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ مثلاً اگر معاشرے میں لڑائی جھگڑے ختم ہوجائیں تو لڑائی جھگڑوں کو نمٹانے والے کھڑ پینچ پھر کیا کریں گئے، اگر میڈیکل سائنس عام ہو جائے تو نیم حکیم کیا کریں گے۔
 
چنانچہ مفاد پرست عناصر اپنے انفرادی یا گروہی مفادات کے لیے معاشرتی امن و سکون کو تہہ و بالا کرنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔ جس طرح دانشمند اجتماعی شعور کو پروان چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح یہ مفاد پرست تخریبی گروہ اجتماعی شعور کو جڑوں سے اکھاڑ نے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی تمام تر سرگرمیاں تازہ خبروں پر سطحی قسم کے تبصرے لکھنے اور کرنے تک محدود ہوتی ہیں۔ آج ایک حادثے پر قلم فرسائی کر رہے ہیں تو کل ایک دوسری خبر پر۔
 
انہوں نے کسی بھی ادارے سے کسی بھی موضوع پر علم و ہنر حاصل نہیں کیا ہوتا، بلکہ یہ تبصرے کرنے کے لئے خبروں کے پیچھے ایسے دوڑتے ہیں جیسے بچے کٹی ہوئی پتنگ کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ چونکہ علمی و فنّی اعتبار سے یہ کھوکھلے ہوتے ہیں۔ لہذا یہ نہ ہی تو خود کسی سکول آف تھاٹ سے وابستہ ہوتے ہیں اور نہ ہی معاشرے پر کسی قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یہ ایشوز ڈھونڈھتے رہتے ہیں، ایشوز پر ہی لکھتے اور بولتے ہیں اور ایشوز کے ساتھ ہی ان کا علم ختم ہو جاتا ہے۔ان کا دماغ ہمیشہ دوسروں کے منفی اور ضعیف نکات ڈھونڈنے اور اچھالنے میں ہی مصروف رہتا ہے۔ چنانچہ یہ لاشعوری طور پر اپنے نام و نمود کی خاطر کبھی صحیح اور کبھی غلط نظریات کے فروغ کے لئے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔

راہِ حل اور نتیجہ
عصر حاضر میں مسلمان دانشمندوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ باہمی تعاون کے ذریعے ایک باشعور معاشرے کو تشکیل دیں۔ آپس کے تعلقات کو فراخدلی اور علم و ہنر کے ساتھ مضبوط کریں۔ معاشرے کے جس پہلو کی اصلاح کرنا چاہتے ہوں، پہلے اس کا علم اور فن ضرور حاصل کریں۔ اس بات پر یقین رکھیں کہ دانشمندی علم حاصل کرنے اور علم کو ہنر میں تبدیل کرکے منظرِ عام پر لانے کا ہی نام ہے۔ مثلاً جو دانشمند پاکستان کے اقتصادی بحران کی اصلاح کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے علم اقتصاد حاصل کر لے، ضروری حد تک اقتصادیات کے مسائل میں صاحبِ نظر ہو اور پھر ان مسائل کا تجزیہ و تحلیل کرکے بہترین ہنر میں ڈھال کر عوام کے سامنے پیش کرے۔
 
اگر وہ اپنے ہنر کا اظہار زبان سے کرنا چاہے تو اسے اسلوب بیان کی مختلف ہنری صورتوں پر عبور ہونا چاہیے۔ مثلاً اسے پتہ ہو کہ وہ کس اسلوب کے تحت اپنی زبان کھول رہا ہے۔ اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ سوشل سائنسز کی کس شاخ کو، ادب کی کس سطح اور تان کو اپنے قلم کی نوک سے چھیڑ رہا ہے، اسے انشاء اور اداریے کا، کالم اور مضمون کا، علامت اور اصطلاح کا ۔۔۔ فرق محلوظِ خاطر رکھنا چاہیے اور انسانی معاشرے میں سوشل سائنسز اور فکر و شعور کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
 
ایک دانشمند کو معلوم ہونا چاہیے کہ کسی پر تنقید کرنے، برا بھلا کہنے یا کسی کے عیوب و نقائص کو اچھالنے سے عوام کا شعور بلند نہیں ہوتا، بلکہ شعور بلند کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق، دلکش پیرائے میں ٹھوس دلائل کے ساتھ بات کی جائے۔ اگر بیان دلکش اور عبارت پرکشش نہ ہو تو بہترین علمی مفاہیم بھی اپنی تاثیر کھو دیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 189304
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش