0
Saturday 23 Jun 2012 12:58

قرآن و سنت کانفرنس۔۔۔۔۔کار زینبی (س)

قرآن و سنت کانفرنس۔۔۔۔۔کار زینبی (س)
تحریر: سردار تنویر حیدر بلوچ
 
واقعہ کربلا کے بعد عرب ملوکیت کے وارث حکمرانوں نے فرض کر لیا تھا کہ ہم نے دین محمدی کی عمارت زمیں بوس کر دی۔ لیکن لشکر شام کے سب نام نہاد چھوٹے بڑے کمانڈروں کا یہ گمان گمان ہی رہا اور ثاراللہ کی تاثیر سے اللہ کا نام اور اللہ کا دین باقی ہے اور تا ابد زندہ و جاوید رہیگا۔ ثاراللہ کے معنی ہیں اللہ کا لہو، حضرت امام حسین علیہ السلام کو ثاراللہ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس طرح خون زندگی بخش اور علامت حیات ہے اسی طرح مولا حسین (ع) کے خون نے اللہ کے نام کو تا ابد زندہ کر دیا ہے اور اس طرح کی سعادت کسی اور کے حصے میں نہ آئی ہے نہ قیامت تک آئے گی۔ یہی وجہ کہ روایات بتاتی ہیں کہ اللہ تعالٰی ہر روز، صبح و شام ستر ستر ہزار فرشتے خلق فرماتے ہیں جو کربلا آتے ہیں اور اللہ تعالٰی کا سلام امام حسین (ع) کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اللہ آپ (ع) سے راضی و خوشنود ہے۔ روایات کے مطابق جو فرشتے ایک دفعہ کربلا آتے ہیں وہ تاقیامت دوبارہ نہیں آئیں گے اور نہ ہی ان کے ذمہ کوئی اور امور ہوں گے۔

خدا تعالٰی کے نزدیک جس نام کی یہ عظمت ہے اس ہستی کے مقدس خون کو ہمیشہ کے لیے زندہ کرنے والی دختر علی (ع) و زہرا (س) کی ولادت بھی ماہ شعبان میں ہے اور کربلائے پشاور میں شہید ہونے والے فرزند حقیقی سید الشہدا (ع)، شہید عارف حسین الحسینی کے پیروکار بھی اسی ماہ شعبان میں قرآن و سنت کانفرنس منعقد کر کے شہداء کے پیغام کو زندہ رکھنے والے کار زینیبی (س) پر کاربند ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں۔

جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل 61 ھجری کے دین دشمن حکمرانوں نے فرض کر لیا تھا کہ ہم کامیاب ہوگئے اور دین مبین اسلام کی عمارت گرا دی گئی، اسی طرح اگست 1988ء کو شہید عارف حسین الحسینی کو شہید کرنے والے کرداروں نے بھی یہی سمجھا تھا عاشورا حسینی (ع) کے تسلسل میں برپا ہونے والے خمینی بت شکن کے انقلاب کے نورانی پیغام کو سرزمین پاکستان پر عام کرکے پاکستان دشمن استعماری طاقتوں کو للکارنے والے مرد مجاہد اور کربلا کے نور کو عام کرنے والے چراغ کو بجھا دیا گیا ہے، لیکن 6 جولائی 1988ء کے بعد یکم جولائی 2012ء کو مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والی قرآن و سنت کانفرنس اس بات کا ثبوت ہے کہ سرزمین پاکستان پر حضرت زینب (س) کی سنت پر چلتے ہوئے، شہداء کے مشن کو زندہ رکھنے والے اور پیغام رسانی کا فریضہ انجام دینے والے کندھے سے کندھا ملائے، بنیان مرصوص کی طرح یکجا اور قائم ہیں۔

قائد شہید کا حسینی قافلہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ پاکستان کے طول عرض میں، قریہ قریہ کانفرنس کی تیاریاں اور مشترکہ کوششیں زمانے کو پیغام دے رہی ہیں کہ ہمارے علماء، مفکرین، کارکنان، سینیئرز، مدارس، امامینز، نوجوان تنظیمی، صالحین، خواتین ، بچے بوڑھے سب ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔ کربلائے پشاور میں علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی شہادت کے بعد کار زینبی (س) انجام دینے والے کیسے جدا جدا ہوسکتے ہیں، انسانی اقدار، ایمان محکم، مشترکہ دشمن کی شناخت، عاشورا اور انتظار کے اصولوں کو کیونکر بھلا سکتے ہیں۔ حسینی قافلے کا علم ہمیشہ بلند رہے گا، ہر دور کے علمدار اپنے بازو تو قربان کرتے رہیں گے، لیکن کربلا کا پرچم کبھی نہیں جھکے گا۔

شدید موسم میں اپنی جانوں کو ہتھیلی پہ رکھ کے قرآن و سنت کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف تمام کارکنوں کے دل کی آواز ہے کہ:
اے علمدار کربلا (ع) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شہید عارف حسین الحسینی کے علمدار کا کردار ادا کرنے والے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی!
آپ کی روح سے توسل کرنے والے جوان، شہید محرم علی اور بزم حسینی کے چمکتے ہوئے چاند شہید علی ناصر صفوی کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے آپ کی آرزوں کی تکمیل کی خاطر آپ کے شہر میں حاضر ہونگے اور لاہور کے در و دیوار استعمار شکن نعروں سے گونج اٹھیں گے۔ 

ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے
امریکہ مردہ باد ہے 

اے شہید مظلوم! ملک کے طول و عرض میں کار زینبی (س) انجام دینے والے ایک ایک حسینی سپاہی کو آپ کا یہ پیغام اچھی طرح یاد ہے کہ شہید عارف حسین الحسینی نے استعماری قوتوں کو شکست دینے کی جدوجہد میں اپنی جان قربان کی ہے۔ لہٰذا مردہ باد امریکہ کے نعرے اور استعمار دشمن پالیسی سے سرمو انحراف قائد شہید کے مقدس خون کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔

اے کاخ نشینی کو ٹھکرا کر خاک نشینو کے ہمدم بن کے پوری زندگی راہ خدا میں وقف کرنے والے شہید!
یکم جولائی 2012ء کو قرآن و سنت کانفرنس میں لبیک یاحسین (ع) اور مرگ بر امریکہ کے شعار اس بات کا ثبوت ہوں گے کہ آپ کے وفادار دوست کی وصیت پر عمل جاری ہے کہ بے شک ظاہری طور پر آپ ہماری بزم میں موجود نہیں ہیں، لیکن سرزمین پاکستان پر امت مسلمہ کے اتحاد اور احیائے اسلام کے لیے بیداری بھی ہے اور حضرت زینیب (س) کی سنت کے مطابق سیدالشہداء کی عزاداری کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔

اے منافقین وقت کی منافقت کا نشانہ بننے والے اور علی (ع) کا طرز زندگی اختیار کرکے شہید ہونے والے شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی!
ایک دفعہ پھر آپ میزبان بھی ہیں اور قافلہ سالار بھی۔ اب کار زینبی (س) اس طرح ادا ہوگا کہ فقط کربلا کے مظالم نہیں بلکہ کعبہ پر لشکر شام کی بمباری اور واقعہ حرہ میں صحابہ زادیوں کی ناموس پر یزیدیوں کے حملوں اور مسجد نبوی و روضہ رسول (ص) کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں صحابہ کرام کے قتل عام کو جہاد کا نام دینے والے منافقین سے لیکر امریکہ، اسرائیل اور بھارت کے ایماء پر وطن عزیز پاکستان کی مساجد، امام بارگاہوں، گلیوں، بازاروں، چھاونیوں پر حملے کرنے والے تکفیری دہشتگردوں تک، سب کے چہرے بے نقاب ہوں گے۔
 
بالکل ایسے ہی جیسے بی بی زینیب کبریٰ (س) نے اپنے بیانات کے ذریعے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوئی ملوکیت کو بے نقاب فرما دیا تھا۔ یہی کار زینبی (س) ہے اور یہی قرآن و سنت کانفرنس کا پیغام۔ پاکستان کے حسینی کار زینبی (س) کے لیے ہر دور میں تیار تھے اور تیار ہیں۔ انشاءاللہ کامیابی حسینیوں کا مقدر رہے گی اور پوری دنیا کے حسینی،  مہدی دوراں کی اقتداء میں بیت المقدس اور مسجد الحرام میں نماز ادا کریں گے۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں، کیونکہ امام زمانہ (ع) ہر حسینی کارکن کے حامی و ناصر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 173505
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش