0
Tuesday 9 Jul 2013 14:06

بلوچستان، مسائل اور حل

بلوچستان، مسائل اور حل
 تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم
  
قدیم تاریخ کے صفحات میں جھانکا جائے تو بلوچ قوم کے حوالے 600 قبل مسیح سے ہی ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ بعد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پُر نور سرپرستی میں اسلام کا سورج مدینہ کی بستی سے طلوع ہوا تو اس کی کرنوں نے پوری دنیا کے مختلف کونوں میں کفر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو منور کرنا شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ AD 712 میں محمد بن قاسم کے برصغیر ہند میں آنے سے بھی بہت پہلے ساتویں صدی عیسوی میں حضرت عمر (رض)، حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) کے ایام اقتدار میں ہی کچھ مسلمان مبلغین بلوچستان تک پہنچے اور اسلامی تعلیمات کا پرچار کرنا شروع کیا۔ 1947ء میں پاکستان وجود میں آیا تو خان آف قلات کی ہچکچاہٹ کے باوجود بلوچستان پاکستان کا حصہ بن گیا۔
 
اس کے بعد سے لے کر اب تک بلوچستان کی داستان واقعی درد ناک ہے۔ اس کی بڑی وجہ تو مرکزی حکومت کی نااہلیاں اور نالائقیاں ہیں، جس کی بدولت حالات خراب ہوئے پھر 1948ء، 1956ء اور 1973ء میں بلوچستان میں طاقت کا استعمال کرنے سے حالات مزید بگڑے۔ 1955ء سے کر 1970ء تک One unit کی وجہ سے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان کا تشخص بھی ختم رہا جو نقصان دہ تھا۔ 1970ء کی دہائی کے بھٹو دور میں بلوچستان پر فوجی یلغار نے حالات مزید خراب کئے۔ بعد میں مشرف دور میں سردار اکبر خان بگٹی کے قتل نے نفرتوں کے مزید بیچ بو ڈالے۔ 1947ء سے لیکر اب تک جہاں ایک طرف مرکزی حکومت نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر بلوچستان میں امن و امان قائم رکھنے کی ناکام کوشش کی وہاں دوسری طرف بلوچ سرداروں اور نوابوں نے بلوچ قوم کو جہالت اور غربت کے گڑھے سے باہر نہ نکلنے دینے کی قسم کھائی رکھی۔ 

سکول کھولنے، ہسپتال بنانے یا سڑک تعمیر کرنے کی راہ میں بدقسمتی سے وہ سردار اور نواب ہمیشہ حائل رہے جو Have اور Havenots کے درمیان فیصلوں کو کم کرنا اپنے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ نتیجہ کیا نکلا عام بلوچ تو بری طرح پستا رہا۔ اس کے علاوہ پولیس بالکل غیر پیشہ ور، بیورو کریسی کرپٹ، سول آرمڈ فورسز غیر موثر اور سیاسی قیادت بددیانت اور جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہی۔ محرومیوں کے جذبات نے شدت سے جنم لیا۔ کمزور حکمرانی، مفلسی، کسمپرسی اور بے چینی کے ماحول نے نہ صرف جرائم پیشہ افراد کی حوصلہ افزائی کی بلکہ سرحدوں سے باہر بیٹھی پاکستان دشمن طاقتوں کی پاکستان میں مداخلت کی راہ بھی ہموار ہوگئی۔ سابقہ سویت یونین نے ہندوستان سے مل کر BLA کو کھڑا کر دیا۔ جس کی بدولت آج بھی افغانستان، بلوچستان کے خلاف انسرجینسی کا Base Camp بنا ہوا ہے۔
 
امریکہ اور نیٹو افواج نے بھی افغانستان میں ہزیمت اٹھانے کے بعد اپنے علاقائی مفادات کے پیش نظر اب بلوچستان کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ پہلے سویٹ یونین کے حاکم وسطی ایشائی ریاستوں سے بلوچستان کے راستے بحر عرب کے گرم پانیوں تک رسائی کے متمنی تھے۔ اب امریکن بحر عرب کے گرم پانیوں سے وسطی ایشائی ریاستوں کے گیس اور بلیک گولڈ کے انمول خزانوں تک رسائی کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان قوم کی آزادی اور حقوق غصب کرنے کی جتنی بیرونی طاقتیں آج خواہشمند نظر آتی ہیں، تاریخ میں پہلے کبھی نہ تھیں۔
 
بدقسمتی سے بلوچستان کے نواب، سردار اور سیاستدان حکومت میں رہ کر بھی بلوچستان کی محرومیوں کا سارا ملبہ افواج پاکستان پر ڈالتے ہیں۔ ماضی میں بلوچستان کے اندر افواج کے بے مقصد اور غلط استعمال کا تو کوئی ذی ہوش انسان انکار نہیں کرسکتا، لیکن ابھی ہمیں آگے دیکھنا ہوگا۔ 8جولائی کو اسلام آباد میں احمد سلیم کی کتاب ’’آزادی سے صوبائی بے اختیاری تک‘‘ کی رونمائی کے موقعہ پر سابق چیف منسٹر بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا کہ آج بھی بلوچستان میں فوجی آپریشن ہو رہے ہیں، جو پاکستانی عوام کے لئے ناقابل فہم ہے، چونکہ آرمی چیف جناب اشفاق پرویز کیانی نے کئی بار اس کی تردید کی ہے۔
 
قارئین! آیئے اب ہم دیکھیں کہ بلوچستان پر بیرونی طاقتوں کی نظریں کن کن strategic مفادات کی وجہ سے مرکوز ہیں؟
(1) بلوچستان ایک ایسا گولڈن لینڈ بریج ہے جو Land locked وسطی ایشائی ریاستوں، افغانستان اور چین کو خلیج فارس اور آبنائے ہرمز تک رسائی دیتا ہے۔
(2) بلوچستان کے تقریباً 900 کلومیٹر لمبے ساحل کے بالکل ساتھ سے تیل بردار جہازوں کی بین الاقوامی شاہراہ گذرتی ہے۔
(3) ترکمنستان یا ایران سے چین یا ہندوستان جانے والی ہر گیس پائپ لائن کا گذر پاکستانی بلوچستان سے ہونا ہے۔
(4) بلوچستان کے اندر بے پناہ معدنی خزانے ہیں۔ جن میں 19 ٹریلین کیوبک فٹ گیس، 6 ٹریلین بیرل تیل، 22 لاکھ ٹن سالانہ کاپر کی نکاسی کے علاوہ سینڈک میں سونے اور دلبنڈ اور کوکنڈی میں خام لوہے کی کانیں ہیں۔
 
قارئین! اس وقت بلوچستان میں ہر روز درجنوں لوگوں کا غائب ہو جانا اور پھر مسخ شدہ لاشوں کا اچانک منظر عام پر آنا، اہل تشیع پر بزدلانہ اندوہناک حملے، تعلیم کے نظام کی تباہ حالی، پولیس کا غیر موثر ہونا، انٹیلی جنس کے اداروں میں ضروری ہم آہنگی کا فقدان، بیرونی مداخلت اور سیاسی قیادت کی اہلیت اور کردار پر عوام کی عدم اعتمادی نے صورتِ حال کو گھبمیر کر کے رکھ دیا ہے۔
مسلم لیگ نون کی حکومت نے میاں نواز شریف کی قیادت میں اب جو بہت ہی اہم اقدامات اٹھائے ہیں، اُن میں دیانت دار اور قابل بلوچ بھائیوں کو گورنر شپ اور وزارتِ اعلٰی کے عہدے پلیٹ میں رکھ کر پیش کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ماضی میں کسی سیاسی یا غیر سیاسی قائد نے ایسیStatesmanship کا مظاہرہ نہیں کیا۔ یہ لوگ نواب ہیں نہ سردار بلکہ صحیح معنوں میں سیاسی کارکن اور بلوچ قوم کے خادم ہیں۔
 
دوسرا انتہائی اہم قدم انٹیلی جنس ایجنسیوں میں مکمل ربط پیدا کرنے کی وزیراعظم کی کوشش ہے۔ تیسرا یہ کہ مرکزی حکومت بلوچستان کے معاملات کو گونر، وزیراعلٰی یا صوبائی کابینہ اور اسمبلی کی صوابدید پر چھوڑنے کے ساتھ ساتھ مرکز کی طرف سے ہر طرح کی سیاسی رہنمائی اور مالی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے کو بھی تیار ہے۔ افواج پاکستان اس وقت تک تقریباً 15 ہزار بلوچ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرچکی ہے۔ اس کے علاوہ سوئی میں ایک کیڈٹ کالج اور لورالائی میں ایک ٹیکنیکل کالج بھی کھولا گیا ہے۔
 
بلوچستان کے مسئلے کو سلجھانے کیلئے مندرجہ ذیل اقدامات ضروری ہیں۔
(1) افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا جلد انخلاء ہو۔
(2) افغانستان کو ہندوستانی جاسوسوں سے بھی پاک کیا جائے۔
(3) پاکستان، افغانستان سرحد کی FC کی مدد سے مکمل ناکہ بندی کی جائے۔
(4) بلوچستان کے اندر میرٹ اور شفافیت کی بنیاد پر بہترین حکمرانی قائم ہو۔
(5) موثر کریمنل انٹیلی جنس، قانونِ شہادت میں تبدیلی اور بہترین نظام احتساب قائم کیا جائے۔
(6) بہترین ذرائع رسل و رسائل کی تعمیر اور گوادر پورٹ اور کاشغر۔ گوادر انرجی کوری ڈور کی تیزی سے تکمیل ہو۔
(7) صحت اور سب سے ضروری تعلیم کے نظام کو فعال بنایا جائے۔
(8) شہروں اور اہم چوراہوں پر کیمروں کی تنصیب ہو۔
(9) پولیس فورس کی تربیت پر خاص توجہ د ی جائے۔
(10) جب بھی ممکن ہو وزیراعظم کابینہ کے کچھ اجلاسوں کا انعقاد کوئٹہ میں کیا کریں۔
 
قارئین! ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج تک کسی بھی بلوچ لیڈر نے آزادی کا نعرہ نہیں لگایا۔ یہ لوگ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ہم سب کی پہچان پاکستان ہے اور ہمارے بلوچ بھائی حب الوطنی کے جذبے میں کسی سے بھی پیچھے نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنے آئینی حق اور انسانی حقوق کے طلب گار ہیں، جو ایک بڑا جائز مطالبہ ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت سیاسی بصیرت سے اہل بلوچستان کی موجودہ محرومیوں کا بطریق احسن ازالہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرے گی۔
خبر کا کوڈ : 281156
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش