1
0
Wednesday 17 Apr 2013 23:36
ایک عجیب نورا کشتی

منگل باغ افغانستان کی ضرورت، حقانی پاکستان کی

منگل باغ افغانستان کی ضرورت، حقانی پاکستان کی
تحریر: ایس این حسینی

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک عجیب قسم کی نورا کشتی جاری ہے، جو فرد یا گروپ کسی ایک ملک کا باغی ثابت ہو جاتا ہے، دوسرا اسے ہاتھوں ہاتھ لے کر اپنا ہیرو بنا لیتا ہے اور اسی حالت میں پھر ایک دوسرے سے تعلقات بہتر بنانے کی توقعات بھی رکھتے ہیں۔ منگل باغ ہی کو لیجیئے جو پاکستان کا باغی ہوکر افغانستان کی آنکھوں کا تارا بن چکا ہے، اور جس کی مدد کرنے میں امریکہ اور افغانستان دونوں نے فیاضی کے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ بالکل اسی طرح جو شخص بھی افغانستان کا دشمن یا باغی قرار پاتا ہے وہ پاکستان کی آنکھوں کا تارا بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں حقانی کی مثال آپکے سامنے ہے۔ ایسی درجنوں مثالیں اور بھی ہیں، مولوی فضل اللہ بھی انہی افراد میں سے ہیں جو پاکستان کو مطلوب اور افغانستان کو بھی مطلوب ہے لیکن پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی سطح پر۔

اب منگل باغ کی تازہ کامیابیوں یا ناکامیوں کی طرف آتے ہیں۔ منگل باغ دراصل لشکر اسلام کے موسس اور بانی ہیں۔ انہوں نے ابتداء میں یہ لشکر مفتی منیر شاکر کی حمایت اور پیر سیف الرحمان کی مخالفت میں تشکیل دیا تھا۔ مگر جب انکی جنگ یا بقول انکے جہاد کا دائرہ انصار الاسلام سے بڑھ کر پاکستانی تنصیبات و املاک تک بڑھ گیا تو پاکستانی اداروں نے ان سے نمٹنے کے لئے کارروائی شروع کی۔ تن تنہا کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو قبائلی امن لشکر بنا ڈالے۔ جنکی کچھ عرصہ تک مالی اور فوجی کمک بھی کرتے رہے۔ مگر اس دوران انہوں نے اپنے تشکیل کردہ امن لشکروں سے بھی وفا نہیں کی۔ انہیں بےیار و مددگار اور دہشتگردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ جس میں انہیں ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔

تاہم حکومت کو اس سلسلے میں کافی فائدہ ہوا، انہوں نے گویا مسلح عوام کا قلع قمع انہی یعنی عوام ہی کے ہاتھوں کیا، اور جنگ کو پشاور کے مضافات (باڑہ) سے لے جاکر دور افتادہ علاقہ وادی تیراہ پہنچایا۔ واضح رہے باڑہ پشاور سے صرف آدھے گھنٹے کے فاصلے پر واقع ہے اور یوں اس دور افتادہ علاقے میں غیروں کے بچے، خواتین، بوڑھے اور جواں تو مرتے ہی رہے، بلکہ انکے گھر بار بھی جلتے یا لٹتے رہے، اس سے تو انکا واسطہ ہی نہیں تھا، انکو جو سب سے بڑا فائدہ تھا وہ یہ ہوا کہ جو واضح خطرناک لوگ تھے، انکے خلاف ایسے مسلح افراد کو برسرپیکار کیا جو مستقبل میں خطرناک ہوسکتے تھے۔ امن لشکر کے نام سے جنگجو افراد کو جمع کرکے ظاہری اور واضح ملک دشمنوں کے خلاف خوب لڑایا اور استعمال کیا، مگر انہیں مطلوبہ اور وعدوں کے مطابق وسائل نہیں دیئے۔ طفل تسلیوں اور چاکلیٹ اور چیونگموں سے بہلایا۔

چند ہفتوں سے وادی تیراہ میں ایک بار پھر آگ اور خون کا کھیل شروع ہوگیا ہے۔ سینکڑوں شرپسندوں کی ہلاکت کے علاوہ اتنے ہی بےگناہ مرد و زن بھی موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ اس دوران مار دھاڑ کے علاوہ جو اہم واقعہ ہوا وہ یہ کہ اس دفعہ یہاں طالبان اور شکست خوردہ لشکر اسلام نے ایکا کرلیا، منگل باغ اور لشکر اسلام کی ملک دشمنی سے تو کسی کو انکار نہیں، مگر طالبان کے متعلق ہمارے اداروں کا خیال ہے کہ ان میں سے بعض اچھے طالبان ہیں اور بعض برے۔ اب جب منگل باغ کے لشکر سے طالبان کا نہ صرف اتحاد ہوگیا بلکہ انہوں نے اسے اپنا سپریم لیڈر بھی تسلیم کیا تو اداروں کو ملک خطرے میں نظر آیا۔ قارئین کو اس سلسلے میں معلومات ہونگی کہ ان دونوں کے اتحاد نے حکومت کے اتحادی انصار الاسلام کو شکست سے دوچار کر دیا اور انہیں علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔ علاقہ چھوڑنے کے ساتھ انصاروں نے لاشیں اور مکانات اور قیمتی املاک بھی حریفوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں۔ طالبان نے جو سلوک مکانات کے ساتھ کیا وہی یا اس سے کچھ بدتر سلوک لاشوں کے ساتھ کیا۔

اقوام متحدہ کے مطابق کوئی 40 ہزار خاندانوں نے علاقہ چھوڑ کر کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی اور پشاور کے جلوزئی کیمپ میں پناہ لی ہے۔ "جب چڑیاں چگ گئیں کھیت" کے مصداق ہمارے ادارے بالآخر حرکت میں آگئے اور انہوں نے پوری قوت سے شرپسندوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ جس میں انہیں تادم تحریر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ اگرچہ تحریک طالبان پاکستان اپنی گرفت اُن علاقوں پر کافی مضبوط کرچکی تھی، جو اس نے حکومت کے حمایتی مسلح گروپ انصارالاسلام سے چھینے تھے۔ اسکے علاوہ لشکر اسلام تیراہ کے علاقے سیپاہ، آکاخیل اور ملک دین خیل میں اچھی طرح مورچہ بند ہوچکا ہے، مگر حکومت نے جیٹ طیاروں اور بھاری توپخانے کی مدد سے اب انہیں پسپا کرنے کے علاوہ انکے قبضے سے کافی علاقے آزاد کرا لئے ہیں۔

حکومت کی طرف سے طالبان کے خلاف جبکہ ایسا ہی دوسری جانب سے جہاد جاری ہے۔ پاکستان جو خالصتاً نظریہ اسلام کے تحت معرض وجود میں آیا تھا، اس کو مدنظر رکھتے ہوئے آج پاکستانی اسلام میں امن اور سلامتی کو کیا درجہ حاصل ہے اور جہاد کو کونسا، ہمارے ہاں جہاد کا فلسفہ یہ بن گیا ہے کہ سرکاری فوجیوں کو مارو یہ سب سے بڑا جہاد ہے۔ سرکاری املاک، گرڈ اسٹیشن، طیاروں اور مکانات کو جلا دو، اسلام کی یہی سب سے بڑی خدمت ہے، یا دوسری جانب فوجیوں کی بھی سب سے بڑی ڈیوٹی یہی لگی ہے کہ اب کسی دشمن ملک کے خلاف لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں، اپنی عوام کے ساتھ لڑنے کی مشق کرتے رہو، کیونکہ فوجی مشقیں تو بہت ضروری ہوتی ہیں نا۔ ہماری فوجی مشقیں اب قبائل میں پورا سال جاری رہتی ہیں اور قبائل بلکہ تمام پاکستانیوں کی بھی مفت میں فوجی تربیت ہو رہی ہے، کیونکہ بعض ممالک میں ہر شہری کے لئے فوجی تربیت حاصل کرنا فرض ہوتا ہے، جبکہ ہمارے ملک میں اسکا صحیح حل نکالنے کیلئے یہ طریقہ نکالا گیا ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان لڑائی اور مشقوں میں دونوں کی کافی بہتر تربیت ہو رہی ہے۔ 

اب ایک عجیب بات یہ ہے کہ پاکستان اور کابل دونوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے خلاف کن قوتوں کو استعمال کر رہے ہیں اور انکی یہ پالیسی گذشتہ 65 سالوں سے چلی آ رہی ہے، اور پھر بھی ایک دوسرے سے بھلائی کی توقعات بھی رکھتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ملک دوسرے کے اندر مسلسل بدامنی جنگ و فساد پھیلانے میں مشغول رہے اور دوسرا اسکو دوستی کا ہاتھ دے، یہ تو ناممکن ہے۔ اس سلسلے میں، میں یہ گزارش کروں کہ کیا اب دونوں ممالک مل بیٹھ کر یہ طے نہیں کرسکتے کہ اپنی تمام سابقہ پالیسیوں سے یو ٹرن لے کر نئی خارجہ پالیسی بنائیں اور ایک دوسرے کو باور کرائیں کہ آئندہ اسکا ملک اپنے مسلمان ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگا۔ پھر دیکھیں کہ دونوں ممالک میں امن کا قیام ممکن ہے یا نہیں۔
خبر کا کوڈ : 253411
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

qabail pr malomat frahm krny pr bot shkria. is sy phly atni wzaht k sath malomat hasil na thee. ayenda b ye slslla jari raken. khoson is bath ki zara wazahat karen k kon kon log pakstan kabul k khlaf awr kabul hamary khlaf isimal krty han.
ہماری پیشکش