0
Saturday 15 May 2010 18:46

نیو یارک میں ناکام تخریب کاری اور ہیلری کلنٹن کی دھمکی

نیو یارک میں ناکام تخریب کاری اور ہیلری کلنٹن کی دھمکی
لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
 ایک مغربی تجزیہ نگار Robert Dreyfuss نے 5 مئی کی گلف نیوز میں ایک کالم بعنوان "Don't rush to judgement" یعنی ’’فیصلہ کرنے میں عجلت نہ کریں‘‘ میں ٹائم سکوائر کار بم والے ڈرامے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ".
’’ہو سکتا ہے ٹائم سکوائر بم پلاٹ کے واقعہ کے بعد پاکستانی طالبان نے خود کو اس سے جوڑ لیا ہو،لیکن بہت زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس ناکام ٹائم سکوائر بم پلاٹ کی واردات کے پیچھے کوئی اکیلا بھیڑیا (Lone Wolf) تھا۔لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس واقعہ کی منصوبہ بندی اوباما حکومت کے مخالف دائیں بازو کے انتہا پسند تنظیموں میں سے کسی ایک نے کی ہو۔ساتھ ہی اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’کار بم پھٹتا تو شاید کچھ تباہی پھیلتی،لیکن اس چیز کو بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ چند Propane کے ڈبے کچھ M80 فائر کریکر اور کچھ کھاد کی مقدار سے ایسی تباہی نہیں پھیلائی جا سکتی جس سے ہزاروں آدمی مر جاتے جیسا کہ بہت ہی عجلت میں (Breathlessly) یعنی پھولے ہوئے سانس کے ساتھ سی این این نے نشر کر دیا‘‘۔ رابرٹ نے لکھا:
"Sensible analysis point out convinsingly, that no branch of the Taliban, whether in Afghanistan or Pakistan, has demonstrated either the intention or the capability of striking in such a fashion."
یعنی عقلمند تجزیہ نگاروں کو کامل یقین ہے کہ طالبان کے افغانستان یا پاکستان میں موجود کسی بھی گروپ میں یہ اہلیت نہیں کہ وہ اس طرح کی کاروائی کی اہلیت رکھتا ہو یا وہ اس کا سوچ بھی سکے۔
قارئین کو اس میں شک نہیں ہونا چاہیے کہ 9/11 سمیت کسی بھی بین الاقوامی دہشت گردی میں القاعدہ جیسی بین الاقوامی تنظیم تو ملوث ہو سکتی ہے،لیکن طالبان کسی بھی ایسی واردات میں ماضی میں ملوث نہیں رہے۔افغانستان کے اندر بھی کھوسٹ میں سی آئی اے کے محفوظ ترین ہیڈکوارٹر پر امریکہ کی اپنی اطلاعات کے مطابق حملہ القاعدہ نے ہی کروایا تھا اس کے علاوہ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ 9/11 کے اندوہناک واقعہ کی ذمہ داری بھی کچھ مغربی تجزیہ نگار اسرائیل پر ڈالتے ہیں 25 اپریل کی خلیج ٹائمز میں Maidhc O Cathail نے جاپان سے لکھا :
"Whenever someone insists too strongly about something not being true, we tend to suspect, that may be it is. In their denials of involvement in 9/11, do Israel's apologists "protest too much"?"
یعنی جب بھی کوئی زور دار طریقے سے کسی چیز کی صداقت کو جھٹلاتا ہے تو لگتا یوں ہے کہ یہ بات واقعی سچی ہے ۔ 9/11 کے قابل مذمت المناک واقعہ میں ملوث ہونے کے الزامات پر اسرائیلی apologist حد سے زیادہ سیخ پا ہو جاتے ہیں۔
قارئین امریکی شہری فیصل شہزاد کے نیویارک کے ٹائم سکوائر میں نا مکمل کار بم رکھنے کے اصلی یا جعلی منصوبے کو مغربی اور ہندوستانی ذرائع ابلاغ نے حد سے زیادہ اچھالا ہے اور اس واقعہ کی کڑیاں جس عجلت سے پاکستان سے ملائی گئیں،اس سے دہشت گردی کی جنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک پاکستان کے عوام کے دل بہت دکھے ہیں چونکہ دنیا کے کسی ملک نے بھی دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں اتنی جانی قربانیاں نہیں دیں،جتنی پاکستانیوں نے دیں۔
اسکے باوجود ہمارے زخموں پر نمک پاشی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے یہ کہہ کر کر دی کہ آئندہ ایسا واقعہ ہوا تو پھر پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا۔ساتھ ہی یہ غیر ذمہ دارانہ بیان بھی داغ ڈالا کہ پاکستانی حکام کو اسامہ بن لادن اور دوسرے القاعدہ کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا پتہ ہے ان دھمکیوں کے بعد قبائلی پٹی پر امریکی ڈرون حملوں کی زبردست یلغار بھی شروع ہو چکی ہے جو نہایت قابل مذمت ہے۔
ہیلری کلنٹن سے کوئی پوچھے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ اگر مشرق وسطٰی سے اٹھ کر لوگ 9/11 کا واقعہ کر ڈالیں تو خمیازہ پاکستان کو بھگتنا ہے۔اگر افغانستان میں طالبان مزاحمت کریں تو قصور وار پھر بھی پاکستان ہے اور اگر امریکی شہری امریکہ میں ہی کوئی واردات کردے تو پھر بھی سزا پاکستانی شہریوں کو۔اسکے برعکس امریکہ خواہ ڈرون حملے کرے،عافیہ صدیقی کو پکڑ کر لے جائے یا ملا ضعیف کو مار پیٹ کر تین سال قید میں رکھے اور پھر بے گناہ کہہ کر چھوڑ دے۔یہ سب کچھ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کے باوجود جائز ہے۔
 اسکے علاوہ امریکہ عراق میں امن لا سکا نہ افغانستان میں۔امریکہ کے سی آئی اے کے انتہائی محفوظ دفتر کے اندر گھس کر دہشت گردوں نے انتہائی سینئر آفیسرز ہلاک کر ڈالے۔لیکن امریکہ کی بےبسی دہشت گردوں کو سنگین نتائج سے دوچار نہ کر سکی،اس لیے ایٹمی پاکستان سے یہ ’’پنگا‘‘ نہ لیا جائے۔
پاکستان تو امن پسند ملک ہے جو امریکہ کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔اب اول تو ٹائم سکوائر والا معاملہ اوباما دشمن سفید فام قوتوں اور یہودیوں کی سازش ہے،تاکہ اوباما افغانستان سے افواج کا انخلا شروع نہ کرے یا پھر وہ پاکستان کو شمالی وزیرستان پر حملہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں۔امید ہے پاکستانی حکومت اس دباؤ میں نہیں آئیگی۔
دہشت گردی کا یہ کینسر تو 9/11 کے بعد امریکہ کی غلط پالیسیوں اور جنگجوانہ روش سے ہی پھیلا جس کا سب سے بڑا نشانہ پاکستان بنا۔حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان پر سخت ترین موقف اختیار کرے اور امریکی سفیر کو دفتر خارجہ میں طلب کر کے سخت احتجاج کرے۔
Matthew Harwood واشنگٹن based ایک بہت پائے کا قلمکار اور مصنف ہے جس نے 3 مئی کو گلف نیوز میں ایک کالم لکھا ہے جس کا عنوان ہے "US Foreign policy benifits Al Qaida" یعنی امریکہ کی خارجہ پالیسی ایسی ہے جس سے القاعدہ کو ہی فائدہ پہنچ رہا ہے۔
Harwood کے خیال میں بجائے اس کے کہ ہم (امریکن) اس دہشت گردی کے اسباب کو سمجھ کر ان کو ختم کریں،ہم یہ کہہ کر بات ٹال دیتے ہیں کہ ’’دہشت گردوں کو امریکی آزادی سے نفرت ہے‘‘ ہاروڈ نے لکھا :
’’ 25 سالہ نجیب اللہ کے مطابق وہ ستمبر میں نیو یارک میں ایک سب وے اڑانے کی کوشش میں اپنی جان قربان کر کے دنیا کا دھیان ان مظالم کی طرف دلوانا چاہتا تھا جو امریکی افواج افغانستان میں سولین پر ڈھا رہی ہیں‘‘۔
ہاروڈ لکھتا ہے: ’’جب امریکن میجر نڈال ملک حسن نے اپنے ہی 13 ساتھیوں کو ہلاک کر ڈالا تو انکوائری کے دوران پتہ چلا کہ نڈال نے اپنے ایک لیکچر میں کچھ عرصہ پہلے کہا تھا: ’’ایک مسلمان کیلئے اخلاقی لحاظ سے ایک ایسی فوج میں سروس کرنا بہت مشکل ہوتا جا رہا ہے جو مسلمان بھائیوں کیخلاف بر سر پیکار ہے‘‘ ہاروڈ نے مزید لکھا ’’ایک 23 سالہ نائجیرین عمرفاروق سے جب پوچھا گیا کہ کرسمس والے دن اس نے Detroit جانے والے ہوائی جہاز کو کیوں اڑانا چاہا تو اس نے اسکی وجہ گوانتانا موبے میں مسلمان قیدیوں سے ناروا سلوک بتائی‘‘ آخر میں Matthew Harwood نے لکھا:۔
"It's time for the American people to realise that suicidal terrorism isn't primarily the product of religious fanaticism, but a logical response to US imperialism"
یعنی وقت آ گیا ہے کہ امریکی لوگ یہ مان لیں کہ خودکش حملوں کی وجہ ضروری نہیں کہ مذہبی انتہا پسندی ہو۔لگتا یوں ہے کہ یہ امریکہ کی خود سری کا منطقی جواب ہے۔
اسکے علاوہ مشرق وسطٰی، سنٹرل ایشیا اور دہشت گردی پر کڑی نظر رکھنے والے ایک بین الاقوامی شہرت کے سیاسی تجزیہ نگار Claude Salhani نے 7مئی کے گلف نیوز میں لکھے گئے اپنے ایک کالم میں مندرجہ ذیل نقاط اٹھائے :۔
٭امریکہ میں دریائے ہڈسن کے کنارے پر واقعہ نیو یارک شہر کے وسط میں ناکام تخریب کاری کے ڈانڈے بحر قلزم کے ساحل پر واقع ان بستیوں سے ملتے ہیں جن میں فلسطینی رہتے ہیں۔اسی لیے صدر اوباما نے کچھ عرصہ پہلے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ مشرق وسطٰی کے مسئلے کو حل کرنا امریکہ کے مفاد میں ہے اور قارئین کو یاد ہو گا کہ اپنی صدارتی مہم میں صدر اوباما نے یہ بھی کہا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن قائم کرنے کیلئے کشمیر کے مسئلے کا حل بھی ضروری ہے۔پتہ نہیں امریکن اب یہ کیوں بھول گئے ہیں۔
٭مغربی صحافی کے مطابق مشرق وسطیٰ میں امن مشن کی ناکامی اور پھر جنگی زون کے مشرق وسطیٰ سے وسطی ایشیائی (CAR) ریاستوں تک پھیلا دینے سے اس جنگ کے شعلے جلد یا بدیر شمالی امریکہ کی گلیوں تک ضرور پہنچنے تھے۔
٭صحافی لکھتا ہے کہ نیو یارک کے عظیم شہر کے باسی خوش قسمت ہیں کہ انکے ساتھ وہ سلوک نہیں ہو رہا جو بغداد،کابل اور لاہور کے باسیوں سے ہو رہا ہے،لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ اگر دہشت گردی اسی طرح چلتی رہی تو ایک دن دہشت گرد نیو یارک میں بھی اسی طرح کامیاب ہونگے،جیسے وہ لندن،پیرس،میڈرڈ،بارسلونا،استنبول، فلسطین اور جکارتا میں کامیاب ہوئے۔
٭کلیڈسلہانی نے کہا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کا طریقہ ایک ہی ہے
"Attacking the core root of, why terrorist behave, the way they do. Take away their raison detre and you take away the problem"
یعنی خشک ٹہنیوں پر یلغار کرنے کی بجائے درخت کی دیمک زدہ جڑوں کا علاج کرنے سے ہی مسائل حل ہو سکیں گے،اس لیے یہ ضروری ہے کہ قبائلی پہاڑیوں سے سر ٹکرانے کی بجائے فلسطین، افغانستان،عراق اور کشمیر میں بسنے والے لوگوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور مروجہ بین الاقوامی قوانین کے تحت باعزت زندگی بسر کرنے کا حق دیا جائے۔
 "روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 25928
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش