0
Friday 2 Sep 2016 10:35

امریکہ نے بھارت اور افغانستان سے تعلقات میں پاکستان کو نظرانداز کر دیا

امریکہ نے بھارت اور افغانستان سے تعلقات میں پاکستان کو نظرانداز کر دیا
تجزیہ: ابوفجر لاہوری

پاکستان کے اندرونی اور خطے کے حالات نے ایک بار پھر نئی کروٹ لی ہے اور صورتحال میں خاطر خواہ تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں۔ 2 ہفتوں کی بندش کے بعد افغانستان کی طرف سے بالآخر سمجھداری کا مظاہرہ کیا گیا اور جھنڈے کی توہین پر تحریری معذرت کرکے مستقبل میں ایسے کسی واقعہ کے نہ ہونے کا بھی یقین دلایا گیا، جس کے بعد چمن کے باب دوستی کو کھول دیا گیا اور 15 روز سے بند ٹریفک بحال ہوگئی۔ اگرچہ اس دوران بھارت کی تجویز پر افغانستان سے بذریعہ ہوائی جہاز فروٹ بھارت بھیجے گئے، بھارت نے ٹیکسوں کی شکل میں رعایت بھی دی۔ اگرچہ یہ انتظام کیا گیا، اس کے باوجود ٹرانزٹ ٹریڈ والی سہولت نہیں تھی۔ بھارت کی طرف سے ہر ممکن کوشش ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ رہے، اب تو اس کیساتھ امریکہ بھی شامل ہوگیا ہے۔ جان کیری کہتے ہیں کہ امریکہ، بھارت اور اب افغانستان خطے میں اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ پاکستان کو دہشتگردوں کا صفایا کرنا چاہیے کہ دہشتگردی سے پاک بھارت تعلقات متاثر ہوتے ہیں۔

ان حالات میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کہتے ہیں کہ پاکستان بہتر پوزیشن میں ہے اور یہ تاثر درست نہیں کہ ہم اکیلے ہیں۔ حقائق ان کے سامنے ہیں، بہت سے امور ہمارے سامنے نہیں ہوں گے، تاہم جو کچھ سامنے ہے، جان کیری کے دورہ بھارت، وہاں میڈیا سے بات اور امریکی ترجمان کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ حالات میں تبدیلی ہے۔ اب تو چینی میڈیا نے بھی مستقبل کے حوالے سے یہی نشاندہی کی ہے کہ چین اور پاکستان کیساتھ روس اور ایران کے شامل ہونے کے مواقع ہیں، ہم نے اس میں ترکی کو بھی شامل کیا ہے کہ اب ترکی اور روس کے تعلقات میں بہتری ہوئی اور امریکہ سے دوری ہو رہی ہے۔ گذشتہ روز وزیراعظم محمد نواز شریف گوادر میں تھے، وہاں انہوں نے کئی منصوبوں کے سنگ بنیاد رکھے۔ انہوں نے بہت خوش کن گفتگو کی۔ بتایا کہ گوادر ایک عالمی شہر بننے جا رہا ہے۔ انہوں نے ایئرپورٹ اور ہسپتال سے لے کر سڑکوں اور موٹروے کا ذکر کیا اور بتایا کہ یہاں 50 ہزار افراد کیلئے روزگار کے مواقع بھی ہوں گے۔ انہوں نے چین اور پاکستان کی دوستی اور چین کی طرف سے تعاون اور امداد کا بھی ذکر کیا ہے۔ یہ بالکل درست ہے کہ گوادر بہرحال ایک بڑی بندرگاہ اور انٹرنیشنل سٹی بنے گا اور یہی وہ مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے حالات میں تبدیلی ہو رہی ہے اور امریکہ سمیت بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔

وزیراعظم نے پاکستان کیساتھ چین کا بھی ذکر کیا، جو بجا ہے، چین نے بھی سب سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا اور گرم پانیوں تک رسائی حاصل ہوگی تو اس سے معیشت اور اقتصادیات میں جو عالمی فائدہ چین کو ہے، وہ بہت بڑھ جائے گا، اب یہی سب سرد جنگ کا ذریعہ بن رہا ہے تو پاکستان کو بھی اپنے پتے ہوشیاری سے کھیلنا ہوں گے۔ امریکہ بہرحال تھانیداری سے باز نہیں آئے گا، اس کیلئے ہمیں اپنی پالیسیوں کو درست رکھنا اور لابنگ کرنا ہوگی، اب اگلا سوال نیو کلیئر سپلائر گروپ والا ہے، امریکہ اب کھل کر بھارت کی حمایت کرے گا، ہمیں اپنے لئے راہ ہموار کرنا ہے، ابھی تک تو کامیابی ہے، آئندہ اسے مستحکم کرنے اور رکھنے کی ضرورت ہوگی اور اس کیلئے اندرونی استحکام بہت ضروری ہے۔ اس وقت ملک کے اندر سیاسی خلفشار ہے، کل تحریک انصاف کی طرف سے لاہور میں مظاہرہ ہے، ڈاکٹر طاہرالقادری راولپنڈی میں دھرنا دے رہے ہیں، ان کے درمیان تعاون سے بعض دوسری جماعتوں نے بھی شرکت کا وعدہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی شرکت کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ سردار لطیف کھوسہ اور میاں منظور وٹو، بلاول بھٹو کی نمائندگی کریں گے۔

سینٹ میں جوڈیشل بل کے حوالے سے تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کی حمایت کر دی۔ اس سلسلے میں حالات کو معمول پر لانے کی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آئی، جو حکمرانوں کو کرنی چاہیے۔ اب مزید موقع بنا ہے، پیپلزپارٹی نے سینٹ میں بل پیش کیا تو حکومت قومی اسمبلی میں مسودہ قانون پیش کرنے لگی ہے۔ یوں پارلیمانی سطح پر ایک کوشش ہوسکتی ہے کہ دونوں طرف سے کچھ سنجیدہ حضرات مسودات کو ملا کر ایک مسودہ بنا لیں اور متفقہ قانون بنا لیں، ورنہ اپوزیشن کا بل سینٹ سے منظور ہوا تو قومی اسمبلی سے نہیں ہوسکتا اور سینٹ میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں۔ اس کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہو کر سینٹ میں اٹک جائے گا اور پھر دونوں کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جانا ہوگا۔ اس لئے باہمی طور پر ضد ختم کرکے مفاہمت سے قانون منظور کرا کے پاناما کا مسئلہ حل کر لیا جائے اور اسے مزید مفاہمت کا ذریعہ بنا لیا جائے۔ دوسری صورت میں احتجاج بڑھتا رہا تو مناسب نہیں ہوگا۔ ایم کیو ایم کے حالات سامنے ہیں، اب تو خود اس جماعت کے رہنما ’’را‘‘ فیکٹر کو تسلیم کرکے بقا کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ یہ الگ تفصیل کا متقاضی ہے، پھر اس پر بات کریں گے، فی الحال انتظار کرنا ہوگا۔ ہماری اپیل تو یہی ہے کہ مفاہمت کی طرف بڑھیں۔
خبر کا کوڈ : 564589
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش