0
Friday 20 Mar 2015 21:09

غزہ کی صورتحال اور دنیا کی بے وفائی

غزہ کی صورتحال اور دنیا کی بے وفائی
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


مقبوضہ فلسطین کی غزہ پٹی پر گذشتہ برس غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ 50 روزہ جنگ کے خاتمے کو لگ بھگ ایک سال کا عرصہ مکمل ہونے والا ہے، اس پچاس روزہ اسرائیلی جارحیت میں غاصب صیہونی رژیم نے سفاکیت اور دہشت گردی کے تمام تر ریکارڈز کو توڑ دیا ہے، دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہوگا جس نے غزہ کے مظلومین پر ہونے والی ہولناک اسرائیلی دہشت گردی پر اشک باری نہ کی ہو، یا صیہونی جارحیت کی مذمت نہ کی ہو، اس جنگ میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دو ہزار سے زیادہ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا گیا، جن میں معصوم بچوں سمیت خواتین اور بزرگ افراد بھی شامل ہیں، درجنوں رہائشی عمارتوں پر میزائلوں کی بارش کر کے ان عمارتوں کو زمین بوس کر دیا گیا، اسپتالوں کو بھی معاف نہیں کیا گیا کہ جہاں مظلوم زخمی فلسطینیوں کو طبی امداد فراہم کی جاتی تھی۔ ان اسپتالوں کو بھی اسرائیلیوں نے بمباری کا نشانہ بنایا، اسکولوں کی عمارتوں کو عین اس وقت نشانہ بنایا جاتا رہا کہ جب معصوم بچے علم حاصل کرنے میں مشغول تھے، اسی طرح اقوام متحدہ کی زیر نگرانی چلنے والے مراکز صحت سمیت اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ان پچاس روز میں صیہونی غاصب ریاست اسرائیل نے جیسے قیامت برپا کر دی ہو اور فلسطینیوں کو باور کروایا گیا کہ فلسطین کی زمین جو کہ ان کی آبائی سرزمین ہے ان پر تنگ کر دی گئی ہے اور اب یا تو وہ مارے جائیں گے یا پھر جبری طور پر اپنے وطن فلسطین کو چھوڑ کر ہجرت کر جائیں، لیکن ان تمام تر سختیوں اور مصائب کے باوجود دوسری طرف ملت فلسطین نے استقامت اور پائیداری کا مظاہرہ کیا اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، اگرچہ یہ نہتے ہی تھے لیکن جذبہ ایمانی سے سرشار فلسطینی قوم امریکی سرپرستی میں دہشت گردانہ کاروائیاں کرنے والی صیہونی جارح ریاست کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۔ بہرحال پچاس روز کے بعد اسرائیل کو فلسطینیوں کی شرائط کے مطابق جنگ بندی کرنا پڑی اور ایسی صورتحال میں کہ جو مقاصد جنگ سے قبل بیان کئے گئے تھے جن میں غزہ پر مکمل اسرائیلی تسلط سمیت فلسطین سے اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس، جہاد اسلامی، پاپولر فرنٹ اور حزب اللہ کی معاونت کو کچلنا تھا، یہ سب اسرائیلی منصوبے ناکام ہو گئے۔ لیکن دوسری طرف بہت بڑے پیمانے پر کہ جس کا اندازہ بھی لگانا شاید مشکل کام ہو، غزہ میں بسنے والی اٹھارہ لاکھ عوام کا نقصان ہوا، جس میں ان کے گھر تباہ و برباد ہو گئے، ان کے کھیت اجڑ گئے، ان کے باغات کو بنجر کر دیا گیا، اور اس طرح کئی ایک دیگر مسائل اور مشکلات پیدا ہو گئیں جس کا ازالہ کیا جانا شاید فلسطینیوں کے بس میں نہ تھا۔

یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر میں بشمول یورپی ممالک میں انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی سرکاری و غیر سرکاری تنظیمیں ہوں یا پھر یورپی ممالک سمیت عرب ممالک ہوں کہ جنہوں نے بلند وبانگ دعوے کئے تھے کہ وہ غزہ کی ازسر نو تعمیر کا کام شروع کریں گے اور مظلوموں کا جو نقصان ہوا ہے اسے پورا کریں گے، اس حوالے سے مصر میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس سمیت فلسطینی اتھارٹی اور مصری حکومت کے مابین ایک معاہدہ بھی طے پایا تھا کہ جس میں فلسطینیوں کی مدد کے ساتھ ساتھ مصر رفح کراسنگ کو امدادی سرگرمیوں کے لئے کھولے گا تاہم آج ایک سال کا عرصہ قریب ہونے کو ہے لیکن غزہ میں بسنے والوں اور غزہ کی حالت اسی طرح ابتر ہے جس طرح جنگ کے ایام میں تھی۔ قاہرہ میں ہونے والے بین الاقوامی معاہدے سے اہلیان غزہ کافی خوش ہوئے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ چلو شکر ہے! ان کا صبر آخر ضائع تو نہیں ہوا، ان کی مزاحمت آخر رنگ لے آئی، خدا نے ان کی مصیبت وبلا کا اجر عطا کیا، کوئی تو ان کے دکھ میں ان کیساتھ کھڑا ہوا، تا کہ ان کی مدد کی جائے، ان کے ساتھ تعاون کیا جائے، انہوں نے سوچا تھا کہ ان کے دشمن انہیں آخر زیر نہیں کر سکا، نہ دشمن کے عسکری تباہ کن ہتھیار انہیں مغلوب نہیں کر سکے، اس لئے کہ وہ فی الحال تو نہ صرف اپنے اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے بلکہ اپنی غلطیوں کا محاسبہ کرنا شروع کیا۔

دشمن تو اب اپنی قیادت کی کوتاہیوں کی ملامت کر رہا ہے، اپنی فوج کی کمزوری کا عتاب کر رہا ہے، اپنی پولیس کی سستیوں پر برا بھلا کہہ رہا ہے، غزہ والوں کو اب یقین ہوا ہے کہ ان کے ارادے اب بہت مضبوط چکے ہیں، ان کے عزائم سخت ہو چکے ہیں، ان کی اپنے موقف پر ثابت قدمی اب نہیں ڈگمگائے گی، اپنے اصولوں سے اس طرح متمسک ہوئے ہیں کہ کبھی لغزش کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک نے اپنے کانوں اور آنکھوں کو مکمل طور پر بند رکھا ہے اور ان کو کسی مظلوم کی چیخ و پکار سنائی ہی نہیں دیتی اور یہی وجہ ہے کہ نہ وہ کسی کی فریاد کو پہنچتے ہیں اور وہ نہ کسی کے رونے سے پریشان ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی گریہ و زاری انہیں ان کی نیندوں سے اٹھا پاتی ہے، ان کی ضمیر مردہ ہو چکے ہیں، دوسری جانب اگرچہ بیمار اپنے بستر پر بے یارو مددگار تڑپ رہے ہوں، لوگ سڑکوں پر مر رہے ہوں، بچے گھروں اور ہسپتالوں میں چیخیں مار رہے ہوں، بازاروں سے آگ کے شعلے اور دھواں آسمان کی طرف بلند ہو رہا ہو، ویران و تباہ گھروں کے ملبوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے بچے دبے ہوں، لیکن پھر بھی دنیا کا ضمیر ہے کہ جاگنے والا نہیں۔ آج دنیا کو فلسطین پر بالعموم جبکہ غزہ پٹی پر بالخصوص غاصب اسرائیل کی جانب سے آئے روز جاری مظالم وجارحیت نظر نہیں آتی، نہ ہی اسے یہاں کی پوری آبادی پر تباہ کن محاصرے کے نتائج نظر آتے ہیں، آج غزہ ہر طرف سے محاصرے میں ہے اور اس کی صورتحال دن بہ دن بد سے بدتر ہو رہی ہے۔

آج ہر روز گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت حال تبدیل ہوچکی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان مظلوموں کی نہ تو کوئی سننے والا ہے اور نہ ہی کوئی ان کی داد رسی کر نے والا ہے، اور یہ حقیقت ایسی ہے کہ کوئی اسے جھٹلا بھی نہیں سکتا ہے اور نہ دیکھنے والا انکار کر سکتا ہے۔ اس لئے کہ زمین پر حقائق واضح ہیں، جسے مزید تشریح و بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، سو اب تصویر عیاں ہے، شہادتیں تاکید کے ساتھ گواہی دے رہی ہیں، باشندوں کی شکایات بڑھ رہی ہیں، ان کے غیظ و غضب کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، اس لئے اب عام صورت حال بہت ہی سخت ہو چکی ہے، لوگوں کے حالات مایوس کن ہو چکے ہیں، اس لئے جن ممالک نے وعدے کئے تھے ان میں سے کسی کی طرف سے اب تک کوئی وعدہ وفا نہیں ہوا ہے، نہ ہی کوئی تباہ شدہ گھروں کی تعمیر عمل میں آئی ہے اور نہ ہی زمین سے دشمن کی جانب سے ڈھائے گئے آثار ہٹائے گئے ہیں، تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں کے ڈھیر اب تک اپنی جگہ جمع ہیں، کھنڈرات میں تبدیل شدہ سڑکیں اسی حالت میں موجود ہیں، ادارے اب تک بند پڑے ہیں، علاقے میں نہ کوئی بلدیاتی سطح پر اور نہ مقامی سطح پر کوئی کام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، اس لئے ان کے پاس کسی بھی قسم کی کوئی امکانیات ہی موجود نہیں ہیں، نہ کوئی مال و زر ان کے پاس ہیں جو نظام زندگی کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 448909
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش