0
Saturday 27 Apr 2013 09:02

جنرل مشرف کے انجام میں مقتدرہ کیلئے عبرت

جنرل مشرف کے انجام میں مقتدرہ کیلئے عبرت
تحریر: رشید احمد صدیقی

سابق آرمی چیف اور صدر مملکت جنرل (ر) پرویز مشرف کو انسداد دہشتگردی عدالت نے باقاعدہ گرفتار کرنے اور ان سے تفتیش کرنے کا حکم یدیا ہے۔ وہ ججز نظر بندی کیس میں پہلے سے گرفتار ہیں اور اپنے محل نماء گھر میں قید ہیں۔ ان کو آئین توڑنے کے الزام کا بھی سامنا ہے۔ جس میں نگران حکومت کی کارروائی کرنے سے معذرت کی وجہ سے کچھ تعطل پیدا ہوگیا ہے۔ عدالتی کمیشن انھیں لال مسجد آپریشن کا بھی ذمہ دار قرار دے چکا ہے اور ابھی مزید کارروائی ہونی ہے۔ اکبر بگٹی قتل کیس میں بھی ان کو عدالتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ نو سال تک ملک کے طاقتور ترین صدر رہنے والے جنرل مشرف نے دو بار آئین کو معطل کیا تھا۔ جو ان کے دل میں آتا کر گزرتے تھے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو دو مرتبہ گھر بھیجا تھا۔ افغانستان کی موجودہ صورت حال میں امریکہ کا کھل کر ساتھ دیا تھا، جس کے نتائج آج بھی پوری قوم ڈرون حملوں اور خودکش دھماکوں کی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ان کے جرائم کی فہرست کافی طویل ہے۔ لیکن مشکل وقت میں امریکہ کا ساتھ دینے کے نتیجے میں انعام کے طور پر اس نے ایوان صدر سے نکلنے کے بعد ان کی باعزت نکلنے کی ضمانت دی تھی۔

ایک منتخب حکومت کے آنے کے بعد وہ صدر نہ رہ سکے تھے۔ استعفٰی کے بعد انھیں باقاعدہ گارڈ آف آنر کے ساتھ رخصت کیا گیا تھا۔ کافی عزت افزائی کے ساتھ ملک سے چلے جانے کے بعد وہ نسبتاً ایک باعزت زندگی گزار رہے تھے۔ یہ سب کچھ ایک معاہدہ کے تحت ہوا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بن جانے کے بعد ان کے عہدہ صدارت کی مدت میں چار سال باقی تھے۔ لیکن جمہوری حکومت ان کو برداشت کرنے کی روادار نہ تھی۔ ان کو استعفٰی دینے پر آمادہ کیا گیا لیکن ساتھ ہی امریکہ نے یہ ضمانت بھی دی تھی کہ ایوان صدر سے نکلنے کے بعد ان کی بے توقیری نہیں کی جائے گی۔ اس کے لئے الفاظ تھے disgrace۔ چناچہ سرکاری پروٹوکول کے ساتھ وہ امریکہ اور برطانیہ چلے گئے۔ وہاں اہم مقامات اور مواقع پر لیکچر دے کر اچھی خاصی شہرت اور دولت کما رہے تھے۔ جن مقدمات اور جرائم کا ان کو آج سامنا ہے، ان سب سے محفوظ تھے۔ نہ معلوم کس نے ان کو واپس آکر یہ خطرات مول لینے کا مشورہ دیا تھا۔
 
اقتدار کے دنوں میں ان کی ہر حال میں حمایت کرنے والا کوئی ایک بھی شخص ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں۔ سب نے راہیں جدا کر لی ہیں اور ان سے آنکھیں بھی پھیر لی ہیں۔ ہر عام و خاص ان کی مشکل کو سمجھ سکتا ہے۔ ان کو پوری دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ سے گرفتاری کا حکم سننے کے بعد انھوں نے گرفتاری سے بچنے کی اپنی سی کوشش کرکے دیکھ لیا تھا۔ سابق صدر کے پروٹوکول کی وجہ سے آرمی کمانڈوز کی بڑی فوج ان کی حفاظت پر مامور ہے۔ عدالتی حکم سننے کے بعد پولیس ان کو گرفتار کرنا بھی چاہتی تو ان کے کمانڈوز کی موجودگی میں ناشائستہ صورت حال پیدا ہونے کا احتمال تھا۔ یہ ان کا فرض تھا کہ خود پولیس کو گرفتاری دیتے۔ لیکن وہ سیدھے اپنی گاڑی میں جا بیٹھے اور محافظ فوجیوں کو بھی آزمائش میں ڈال دیا۔ وہ اپنی ڈیوٹی کے پابند تھے چنانچہ انھیں وہاں سے بحفاظت نکال کر ان کے محل پہنچا دیا۔ اس سے بھی ایک پنڈورا بکس کھل گیا کہ پاک فوج کے کمانڈوز نے گرفتاری کا حکم سننے والے ملزم کو فرار کروایا۔ ڈیوٹی پر مامور پولیس بے چاری بھی آزمائش میں پڑ گئی۔ اور اب انھیں محکمانہ اور عدالتی کارروائی کا سامنا ہے۔ 

جنرل مشرف کمانڈوز صدر تھے۔ وہ خطرات سے کھیلنے کے لیے مشہور تھے۔ اپنے بارے میں ہمیشہ کہتے تھے کہ میں کسی سے نہیں ڈرتا۔ لیکن گرفتاری کا حکم سننے کے بعد راہ فرار اختیار کرکے انھوں نے یہ احساس دلا ہی دیا کہ وہ اب حالات سے گھبرا چکے ہیں۔ جن حالات سے وہ دوچار ہیں عام آدمی اس پر حیران ہے کہ آخر ان کی وہ کونسی مجبوری تھی جس کی وجہ سے وہ یہ سارے خطرات مول لے کر واپس آئے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان کی مہم جوئی کا سب سے بڑا شکار منتخب وزیراعظم میاں نواز شریف بنے تھے۔ اب وہ جلسوں میں کہتے پھرتے ہیں کہ میں نے ان کو معاف کر دیا ہے۔ انکے مظالم کا دوسرا شکار چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ہیں۔ جن کو اپنے سامنے بٹھا کر دوسرے جرنیلوں کی موجودگی میں مستعفی ہونے کا حکم دیا تھا۔ انھیں دو بار برطرف کیا اور ان کے خلاف جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس بھیج کر ذلیل کیا تھا۔ اسی افتخار چوہدری نے اپنے آپ کو ان کے خلاف کیس سننے والے بنچ سے الگ کرکے اعلٰی ظرفی کا ثبوت دیا تھا۔ نواز شریف کی دریا دلی اور چیف جسٹس کی اعلٰی ظرفی پرویز مشرف کے کسی کام اب نہیں آرہی ہے۔ دلچسپی لینے والے لوگ اس کو ایک قابل عبرت تناظر سمجھ رہے ہیں کہ آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے والے کو کس انجام سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انتہائی ذمہ دار مناصب پر کام کرنے والوں کے لیے جنرل مشرف کے حالات میں بہت بڑا سبق اور عبرت ہے۔ 

پاکستان کی حکومتوں خصوصاً فوجی حکومتوں کا افغان پالیسی پر کلیدی اثر رہا ہے۔ یوں تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے افغانستان کے لیے ایک خصوصی پالیسی جاری تھی۔ بھارت اور روس کے زیر اثر افغان حکومت ہمیشہ پاکستان کے پختونوں کو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہی تھی۔ جس کے ردعمل کے طور پر حکومت پاکستان نے ایک پالسی تشکیل دی تھی کہ وہاں پر استحکام نہ آنے پائے۔ چنانچہ افغان بادشاہ ظاہر شاہ کے دور سے ان کے خلاف مزاحمت کی قوتوں کو یہاں سے آشیر باد ملتی رہی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے دور میں پاکستان کی افغان پالیسی کا دنیا بھر میں ڈنکا بجتا تھا اور اس پالیسی کے زیر اثر سویت افواج کو وہاں سے نکلنا پڑا اور انجام کار سویت یونین تحلیل ہو کر رہا۔ جنرل مشرف کے دور میں پالیسی الٹ سمت میں چل پڑی۔ امریکہ کے دباو پر حکومت پاکستان نے اسکا ساتھ دیا۔
 
جنرل مشرف اپنی غیر آئینی اور غیر قانونی حکومت محفوظ رکھنے کے لیے امریکہ کا ساتھ دینے پر آمادہ یا مجبور تھے۔ اب دوبارہ وہی صورت حال درپیش ہے جو سویت یونین کی افواج کے نکلنے کے اعلان کے وقت 80ء کی دہائی کے وسط میں تھی۔ امریکہ نے 12 سال افغانستان میں گزارنے کے بعد وہاں سے نکلنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ وہاں سے اس کی باعزت واپسی کیسے ہو۔ اس حوالے سے مختلف مواقع پر امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات ہوتے رہتے ہیں۔ آخری مذاکرات 23 اپریل کو بلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہوئے۔ امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری میزبان تھے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل کیانی اور افغان صدر حامد کرزئی اس میں اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے تھے۔ ایک ملک کے وزیر خارجہ دوسرے کے صدر اور تیسرے کے فوجی سربراہ کے درمیان ان مذاکرات کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے فوجی سربراہ کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ یہاں کی افغان پالیسی میں پاک فوج کا کتنا عمل دخل ہے۔ 

ان مذاکرات کے حوالے سے ایک اخبار میں یہ تو یہ خبر چھپی کہ یہ ناکام رہے۔ لیکن یہ تاثر اس لیے درست نہیں کہ اس طرح کے مذاکرات ایک مسلسل عمل ہوتا ہے۔ ایک نشست کے بعد ناکامی کی بات درست نہیں ہوسکتی۔ البتہ دوسرے روز امریکی وزیر خارجہ کا بیان آیا کہ مذاکرات کامیاب رہے۔ جان کیری نے کہا کہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور افغان صدر حامد کرزئی کے درمیان مذاکرات نتیجہ خیز رہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات خطے کے مفاد میں ہیں۔ تین گھنٹے سے زیادہ جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نے بتایا کہ مذاکرات تعمیری اور نتیجہ خیز رہے۔ جس میں دونوں ملکوں کے درمیان تناو کم کرنے سمیت کئی اہم امور پر بات چیت ہوئی۔ مذاکرات میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی اور سیاسی معاملات پر بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ جان کیری نے کہا کہ برسلز مذکرات کی کامیابی کا اندازہ مستقبل میں پاک افغان تعلقات کی بہتری سے لگایا جاسکے گا۔ امن دونوں ملکوں اور خطے کے مفاد میں ہے، جسے یقینی بنانے کے لئے پاکستان اور افغانستان کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

امریکہ ان مذاکرات سے کئی مقاصد حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔ پہلا مقصد تو اس کا باعزت انخلا ہے۔ دوسرا مقصد افغانستان میں ان کے مفادات کا حامل نظام قائم کرنا ہے اور تیسرا مقصد پاکستان اور اس کی افغان پالیسی کو زیر اثر رکھنا ہے۔ پاک فوج کو امریکہ اور افغانستان سے نمٹتے نمٹتے 30 سال سے زیادہ کا عرصہ ہوگیا ہے۔ ہم نے افغانستان میں سویت یونین کا مقابلہ بھی کیا ور امریکہ کو بھی بھگت رہے ہیں۔ بھارت کی ہمیشہ سے اہم رول ادا کرنے کی کوشش رہی ہے۔ لیکن وہ جغرافیہ کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ پاکستان کا جغرافیہ ایسا ہے کہ افغانستان کے معاملہ میں اسی کی حیثیت کلیدی ہے۔ بھارت جتنا چاہے اس کا کردار ثانوی ہی ہوگا۔ امریکہ کے انخلا کے تناظر میں پاکستان کے مقاصد بھی واضح ہونے چاہییں۔ وہ یہ ہوسکتے ہیں کہ امریکہ یہاں سے چلا جائے۔ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ملک کی حیثیت سے مستحکم ملک بن جائے اور ہم کسی بھی قسم کے دباو کے بجائے آزادانہ اور برابری کی بنیاد پر بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے استحکام اور ترقی کا سبب بنے رہے۔ 

جنرل مشرف کا عبرت آموز تذکرہ کرنے اور برسلز مذاکرات کا حوالہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے مقتدر لوگ وقتی مصلحتوں کو بلاشبہ مدنظر رکھیں لیکن اصل بات دیر پا پالیساں اور قومی و علاقائی سلامتی کی صورت حال ہے۔ جن لوگوں کے ہاتھ میں آج زمام کار ہے وہ اس ساری صورت حال پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اگر ان کا رویہ ذمہ دارانہ اور اجتماعی مفاد میں نہ ہوا تو جنرل مشرف کے انجام سے سبق حاصل کریں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 258312
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش