0
Monday 30 Apr 2012 12:47

مصر میں صدارتی انتخابات کا معرکہ

مصر میں صدارتی انتخابات کا معرکہ
تحریر: ثاقب اکبر
  
مصر میں پارلیمانی انتخابات میں اسلام پسندوں کی بڑے پیمانے پر کامیابی کے بعد اب دنیا بھر کی نظریں اس کے صدارتی انتخابات پر لگی ہوئی ہیں جو 23 اور 24 مئی کو منعقد ہوں گے۔ جوں جوں انتخابات کے دن قریب آ رہے ہیں نئی نئی پریشانیاں، نئی نئی چشمکیں، نئی نئی پیش گوئیاں اور نئی نئی امیدیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔ امیدیں اسلام پسندوں کے لیے، پریشانیاں اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کے لیے، چشمکیں مصر کی سابق حکومت کے بچے کھچے عناصر اور میدان سیاست میں آنے والی نئی نئی قوتوں کے مابین اور پیش گوئیاں تجزیہ کاروں کے حصے میں ہیں۔ اس سارے ہنگامے میں علاقے کے متعدد ممالک بھی دامے درمے قدمے سخنے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
 
اسرائیلی وزیر خارجہ ایوگڈور لیبرمین ( Avigdor Lieberman) نے مصر کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جنوبی سرحد پر ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے زیادہ فکر مند ہیں اور انھیں یقین ہے کہ موجودہ دور میں مصر اسرائیل کی سکیورٹی کے لیے ایران سے بڑھ کر خطرہ بن چکا ہے۔ لیبر مین نے حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو (Bengamin Netanyahu) کے ساتھ بند دروازوں کے پیچھے ملاقات کی ہے۔ اسرائیل کے عبرانی زبان کے ایک اہم روزنامے معاریو کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ نے خبر دار کیا ہے کہ ہمیں تمام ممکنہ مسائل کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ مصری معاملہ ایرانی مسئلے سے زیادہ مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ 

اخبار کے مطابق لیبر مین کا کہنا تھا کہ مصر اسرائیل کے ساتھ اپنے پرانے امن معاہدے کی خلاف ورزی کر سکتا ہے اور صحرائے سینا پر اسرائیل کی اجازت کے بغیر مزید فوجیں تعینات کر سکتا ہے۔
اسرائیل سے ملنے والی سرحدوں میں سے مصر کی سرحد سب سے طویل ہے اور 1979ء سے اسرائیل اور مصر کے مابین کیمپ ڈیوڈ معاہدے کی بنیاد پر قریبی تعلقات قائم ہیں جو 25 فروری 2011کے مصری انقلاب کے بعد سے ڈانواں ڈول چلے آرہے ہیں اور اس کا اظہار حال ہی میں اٹھائے جانے والے کئی ایک مصری اقدامات سے ہوتا ہے۔ ان میں سے زیادہ قابل ذکر مصر کی طرف سے یک طرفہ طور پر اسرائیل کو فراہم کی جانے والی گیس کی بندش ہے۔
 
گیس کی فراہمی کا معاہدہ 2005ء میں ہوا تھا، جس کے مطابق مصر کو بیس سال کے لیے اسرائیل کو قدرتی گیس فراہم کرنا تھی۔ یاد رہے کہ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کی گیس کی ضروریات کا 40% مصر کی طرف سے پورا کیا جا رہا تھا۔ یہ معاہدہ اڑھائی ارب ڈالر مالیت کا ہے۔ انقلاب کے بعد سے اس گیس پائپ لائن پر متعدد حملے ہو چکے تھے۔ آخر کار 12 مارچ 2012ء کو مصر کی پارلیمان نے بھی اس گیس فراہمی کے معاہدے کو ختم کرنے کے حق میں قرارداد منظور کی اور مصری حکومت نے باقاعدہ اسے منقطع کر دیا۔ اس قرارداد کا پس منظر جاننے کے لیے یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ مصری عوام کی بھاری اکثریت اس معاہدے کے خلاف تھی۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 73%مصری عوام کی جانب سے اسرائیل کو گیس سپلائی بند کرنے کی حمایت میں رائے دی گئی ہے۔ 

مصر کی پارلیمنٹ نے نہ فقط اسرائیل کو گیس کی فراہمی بند کرنے کے حق میں فیصلہ دیا بلکہ حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباﺅ ڈالے کہ وہ اپنی ایٹمی سرگرمیاں بند کر دے۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ ہم اسرائیل کی غاصب صہیونی حکومت کو مصر اور تمام عرب اقوام کا دشمن نمبر ایک سمجھتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی اس قرارداد کو سامنے رکھیں تو اسرائیلی وزیر خارجہ کی تشویش سمجھ میں آسکتی ہے۔
 
مصر کے انقلابی عوام کو ابھی ایک بڑا معرکہ برسراقتدار فوجی جنتا سے درپیش ہے۔ اصل قوت کا مرکز ابھی قاہرہ میں قائم یہی فوجی حکومت ہے، اگرچہ نئی پارلیمنٹ منتخب ہو چکی ہے لیکن فوجی جنتا آج بھی اقتدار کا اصل مرکز اور سرچشمہ ہے۔ سابق حکومت کے عالمی سرپرستوں کی امیدوں کا سہارا بھی یہی فوجی قیادت ہے۔ پارلیمنٹ اس وقت تک موثر کردار ادا نہیں کر سکتی جب تک حکومت میں بھی اسی کی فکر کے حامل افراد نہ بیٹھے ہوں۔ مصر کے انقلابی عوام یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جب تک آنے والے صدارتی انتخابات آزادانہ نہ ہوں اس وقت تک انقلاب کا پہلا مرحلہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا اور وہ ہے حکومت کی مکمل طور پر تبدیلی۔ 

دوسری طرف پہلے تو فوجی حکمرانوں نے صدارتی انتخابات کو ٹالنے کی کوششیں کیں، لیکن عوامی دباﺅ کے پیش نظر انھیں انتخابات کا اعلان کرنا پڑا اور اب ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ ان کی مرضی کا کوئی صدر منتخب ہو جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔ دوسری طرف عوام بھی پوری طرح سے بیدار ہیں اور وہ مختلف مواقع پر اپنی بیداری کا ثبوت دیتے رہتے ہیں۔ اخوان المسلمین جو مصر کی سب سے بڑی اور عوام میں سب سے زیادہ مقبول پارٹی ہے اسے بھی داخلی طور پر چومکھی معرکہ درپیش ہے۔ 

صدارتی انتخابات کے لیے اس کے امیدوار خیرت الشاطر کی نامزدگی کو مسترد کر دیا گیا ہے کیونکہ حسنی مبارک کے دور میں مختلف الزامات میں انھیں سزا ہو چکی ہے۔ اگرچہ ان کا یہ کہنا ہے کہ ان کے خلاف تمام الزامات سیاسی بنیادوں پر قائم کیے گئے تھے۔ تاہم انھیں شنوائی حاصل نہ ہو سکی۔ لہٰذا مجبوراً اخوان المسلمین کو اپنا نیا امیدوار میدان میں اتارنا پڑا اور یہ ہیں محمد مرسی جو اخوان المسلمین کے سیاسی شعبے آزادی اور انصاف پارٹی کے سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات میں کامیابی کی صورت میں پارٹی کی صدارت سے مستعفی ہو جائیں گے۔
 
20 اپریل 2012ء بروز جمعہ مصر کے عوام نے داخلی اور خارجی سازشوں کے سدباب کے لیے اور اپنی اجتماعی قوت اور بصیرت کے اظہار کے لیے قاہرہ کے میدان تحریر میں ایک مرتبہ پھر اپنی قوت کامظاہرہ کیا ہے۔ انھوں نے شعوری طور پر یہ امر ایک مرتبہ پھر ثابت کیا کہ مختلف سیاسی پارٹیوں میں ہونے کے باوجود وہ اپنے قومی مفادات کے بارے میں یکساں موقف رکھتے ہیں۔ مصری عوام کا یہ شعور ان کے مطالبات میں جھلکتا ہے۔ ان کے چھ بنیادی مطالبات ہیں جو کچھ اس طرح سے ہیں۔
 
1۔ سیاسی قیدیوں کی فوری رہائی۔ 
2۔ غیر فوجیوں کے فوجی عدالتوں میں مقدمات کا خاتمہ۔ 
3۔ انتخابات سے متعلق آئین کی شق 28 میں اصلاح (یہ شق دراصل سابق دور آمریت کے مخالفین کا انتخابات میں شرکت کا راستہ روکنے کا باعث بنتی ہے۔) 
4۔ صدارتی انتخابات میں سابق دور آمریت میں شامل افراد کی عدم شمولیت۔ 
5۔ حکومتی اداروں سے سابق دور آمریت کے کارپردازوں کا انخلا۔ 
6۔ قانونی و آئینی اصلاحات کے لیے قائم کمیٹیوں میں تمام گروہوں کی نمائندگی۔
 
ان مطالبات کے پیش نظر مصر کی فوجی جنتا خاصے دباﺅ میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سابق دور حکومت کے وزیراعظم عمر سلیمان کو انتخابات میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔ تاہم ایسے کئی افراد اب بھی صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہیں جو نہ فقط سابقہ حکومت میں شامل رہے ہیں بلکہ انھیں امریکا اور اسرائیل کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ ان میں سے ایک احمد شفیق ہیں جو حسنی مبارک کے دور حکومت کے آخری دنوں میں وزیراعظم رہے۔ انھیں پہلے تو ایک قانون کی بنیاد پر انتخابات میں شرکت سے روک دیا گیا تھا، تاہم پھر اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔ 

دوسرے اہم آدمی عمرو موسٰی ہیں جو حسنی مبارک کے دور میں وزیر خارجہ اور بعدازاں عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ یہ افراد اگرچہ ماضی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے پرزور حامی رہے ہیں، تاہم اس وقت وہ عوام کا موڈ دیکھتے ہوئے اس کی حمایت سے اپنے آپ کو دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر عمرو موسٰی ملک کے مختلف شہروں میں جا کر عوام کو یقین دلانے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ اب ان کی رائے میں یہ معاہدہ قابل عمل نہیں رہا اور اس کی حیثیت سوائے کاغذ کے پرزے اور اس پر موجود سیاہی کے کچھ نہیں۔
 
مصر کے نئے صدارتی انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدواروں کو کامیاب بنانے کے لیے مختلف حکومتیں اور ادارے زور آزمائی میں مصروف ہیں۔ ان میں سعودی عرب، قطر، اسرائیل اور امریکا سب شامل ہیں۔ اس اجمال کی ایک تفصیل ہے جو اپنے مقام پر بڑی دلچسپ اور ہوشربا ہے۔ اسے سمجھنے کے لیے خطے کے تمام تزویراتی پہلوﺅں کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ البتہ ہماری رائے یہ ہے کہ آسمانوں پر تبدیلی کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کی پریشانیاں بے محل نہیں اور میدان تحریر میں حریت اور ولولوں کی بار بار نمائش ہماری خوش گمانیوں کی تائید کرتی ہے۔
یار زندہ صحبت باقی
خبر کا کوڈ : 157765
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش