1
0
Saturday 20 Oct 2012 20:35

ملالہ، اوبامہ اور طالبان

ملالہ، اوبامہ اور طالبان
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com 

بھائیو عدل و انصاف سے کام لینا، عدل ہونا چاہیے، انصاف ہونا چاہیے، کسی کی دیوار پھلانگ کر اندھیری رات میں جب ڈاکو اپنی کارروائی مکمل کر لیتے ہیں تو آپس میں مال بانٹتے ہوئے وہ بھی یہی نعرہ لگاتے ہیں کہ عدل ہونا چاہیے، انصاف ہونا چاہیے۔ فرض کریں اگر ایک ڈاکو کے ساتھ اس کے ساتھی مال کی تقسیم میں عدل و انصاف سے کام نہ لیں اور محروم شدہ ڈاکو اپنے حق کے لئے قیام کرے اور اس قیام کے دوران باقی ڈاکو اسے جان سے مار دیں تو کیا کوئی مسلمان یہ کہے گا کہ مارا جانے والا ڈاکو سیدھا جنت میں جائے گا، چونکہ اس نے عدل و انصاف کے لئے قیام کیا ہے۔
نہیں ہرگز نہیں، بلکہ ہر عقل مند انسان اور بالخصوص منصف مزاج مسلمان یہی کہے گا کہ ڈاکووں کا ہدف اور مقصد عدل و انصاف نہیں ہوتا بلکہ یہ عدل و انصاف کا نعرہ اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لئے لگاتے ہیں۔ ڈاکو عدل و انصاف کی خاطر اس وقت ہتھیار اٹھاتے ہیں جب ان کا اپنا نقصان ہو رہا ہو، ورنہ یہ خود کسی عدل اور انصاف کے پابند نہیں ہوتے۔ 

اس وقت پاکستان میں عدل و انصاف اور انقلاب کا نعرہ جس طرح ملالہ اور اس کے حامیوں نے لگا رکھا ہے، ویسے ہی اس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے طالبان بھی انقلاب اور عدل و انصاف کے نام کی مالا جپ رہے ہیں۔ بات ملالہ، اس کے ہمنواوں یا اس کے دشمنوں کی نہیں بلکہ ضرورت اوبامہ، ملالہ اور شدت پسندوں کے تفکر کو علمی بنیادوں پر تجزیہ و تحلیل کے ساتھ سمجھنے کی ہے۔ اوبامہ اور ملالہ بھی انقلاب اور عدل و انصاف کی بات کرتے ہیں اور طالبان بھی یہی نعرہ لگاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام بھی انقلاب چاہتی ہے۔ اوبامہ اور ملالہ تو اپنے انقلاب کی وضاحت کر رہے ہیں، طالبان بھی اپنے انقلاب کا پرچار کر رہے ہیں، لیکن ملت پاکستان ہمیشہ کی طرح آج بھی گنگ ہے، یہ ملت اپنی زبان نہیں کھول رہی کہ اسے کونسا انقلاب درکار ہے۔ اوبامہ، ملالہ یا طالبان والا یا پھر علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی والا۔
 
یہ ملت دو فکروں کے درمیان بھٹک رہی ہے، اس کی رہبری کا دعویٰ کرنے والے اکثر رہبر دو طرح کے ہیں۔ دونوں انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاتے ہیں۔ ایک روشن فکری کا مارا ہوا ہے اور دوسرا خشک دینداری کی چکی میں پسا ہوا۔ ایک اپنے آپ کو کامریڈ، روشن فکر اور پتہ نہیں کیا کیا کہتا ہے جبکہ دوسرا اپنے آپ کو عالم دین، پابند شریعت، مجاہد اسلام اور کٹر دیندار کہتا ہے۔ میری ملت کے روشن فکر رہبروں کے نزدیک آج مسلمان اس لئے دنیا میں رسوا ہیں کہ ان میں مذہبی جراثیم پائے جاتے ہیں اور یہ ساری زندگی دین کا دم بھرتے ہیں۔
 
اپنے بچوں کے نام محمد، علی اور حسین رکھتے ہیں۔ اپنے مرحومین کی یاد منانے کے لیے قرآن خوانی اور نعت خوانی جیسے پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ یہ اپنے اکابرین کو مسٹر اور سر کہنے کے بجائے "رحمۃ اللہ" اور علیہ السلام کہتے ہیں۔ جبکہ میرے شدت پسند دیندار رہبروں کے مطابق مسلمان قوم اس لئے گمراہ ہے کہ وہ ان کے بتائے ہوئے دین پر چلتی ہی نہیں۔ اس کے دین کے مطابق اس کے فرقے کے علاوہ باقی سب مسلمان گمراہ، مشرک اور واجب القتل ہیں۔ میرے روشن فکر رہبر بھی قرآن و حدیث کی من مانی تاویلیں کرتے ہیں اور صرف اپنی ہی تاویلوں کو درست سمجھتے ہیں۔ یہی روش میرے شدت پسند دیندار رہبروں کی بھی ہے۔ 

قارئین محترم، اگر آپ سارے تعصبات کو اپنی آنکھوں سے ہٹا دیں اور غیر جانبدار ہو کر اپنے ہاں اوبامہ نواز پائی جانے والی روشن فکری اور طالبان کی شدت پسندی کا موازنہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ بظاہر دونوں گروہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں، لیکن درحقیقت دونوں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ دونوں کا فکری جمود ایک جیسا ہے اور دونوں پیغام ِاسلام اور تعلیماتِ قرآن کے دشمن ہیں۔ المختصر دونوں اپنے سوا باقی سب کو غلط، منحرف اور گمراہ سمجھتے ہیں۔ جب ہم ان دوطرفہ انتہا پسندوں کا باہمی موازنہ کرتے ہیں تو اس وقت ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ دنیا میں مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا سلسلہ کیوں نہیں تھمتا۔ دونوں کے نزدیک نہ اسلام اہم ہے اور نہ مسلمان، دونوں کا دھندہ "مسلمانوں کو بدنام کرو" کے سہارے پر ہی قائم ہے۔
 
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی دنیا جسے روشن فکروں کے ہاتھوں علاقائیت، فحاشی، عریانیّت اور مشرق و مغرب زدگی کا شکار ہے، اسی طرح شدت پسندوں کے ہاتھوں مذہبی منافرت، فرقہ واریّت اور بدامنی کے الاو میں بھی جل رہی ہے اور اس افراتفری اور بدامنی کا سارا فائدہ اسلام دشمن طاقتوں کو پہنچ رہا ہے۔ آج ہمیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب اربوں مسلمانوں کی فکروں پر دو استعماری گروہ کام کر رہے ہیں۔ ایک گروہ شدت پسند طالبان کی صورت میں لوگوں کو اسلام سے متنفر اور منحرف کر رہا ہے، جبکہ دوسرا گروہ نام نہاد روشن فکری کی صورت میں عوام النّاس کو دین و مذہب اور ملک و ملت سے بدظن کر رہا ہے۔
 
ان دونوں گروہوں کی کوشش ہے کہ لوگ، دین کو خطرہ سمجھیں یا پھر افیون، وہ لوگوں کو دین سے ڈرا کر یا پھر گمراہ کرکے اپنے پیچھے چلانا چاہتے ہیں، کوئی ان کے پیچھے نہ چلے، اسے ایک گروہ تنگ نظر، پسماندہ اور بیک ورڈ قرار دے کر مسترد کر دیتا ہے، جبکہ دوسرا اسے کافر اور مرتد کہہ کر واجب القتل قرار دے دیتا ہے۔ آئیڈیالوجی اور نظریات کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ آخر ہم کب تک جھنڈوں کے سرخ و سبز رنگوں سے دھوکے کھاتے رہیں گے، رنگوں، جھنڈوں اور بیانات کی بجائے ہمیں تجزیہ و تحلیل سے کام لینا چاہیے، اس لئے کہ رنگوں اور جھنڈوں کا اختلاف، ہمیشہ فکری و نظریاتی اختلاف نہیں ہوتا۔
 
ہمیں یہ حقیقت کبھی بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ڈاکو عدل و انصاف کی خاطر اس وقت ہتھیار اٹھاتے ہیں، جب ان کا اپنا نقصان ہو رہا ہو، ورنہ یہ خود کسی عدل اور انصاف کے پابند نہیں ہوتے۔۔ ملالہ کے سر پر اوبامہ دستِ شفقت پھیرے یا شدت پسند اس کے سر پر گولی ماریں، بات ایک ہی ہے۔ ڈاکووں کا ہدف اور مقصد عدل و انصاف نہیں ہوتا، بلکہ یہ عدل و انصاف کا نعرہ اپنے مفادات کو پورا کرنے کے لئے لگاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 205126
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United States
بہت اچھی تحلیل ہے،پروردگار آپکی توفیقات میں اضافہ فرمائے، آمین
ہماری پیشکش