0
Tuesday 7 Jul 2020 01:28

لیاری گینگ وار اور عذیر بلوچ، جے آئی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات

لیاری گینگ وار اور عذیر بلوچ، جے آئی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات
رپورٹ: ایس ایم عابدی

حکومت سندھ نے لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ کی جوائنٹ انویسٹی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ جاری کردی جس میں ملزم نے سیاسی و لسانی بنیادوں پر 198 افراد کے قتل کا اعتراف کیا گیا ہے۔ سندھ حکومت نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور سانحہ بلدیہ فیکٹری کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹس جاری کر دیں۔ حکومت سندھ کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم مختلف مجرمانہ واقعات میں ملوث ہونے کے باعث 2006ء سے 2008ء تک کراچی سینٹرل جیل میں قید رہا جبکہ ملزم جون 2013ء میں کراچی سے براستہ ایران دبئی فرار ہو گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق وہ ایک نامعلوم راستے سے کراچی واپس آئے لیکن کراچی سے بلوچستان میں داخل ہوتے ہوئے 30 جنوری 2016ء کو پاکستان رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا۔

باپ کے قتل کا بدلہ لینے کیلئے گینگ وار میں شمولیت
اس حوالے سے مزید بتایا کہ 2001ء میں لیاری ناظم کا الیکشن ہارنے والے سردار عذیر جان بلوچ کے والد فیض بلوچ، جو ٹرانسپورٹ کا کام کرتے تھے اور انہیں 2003ء میں ارشد پپو کے والد نے قتل کردیا تھا اور اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینے کے لئے وہ رحمٰن ڈکیت گروپ میں شامل ہوا تھا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2003ء میں عذیر بلوچ کو سجاول سے چوہدری اسلم نے گرفتار کیا تھا لیکن ضمانت پر رہا کر دیا گیا اور بعد میں اسے مفرور قرار دے دیا گیا۔

گینگ کی سربراہی اور پولیس آپریشن
جے آئی ٹی کے مطابق 2008ء میں پولیس مقابلے میں رحمٰن ڈکیٹ کی موت کے بعد عذیر بلوچ نے گینگ کو سنبھالا اور پیپلز امن کمیٹی کا آغاز کیا اور اسی جماعت کے زیر سایہ لیاری میں مجرمانہ سرگرمیاں اور ارشد پپو اور غفار ذکری گروپ کے خلاف گینگ وار کا سلسلہ جاری رکھا، اس کے ساتھ ساتھ اس نے علاقے میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ٹارگٹ کلرز کو بھی مارنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ 2012ء میں پولیس نے لیاری میں پیپلز امن کمیٹی کے خلاف ایک آپریشن شروع کیا لیکن اس میں پولیس کو نفری کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور پیپلز امن کمیٹی کی مسلح مزاحمت کے باعث وہ لیاری میں داخل بھی نہیں ہو سکی تھی اور چیل چوک تک محدود رہی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دور میں پیپلز امن کمیٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے کارکن ایک دوسرے کے حامیوں کو قتل کر رہے تھے جبکہ ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ ارشد پپو اور غفار ذکری گروپ سے ان کی بلاتعطل گینگ وار بھی جاری تھی۔

لیاری کا بے تاج بادشاہ
رپورٹ میں کہا گیا کہ مارچ 2013ء میں ارشد پپو کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بعد عذیر بلوچ لیاری کے بےتاج بادشاہ بن گیا تھا تاہم اس کے بعد لیاری امن کمیٹی اندرونی اختلافات سے دوچار ہو گئی اور بالآخر ستمبر 2013ء میں کراچی آپریشن شروع ہونے کے بعد وہ بیرون ملک فرار ہوگیا۔ ملزم نے انکشاف کیا کہ 2010ء میں اس نے مختلف گینگسٹر گروپوں کو اپنے حریفوں کو قتل کرنے کا حکم دیا جن کی کل تعداد 158 بنتی ہے۔

198 افراد کا قتل اور شیر شاہ کباڑی مارکیٹ واقعہ
دوران تفتیش ملزم نے 198 افراد کو سیاسی و لسانی بنیادوں اور گینگ وار میں قتل کرنے کا اعتراف کیا اور 2006ء میں اسے گرفتار بھی کیا گیا تھا، جہاں ملزم کا 7 مقدمات میں چالان منظور کیا گیا اور وہ 10 ماہ تک جیل میں رہے، ملزم کو ضمانت پر رہا کردیا گیا لیکن پیشی پر عدم حاضری کے باعث عذیر بلوچ کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ ملزم نے تفتیش میں قبول کیا کہ 19 اکتوبر 2010ء کو ان کے کارکنوں نے ایک سیاسی جماعت کی حمایت اور مذکورہ پارٹی کو بھتہ دینے پر شیرشاہ کباڑی مارکیٹ میں 11 افراد کو لسانی بنیادوں پر قتل کیا تھا۔

پولیس میں اثرورسوخ
اس کے علاوہ ملزم نے پولیس اہلکاروں، سیاسی حریفوں، ارشد پپو سمیت گینگ وار میں اپنے مخالفین اور دیگر کے قتل کا بھی اعتراف کیا جبکہ 2012ء کے پولیس آپریشن میں مسلح مزاحمت کے احکامات دینے کے الزامات بھی تسلیم کئے جبکہ پولیس اسٹیشنز پر بھی متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ملزم نے تسلیم کیا کہ وہ پولیس میں بھی انتہائی اثرورسوخ کا حامل ہے اور اس نے اعتراف کیا کہ 2011ء سے 2012ء کے دوران متعدد ایس پی اور ایس ایچ اوز کی من مانے تھانوں میں تقرریاں کروائیں۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ملزم نے بھتہ وصولی، گینگسٹر کے ذریعے اپنے حصے کی وصولی اور دیگر مقامات سے بزور طاقت لوگوں سے رقم وصول کرنے کا بھی اعتراف کیا۔ ملزم کی پاکستان اور بیرون ملک بڑی تعداد میں جائیدادیں بھی موجود ہے جو اس نے اپنی بیوی اور دیگر رشتے داروں کے ناموں سے لیں جبکہ ملزم نے غیرقانونی ہتھیاروں کی خریداری اور ان کی گینگسٹرز میں تقسیم کا بھی اعتراف کیا۔

جعلی ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ
ملزم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس کی عائشہ نامی ایک خالہ مستقل ایران میں مقیم اور پاکستان اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہیں۔ مذکورہ خاتون نے 1980ء میں بیٹے کی موت کے بعد اسی کے نام سے عذیر بلوچ کا جعلی برتھ سرٹیفکیٹ بنوایا کیونکہ ماضی میں تصویر ضروری نہیں تھی، اس لیے ملزم باآسانی اسے اپنے شناختی کارڈ کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب رہا۔ اس کے علاوہ ملزم نے جعلی ایرانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنانے کا بھی اعتراف کیا۔

لسانی و سیاسی بنیادوں پر قتل
جوائنٹ انویسٹی گیشن رپورٹ نے اپنی فائنڈنگز میں کہا کہ ملزم بڑی تعداد میں عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اور لسانی بنیادوں پر لوگوں کو قتل کرنے میں ملوث ہے جبکہ ملزم پر پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے قتل کا بھی الزام ہے۔ ملزم 50 سے زائد کیسز میں مفرور ہے جن میں بالواسطہ اور بلاواسطہ ملوث ہے جبکہ اس کی پاکستان اور دبئی میں بلیک منی سے بنائی گئی بڑی تعداد میں جائیدادیں بھی موجود ہیں۔ جے آئی ٹی میں کہا گیا کہ ملزم نے پیپلز امن کمیٹی سے شہر میں خوف و ہراس قائم کیا جبکہ وہ ملک کے خلاف جاسوسی اور ایرانی خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کے راز بھی فراہم کرتا رہا۔ ملزم زمینوں پر قبضے، بھتہ خوری، چائنا کٹنگ اور منشیات کی اسمگلنگ میں بھی ملوث رہا۔
خبر کا کوڈ : 872910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش