0
Sunday 14 Oct 2012 00:34

ملالہ یوسفزئی پر حملہ ۔۔۔۔ سوچی سمجھی سازش

ملالہ یوسفزئی پر حملہ ۔۔۔۔ سوچی سمجھی سازش
تحریر: تصور حسین شہزاد

بالائی اورکزئی میں طالبان کے حافظ گل بہادر گروپ کے کمانڈر مولانا شاکر اللہ کے کمپاؤنڈ پر امریکی ڈرون حملے میں 18 شدت پسند ہلاک اور 16 زخمی ہوگئے۔ مرنے والے سب کے سب افغانی تھے۔ اورکزئی ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ خوشحال خاں نے تصدیق کی ہے کہ بلند خیل ایریا میں سرگرم عمل حافظ گل بہادر گروپ کا افغان شدت پسندوں پر مشتمل گروہ اس حملے کا نشانہ تھا۔ حملے کے بعد طالبان نے علاقے کو اپنے گھیرے میں لے کر امدادی کام کئے اور کسی مقامی باشندے کو جائے حادثہ کے قریب جانے کی اجازت نہیں دی۔

مولانا شاکر اللہ کی سربراہی میں کام کرنیوالے حافظ گل بہادر گروپ کے حقانی نیٹ ورک سے قریبی تعلقات ہیں اور امریکہ کی طرف سے اس گروپ پر افغانستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کے مسلسل الزامات لگائے جا رہے تھے۔ یاد رہے کہ اورکزئی ایجنسی پر یہ دوسرا ڈرون حملہ ہے، اس سے پہلے 2009ء میں خیبر ایجنسی سے متصل سرحدی مقام میموزئی کے خادے زئی علاقے پر ڈرون حملہ کرکے تیرہ شدت پسندوں کو مارا گیا تھا، جن میں 5 عرب اور چیچن باشندے بھی ہلاک ہوئے تھے۔ پاکستان پر کیا جانے والا یہ 309واں ڈرون حملہ ہے۔
 
اہم بات یہ ہے کہ اورکزئی ایجنسی افغان سرحد سے دور ہونے کے باعث شمالی وزیرستان کے دہشت گردوں کی محفوظ ترین پناہ گاہ ہے، گزشتہ سال عسکری اداروں نے اسے عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کے لئے کارروائی کی تھی، مگر جونہی فوج یہاں سے نکلی شدت پسند پھر سے اسے اپنی آماجگاہ بنانے میں کامیاب ہوگئے، کیونکہ وہ ملٹری آپریشن کے دوران بالائی اورکزئی کے پہاڑوں میں جا چھپے تھے۔

مبصرین تازہ ترین ڈرون حملوں کو ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں، ان کا اندازہ ہے کہ ڈرون حملہ پاکستان کی عسکری قیادت کی طرف سے مبینہ اشارے موصول ہونے کے بعد کیا گیا۔ اس خدشے کے اظہار کی وجوہ بیان کرنے والوں کا خیال ہے کہ ملالہ یوسف زئی پر قاتلانہ حملے سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کے لئے اعلٰی سطحی عسکری قیادت کے اجلاس میں شدت پسندوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے بارے میں حتمی قدم اٹھانے کے سارے مضمرات کا جائزہ لینے کے بعد طے پا گیا ہے کہ Enough is Enough۔ اب مزید انتظار نہیں کیا جا سکتا، اس لئے نتائج سے بے پروا ہو کر آخری ہلہ بول ہی دیا جائے تو بہتر ہے۔

مبینہ اطلاعات ہیں کہ یہ انتہائی اقدام کئے جانے کے بارے میں سول اور عسکری قیادت کی سوچ ایک ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ گزشتہ رات چیف آف آرمی سٹاف نے صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی تو دونوں رہنماؤں نے ملالہ یوسف زئی پر حملے کے بعد پورے ملک میں دنیا بھر میں پائے جانے والے جذبات کی لہر سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اب دہشت گردی کے مرکز پر حملہ کرنے کے لئے فضا سازگار ہے، کیونکہ پاکستان کے طول و عرض میں ملالہ پر حملے پر پایا جانے والا شدید اضطراب اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گردوں کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے ہر اقدام کی حمایت کرے گی۔

یاد رہے کہ عسکری قیادت ابھی تک شمالی وزیرستان میں کسی بڑے آپریشن سے بوجوہ احتراز کرتی چلی آ رہی تھی، مگر ملالہ پر حملے کے بعد چیف آف آرمی سٹاف نے زخمی طالبہ کی عیادت کے موقع پر اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ہم دہشت گردوں کے سامنے نہیں جھکیں گے اس تناظر میں ایک اعلٰی فوجی افسر نے غیر سرکاری طور پر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ عسکری قیادت کے خیال میں صورت حال اس وقت نہایت موزوں اور فضا سازگار ہے، لہٰذا دہشت گردی کے اصل مرکز یعنی شمالی وزیرستان پر فیصلہ کن وار کرکے عسکریت پسندوں کا خاتمہ کرنے کا وقت آ گیا ہے، مگر اس کے لئے سیاسی قوتوں کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔

یہ حتمی آپریشن کب اور کہاں سے شروع کیا جائے گا، اس کی حکمت عملی طے کی جا رہی ہے اور مناسب وقت پر قوم کو بھی اس پر اعتماد میں لیا جائے گا۔ بدھ کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں پاس کردہ قرارداد ایک طرح سے دہشت گردی کے خلاف ممکنہ آپریشن کے لئے گرین سگنل ہی سمجھا جا رہا ہے۔ ابھی یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ آیا یہ آپریشن صرف تحریک طالبان پاکستان کے خلاف ہی شروع ہوگا کہ جس نے ملالہ پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، یا کہ اس کا دائرہ حقانی نیٹ ورک تک بھی بڑھایا جائے گا، جیسا کہ امریکہ کی طرف سے دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف انتہائی کارروائی کرکے اسے جڑ سے ختم کرے۔

دریں اثناء مبصرین چیف جسٹس آف پاکستان کے تبصرے کو بڑی اہمیت دے رہے ہیں کہ جو انہوں نے بلوچستان بدامنی کیس کے دوران ملالہ یوسف زئی پر حملے کے حوالے سے کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ملالہ پر حملہ ہونے سے پورا ملک تشویش میں مبتلا ہے، لوگ فوج سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ملالہ یوسف زئی پر حملے کا بدلہ لے۔ مبصرین کی رائے میں چیف جسٹس آف پاکستان کا تبصرہ دراصل رائے عامہ کی اکثریت کا ترجمان ہے، جو ملالہ پر حملے کے بعد طالبان اور مذہبی انتہاپسندوں کے لئے ناپسندیدگی کو نفرت میں تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئی ہے، کیونکہ طالبان ترجمانوں نے ایک نہتی اور علم کی پیاسی لڑکی پر بزدلانہ حملے پر معذرت خواہ ہونے کی بجائے اس کی ایسی بے سروپا توجیہات پیش کرنے کا سلسلہ شروع کرکے اسے جائز قرار دینے پر اصرار کیا ہے، جسے کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ ملالہ پر حملے نے پاکستانی معاشرے میں موجود اسلامی ذہن رکھنے والوں میں طالبان کے ہمدردوں اور بہی خواہوں کو بھی اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کرکے سخت کوفت میں مبتلا کر دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں سے بھی عمران خان کی تحریک انصاف، جماعت اسلامی، دفاع پاکستان کونسل اور دیگر مذہبی عناصر کو تذبذب کا شکار کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض دبے لفظوں میں ملالہ حملے کو اسلامی قوتوں کے خلاف امریکی سازش قرار دے رہے ہیں۔ اس کانسپریسی تھیوری رکھنے والوں کا استدلال ہے کہ ملالہ یوسف زئی ایک بچی ہے اور عورتوں بچوں پر حملہ کرنا نہ صرف پختون روایات کے خلاف ہے، بلکہ اسلامی نظام کیلئے برسر پیکار طالبان بحیثیت مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کسی نہتی بچی کو ٹارگٹ کرکے قتل کریں۔

ملالہ پر حملہ کرنے والوں نے اس بچی کو نشانہ بنا کر اپنے وہ تمام مقاصد حاصل کر لئے ہیں، جو وہ گزشتہ کئی ماہ کی کوششوں سے حاصل کرنے میں ناکام ہوئے جا رہے تھے۔ ملالہ یوسف زئی پر حملے کا اولین مقصد یہی نظر آتا ہے کہ امریکہ نے اسے نشانہ بنا کر پوری دنیا میں عموماً اور پاکستان میں خصوصاً رائے عامہ کو طالبان کے خلاف نفرت میں مبتلا کرکے ایسی فضا تیار کر دی ہے، جس میں اگر فوج شمالی وزیرستان میں آپریشن کلین اپ شروع کر دے تو اسے عوامی سطح پر کسی قسم کی مزاحمت کی بجائے پذیرائی ملے، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف عناصر کے ساتھ ساتھ اب طالبان کے حمایتی بھی ان کے ساتھ دست تعاون سے گریز کرتے نظر آتے ہیں، یہاں تک کہ وہ مذہبی جماعتیں جن کے ذریعے طالبان کو امدادی کمک مسلسل ملا کرتی تھی، وہ بھی عوامی دباؤ کے تحت طالبان کو امداد مہیا کرنے کا سلسلہ زیادہ دیر تک جاری نہ رکھ سکیں گی۔

شنید ہے کہ طالبان کی سرپرست اکثر مذہبی جماعتیں طالبان کی طرف سے مالی اسباب پیدا کرنے کیلئے اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سے بھی نالاں ہیں، خاص طور پر پنجاب کے ایک بڑے صنعت کار کے اغواء کے بعد اس کی رہائی کیلئے طالبان کی طرف سے 5 ارب روپے کے مبینہ مطالبے نے بہت سے سرکردہ علمائے دین کو طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ملالہ یوسف زئی پر حملے کا سب سے بڑا فائدہ امریکہ کی اس مہم کو پہنچا ہے جو وہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف پاکستان فوج سے آخری وار کروانے کیلئے چلا رہا تھا۔ اس حوالے سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ ملالہ پر حملہ ایک سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ ہے، جس کے دور رس اور دیرپا نتائج حاصل کرنے کے خواہاں لوگ کسی کی نظروں سے اوجھل نہیں رہے۔
خبر کا کوڈ : 203248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش