0
Monday 31 May 2010 13:43

مجلس عمل کی بحالی یا دینی قوتوں کا اتحاد؟

مجلس عمل کی بحالی یا دینی قوتوں کا اتحاد؟
گزشتہ دنوں ایم ایم اے کی بحالی؟ یا دینی قوتوں کے اتحاد کے حوالے سے خاصی گرما گرم خبریں آتی رہی ہیں۔اس حوالے سے اخبارت میں مثبت اور منفی خبروں اور بیانات کے ساتھ ساتھ تجزیے اور کالم بھی نظروں سے گزرتے رہے ہیں۔دینی جماعتوں اور ان کے قائدین کی سرگرمیوں اور دینی و سیاسی محاذ پر ان کی کارکردگی کے مختلف پہلو بھی زیر بحث آتے رہتے ہیں۔دراصل دینی و سیاسی رہنما ہوں یا ان کی جماعتیں اور تنظیمیں،یہ سب پبلک پراپرٹی ہوتی ہیں۔اس لیے ان کے متعلق تبصرہ کرنا یا رائے زنی کرنا گویا ہر فرد اپنا آئینی،قانونی اور جمہوری حق سمجھتا ہے۔اس لیے گویا جتنے منہ اتنی باتوں والی صورت حال تھی۔چونکہ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔یعنی ایک عدد قلم اپنے پاس رکھتے ہیں۔اس لیے دینی جماعتوں اور علماء کرام کے بارے میں لکھنے بیٹھ گئے۔ویسے علماء کرام اور دینی جماعتوں کے بارے میں کچھ لکھنا ایک گستاخانہ عمل ہے،مگر کیا کیا جائے کہ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔ 
بالآخر وہ مرحلہ آہی گیا کہ مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کی جماعتوں کے سربراہوں کا اکٹھا کر دیا۔یقیناً اس ملاقات میں گلے شکوے بھی ہوئے ہوں گے۔تجدید عہد بھی باندھا گیا ہو گا۔جے یو آئی کے حکومت سے باہر آنے کی بات بھی ہوئی ہو گی۔دو سال کا عرصہ ویسے تو کوئی بڑا زمانہ نہیں ہے۔تاہم جدائی کا ایک لمحہ بھی بعض اوقات صدیوں پر بھاری ہوتا ہے۔ابھی دوسال پہلے کی بات ہے کہ دینی جماعتوں کے قائدین 18 فروری 2008ء کے انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کے مسئلہ پر اختلافات کا شکار ہو کر الگ الگ ہو گئے تھے۔دونوں طرف بھرپور دلائل تھے۔ویسے بھی علما کرام کے ترکش دلائل کے تیروں سے بھرے ہوتے ہیں۔دلائل میں کوئی ان کو مات نہیں دے سکتا۔الیکشن ہو گئے۔دونوں طرف احساس زیاں کا احساس دن بدن نمایاں اور گہرا ہوتا چلا گیا۔گلے شکوے بھی ہوتے رہے۔ہلکے پھلکے انداز میں ایک دوسرے کو طعنے بھی دیے گئے۔اس ضمن میں اچھی بات یہ تھی کہ کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہیں ہوئی۔ایک دوسرے کا ادب و احترام اور دعا و سلام کے سلسلے بھی ساتھ ساتھ چلتے رہے۔اس دوران ایم ایم اے کی بحالی کی خبریں بھی آتی رہیں۔ 
چند ماہ پہلے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کی دعوت پر علماء اکرام اکھٹے ہوئے مگر ”حلوی“ نے جو جلوہ دکھایا تو اصل موضوع ہی کہیں گم ہو گیا اور حلوہ خوری پر بحث و مباحثے چل نکلے۔ایم ایم اے کے صدر قاضی حسین احمد سے جب اخبار نویسوں نے ایم ایم اے کی بحالی کے حوالے سے سوال کیا تو قاضی صاحب نے کہا ”مولانا فضل الرحمن حکومت میں ہیں۔ایسے میں ایم ایم اے کیسے بحال ہو سکتی ہے“ لگتا ہے کہ اب پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔مولانا فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کا دل حکومت سے بھر گیا ہے۔بقول مولانا فضل الرحمن ”صدر اور وزیراعظم نے ان سے جتنے بھی وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں ہوئے“ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ دینی جماعتوں کا اتحاد ایک فطری اتحاد ہے۔کیونکہ ماضی میں جب بھی دینی جماعتوں نے اتحاد و اتفاق کا عملی مظاہرہ کیا ہے تو انہیں اپنے مقاصد میں کامیابی ہوئی ہے۔تحریک ختم نبوت 1953ء میں شروع ہوئی تھی مگر وہ سالہا سال تک چلتی رہی اور بالآخر 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو جیسے لبرل لیڈر کے ہاتھوں علماء اور دینی جماعتوں کے دباﺅ اور اتحاد کی وجہ سے سو سالہ قادیانی مسئلہ پارلیمنٹ کے ذریعے حل ہوا۔قرارداد مقاصد کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا قومی اسمبلی کا فیصلہ ایک تاریخی اور اہم مرحلہ تھا۔سیکولر،لبرل اور دین بے زار حلقے اور عناصر ہمیشہ دینی جماعتوں اور علماء کرام کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے رہے۔ان کو آپس میں لڑانے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے میں پیش پیش رہے۔نصف صدی کی کشمکش اور طرح طرح کے نقصانات اور حادثات کے بعد علماء کرام دین دشمنوں کی سازشوں کے خلاف متحد ہو گئے۔
اس سے پہلے بھی تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے ایک اہم دستاویز تیار کی تھی جس میں مشترکات کا ذکر تھا اور ایک دوسرے کے خلاف زبان اور قلم کو استعمال نہ کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ مگر حالات اور گردش زمانہ بہت کچھ بھلا دیتا ہے۔کچھ جوشیلے نوجوان اور لیڈر جوش خطابت میں بہت دور نکل جاتے ہیں اور پھر جواب الجواب کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ 
صدر جنرل ضیاءالحق اور وزیراعظم محمد خان جونیجو کے زمانہ میں متحدہ شریعت محاذ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔شریعت بل کے بھی بہت چرچے ہوئے تھے۔80ء اور 90ء کی دہائیوں میں جب دشمن شیعہ اور سنی کی بنیاد پر قتل،انتقام اور بدلے کے خونین کھیل کے مزے لے رہا تھا۔تو ایک بار پھر سنجیدہ اور درد دل رکھنے والے علمائے کرام آگے آئے اور ملی یکجہتی کونسل کے نام سے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام پر مشتمل ایک غیر سیاسی دینی تنظیم قائم کی گئی تھی۔جس کے مثبت اثرات بھی نظر آئے کہ مسلک کی بنیاد پر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور ہلاکتوں کا سلسلہ رک گیا تھا۔یہ ایک اچھی شروعات تھیں۔مگر افسوس کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہ چل سکا۔
پھر 9/11 کا بہانہ بنا کر امریکا اپنے لاﺅ لشکر کے ذریعے افغانستان پر حملہ آور ہوا۔دفاع افغانستان کونسل بنائی گئی۔امریکی جارحیت کے خلاف ملک بھر میںد ینی جماعتوں نے بھر پور احتجاج کیا اور قوم کو مکروہ امریکی عزائم سے باخبر کرتے رہے،اسی دوران متحدہ مجلس عمل کے نام سے کچھ دینی جماعتوں نے ایک انتخابی اتحاد قائم کر لیا۔اس اتحاد کو دینی حلقوں اور عوام میں بھی خوب پذیرائی ملی،خاص طور پر صوبہ سرحد اور بلوچستان میں 2002ء کے انتخابات میں ایم ایم اے نے قومی و صوبائی اسمبلی کی اکثر نشستیں کئی خوانین اور سیاسی قائدین سے جیت لی تھیں۔اس الیکشن میں بڑے بڑے برج الٹ گئے تھے۔ 
2002ء کے انتخابی نتائج نے سیاسی پنڈتوں کو حیران ہی نہیں بلکہ پریشان بھی کر دیا تھا۔پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنی بڑی تعداد میں جبہ و دستار والے اسمبلی میں آئے کہ لبرل اور سیکولر عناصر پر کپکپی طاری ہو گئی تھی۔اس پر مستزاد یہ کہ خواتین کی نشستوں پر بھی بڑی تعداد میں پردہ دار خواتین اسمبلی اور سینٹ کے ایوانوں میں پہنچ گئی تھیں۔پانچ سال تک ایم ایم اے نے سینٹ اور قومی اسمبلی میں ایک مضبوط اور جاندار اور متحرک اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ادھر صوبہ سرحد میں مکمل اور صوبہ بلوچستان میں شریک اقتدار ہے۔عام خیال اور اندازے یہی تھے کہ اگر ایم ایم اے برقرار رہتی اور ایک نشان کے تحت الیکشن میں دینی جماعتیں حصہ لیتیں تو صوبہ سرحد میں حکومت بنانے میں کامیاب نہ بھی ہوتیں تو ایک مضبوط اپوزیشن کا کردار ضرور ادا کر سکتی تھیں۔ 
یقیناً جہاں تلخ و ترش یادیں ہیں،وہاں اتحاد و یکجہتی اور الفت و یگانگت کے مناظر اور مظاہرے بھی ماضی کا حصہ ہیں اور ان سب کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔حالات و واقعات اور طرح طرح کے حادثات انسان کو بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔سمجھا دیتے ہیں۔زیرک اور سمجھ دار انسان وہی ہیں کہ جو ماضی سے سبق حاصل کرتے ہیں۔اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں۔آئندہ اگر موقع ملے تو غلطیوں کو نہیں دہراتے۔ 
