7
0
Wednesday 19 Sep 2012 00:15

ٹیری جونز کی ہنسی

ٹیری جونز کی ہنسی
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com 

کراچی میں امریکی قونصلیٹ پر "محمد رسول اللہ" صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پرچم لہرانے اور سید علی رضا تقوی کو گولی لگنے کی خبر میں نے پڑھی اور سنی تو مجھے شدت سے احساس ہوا کہ ہماری اس چھوٹی سی دنیا میں یوں تو ہر شئے کی ایک انتہا اور حد ہے لیکن شاید دوہرے پن، دوغلے پن اور دوہرے معیار کی کوئی انتہا نہیں۔ جو قوم دوہرے پن اور دوہرے معیار کی عادی ہو جائے، اسے ذلت و رسوائی کی گھاٹیوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔

جیساکہ آپ جانتے ہیں کہ امریکی پادری کی "مسلمانوں کی معصومیت" نامی فلم منظر عام پر آنے کے بعد ہر روز اس کے خلاف احتجاج میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے اور اب تک شاید ہی دنیا کا کوئی ملک یا خطہ ایسا ہوگا جس کے رہنے والوں بالخصوص مسلمانوں نے اس فلم کی مذمت نہ کی ہو۔
ممکن ہے آپ اسے " لوگوں کی بیداری قرار دیں" اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اسے "ناموس پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کی خاطر مسلمانوں کی یکجہتی قرار دیں۔

آپ اس فلم کے خلاف موجودہ احتجاجی تحریک کو جو مرضی ہے نام دیں، آپ جتنے مرضی ہے جلوس نکال لیں، ہزاروں کی تعداد میں ٹائر جلائیں، گھنٹوں لمبی لمبی تقریریں کریں، ہر ملک اور ہر شہر کا پہیہ جام کر دیں، ہر ریاست میں سول نافرمانی کا اعلان کر دیں، لیکن آپ کے پاس کوئی ضمانت نہیں کہ غیر مسلم دانشوروں اور میڈیا کی طرف سے آئندہ پیغمبرِ اسلام (ص) کی شان میں گستاخی نہیں کی جائے گی۔۔۔؟

جی ہاں آپ کے پاس کوئی ضمانت نہیں۔۔۔؟
آپ جائیے۔۔۔کسی سے ضمانت مانگ کر دیکھ لیجئے، آپ کو احساس ہو جائے گا کہ اس امر کی ضمانت ملنا ناممکن ہے۔۔۔ سوچئے اور ضرور سوچئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا میں ڈیڑھ ارب سے بھی زیادہ بسنے والے مسلمان اپنے پیغمبر (ص) کی ناموس کے تحفظ کی ضمانت نہیں دے سکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے پاس دوسروں کو کافر ثابت کرنے اور دوسروں کو قتل کرکے جنّت میں جانے کی گارنٹی تو موجود ہے، لیکن ناموس پیغمبر (ص) کے لئے کوئی گارنٹی اور ضمانت نہیں۔

جب آپ شیعہ اور سنّی، پنجابی اور پٹھان، عربی اور عجمی، ہندی اور پاکستانی، کشمیری اور افغانی، کالے اور گورے نیز وڈیرے اور کمّی سے بالاتر ہو کر سوچیں گے تو تب آپ کو اس سوال کا جواب خود بخود مل جائے گا۔ آپ جان جائیں گے کہ دنیا میں ایک بڑی اکثریت رکھنے کے باوجود ہمارے پاس اپنے پیغمبر (ص) کی ناموس کی حفاظت کے لئے کوئی ضمانت اور کوئی گارنٹی کیوں موجود نہیں۔

آپ سوچیں گے تو آپ کو اسلامی دنیا کی آستین میں سانپ اور مسلمانوں کے ہاں دوہرا معیار صاف دکھائی دے گا، لیکن اس کے لئے آپ کو تمام تر تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا یہ "مسلمانوں کی معصومیت" نامی فلم اس لئے بری ہے کہ اس کا بنانے والا ایک عیسائی پادری ہے، یا پھر اس لئے بری ہے کہ اس میں معراج انسانیت اور ختمی المرتبت (ص) کی شان میں گستاخی کی گئی ہے۔۔۔؟

اگر آپ کے نزدیک اس فلم کی مخالفت کا معیار "ختمی المرتبت (ص) کی شان میں گستاخی ہے"۔۔۔ تو پھر انصاف سے بتائیے کہ ۔۔۔
کیا جنّت البقیع میں رسول گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ اور ان کی آل کے مزارات کو منہدم کرکے توہین رسالت نہیں کی گئی؟
کیا رسول اکرم (ص) کی اکلوتی بیٹی کے مزار کو گرا کر ویران کرنے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توہین نہیں ہوئی؟
کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب اور آل کے مزارات کو شرک کے مراکز کہنے سے رسول کی توہین نہیں ہوتی؟

کیا حضور کے مزار کی جالی کو چومنے والوں کو ڈانٹنے اور انہیں مشرک کہنے سے حضور (ص) کی اہانت نہیں ہوتی؟
کیا اولیائے کرام کے مقدس مزارات پر دھماکے کرنے سے حضور (ص) کی اہانت نہیں ہوتی؟
کیا بے گناہ لوگوں کو قرآن مجید کی آیات پڑھ پڑھ کر جانوروں کی طرح ذبح کر دینے سے قرآن اور پیغمبر (ص) کی توہین نہیں ہوتی؟
کیا مسجدوں میں نمازیوں کو گولیاں مار دینے سے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی اہانت نہیں ہوتی؟

کیا بیت المقدس پر یہودیوں کے قبضے اور فلسطینیوں کی در بدری کے باوجود سعودی شہزادوں کے، صہیونی نیز امریکی و یورپی آقاوں کے ساتھ جام چھلکانے سے اسلام اور پیغمبر اسلام (ص) کی اہانت نہیں ہوتی؟
کیا اپنے آپ کو طالبانِ اسلام کہنے والوں کے ہاتھوں بچیوں کے سکول بند کرانے اور عورتوں کو مجمع عام میں پیٹنے سے اسلام اور پیغمبرِ اسلام (ص) کی رسوائی نہیں ہوتی؟
آپ جس بھی مذہب اور جس بھی مکتب سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے ضمیر سے پوچھئے کہ عورتوں اور بچوں کی چیخ وپکار کے درمیان، "کلمہ گو مسلمانوں کو" کلمہ پڑھتے ہوئے، بسوں سے اتار کر موت کے گھاٹ اتار دینے سے اسلام اور پیغمبرِ اسلام (ص) کی شان میں اضافہ ہوتا ہے یا توہین ہوتی ہے۔۔۔؟
امریکی پادری ٹیری جونز اور اس کے ہمنواوں کو یہ جرات صرف اسی لئے ہوئی ہے کہ وہ ہمارے دوہرے معیار اور دوہرے پن سے آگاہ ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جب مسلمان خود ہر روز پیغمبرِ اسلام (ص) کی توہین کرکے "مجاہد اسلام" طالبانِ اسلام " اور "خادم حرمین شریفین" رہ سکتے ہیں اور کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تو پھر انہیں مسلمانوں کے احتجاجات اور جلوسوں کو خاطر میں لانے کی کیا ضرورت ہے۔

آج ناموس رسالت (ص) پر اپنی جان قربان کرنے والے "سید علی رضا تقوی" کا خون ہم سے کہہ رہا ہے کہ اے فرقوں اور علاقوں، نعروں اور تنظیموں، قبیلوں اور ٹولوں میں بٹے ہوئے مسلمانو! اگر ناموس رسالت (ص) کے تحفظ کے لئے مخلص ہو تو میری طرح ظاہر و باطن کو ایک کر دو، جس کے نام کا کلمہ پڑھتے ہو، اس کے نام پر جان دے دو، جس کی امّت کہلاتے ہو، اسی کی محبت کو زندگی کا معیار قرار دو، چاہے گستاخ رسول کوئی بھی ہو، اس کی سزا ایک ہی مقرر کرو ۔۔۔ بصورت دیگر نعرے لگاتے رہو اور احتجاج کرتے رہو!

یقین جانیں ہمارے دوغلے پن، دوہرے معیار اور کھوکھلے احتجاجوں کو دیکھ کر ٹیری جونز ہنستا اور سید علی رضا تقوی روتا ہوگا، چونکہ دونوں جانتے ہیں کہ جو قوم دوہرے پن اور دوہرے معیار کی عادی ہو جائے اسے ذلت و رسوائی کی گھاٹیوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔
خبر کا کوڈ : 196581
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Allah Akbar...
United Kingdom
Thought Provoking. I would share it with many. All readers pl do it
Pakistan
read till end
Nice column Naza sb,,,, very true
Pakistan
MASHALLAH Great Article
Pakistan
Really thought provoking column. God bless u and give us strength to be united.
Tanzania, United Republic of
Great Article Hafi Sahib May Allah give you strenth to write in same tune of language. Ameen
Yasir Arafat
Kabul Afghanistan
ہماری پیشکش