0
Monday 12 Nov 2012 23:21

کراچی کیلئے حکمت عملی کیا ہے؟

کراچی کیلئے حکمت عملی کیا ہے؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر 

نہایت افسردہ کر دینے والے حالات۔ انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں مگر حکمران طبقہ بلکہ انتظامیہ بے بس! کراچی کے حالات اس قدر سنگین ہوچکے ہیں کہ کراچی میں پولیس نے دستیاب وسائل میں دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کا مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا اور یہ امر ریاستی بے بسی کی علامت ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز بھی پولیس و رینجرز کی بے بسی پوری طرح عیاں تھی۔ ایک محنت کش باپ کو اس کے دو بیٹوں سمیت ابدی نیند سلا دیا گیا۔ مگر انتظامیہ یہ کہہ کر جان چھڑانے پر تلی ہوئی ہے کہ کراچی کے حالات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ بھتہ خوروں نے امن خراب کیا اور گاہے سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز کا بھی اشاروں، کنایوں میں نام لیا جاتا ہے۔ معاملہ بہت آگے بڑھتا نظر آیا تو نشاندہی کی گئی کہ طالبان کراچی کا امن تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور کچھ لسانی گروہ ان کے ہمرکاب ہیں۔
 
مگر میرا سوال دوسرا ہے، کراچی کا مسئلہ آج کا نہیں، کوئی دو عشروں سے بھی ادھر کا ہے۔ ایک سیدھے سادھے سیاسی معاملے کو اس قدر الجھا دیا گیا کہ اب باقاعدہ آپریشن کی ضرورت محسوس ہوتی نظر آرہی ہے، بلکہ بعض سیاسی جماعتیں تو کراچی میں آپریشن کا مطالبہ بھی کرتی رہتی ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، اے این پی، جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی سیاسی جماعتیں اور لسانی گروہ کراچی میں قیام امن کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں تو امن قائم ہونے میں دیر نہیں، لیکن ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ شہر قائد میں امن کے بجائے اس پر قبضہ جمانے کی کوششوں نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے۔ اپوزیشن جماعت کے سربراہ میاں نواز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت کراچی میں موت کا کھیل کھیلنے والوں کو پوری قوت سے کچلے، انھوں نے مزید التجا کی کہ روشنیوں کے شہر کو بدامنی سے بچانے کے لیے سیاسی و دینی جماعتوں سمیت تمام طبقات کردار ادا کریں۔
 
اس امر میں کلام نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ کراچی کی بدامنی میں اسرائیل کا اسلحہ استعمال ہو رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان سے کراچی تک حالات خراب کرنے میں انتہا پسند گروپوں سمیت غیر ملکی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ ملوث ہیں۔ اگر حکومت کو ان عناصر کا پتہ چل چکا ہے جو کراچی میں بدامنی اور قتل وغارت گری میں ملوث ہیں تو پھر ان کے خلاف کارروائی کرنے میں لیت ولعل کا شکار کیوں ہے؟ یقیناً ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی اس وقت کراچی میں قیام امن کے حوالے سے زیادہ ذمہ دار ہیں، کیونکہ یہ کسی نہ کسی شکل میں ناصرف باہم اتحادی ہیں بلکہ بعض تجزیہ کار، لسانی گروپوں، قبضہ مافیا، بھتہ خوروں کے لیے ان تینوں سیاسی جماعتوں کی آشیر باد کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ سیاست گری کے اس گھناؤنے کھیل میں نقصان عام آدمی کا ہی ہو رہا ہے۔
 
ہمیں اب یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ جب بھی حکومت ٹارگٹڈ آپریشن کرنے کا اعلان کرتی ہے تو بدامنی میں ملوث عناصر زیر زمین چلے جاتے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ حکومت نے کراچی کے حالات بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ حکمت عملی طے ہی نہیں کی۔ کراچی میں رواں سال اب تک اٹھارہ سو سے زائد شہری ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جبکہ موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر کئی مرتبہ پابندی کے باوجود پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے کو روکنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حتی کہ کھالیں اکٹھی کرنے پر پابندی ہونے کے باوجود لسانی و مذہبی جماعتوں نے کراچی شہر میں لوگوں سے زبردستی کھالیں ہتھیا لیں، مگر قانون خاموش رہا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ حالیہ ٹارگٹ کلنگ کی لہر میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر شہریوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ برس سپریم کورٹ میں کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ ہونے کے بعد بھی رواں سال سیاسی، مذہبی اور دیگر تنظیموں کے کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ سی پی ایل سی کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال پیپلز پارٹی کے 60، متحدہ قومی موومنٹ کے 138، مہاجر قومی موومنٹ کے 12، عوامی نیشنل پارٹی کے 51، تحریک انصاف کے 2، جمعیت علمائے اسلام کے 1، کالعدم پیپلز امن کمیٹی کے 15، کچھی رابطہ کمیٹی کے 5، اہل سنت والجماعت کے 4، سنی تحریک کے 20، جماعت اسلامی کے 3، مسلم لیگ ن کے 4 اور مختلف شیعہ تنظیموں کے 56افراد کو رواں سال کراچی میں ٹارگٹ کرکے قتل کر دیا گیا۔
 
جبکہ سال 2012ء میں اب تک پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 106 اہلکاروں کو بھی شرپسندوں کی گولیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ واضح رہے کہ گذشتہ برس 6 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس کا فیصلہ سنایا تھا۔ جس میں قیام امن کے حوالے سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ شہر میں موجود غیر قانونی اسلحہ ضبط کیا جائے، پولیس کو سیاسی اثر سے پاک کیا جائے اور لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کے لیے موثر قانون سازی کی جائے، شہر میں نوگو ایریاز کا خاتمہ کیا جائے، بھتہ خوروں کے خلاف موثر کارروائی کی جائے نیز اسلحہ لائسنس کا اجرا نادرا کے ذریعے کیا جائے اور شہر میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی افراد کے خلاف کارروائی کے لیے نادرا اور پولیس کا مشترکہ سیل قائم کیا جائے۔ تاہم سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے باوجود گذشتہ سال اکتوبر سے اب تک 2250 اور صرف رواں سال میں 1800 سے زائد افراد کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ 

یوں حکومت کراچی میں امن و امان کے مسئلے سے نمٹنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ البتہ ایک کام یوں ہوتا ہے کہ کراچی میں جب بھی لاشیں گرنے کا سلسلہ دراز ہوتا ہے تو صدر مملکت وزیر داخلہ صاحب کو فوری کراچی پہنچنے کی ہدایت کر دیتے ہیں، لیکن حالات گواہ ہیں کہ ان کی اسلام آباد سے کراچی کے درمیان ہونے والی پروازیں لوگوں کے دکھوں کامداوا نہ کر سکیں۔ جب تاجر بھتہ خوروں کے نام اور ان کی سرپرستی کرنے والوں تک کا بتا رہے ہیں، جب قبضہ مافیا کے گروہ جانے جا چکے ہوں اور کرائے کے قاتلوں کے نہ صرف ٹھکانے معلوم ہوں بلکہ انھیں پناہ دینے والے بھی عیاں ہوچکے ہوں اور جب یہ تک معلوم ہوچکا ہو کہ غیر ملکی اسلحہ پاکستانی ہاتھوں میں تھمایا جا چکا ہے تو پھر اس آگ پر قابو پانے کے لیے فقط اعلٰی سطح کے امن وامان سے متعلق اجلاسوں پر ہی تکیہ کیوں کیا جاتا ہے؟ کوئی عملی اقدامات کیوں نہیں؟ کیا حکومت اپنا جمہوری عرصہ پورا کرنے کے چکر میں اپنے اتحادیوں کو خوش کرتے کرتے کراچی لہولہان کراتی رہے گی؟ 

ہم سمجھتے ہیں کہ کراچی کے حوالے سے جنگی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اجلاس تو ہم بہت بھگت چکے، اب شہر میں امن کے قیام کے لیے اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے۔ یہ امر بھی بڑا دکھی کرنے والا ہے کہ کراچی شہر میں لسانی تعصب، صوبائی نفرت اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی بنیاد بڑے منظم طریقے سے رکھی گئی۔ المیہ مگر یہ ہے کہ حکومت لاشیں گرنے کے اس سلسلے کو روک نہ سکی بلکہ ’’درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ کے مصداق یہ یہ درد تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔
 
ہم پوری دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سیاسی قیادت کراچی پر قبضہ کے بجائے اس شہر میں امن کے قیام لیے آگے بڑھے تو امن ممکن ہے۔ پاکستان اس وقت خارجی و اندرونی دشمنوں کی سازشوں کا شکار ہے۔ فقط بیانات کے ذریعے امن کی چادر نہیں اوڑھی جا سکتی۔ معصوم انسانوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ چند لسانی و سیاسی اور مذہبی گروہوں کے رحم و کرم پر کراچی کے معصوم باسیوں کو چھوڑنے کا نتیجہ ایک مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاست کو اپنے فرائض کی جانب متوجہ ہونا پڑے گا۔
خبر کا کوڈ : 211325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش