3
0
Sunday 28 Jul 2013 23:51

علی (ع) اور عدالت

علی (ع) اور عدالت
تحریر: ابن عمار

امیر المومنین علی (ع) کی شہادت کی خبر سن کر سارے عرب اور کوفہ میں ایک کہرام سا مچ گیا تھا لیکن سب سے زیادہ کہرام کچھ ٹوٹے ہوئے دلوں میں تھا جن میں چند یتیموں، بیواوں اور بے کسوں کے دل تھے، جو انیس رمضان کی شب سے منتظر ہیں لیکن کوئی ان کے لیے کھانا نہیں پہنچاتا، لیکن ان بچوں کو کیا خبر تھی کہ ان کے مسیحا و محسن کو مسجد کوفہ میں لہو لہان کر دیا گیا ہے۔ ایک ایسے امام عادل کو شہید کر دیا گیا جس کے جانے کا غم سب سے زیادہ دنیا کے مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کو ہوا۔ علی علیہ السلام نے ایسا عدل قائم کیا کہ بڑے بڑے جلیل القدر اصحاب بھی، جن میں مولا کے برے وقت کے ساتھی بھی تھے، وہ بھی علی علیہ السلام کو چھوڑ کر امیر شام کی جھولی میں جا گرے تھے۔ 

سنت الہی کے نفاذ میں علی علیہ السلام نےکبھی رتی برابر مصلحت سے کام نہ لیا اور نتیجہ کی پرواہ کئے بغیر کہ اب لوگ ساتھ چھوڑ جائیں گے، ہمیشہ عدل و انصاف قائم کیا اور خود فرمایا کہ عدل کے بغیر حکومت کرنے سے علی کو اپنا یہ پھٹا پرانا جوتا زیادہ عزیز ہے، جس کی کوئی قیمت نہیں اور بعد میں امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے اس قول کو اپنے عمل سے ثابت کر دیا۔ امام علی (ع) کی حکومت کا ابھی پہلا دن اور ابتدائی گھنٹے تھے، لوگ مسجد میں جمع تھے اور مولا منبر پہ بیٹھ کر سب سے پہلا حکم منافقین کو معذول کرنے کا دیتے ہیں، ابن عباس حیران و پریشان علی علیہ السلام کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی سوالیہ اور حیرت سے پھٹی پھٹی آنکھوں کو دیکھ کے مولا سمجھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ابن عباس! تم یہی سوچ رہے ہو کہ میں ذرا صبر کرتا اور اپنی حکومت پر پہلے گرفت مضبوط کر لیتا؟ نہیں میں ہرگز ایسے لوگوں کو برداشت نہیں کرسکتا۔ 

اسلام نے پہلے دن سے لے کر آج تک کبھی بھی بیرونی دشمن سے شکست نہیں کھائی، جو اس کی کمزوری و سلامتی کے لئے خطرہ کا باعث بنی ہو۔ اسلام نے ہمیشہ اندرونی دشمنوں سے چوٹ کھائی ہے، وہ لوگ جو مومنین کے لباس میں پہلی صفوں میں ہوتے ہیں، وہ لوگ جو ظاہراً انقلابی ہوتے ہیں مگر اپنے باطن میں دشمنوں سے ملے ہوتے ہیں، وہ لوگ کہ جن کے بارے میں قرآن میں سورہ منافقون نازل ہوئی ہے، وہ لوگ کہ جن کے بارے میں بتایا گیا ہے جب یہ مومنین سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور تمہارے ساتھ ہیں مگر جب تنہائیوں میں اپنے ساتھیوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو صرف ان کا مذاق اڑاتے ہیں، ہم تو ہمیشہ سے تمہارے ساتھ ہیں۔ وہی لوگ کہ جن سے امام علی علیہ السلام نے جنگیں کیں، وہی لوگ کہ جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امام حسن علیہ السلام کو تنہا چھوڑ گئے، وہی لوگ، وہی تفکر کہ جس کا خاتمہ کرنے کے لئے امام حسین علیہ السلام اپنے تمام جان نثاران کے ساتھ میدان کربلا میں نبردآزما ہوئے اور اپنے خون سے تلوار پہ فتح پائی۔
 
وہی لوگ جو ولی خدا امام راحل کی موجودگی میں مستقبل کے منظر نامے میں خود کو ولی امرالمسلمین جہاں دیکھنے لگے۔ ہاں ان جیسے لوگ واقعاً ان کی شناخت بہت مشکل ہے۔ وہی لوگ کہ جو آج بھی ہماری صفوں میں موجود ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ وہ افراد جنہوں نے اتنی قربانیاں دی ہوتی ہیں، ایک دن ایسا کرتے ہیں؟ ان میں سے ایک قسم کا گروہ تو جانتے بوجھتے ہوئے اپنے مفادات کی خاطر ایسا کرتے ہیں، یہ دشمن کے افراد ہوتے ہیں اور نفوذ کرکے اندر آئے ہوتے ہیں، تاکہ اندر کی باتیں اپنے آقاؤں کو پہنچائیں۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جو شروع میں واقعاً اہل ایمان ہوتے ہیں، ہر طرح کی قربانی، ایثار و فداکاری سے گریز نہیں کرتے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ مادی خواہشات کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔
 
اتنی قربانیاں دینے کے باوجود جب اپنے اردگرد نگاہ ڈالتے ہیں، اپنے ہم عصر، ہم پیالہ و ہم نوالہ افراد کو بھرپور خوشحال زندگی گزارتے دیکھتے ہیں، تو متزلزل ہوجاتے ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ ان کی تمام فداکاریوں کے باوجود ان کو اہمیت نہیں دی جا رہی، ان کی بات نہیں سنی جاتی، یا پھر اہانت و حقارت کی جاتی ہے اور اپنے گروہ، پارٹی سے ٹھکرا دیا جاتا ہے تو مایوسی کے عالم میں رازوں کو افشاء کرتے ہیں اور دشمن سے مل جاتے ہیں۔ عمر ابن سعد جیسا شخص نواسہ رسول خدا کو قتل کر ڈالتا ہے، کیونکہ وہ "رے" کی حکومت چاہتا ہے، وہ "رے" کہ جس کی حدود عراق، ایران اور افغانستان تک پھیلی تھی، جہاں سے آنے والے مال نے اہل کوفہ و اہل مدینہ کو سالوں تک کسی کام سے بے نیاز کر دیا تھا۔

جب عمر بڑھتی جائے تو تزکیہ نفس بھی بڑھتا جائے، انسان اپنے تمام اعمال کی بنیاد خوشنودی خدا کو قرار دے تو مایوسی نہیں ہوتی، اور انسان لقاء اللہ کی منزل کے حصول کے لئے تادم مرگ اس جادہ خاکی پہ چلتا جاتا ہے۔ اسی جادہ حق پہ انسان کا ساتھ دینے کے لئے انبیاء آئے ہیں، تاکہ تزکیہ نفس کریں اور اسطرح ان مادی خواہشوں کی جڑوں کو دلوں سے اکھاڑ پھینکنے میں عوام کی راہنمائی کریں، اگر تزکیہ نفس نہ ہو تو یہ خواہشات کے بیج نفس کی سرزمین میں پڑے رہتے ہیں اور جب کہیں مناسب حالات مہیا آتے ہیں تو اسلام، اخلاق کی تمام حدوں کو عبور کرتے باہر آجاتے ہیں اور ایسا کام سرزد کراتے ہیں کہ تقویٰ و عظمت کے آسمان سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ 

تاریخ میں بڑی بڑی شخصیات کے قتل میں ہمیشہ اندر کے افراد کا ہی ہاتھ رہا ہے۔ خود امیرالمومنین علی علیہ السلام کی شہادت اور اگر ملت پاکستان کی بات کی جائے تو سب سے پہلے ایک سچے پیروکار علی ابن ابی طالب علیہ السلام سالار شہداء پاکستان علی ناصر صفوی شہید کا نام ذہن میں آتا ہے۔ جان بوجھ کر منافقت کرنے والوں سے ہوشیار اور مادی خواہشات کے تحت متزلزل ہونے والے افراد کی جائز ضروریات کا خیال رکھ کر ایسی کمر شکن مصیبت سے بچنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ شاید حزب اللہ کے اندر دشمن کا نفوذ نہ ہونے کی ایک وجہ ان افراد کی جائز ضروریات کا پورا کیا جانا ہے۔ ہم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتے، جب تک ان افراد کی شناخت کرکے اپنے سے دور نہیں کرتے۔

جب تک ہم مصلحتوں کو ایک کنارہ پر رکھ کر ایسی کالی بھیڑوں کو عیاں نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ آپ ایسے لوگوں کو چھوڑ دیں، ان کے لئے خدا کافی ہے، وہ خود ان سے بدلہ لے گا۔ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ سنت الہی کے خلاف ہے، یہ امام علی علیہ اسلام کی سنت کے خلاف ہے۔ مولا نے یہ نہیں دیکھا کہ میری حکومت قائم رہتی ہے یا نہیں، فوراً ایسے افراد کو باہر نکالنے کا حکم دیا، یہ نہیں سوچا کہ میری تنطیم مشکل کا شکار ہوجائے گی، میرا مدرسہ اور اس کے فنڈز خطرے میں پڑ جائیں گے، میرے دوست رشتہ دار ناراض ہوجائیں گے۔ کہا کہ ایسے افراد کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اس عدالت کا نتیجہ مسجد کوفہ میں بہنے والے اس پاک خون سے ہم نے دیکھا۔

فزت و رب الکعبہ کی منزل ایسے نہیں ملا کرتی۔ جیسے جیسے مراتب کے حوالے سے اداروں میں، تنظیموں میں، گروہوں میں، پارٹیوں میں، حزبوں میں افراد اوپر جاتے ہیں، ویسے ویسے ان کا تزکیہ نفس بھی اوپر نہ جائے تو یہ مشکل ختم نہیں ہوگی، اسی لیے تو خدا نے قرآن کریم میں نو قسمیں کھانے کے بعد فرمایا کہ ''قد افلع من زکھا'' بیشک وہ کامیاب ہوا جس نے نفس کو پاکیزہ کیا'' اور شاید دعائے کمیل، ابو حمزہ ثمالی، مناجات، ہر ماہ کی دعائیں اور موقع کی مناسبت سے دعائیں اور صحیفہ سجادیہ کی دعائیں پڑہنے کی اسے لئے زیادہ تاکید کی گئی ہے کہ یہ انسان کو خدا سے منسلک رکھتی ہیں۔

 جب تک علی کا طرز زندگی، منافقت کی موت ہے، شعار سے عملی شکل اختیار نہیں کرتا، عارف حسین الحسینی ایسے ہی شہید ہوتے رہیں گے، ڈاکٹر محمد علی نقوی اور انکے باوفا ساتھی علی ناصر صفوی اپنی اہلیہ سمیت ایسے ہی مظلومیت سے تنہا دشمن کا آسان ہدف بنتے رہیں گے اور شہداء کے پاک خون کی تجارت کرنے کے بعد اور شہید محرم علی اور شہید شہزاد حیدری جیسے فرزندان اسلام اور عاشق امام زماں علیہ السلام جن کی خدمات ملت پر قرض ہیں، ان کو ایک ظالم و جابر کہنے والے مومنانہ لبادہ اوڑھ کر اور شہداء کے پاک خون سے تجارت کرنے کے بعد پھر سے ایسے افراد پہلی صفوں میں ان کی یاد میں منعقد ہونے والی مجالس میں یاحسین یاحسین کا ماتم کرکے اپنی وفاداریاں ثابت کرتے اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 287718
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
vip:.:.:.جب تک ہم مصلحتوں کو ایک کنارہ پر رکھ کر ایسی کالی بھیڑوں کو عیاں نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ آپ ایسے لوگوں کو چھوڑ دیں، ان کے لئے خدا کافی ہے، وہ خود ان سے بدلہ لے گا۔ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ سنت الہی کے خلاف ہے، یہ امام علی علیہ اسلام کی سنت کے خلاف ہے۔ مولا نے یہ نہیں دیکھا کہ میری حکومت قائم رہتی ہے یا نہیں، فوراً ایسے افراد کو باہر نکالنے کا حکم دیا، یہ نہیں سوچا کہ میری تنطیم مشکل کا شکار ہوجائے گی، میرا مدرسہ اور اس کے فنڈز خطرے میں پڑ جائیں گے، میرے دوست رشتہ دار ناراض ہوجائیں گے۔ کہا کہ ایسے افراد کو ایک لمحہ کے لئے بھی برداشت نہیں کرسکتا اور اس عدالت کا نتیجہ مسجد کوفہ میں بہنے والے اس پاک خون سے ہم نے دیکھا۔
بہت خوب تحریر ہے۔ ماشاءاللہ
وفا نقوی
بہت خوب ۔۔۔
ہماری پیشکش