یہ ایک حقیقت ہے کہ دینی جماعتوں،دینی قوتوں اور دینی شخصیات کے مل بیٹھنے اور اتحاد و یکجہتی کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے۔جب جب کوئی بڑا چیلنج سامنے آتا ہے تو پھر سمجھدار اور درد دل رکھنے والے بزرگ ایک دوسرے سے رابطے کرتے اور سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں۔9/11 کے بعد جو قیامتیں عراق اور افغانستان کے مسلمانوں پر گزر گئیں۔ان کا سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا۔جو خطرات اس وقت ہمارے سروں پر منڈلا رہے تھے وہ اب ہمارے بہت قریب آچکے ہیں۔ہم نے عراق اور افغانستان کی تباہی و بربادی کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں۔امریکہ اور اس کے اتحادی پوری عسکری معاشی اور میڈیا کی طاقت سے امت مسلمہ پر حملہ آور ہیں۔
سمجھدار شخصیات نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ افغانستان کے بعد پاکستان اور ایران کی باری ہے۔ ایران کے خلاف ہر طرح کی ناکہ بندی،اقتصادی بائیکاٹ،پابندیاں اور آئے دن دھمکیوں کا سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے۔مگر آفرین ہے ایرانی قیادت پر کہ وہ امریکی دھمکیوں کی پروا کیے بغیر میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔اپنے ملک اور عوام کی ترقی و خوشحالی کے لیے منصوبے بناتے ہیں۔کاش ہمیں بھی کوئی غیرت مند،نڈر اور ایماندار قیادت مل جائے۔ 
آخر میں یہ ضرور لکھوں گا کہ دینی قوتوں اور شخصیات کو اپنے اپنے خول سے باہر نکل کر ملک و قوم اور امہ کے وسیع تر مفاد میں مل بیٹھنا ہو گا۔ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہو گا۔سیکولر اور لبرل قوتیں دندناتی پھرتی ہیں۔دینی قوتیں کیوں ایک دوسرے سے شاکی ہیں۔اپنے دلوں کو کھولیں اپنے ذہنوں کو وسیع کریں۔آئے دن مغرب کی طرف سے مختلف چیلنجز سامنے آتے رہتے ہیں۔ان کے مدلل اور مسکت جوابات کے لیے جید علماء کرام اور مفکرین کا کوئی پینل یا گروپ تشکیل دیا جائے،جو اسلام،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن سے متعلق پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں اور اعتراضات کا علمی انداز میں جواب دے۔ 
اسی طرح دینی و سیاسی محاذ پر بھی متفقہ اور مشترکہ رائے کا سامنے آنا ضروری ہوتا ہے۔کوئی تو ایسا فورم،محاذ یا مجلس ہونی چاہیے کہ جہاں تمام مکاتب فکر کے جید علما دین مل بیٹھیں اور پوری قوم کی طرف سے ایک باوقار اور عالمانہ انداز میں یک آواز ہو کر اپنی رائے کا اظہار کریں۔یہ متفقہ اور مشترکہ رائے فتوے کی شکل میں بھی ہو سکتی ہے۔یقیناً ہماری قوم ایک جذباتی قوم ہے۔جب بھی کوئی واقعہ یا حادثہ ہوتا ہے تو پھر مظاہروں،ریلیوں،جلسوں اور احتجاج کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ 
یقیناً مغرب کی طرف سے کیے جانے والے حملوں اور سازشوں سے تمام مسلمانوں کی دل آزاری ہوتی ہے۔جذبات مشتعل بھی ہوتے ہیں۔یقیناً یہ ہمارے ایمان اور عقیدے کا مسئلہ بھی ہوتا ہے۔مگر اپنے ہی ملک کے دفاتر،عمارتوں اور دیگر اشیاء کو نشانہ بنانا،توڑ پھوڑ کرنا اور آگ لگانا اسلام کی تعلیمات نہیں ہیں۔اس سلسلے میں بھی علماء کرام ہی عوام کی بہتر رہنمائی کر سکتے ہیں۔امید ہے کہ قابل قدر دینی شخصیات اور حلقے ہماری گزارشات پر غور فرمائیں گے اور مستقبل قریب میں کوئی لائحہ عمل طے کریں گے ہم ان سے بہتر سے بہترین کی توقع رکھتے ہیں۔
 "روزنامہ جسارت"


خبر کا کوڈ : 27162
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش