0
Saturday 29 Jun 2013 21:26

نئی حکومت، دہشتگردی اور حل

نئی حکومت، دہشتگردی اور حل
تحریر: رشید احمد صدیقی

الیکشن کے بعد اور نئی حکومت کے قیام سے پہلے والے درمیانی عرصہ میں پاکستان کے اندر دہشت گردی کی رفتار قدرے دھیمی پڑ گئی تھی۔ اس سے ایک نتیجہ یہ بھی اخذ کیا جا رہا تھا کہ طالبان اپنی مذاکرات کی پیشکش کے مثبت جواب کے منتظر تھے۔ لیکن 31 مئی کو جب نئی قومی اسمبلی کے ارکان اپنے منصب کا حلف اٹھا رہے تھے اس سے دو روز قبل امریکی ڈرون طیاروں نے جنوبی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دوسرے اہم ترین رہنماء اور نائب امیر میاں ولی الرحمان کو نشانہ بنایا۔ جس کے بعد انھوں نے الیکشن سے قبل حکومت پاکستان کو کی گئی مذاکرات کی پیشکش واپس لے لی۔ اس کے بعد سے پاکستان کے اندر دہشت گردی کی ایک خوفناک لہر چلی۔ جس میں خیبر پختونخوا کے دو ارکان اسمبلی بھی جان سے چلے گئے۔ کوئٹہ بلوچستان میں طالبات کی بس کو اڑایا گیا اور پھر ہسپتال میں ڈپٹی کمشنر کو نشانہ بنایا گیا۔ قائد اعظم کی رہائش گاہ کو بھی تباہ کر دیا گیا۔ گلگت بلتستان میں نو غیر ملکی سیاحوں سمیت دس سیاحوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔

ان حملوں میں ایک بات یہ سامنے آئی کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سابق وزیر داخلہ رحمان ملک کی طرح محض آئی جی پی سے رپورٹ طلب نہیں کرتے اور تحقیقات کا حکم نہیں دیتے۔ فوراً جائے حادثہ پر پہنچتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی حکم دے دیتے ہیں اور پھر قومی اسمبلی میں آکر ارکان کو اعتماد میں لیتے ہیں۔ ان کے جواب سے اپوزیشن بھی کسی قدر مطمئن نظر آتی ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اور امن و امان کے نفاذ کے ذمہ دار اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔ جس کی وجہ سے دہشت گردی کو راستہ مل رہا ہے۔ ان واقعات سے نمٹنے والے اداروں کو باہم مربوط کیا جائے گا۔ نانگا پربت کے واقعہ کے بعد انھوں نے گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل کو معطل کیا۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ان کے لہجے میں ایک درد نمایاں ہوتا ہے، اور یہ کسی قدر امید افزا بھی ہے لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو ان کے اقدامات سے لگ نہیں رہا ہے کہ دہشت گردی کو اس طرح ختم کیا جاسکے گا۔

کیا گلگت بلتستان کے آئی جی اور چیف سیکٹری بدلنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ سکیورٹی ایجنسیاں مربوط انداز میں کام کریں تو بلوچستان میں امن بحال ہو جائے گا؟ میاں ولی الرحمان کے قتل کے بعد طالبان نے انتقام لینے کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ دہشت گردی کا جو بھی واقعہ اب رونماء ہوتا ہے اس کو وہ لوگ اپنے کھاتے میں ڈال کر اپنی انتقام کی آگ بجھانے کا سامان کرتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کی فہرست میں اضافہ ریکارڈ کراتے ہیں۔ یہ فطری امر ہے۔ لیکن واقعات کو ان کے زاویوں سے دیکھیں تو ان کی نوعیت الگ الگ ہے۔ ہنگو میں رکن صوبائی اسمبلی فرید خان کے قتل سے طالبان کا کوئی تعلق نہیں بنتا (انھوں نے اس حوالے سے ذمہ داری قبول کرنے کی تکلیف بھی نہیں کی ہے)۔ اس واقعہ اور شیر گڑھ میں رکن صوبائی محمد عمران کے قتل کے واقعہ کی نوعیت مکمل طور پر الگ الگ ہے۔ بلوچستان میں قائد اعظم کی رہائش گاہ کی تباہی اور طالبات کی بس پر حملہ الگ الگ نوعیت کے واقعات ہیں۔ وہاں پر طالبان کے علاوہ دوسرے گروہ بھی بر سر پیکار ہیں۔

کراچی میں جسٹس باقر کے قافلے پر حملہ ایک اور نوعیت کا حملہ ہے اور گلگت بلتستان میں بین الاقوامی سیاحوں کا قتل مکمل طور پر الگ نوعیت کا واقعہ ہے۔ ہنگو کے واقعہ کی نوعیت سیاسی اور مقامی نوعیت کی ہے۔ شیر گڑھ کے حادثہ میں طالبان قسم کا رنگ موجود ہے لیکن پختونوں کے جنازے پر حملہ سے طالبان کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچتا نظر آتا ہے۔ وہ خود پختون ہیں اور جنازہ میں پختونوں پر حملہ کرکے وہ پختونوں کے اندر اپنا مقام کیسے کم کرنا چاہیں گے۔ یہ تو الٹا ان کی بدنامی کا باعث بنے گا۔ کراچی میں ہائیکورٹ کے جج پر حملہ کرنا اس بین الا قوامی شہر میں خوف اور دہشت پھیلانے کا منصوبہ ہے۔ اگرچہ طالبان اسی قسم کے کام آج کل کر رہے ہیں لیکن کراچی میں عدم استحکام کا زیادہ فائدہ طالبان کے بجائے بھارت کو جاتا ہے اور ایک طرح سے کشمیر کی صورت حال کا توازن وہاں سے برابر کرنے کے لیے یہ کام کراتا ہے۔ گلگت بلتستان کا واقعہ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر الگ تھلگ کرنے اور یہاں سے سرمایہ کاروں کو دور بھگانے کا منصوبہ ہے۔ طالبان سے زیادہ اس میں دوسری قوتوں کی دلچسپی زیادہ نظر آتی ہے۔

ہمارے ہاں تحقیقات کا مشکل کام آسان بنانے کے لیے ہر واقعہ کو خودکش حملہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس طرح تحقیقات کا عمل دفن کر دیا جاتا ہے اور سکیورٹی ایجنسیاں بہت ساری پیچیدگیوں سے بچ جاتی ہیں۔ بلکہ یہ تلخ حقیقت شیر گڑھ دھماکہ میں دیکھنے میں آئی کہ ایک نسبتاً مسخ شدہ لاش کو خودکش حملہ آور کی لاش قرار دیا جا رہا تھا، اگلے روز اس کی شناخت ہوگئی وہ پنجاب سے آئے ہوئے مہمان کی تھی۔ چناچہ تمام واقعات کی ذمہ داری اگر طالبان اٹھاتے بھی ہیں یہ طالبان کے کھاتے میں ڈالنا مسئلہ کے حل کی جانب قدم اٹھانے کی بجائے حماقت ہوگی۔ اب جائزہ لیتے ہیں کہ نئی حکومت نے اب تک دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے ہیں اور کیا قدامات کا عزم رکھتی ہے۔ میاں نواز شریف کو وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھانے سے قبل امریکہ نے ڈرون کے ذریعے میاں ولی الرحمان کو قتل کرکے طالبان کو ان سے بدظن کر دیا۔ ان کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے تھا کہ طالبان کو دوبارہ مذاکرات والی پوزیشن کی طرف لاتے۔ یہ اگرچہ بہت بڑا اور مشکل کام تھا لیکن میاں صاحب نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں کی اور اسے ایک طرح سے غیر ضروری کام ہی سمجھا گیا۔

دہشت گردی کا شکار سب سے زیادہ خیبر پختونخوا ہی رہا ہے۔ یہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ الیکشن سے قبل تحریک انصاف کا اس حوالے سے بڑا صاف ستھرا اور واضح موقف تھا کہ اس مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا اور عمران خان کی جانب سے ببانگ دہل اعلان تھا کہ 11 مئی کے بعد وہ پہلا حکم ڈرون کو مار گرانے کا دیں گے۔ انتخابات کے بعد مرکز میں ان کی حکومت نہیں بنی لیکن صوبہ خیبر پختونخوا میں بننے والی حکومت نے ایسا کوئی اشارہ بھی نہیں دیا ہے کہ وہ ڈرون حملوں یا طالبان سے مذاکرات کے بارے میں کیا موقف رکھتی ہے۔ کم سے کم صوبائی حکومت ایک وزیر یا ایک رہنماء کو یہ فرض تفویض کر دیتی کہ وہ مرکزی حکومت یا طالبان کے ساتھ اس حوالے سے روابط استوار کرے۔ اور مرکزی حکومت کو اس حوالے سے کوئی پالیسی بنانے پر راغب کرنے کے لیے اپنے حصے کا کام کرتی یا اپنے منشور پر عملدرآمد کا کوئی مظاہرہ کرتی۔ وقت اب بھی نہیں گذرا ہے۔ امن کی ضرورت پہلے سے بڑھ کر ہے۔ مذاکرات کی خواہش بھی پہلے سے بڑھکر موجود ہے۔ لوگ بھی پہلے سے بڑھ کر موجودہ کیفیت سے عاجز آچکے ہیں۔

وقت گذرنے کے ساتھ اس حوالے سے صوبائی اور مرکزی دونوں حکومتوں کی مقبولیت میں کمی آرہی ہے اور سب سے بڑھ کر بات یہ ہے کہ امریکہ تحریک طالبان افغانستان سے ہر صورت میں دوحا میں مذاکرات کرنے جا رہا ہے اور اطلاعات یہ ہیں کہ اس سلسلے میں حکومت پاکستان اہم ترین کردار ادا کر کر رہی ہے۔ تو کیوں نہ حکومت پاکستان اور حکومت خیبر پختونخوا اپنی ضروریات کے تحت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے نئے سرے سے کوشش کا آغاز کرتیں۔ پارلیمنٹ موجود ہے۔ ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومت مناسب صلاحیت اور اچھی ساکھ والے لوگوں کی ذمہ داری لگا دے کہ ملکی مفاد کے لیے ایسی پالسی کے خط و خال تیار کریں جو امن و امان کے قیام کے سلسلے میں مفید ثابت ہوں اور پھر یہی لوگ طالبان سے بھی روابط استوار کرنے کی بنیاد ڈالیں۔ کراچی، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے سیاسی اور معاشی پہلوئوں کو مدنظر رکھنا از حد ضروری ہے۔

امریکہ نے اس غرض کے لیے باقاعدہ مقرر کر رکھا ہے۔ ہماری طرف سے بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں مسئلہ افغانستان کو وزارت خارجہ کے بجائے وزارت داخلہ ہی دیکھتی ہے جیسے افغانستان ہمارا کوئی صوبہ ہو۔ یہ بات پیش نظر ہو کہ ہر واقعہ کو اگر طالبان اور خودکش کے کھاتے میں ڈالا جائے گا تو پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہاء کرنے والی قوتوں اور پاکستان کی اقتصادی شہ رگ کاٹنے والے عناصر کو کھلی چھٹی مل جائے گی۔ چین، روس مشرقی یورپ اور وسط ایشیاء کے ممالک ہمارے اقتصادی رفیق (شرکائے کار) بن سکتے ہیں۔ پاکستان ان کی اور وہ پاکستان کی اقتصادی منڈی بن سکتے ہیں۔ لیکن ان کے ساتھ روابط استوار نہ ہونے کے خواہش مندوں کو ہم کھلی چھٹی دے رہے ہیں۔ اس پالیسی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ حقیقیت تسلیم کرنا ہوگا کہ اس وقت ہمارا صرف ایک دشمن نہیں بلکہ کئی ہیں۔ ایسے میں سامنے نظر آنے والے دشمن ''طالبان'' کو اگر مذاکرات کے ذریعے رام کیا جا سکتا ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں ہوگا بلکہ ناگزیر ہے۔
خبر کا کوڈ : 278002
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش