1
0
Thursday 13 Sep 2012 09:13

پاراچنار۔۔۔لہو لہو ہے کربلا

پاراچنار۔۔۔لہو لہو ہے کربلا
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
پارا چنار ایک بار پھر لہولہان اور بیگناہوں کے خون سے رنگین کر دیا گیا۔ 10 ستمبر سوموار کے دن یہاں کشمیر چوک میں ایک معروف مارکیٹ میں گاڑی میں نصب بم دھماکہ کے ذریعے 16 بیگناہ، معصوم انسانوں کو شہید اور 65 سے زائد زخمی کر دیا گیا۔ زخمیوں میں کم از کم پندرہ ایسے بھی بتائے جاتے ہیں جن کی حالت بہت زیادہ خطرناک ہے اور اگر ان کو کسی بڑے ہسپتال میں فوری نہ پہنچایا گیا تو شہادتوں میں اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ پاراچنار کا ایجنسی ھیڈ کوارٹر ہسپتال اس قسم کے حالات اور حادثات سے نپٹنے کے وسائل نہیں رکھتا۔ 

ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ بے تاج بادشاہ ہوتا ہے۔ تمام وسائل اور اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں، وہ جہاں چاہے خرچ کرے، جسے چاہے جیل پھینک دے اور جسے چاہے معمولی سے مسئلہ کو بنیاد بنا کر بھاری جرمانہ کر دے۔ پاراچنار میں تعینات کوئی بھی پولیٹیکل ایجنٹ شیعہ نہیں آیا اور نہ ہی فورسز کی کمان کرنے والے شیعہ آتے ہیں۔ عموماً یہ بات کہی جاتی ہے کہ اگر کوئی پختون فوجی وردی میں ہو، تو وردی اتارتے ہی وہ طالبان ہوتا ہے۔ پولیٹیکل ایجنٹس کا تعلق اکثر اوقات سخت شیعہ مخالف علاقوں سے ہوتا ہے۔

آپ تعصب اور تنگ نظری کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ کتنے دھماکے ہوئے، مگر یہاں کے زخمیوں کیلئے ہیلی کاپٹر سروس نہیں دی گئی اور بہت سے لوگ بر وقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح جنگ کے دوران جب پاراچنار ہر طرف سے محاصرے میں تھا اور معصوم بچوں اور کئی زخمیوں کو فوری طبی امداد کی ضرورت تھی، پولیٹیکل انتظامیہ یا فورسز نے اس جائز عوامی مطالبے کو رد کیا اور انسانی بنیادوں پر مدد فرہم نہ کی، جبکہ ایسا کرنا ان کا فرض بنتا تھا۔

2007ء کی جنگ کے شروع میں جب ایک دہشت گرد عید نظر کی ٹانگ پر شدید زخم آئے تو اس کیلئے فوری طور پر ہیلی کاپٹر فرہم کیا گیا جو اسے پشاور لے آیا۔ اس سانحہ کے بعد بھی صورت حال ایسی ہی ہے، کئی زخمی بروقت طبی امداد نہ ملنے کے باعث شہید ہو جائیں گے، مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے گی۔ اس صورتحال کا افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ حکمران اور وزارتیں ایسے سانحات کی مذمت پر اکتفا کرتے ہوئے جان چھڑا لیتے ہیں، جبکہ ان کا فرض بنتا ہے کہ متاثرین کی ضروریات کا خیال رکھیں اور مذمت، انکوائری کے آرڈر اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے اعلان سے آگے بھی بڑھیں۔
 
پارا چنار کرم ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر اور افغانستان کے بارڈر پر واقع ایک انتہائی اہم جغرافیائی منطقہ ہے، جہاں سے افغانستان داخلے اور نیٹو کو نشانہ بنانے کے کئی اہم پوئنٹس ہیں، عملاً اس ایجنسی کو چاروں طرف سے دشمن نے گھیرا ہوا ہے، تین اطراف میں طالبان اور ان کے حامی قبائل جبکہ ایک طرف سے افغانستان اور اس میں موجود نیٹو، انڈیا، امریکہ وغیرہ کا جال بچھا ہوا ہے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنے خطرات اور دشمنوں میں گھرے ہوئے خطے کے لوگوں نے خود کو کیسے بچا کے رکھا ہوا ہے اور پانچ برس تک مسلط کردہ جنگ میں کس طرح دشمنوں کو رسوا کن شکستوں سے دوچار کیا ہے۔

اپریل 2007ء میں جو جنگ پارا چنار پر مسلط کی گئی تھی وہ ایک عالمی سازش تھی اور اس میں کئی عالمی کردار کام کر رہے تھے۔ اس جنگ کے دوران پاراچنار کرم ایجنسی ہر طرف سے محاصرے کا شکار تھی اور تمام ایجنسیوں سے آنے والے جنگجو ان پر ملکر یلغار کر رہے تھے ان کا مقابلہ حیدر کرار (ع) کے ماننے والوں سے تھا جو استقامت، جوانمردی اور ایثار و قربانی کا بے مثل نمونہ تھے۔ لہذا فتح ان کے قدم چوم کر فخر محسوس کرتی تھی۔
 
اس پانچ سالہ جنگ کے دوران پاراچنار کے قبرستان آباد ہوگئے اور قومی قبرستانوں میں جگہ کم پڑ گئی اور لوگوں نے اپنے شہداء کو ذاتی زمینوں میں دفنانا شروع کر دیا ہے۔ آج پاراچنار جائیں تو جا بہ جا سڑک کنارے شہداء کی قبور اور زیارت گاہیں نظر آتی ہیں، ملت کے یہ محسن اس بات کی شہادت دیکر گئے ہیں اور ان کی قبروں پر لگے سرخ علم ہائے مبارک بھی گواہی دیتے رہیں گے کہ ہم غیرت و عزت کے راستے پر چلنے والے ہیں، ہم کربلا کے ماننے والے ہیں، ہم حسینی ہیں، ہم کربلائی ہیں۔
 
اگر ہم پاراچنار کرم ایجنسی کے حالات و واقعات کا بغور جائزہ لیں تو اس قسم کے واقعات کے پس پردہ عوامل اور مقاصد تک باآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ پانچ سالہ جنگ کے بعد یہ روڈ (ٹل پاراچنار) کئی دفعہ کھولا گیا ہے، مگر عالمی استعمار کے نمک خواروں نے اپنے مقامی آقاؤں کی شہ پر روڈ بند کرنے کیلئے کئی وارداتیں کیں، کبھی فائرنگ، کبھی بم دھماکے، کبھی مسافروں کا اغواء، کبھی سامان سے بھرے ٹرکوں کو لوٹنا اور جلانا۔ الغرض ہر حربہ استعمال کیا گیا ہے، مگر شیعہ قبائلیوں نے سب کچھ برداشت کیا ہے اور کسی ایک واردات کا جواب بھی نہیں دیا، تاکہ راستہ کھلا رہے اور خطہ دوبارہ بڑی جنگ میں نہ چلا جائے، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ یہ تمام واقعات ایسے تھے، جن میں سے ہر ایک اس خطے کو جنگ کی تباہکاریوں میں دھکیلنے کیلئے کافی تھا۔
 
آج پاراچنار کرم ایجنسی شہر میں داخل و خارج ہونے کے تمام راستوں پر فوج کی چوکیاں ہیں، جن پر سخت تلاشی ہوتی ہے، جہاں لمبی قطاریں بنی ہوتی ہیں۔ گویا پورے شہر کو افواج نے گھیرا ہوا ہے، بارڈر کی طرف آنے جانے والی گاڑیوں کو اور زیادہ سخت تلاشی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں افغانستان سے آنے والی ایک ایسی گاڑی جس میں بم فٹ کیا گیا تھا آخر کیسے شہر کے معروف بازار تک پہنچ گئی؟ 

اس سے پہلے بھی 17 فروری جمعہ کے مبارک دن جب مرکزی جامع مسجد سے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد لوگ نکل رہے تھے تو ایک زبردست دھماکے نے کئی قیمتی جانوں کو لے لیا اور یہ ثابت کر دیا کہ سکیورٹی کے نام پر شہر میں تعینات ہونے والی فوج ناکام ہو چکی ہے، اس کی جگہ پر مرکز کی طرف سے تعینات گارڈز (پاسدار) ان سے بہتر تھے، جو حالات کو مکمل کنٹرول میں رکھے ہوئے تھے۔
 
آج جب ٹل پارا چنار روڈ کھلا ہوا ہے، شہر سے نکل جانے والے سنی حضرات نے شہر میں آمد و رفت شروع کر رکھی ہے، پاراچنار کے لوگ بھی صدہ اور دیگر دشمن علاقوں میں آجا رہے ہیں، حکومت کی طرف سے متاثرہ خاندانوں میں بحالی کے عنوان سے رقومات تقسیم ہو رہی ہیں، اعتماد باہمی کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے، ایسے میں پاک افغان بارڈر پر موجود حالات پر گہری نظر رکھنے والے نیٹو، انڈیا اور خود افغان فورسز کو یہ امن بھلا کیسے گوارا ہو سکتا ہے، کیسے یہ لوگ برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے علاقوں میں تو یہاں سے جانے والے امن وسکون غارت کر دیں اور تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کریں اور ان کے ایریاز محفوظ اور یہ خود شانتی سے خواب خرگوش کے مزے لیں۔۔۔۔

لہذا اس پرامن خطہ کو غارت کرنے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ایک بار پھر جنگ چھیڑ کر حساب برابر کرنے کی سازش صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ اصل مسئلہ اہل کرم کے ساتھ یہ ہے کہ انہیں ایک طرف تو عالمی طاقتیں مشق ستم بنانا چاہتی ہیں اور دوسری طرف پاکستانی فورسز و پولیٹیکل انتظامیہ کے تعصب کو بھی جھیلنا پڑتا ہے۔
 
پاراچنار کرم ایجنسی ہو یا کوئٹہ، کراچی ہو یا گلگت بلتستان، ہر جگہ بہنے والے شیعان علی (ع) کا پاکباز خون وطن کی سلامتی کا ضامن بنا ہوا ہے، وگرنہ شیعہ بھی پاکستان دشمنوں کی طرح افواج پاکستان پر جی ایچ کیو، نیول بیس، خفیہ اداروں کے دفاتر، کامرہ ایئر بیس اور ایف آئی اے، پولیس و حکومتی شخصیات و مراکز کو نشانہ بنانا شروع کر دیں تو اس ملک کا کیا بچے گا۔

کیا ان لوگوں کے پاس اس بات کا کوئی جواب ہے جو ملک بھر میں ہونے والی دہشت گردی کو کبھی لال مسجد آپریشن، کبھی قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اور کبھی امریکی ڈرون حملوں کا ردعمل کہہ کر دہشت گردی اور ملک دشمنی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہاں پر مجھے افسوس ان اداروں پر ہوتا ہے جو ہر طرف سے دہشت گردی کا شکار ہو کر بھی انہی عناصر سے مرض کی دوا لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
بقول شاعر
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
خبر کا کوڈ : 195011
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Australia
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے۔۔۔

جناب چیف جسٹس آف پاکستان صاحب۔ آپ نے سُووموٹو ایکشن نہی لینا ہے مت لیں، ظاہر ہے آپ بھی آخر ایک انسان ہی تو ہیں، ہو سکتا ہے مجبور بھی ہوں۔ یہ سب تین عشروں سے اِسی طرح روزانہ مرنے والے بھلا کونسا آپ کے اپنے ہیں۔ آپ کا تو بس ارسلان سلامت رہے، اِن سب کیلئے بس اللہ ہی کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے۔۔۔
ہماری پیشکش