1
Thursday 21 Apr 2016 00:59

امیرالمومنین علیہ السلام کی حیات طیبہ ۔۔ چند سبق

امیرالمومنین علیہ السلام کی حیات طیبہ ۔۔ چند سبق
تحریر: ارشاد حسین ناصر

13 رجب المرجب کی مناسبت سے دنیا بھر میں مولائے متقیان امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ کی کعبہ میں ولادت با سعادت کا جشن منایا جا رہا ہے، رسول خدا کا معروف فرمان ہے کہ اے علی تجھ سے محبت نہیں کرے گا مگر حلالی اور تجھ سے دشمنی نہیں کرے گا مگر حرامی (مفہوم) اس لحاظ سے آج دنیا بھر میں حلالی و حرامی کی پہچان کا دن ہے، جو جو اس دن با خوشی و مسرت مبارکباد دے رہا ہے اور اظہار مسرت و شادمانی کر رہا ہے، وہ حلالی ہے اور جسے یہ دن سخت لگ رہا ہے اور اسے تکلیف محسوس ہو رہی ہے، وہ پکا حرامی ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا۔ حضرت ابوطالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔ آپ کے مشہور القاب امیرالمومنین، مرتضٰی، اسد اللہ، یداللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ جبکہ آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔

حضرت علی علیہ السلام ہاشمی خاندان کے وہ پہلے فرزند ہیں، جن کے والد اور والدہ دونوں ہاشمی ہیں۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے۔ جواں مردی، دلیری، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔ روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس تشریف لائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کرکے عرض کیا: پروردگارا! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر، تیری طرف سے نازل شدہ کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم علیہ السلام کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔

پروردگارا! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچہ کے حق کا واسطہ جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما، ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا کہ کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار، عباس بن عبدالمطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافتہ ہوئی، فاطمہ بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوبارہ اصلی حالت میں متصل ہوگئی۔ فاطمہ بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مہمان رہیں اور تیرہ رجب دس سال قبل از بعثت کو بچہ کی ولادت ہوئی۔ ولادت کے بعد جب فاطمہ بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دو بارہ شگافتہ ہوئی، آپ کعبہ سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا: میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے کہ اس بچے کا نام علی رکھنا۔

حضرت علی علیہ السلام تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم کے پاس آگئے۔ کائنات کے رسول نے ہی آپ کی تربیت فرمائی اور بچپن سے لیکر جوانی تک اور جوانی سے لیکر رسول خاتم کے اس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے تک مولائے کائنات نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ اگر دقت نظر کی جائے تو رسول کا یہ ساتھ کربلا کے میدان میں فرزند زہرا و علی ؑ بھی نبھاتے نظر آتے ہیں۔ یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم ہی تھے جنہوں نے ایک موقعہ پر حضرت علی علیہ السلام کے ہاتھوں کو پکڑ کر بلند کیا اور فرمایا: من کنت مولاہ فھذا علی مولاہ۔ جس جس کا میں مولا ہوں، اس اس کے یہ علی مولا ہیں۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم نے آخری حج سے واپسی پر غدیر کے مقام پر تاریخی اجتماع میں اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی۔ اس کے بعد لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام کو اس منصب ولایت کے لئے مبارک باد دی اور آپ کے ہاتھوں پر بیعت کی۔

امیر المومنین ؑ کو دنیا میں مجموعہ اضداد شخصیت کے طور پر پہچانا اور لکھا جاتا ہے، یعنی آپ ہی وہ شخصیت ہیں جن میں بیک وقت ایک دوسرے کی ضد صفات پائی جاتی ہیں، کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مصلٰی عبادت پر محو رہنے والا علی میدان کارزار کا شہسوار بھی ہے، اس کی شجاعت و بہادری کا ڈنکا عالم عرب میں بجتا ہے، اسے یہ کمال بھی حاصل ہے کہ اس کے خطبات اور اقوال ایسے فصیح و بلیغ ہوں کہ آج تک اہل علم و ادب انہیں ادب و زبان کی گہرائیوں کے عنوان دیتے ہیں اور اہل علم ان سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ کی انہی بلند صفات و کمالات کی بدولت رسول خاتم صلی اللہ علیہ و آلہِ وسلم آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ کبھی اللہ کا نبی یہ فرماتے تھے کہ "علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔"

کبھی یہ فرمایا کہ "میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔ کبھی یہ فرمایا کہ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے۔ کبھی یہ مژدہ سنایا کہ "علی کو مجھ سے وہی نسبت ہے، جو ہارون کو موسٰی سے تھی۔ کبھی یہ فرمایا: علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے، جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السلام کو نفسِ رسول کا خطاب ملا۔ رسول خدا کی طرف سے یہ اعزاز کسی اور کے حصہ میں نہ آیا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کا دروازہ کھلا رکھا گیا۔ جب مہاجرین و انصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السلام کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں سوا لاکھ حاجیوں کے مجمع میں علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کرکے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا مولی اور سرپرست ہوں، اسی طرح علی بھی تم سب کے مولا و سرپرست ہیں۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور تمام مسلمانوں نے علی علیہ السلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر نے علی علیہ السلام کی ولی عہدی اور جانشینی کا اعلان کر دیا ہے۔

امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد سارا کا سارا بیت المال آپ کے ہاتھ میں تھا۔ ایک روز آپ کے بھائی عقیل آئے اور کہا کہ مقروض ہوں اور اس کی ادائیگی سے عاجز ہوں۔ ’’ علی ؑ نے فرمایا: خدا کی قسم! میرے پاس فی الحال اتنے پیسے بھی نہیں کہ تیرا قرض ادا کروں، صبر کر میں آخری حد تک تیرا ساتھ دوں گا۔ عقیل ؑ نے کہا کہ بیت المال آپ کے اختیار میں ہے۔ (یہ گفتگو دارالامارہ کے اوپر ہو رہی تھی) نیچے بازار کی طرف اشارہ کرکے مولی نے عقیل سے کہا بازار میں جاؤ اور دکانداروں کے پاس بھرے ہوئے صندوق پڑے ہیں ان کو توڑ کر رقم نکال لو۔ عقیل نے کہا اے امیرالمومنین ؑ آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں لوگوں کے صندوق توڑ کر رقم نکا لوں، جبکہ انہوں نے خدا پر توکل کرکے اپنی دولت کو صندوقوں میں چھوڑا ہے۔ مولا علی ؑ نے فرمایا: کیا تو مجھے کہہ رہا ہے کہ بیت المال جو کہ ان مسلمانوں کا مال ہے اور خدا پر توکل کرکے اسے بند کیا ہے، کھول دوں، اگر چاہتا ہے تو تلوار اٹھا، میں بھی تلوار اٹھاتا ہوں، دونوں حیرہ شہر چلتے ہیں، وہاں امیر لوگ زیادہ رہتے ہیں، کسی ایک کے گھر پر حملہ کرکے اس کے مال کو لوٹ لیتے ہیں۔ عقیل ؑ نے عرض کیا۔ کیا چوری کریں؟ علی ؑ نے فرمایا: ایک آدمی کے مال میں چوری کرنا اس سے بہتر ہے کہ تمام مسلمانوں کے مال میں چوری کی جائے، چونکہ بیت المال تمام مسلمانوں کا مشترکہ مال ہے۔

ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک روز آپ کے سگے بھائی عقیل نے مولا علی ؑ سے بیت المال میں سے مدد کی درخواست کی، علی ؑ نے فرمایا روز جمعہ تک صبر کرو۔ عقیل نے روز جمعہ تک صبر کیا نماز جمعہ کے بعد مولا علیؑ نے عقیل ؑ سے کہا کہ یہ تمام مسلمان جو نماز جمعہ کے لئے جمع ہوئے ہیں، ان کے ساتھ اگر کوئی شخص خیانت کرے تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ عقیل ؑ نے کہا ایسا کرنے والا بہت برا شخص ہوگا۔ مولٰی نے فرمایا تو مدد کی درخواست کے ذریعے چاہتا ہے کہ میں بیت المال میں سے تجھے تیرے حق سے زیادہ دوں، یعنی مجھے حکم کر رہا ہے کہ ان مسلمانوں کے ساتھ خیانت کروں۔ ایک اور واقعہ یوں رقم ہے کہ ایک بزرگ شخص (بنام عاصم بن میثم) مولا کی خدمت میں آیا، مولا بیت المال کی تقسیم میں مشغول تھے۔ مولا کے قریب آکر کہنے لگا، میں بوڑھا اور کام کرنے سے عاجز ہوں، مجھے زیادہ دیں۔ مولا علی ؑ نے فرمایا: خدا کی قسم یہ مال میں نے مزدوری سے اکٹھا نہیں کیا اور نہ ہی مجھے اپنے باپ سے وراثت میں ملا ہے، بلکہ یہ (مسلمانوں کی) امانت ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ حدود کی رعایت کروں۔ پس پیر مرد پر احسان کی خاطر حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا، خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرے، جو اس ضعیف ناتواں کی مدد کرے، اس طرح علی ؑ کے کہنے پر بہت سے لوگوں نے اس بوڑھے شخص کی مدد کی۔

* عصر خلافت کے دوران چند ایرانی جو کہ عربوں کے غلام تھے اور مولا نے انہیں آزاد کرایا تھا، کوفے میں موالی اور حمراء کے نام سے جانے جاتے تھے ہر روز مسجد میں آتے اور مولٰی سے فیض حاصل کرتے۔ عربوں میں بہت سے انا پرست تھے، مانند ’’اشعث بن قیس‘‘ جو عجمیوں کو حقیر سمجھتا تھا۔ مولا علی ؑ سے کہنے لگا ’’اے امیرالمومنین ؑ یہ افراد (حمراء) تیرے سامنے ہمارے اوپر مسلط ہوگئے۔ آپ ان کا راستہ کیوں نہیں روکتے۔ میں ان کو روکوں گا اور دکھاؤں گا کہ عرب کیسے ہوتے ہیں؟ حضرت علی ؑ نے فرمایا: یہ عرب جو کھا پی کر نرم بستر پر لیٹ جاتے ہیں اور حمراء (ایرانی) گرمی کے دنوں میں ضروریات زندگی کی خاطر محنت کرتے ہیں، تم چاہتے ہو ان زحمت کشوں کو میں اپنے سے دور کر دوں ہرگز ایسا نہ ہوگا۔

یہ واقعہ بھی آپ کی زندگانی و حیات میں بہت سے پردے فاش کرتا ہے اور ہمارے بزرگان، عوام و ملت نیز حکمرانوں کیلئے بہت سے سبق سموئے ہوئے ہے، مگر افسوس کہ۔۔۔۔ ایک روز مولٰی علی ؑ زمانہ خلافت کے دوران شہر کوفہ سے گذر رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک خاتون پر پڑی، جو پانی سے بھری مشک کو کاندھے پر لادے گھر کی طرف جا رہی تھی، آپ فوراً آگے بڑھے اور اس سے مشک لے کر اپنے شانوں پر رکھ کر اس کے گھر تک آئے، یہ عورت علی ؑ کو پہچانتی نہ تھی، مولا نے راستے میں حال دریافت کیا تو کہنے لگی علی ابن ابی طالب نے میرے شوہر کو سرحد کی حفاظت کی خاطر بھیجا تھا، دشمنوں نے اسے مار ڈالا، میرے بچے یتیم ہوگئے، اب کوئی سرپرستی کرنے والا نہیں ہے، میں فقیر و تنگ دست ہوں۔ مجبوراً مجھے لوگوں کی کنیزی کرنا پڑتی ہے، جو تھوڑی بہت مزدوری ملتی ہے، اس سے اپنے اور بچوں کے لئے غذا کا انتظام کرتی ہوں۔ مولٰی علی ؑ مشک کو اس کے گھر پہنچا کر واپس آئے، آپ نے یہ رات انتہائی اضطراب میں گزاری۔

آدھی رات کے وقت ایک تھیلے کو غذا سے پرُ کرکے اس عورت کے گھر پر آئے، راستے میں کئی شناسا لوگوں نے کہا امیرالمومنین ؑ تھیلا ہمیں دے دیں، ہم اٹھا لیتے ہیں، مولٰی نے فرمایا ’’روز قیامت میرے وزن کو کون اٹھائے گا؟ اگر آج اس وزن کو اٹھاؤں گا تو کل قیامت کا وزن ہلکا محسوس ہوگا۔ مولٰی اس عورت کے گھر پہنچے، دستک دی، اندر سے اس عورت نے پوچھا کون، مولٰی نے کہا ’’میں وہی غلام ہوں، جو دن میں مشک اٹھا کر لایا تھا۔ دروازہ کھول میں بچوں کے لئے غذا لایا ہوں، عورت نے کہا خدا تجھ سے راضی ہو۔ مولٰی گھر میں داخل ہوئے اور اس سے کہا کہ آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے کا کام تو کر بچوں کو میں سنبھالتا ہوں یا اس کے برعکس کر لیتے ہیں، عورت نے کہا مناسب یہی ہے کہ میں کھانا بناؤں اور آپ بچوں کو سنبھالیں۔ الغرض مولٰی نے اپنی ڈیوٹی سنبھالی اور اس دوران اپنے ساتھ لائے ہوئے گوشت کو خرما کے ساتھ چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر بچوں کو کھلاتے اور کہتے جاتے، اے بچوں علی ابن ابی طالب کو معاف کر دو۔

آٹا گوندھنے کے بعد، عورت نے کہا اے بندہ خدا تنور کو روشن کر، مولٰی نے لکڑیوں کو جمع کرکے تنور میں ڈالا، آگ لگائی اور اپنے چہرے کو شعلوں کے نزدیک کرکے فرمایا ’’ذق یاعلی! ھذا جزاء من ضیع الاوامل والیتامیٰ‘‘ اے علی ؑ حرارت کے مزے کو چکھ، یہ کسی کی بیوہ اور یتیم بچوں کے حق کو تباہ کرنے کی جزا ہے۔ اسی دوران پڑوس کی ایک عورت گھر میں داخل ہوئی، جو مولٰی کو پہچانتی تھی، اس عورت سے کہنے لگی یہ مرد تو امیرالمومنین ؑ علی ابن ابی طالب ہیں، جیسے ہی اسے پتہ چلا، آگے بڑھی اور اظہار شرمندگی کرنے لگی۔ مولٰی آپکی شان میں گستاخی ہوگئی، مولٰی نے فرمایا ’’بل واحیاء منک یا امۃ اللہ فیما قصرت فی امرک‘‘ بلکہ میں تجھ سے شرمندہ ہوں اے کنیز خدا تیرے معاملے میں میں نے کوتاہی کی۔

ذرا سوچیں، آج ہمارے شہداء و مخلصین کے حق میں کون کون کوتاہی کا ارتکاب کر رہا ہے۔ جو لوگ اجتماعی ذمہ داریوں پر فائز ہیں، انہیں مولا کی سیرت اپنانے کے ایسے ہزاروں مواقع ملتے ہونگے، مگر کون کتنا درد رکھتا ہے، سب ہی جانتے ہیں اور سب ہی پہچانتے ہیں۔ آپ یتماء کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے اور ان کیلئے کس قدر احساس و درد رکھتے تھے، اس بارے بہت سے واقعات امیر المومنین کی زندگی میں ہمیں ملتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت علی علیہ السلام یتیموں اور غمزدہ افراد کے ساتھ بہت مہربانی اور محبت سے پیش آتے تھے۔ ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور ان کا خیال رکھتے تھے۔ آپ نے یتیموں کے سلسلے میں انتہائی سنجیدہ نصیحت فرمائی ہے۔ آپ فرماتے ہیں، تمہیں خدا کی قسم یتیموں کو فراموش نہ کرنا، ان کے لبوں کو غذا کے انتظار میں نہ رکھنا، خیال رہے کہ وہ بھوکے نہ رہ جائیں اور تمہاری موجودگی میں ان کے حقوق ضائع نہ ہوں۔

ایک دن امام علی علیہ السلام کا ایک دوست کچھ مقدار میں شہد اور انجیر حضرت کے لئے لایا۔ حضرت علی علیہ السلام نے حکم دیا کہ اسے یتیموں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے اور پھر آپ بنفس نفیس ان کے پاس بیٹھ گئے، ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے شہد اور انجیر ان کے منہ میں دیتے تھے۔ لوگوں نے عرض کی کہ آپ کیوں یہ کام کر رہے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا "امام یتیموں کا باپ اور ان کا سرپرست ہوتا ہے، میں یہ کام اس لئے انجام دے رہا ہوں، تاکہ ان میں بے پدری کا احساس نہ ہونے پائے۔ افسوس آج ہماری قوم امما کے نام پر ایک ایک جلسے میں لاکھوں لگا دیتی ہے، نذر و نیاز کے نام پر ضرورت سے کہیں زیادہ خرچ کر دیتی ہے، مگر ان کے دروازے پر اگر کوئی پیرو امیرالمومنین چلا جائے تو ان سے ملاقات ہی ممکن نہیں ہوتی۔ یہ مایوس ہو کر واپس آجاتے ہیں۔ کتنے ہی ایسے مومن ہیں، جو اپنی بچیوں کو بیاہنے سے قاصر ہیں کہ ان کے پاس اس کا خرچ نہیں، کتنے ہی ایسے ذہین طالبعلم ہیں، جن کے پاس اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کیلئے وسائل نہیں اور کوئی انہیں مدد کرنے والا بھی نہیں ملتا۔ یہ سوچنے کی باتیں ہیں۔ ذرا سوچیئے کہ آپ کے پاس، اڑوس پڑوس میں کوئی بھوکا تو نہیں سوتا، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر کسی مولا ؑ کے ماننے والے کو چین کی نیند کیونکر آ جاتی ہے۔؟
خبر کا کوڈ : 534503
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش