0
Saturday 10 Mar 2012 13:35

مہران بینک اسیکنڈل کے رازوں سے اٹھتا پردہ!

مہران بینک اسیکنڈل کے رازوں سے اٹھتا پردہ!
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

شاید قدیم زمانوں سے یہ رواج چلا آ رہا ہے کہ ابن آدم عین شباب میں خواہشات کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہو کر غلطیوں کے صحراﺅں کی خاک چھانتا پھرتا ہے، مگر عمر کا سورج جب سامنے ڈھلتا نظر آتا ہے تو، توبہ کی رسم ادا کرتے ہوئے قدرت کے ساتھ بھی سیاست کاری کر گزرنے سے گریز نہیں کرتا۔ انسان کی یہی حد سے بڑھی ہوئی چالاکیاں اس کیلئے عذابوں کے نئے نئے دروا کرتی چلی جاتی ہیں۔ ہماری قومی تاریخ غلطیوں اور منہ زوری سے بھری پڑی ہے۔ ایک غلطی کو چھپانے کیلئے طاقتور طبقہ نے اس سے بڑی غلطی کی اور پھر اس بڑی غلطی پر پردہ ڈالنے کیلئے، غلطیوں کے انبار لگا دیئے۔ پاکستانی سیاستدان ہمیشہ خاص قوتوں کا دست نگر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی قوم جمہوریت کی کوکھ سے کوئی ثمر بار چیز وصول نہیں کر پا رہی ہے۔
 
کیا سیاستدان اپنے اجلے کردار کی گواہی دے سکتے ہیں۔؟ کھلی حقیقت تو یہ ہے کہ سیاستدانوں نے رقوم وصول کیں اور ظلم یہ کہ انہوں نے یہ رقوم قومی مفاد میں لیں۔ اس سے بڑھ کر ستم تو انہوں نے کیا جنہوں نے ”قومی مفاد“ میں رقم کا بندوبست کیا اور پھر بڑی مہارت سے اسے تقسیم کر دیا۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت سے لوگ سخت نالاں ہیں کیونکہ اس کے عہد میں لوگوں کے دکھوں میں اضافہ ہوا۔ مگر ماضی کی سازش پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر عوام میں کھڑا ہونے کے قابل بنا دے گی۔ سپریم کورٹ میں سیاسی جماعتوں میں غیر قانونی طور پر رقوم کی تقسیم کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے ہوش ربا انکشافات کئے۔
 
سپریم کورٹ میں ائیر مارشل (ر) اصغر خان کی جانب سے پاکستانی سیاست، انتخابات اور حکومتوں کی تشکیل میں پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسی کے مشکوک کردار کو چیلنج کئے جانے کے مقدمے کی سماعت کے دوران مہران بینک کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ اس وقت کے صدر پاکستان غلام اسحاق خان کے احکامات کے بعد ایک ارب 48 کروڑ روپے کا بندوبست کیا۔ انتخابی مہم کیلئے 34 کروڑ روپے سیاستدانوں میں تقسیم ہوئے۔ باقی ایک ارب سے زائد کی رقم سے مختلف افراد نے سرمایہ کاری کی۔ یونس حبیب کا کہنا تھا کہ مجھ پر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ درج کرانے کیلئے بھی دباﺅ ڈالا گیا۔ اس وقت کے صدر کا حکم تھا اور میرے پاس رقم دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ انہوں نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتے ہوئے کہا کہ وہ خود کو عدالت کے رحم وکرم پر چھوڑتے ہیں۔
 
مہران بینک کے سابق سربراہ یونس حبیب نے بیان حلفی دیتے ہوئے کہا کہ جنرل اسلم بیگ نے میری صدر غلام اسحاق خان سے ملاقات کا انتظام کرایا۔ یہ ملاقات مارچ 1990ء میں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ رقم سے فائدہ لینے والوں میں فوج کے لوگ بھی شامل ہیں، جبکہ کچھ رقم آرمی ویلفیئر ٹرسٹ میں کئی فرضی ناموں سے اکاﺅنٹ کھول کر لگائی گئی، جنرل اسلم بیگ نے الیکشن کیلئے 3 کروڑ 50 لاکھ مانگے، جبکہ اسلم بیگ اور کرنل اکبر نے رقم منتقل کرنے کیلئے مختلف اکاﺅنٹ بنائے۔ 

اس امر میں کلام نہیں کہ یونس حبیب نے جو انکشافات کئے وہ ہمارے مجموعی معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ کس طرح ہماری اسٹیبلشمنٹ اور اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ”سیاست دان“ ذاتی مفادات کو قومی مفادات کارنگ دے کر پوری پاکستانی قوم کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ کتنے ہی پارسا قومی مفاد کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے پائے گئے۔ یونس حبیب کے مطابق بریگیڈئیر حامد سعید رقوم کی ترسیل کے نگران تھے، جام صادق کو مہران بینک کا لائسنس جاری کرنے کیلئے 15 کروڑ، مصطفٰی جتوئی کو 15 لاکھ، یوسف میمن کو 17 لاکھ، نواز شریف کو 35 لاکھ، شہباز شریف کو 25 لاکھ اور الطاف حسین کو 2 کروڑ روپے دیئے گئے۔
 
مہران بینک اسیکنڈل اگرچہ ماضی کا قصہ ہے مگر ہماری معاشرتی و سیاسی زندگی پر ایک سیاہ دھبہ ہونے کے علاوہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کا کھلم کھلا ثبوت ہے۔ جس طرح مولوی ذاتی مقاصد کیلئے اسلام کے نام کو استعمال کرتا ہے، بالکل اسی طرح قومی مفاد کے نام پر من پسند سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف آگے لایا گیا بلکہ قومی دولت کا ذاتی پسند و ناپسند کیلئے بے دریغ استعمال بھی کیا گیا۔ دیانتدارانہ بات تو یہ ہے کہ اس اسیکنڈل میں جتنا قصور ایجنٹوں کا ہے اس سے کہیں زیادہ ان سیاستدانوں اور سیاسی پارٹیوں کا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہیں۔ بنیادی طور پر یہ رقم آئی جے آئی کی تشکیل کیلئے استعمال کی گئی اور اس میں دائیں بازو کی تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا اکٹھ کیا گیا۔
 
1985ء میں جنرل ضیاءالحق نے غیر جماعتی انتخابات کروائے تھے اور اسمبلی میں پہنچنے والے سیاستدانوں کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ 29 مئی 1988ء کو جنرل ضیاءالحق نے جونیجو حکومت کو 58-2B کے تحت چلتا کر دیا۔ یوں وفاقی کے ساتھ تمام صوبائی حکومتیں بھی 58-2B کا شکار ہو گئیں۔ جنرل ضیاءالحق نے اکتوبر 1988ء کو دوبارہ غیر جماعتی الیکشن کراونے کا اعلان کیا۔ مگر اسی دوران 17 اگست 1988ء کو سانحہ بہاولپور پیش آیا اور جنرل ضیاءالحق لقمہ اجل بنے۔ اسی دوران محترمہ بے نظیر بھٹو کی غیر جماعتی الیکشن کے خلاف درخواست بھی سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھی۔ اس پر فیصلہ آیا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام ہے اور اس نظام کے تحت انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ یوں پیپلز پارٹی کی سیاسی قوت کو بے اثر اور کم کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ حرکت میں آئی اور مفاد پرست سیاستدانوں کے ساتھ مل کر گھناﺅنا کھیل کھیلا۔
 
صدر اسحاق خان جنہیں بڑی اصول پرست شخصیت قرار دیا جاتا رہا ہے، انہوں نے یونس حبیب کو حکم دیا کہ خواہ کچھ بھی ہو رقم چاہئے۔ یوں سینکڑوں پاکستانی صدر غلام اسحاق خان کے ایک حکم کے نتیجے میں اپنی جمع پونجی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گزشتہ سے پیوستہ روز جنرل (ر) اسد درانی نے عدالت عظمیٰ میں اپنے حلفی بیان میں کہا کہ تقسیم ہونے والا پیسہ کراچی کی کاروباری برادری نے دیا تھا، جبکہ یہ رقم اس وقت کے آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے حکم پر تقسیم کی گئی۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے عام شہری کا پیسہ ہضم کرنے والوں سے کوئی حساب بھی ہو گا، یا یہ معاملہ بھی قومی مفاد کی کسی نئی تشریح کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔؟ 

1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف بھی پی این اے (پاکستان نیشنل الائنس) تشکیل دی گئی تھی اور یہ نیک کام بھی قومی مفاد میں کیا گیا تھا۔ ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ ہماری ملکی سیاست میں قومی مفاد کے نام پر سب سے بڑی دھوکہ بازی کی جاتی ہے۔ سیاست میں لین دین اور خرید و فروخت کی جو طرح آج سے تین عشرے قبل ڈالی گئی تھی اس کی پیروی آج تک جاری ہے،حالیہ سینٹ کے انتخابات میں ایک ایک ووٹ کی قیمت کروڑوں میں لگی۔ جب تک اس رویے کے خلاف عوام خود میدان عمل میں نہیں نکلیں گے، اس وقت تک تاریخ کے صفحات سے ہمیں سوائے ندامت کے اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
خبر کا کوڈ : 144371
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش