0
Saturday 13 Jul 2013 20:16

دہشتگردی کی نئی لہر اور بے حس حکمران

دہشتگردی کی نئی لہر اور بے حس حکمران
 تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
دہشت گردی تو جیسے اس ملک اور یہاں کے عوام کا مقدر ہی بن گئی ہے، کوئی دن اس سے خالی نہیں جا رہا، حکمران تبدیل ہوگئے ہیں مگر اس کی چال وہی ہے بلکہ گذشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران پہلے سے کہیں بڑھ کر بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ کی وارداتیں، اور آگ و خون کے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ سوچ رکھتے تھے کہ نواز حکومت کے آنے پر یہ سلسلہ کسی حد تک تھم جائے گا اور ملکی معیشت کو سہارا مل سکے گا، اعتماد کی فضا قائم ہو جائے گی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہر گذرنے والا دن ایک نئی دکھ بھری کہانی لیکر طلوع ہوتا ہے، کسی کا ماں جایا گولیوں سے چھلنے ہو کر آتا ہے تو کسی کی امیدوں کا مرکز، بڑھاپے کا سہارا اس سے چھن جاتا ہے، کوئی ماں اپنے لخت جگر کو ٹکڑوں میں دیکھتی ہے تو کسی کا سہاگ اور سر کا تاج اسے ہمیشہ کیلئے داغ مفارقت دے کر جا رہا ہوتا ہے۔

یہ مناظر ہم ہر دن ٹی وی سکرینوں پر دیکھتے ہیں، ظاہر ہے ساری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمران بھی دیکھتے ہیں، ان لوگوں نے اس کام کیلئے کروڑوں روپے پر افراد بھی رکھے ہوئے ہیں، تاکہ کوئی خبر ان سے چھپی نہ رہ جائے، مگر یہ کیا ہے کہ ہمارے آس پاس ہونے والے اس قدر سنگین واقعات جن پر ہم سب کا کلیجہ منہ کو آ رہا ہوتا ہے، ان حکمرانوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا، ان کی چال ڈھال میں، ان کے بول چال میں، ان کے معمولات زندگانی میں کوئی فرق نہیں دیکھا جاتا؟؟ آخر ایسا کیوں ہے؟ کیوں حکمرانوں کی بے حسی ختم نہیں ہوتی؟ ہمارے مقدر میں صرف حکمران بدلنا ہی رہے گا، یا ہم وہ دن بھی دیکھیں گے جب پالیسیاں بھی تبدیل نظر آئیں گی۔؟
 
ملک میں نئے حکمرانوں کے آنے کے بعد یوں تو کئی ایک جگہوں پر شیعہ کلنگ کا سلسلہ تیز ہوگیا تھا، مگر سب سے کارگر وار 21 جون کو تقریباً 12:40 منٹ پر جی ٹی روڈ پشاور کے علاقہ فیصل کالونی میں واقع جامع شہید عارف حسین الحسینی کی جامع مسجد میں ایک خودکش حملہ آور نے نماز جمعہ کی ادائیگی جمع ہونے والے نمازیوں کے درمیان خود کو اڑاکر کیا، اس سے 16 نمازی شہید اور تیس کے قریب زخمی ہوگئے جبکہ اسی شہر میں وقفہ وقفہ سے شیعہ شخصیات، وکلاء، عمائدین، ڈاکٹرز اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلقات رکھنے والوں کو نشانہ بنیا جانا معمول بن چکا ہے۔ جس کا کوئی بھی نوٹس لینے والا نہیں ہے۔
 
قبل ازیں کوئٹہ میں دو المناک سانحات ہوئے، جہاں ایک طرف تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زیارت میں ریذیڈنسی کو تباہ کر دیا گیا اور دوسری طرف کوئٹہ میں 15 جون کو بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبات کی بس کو نشانہ بنایا گیا۔ بروری روڈ پر ہونے والی اس دہشت گردی میں 15 طالبات شہید اور 30 زخمی ہوئیں۔ زخمی طالبات کو جب بی ایم سی لایا گیا تو وہاں طے شدہ منصوبے کے تحت ایمرجنسی اور ہسپتال میں دہشت گردوں نے قبضہ کرلیا اور نرسز و دیگر اسٹاف نیز لوگوں کو یرغمال بنایا۔ اس دوران انتظامیہ و فورسز کارروائی کے لئے آئیں تو ایمرجنسی میں ایک زور دار دھماکہ کیا گیا، جبکہ فائرنگ کے تبادلہ میں ڈپٹی کمشنر کوئٹہ عبدالمنصور کاکڑ، اسسٹنٹ کمشنر انور علی شر، ڈاکٹر شبیر مگسی اور کئی دیگر کو نشانہ بنایا گیا۔ دہشت گردوں سے کئی گھنٹے مقابلہ جاری رہا، بعد ازاں فورسز نے کچھ دہشت گردوں کو حراست میں بھی لے لیا، 4 مارے گئے، بعد میں آنے والی تفصیلات سے یہ بات سامنے آئی کہ جس بس کو نشانہ بنایا گیا وہ ہزارہ شیعہ طالبات کو لیکر جاتی تھی، ایک روز قبل ہی اسے تبدیل کیا گیا تھا۔
 
کوئٹہ میں اس واردات کی ناکامی کے بعد 30 جون کو ایک اور قیامت برپا کی گئی، جب ہزارہ ٹاؤن کی ایک امام بارگاہ و مسجد کے نمازیوں کو نشانہ بنانے کی غرض سے بازار میں ہی خودکش دھماکہ کر دیا گیا، اس بدترین دہشت گردی میں خواتین و بچوں سمیت 32 شیعہ شہید ہوگئے جبکہ 80 تک زخمی ہوئے، اس واردات سے پہلے اور بعد میں بھی کئی دہشت گرد فرقہ پرست گرفتار ہوئے اور اسلحہ و گولہ بارود بھی پکڑا گیا، مگر نہ جانے کسی کو بھی آج تک قانون کے شکنجے میں نہیں جکڑا گیا۔ جس کے باعث تسلسل سے دہشت گردی کا بازار گرم نظر آتا ہے۔ 

کوئٹہ، زیارت، پشاور اور کراچی کے سانحات کے ساتھ ساتھ اس ملک پر ایک اور گہرا وار کیا گیا۔ چلاس کے ایریا میں نانگا پربت بیس کیمپ پر 10 غیر ملکی سیاحوں اور ان کے ایک پاکستانی باورچی و گائیڈ حسن علی کو نشانہ بنایا گیا، نانگا پربت بیس کیمپ پر حملہ کے اس واقعہ سے پاکستان نہ صرف پوری دنیا میں بدنام ہوا ہے، بلکہ اس ملک کی سیاحت پر بھی گہرا وار کیا گیا ہے، جبکہ خطے کی اقتصادی خوشحالی کا دارومدار غیر ملکی سیاحوں کی آمد پر رہتا ہے۔ خدشہ ہے کہ چلاس کا یہ واقعہ اس پس منظر میں وقوع پذیر ہوا ہے اور اس حوالے سے بدترین اثرات مرتب کریگا۔ کہا گیا کہ کوہ پیماؤں پر حملہ میں عصمت اللہ معاویہ گروپ کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں، اس واقعہ میں ملوث تمام لوگوں کے نام سامنے آچکے ہیں، جبکہ چند ایک کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، گرفتار دہشت گردوں سے تفتیش سے کئی ایک وارداتوں کا پتہ چلایا جاسکتا ہے اور حقائق کی تہہ میں پہنچا جا سکتا ہے اور دہشت گردوں کے چہرے سے نقاب الٹا جا سکتا ہے۔ مگر صوبائی انتظامیہ نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کیا، ماسوائے بے بسی کے اظہار کے، جس سے ان کی نیت کا کھوٹ واضح ہو رہا ہے۔ 

کوہ پیماؤں پر حملہ کرنے والے بھی شناختہ شدہ دہشت گرد ہیں، یہ لوگ اس ایریا مانسہرہ، کوہستان، چلاس، دیامر میں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ انہیں عصمت اللہ معاویہ نامی دہشت گرد کمانڈ کر رہا ہے، جو جیش محمد کا کمانڈر تھا اور تنظیم کے بانی مسعود اظہر سے الگ ہوگیا۔ دراصل اس گروہ میں وہ لوگ شامل ہیں جو جیش محمد کے بانی مسعود اظہر پر حکومت اور ISI سے گٹھ جوڑ کا الزام لگاتے ہیں اور ان کا موقف حکومت، پاکستانی فورسز اور اداروں پر کھلم کھلا حملے کرنے کا ہے۔ اطلاعات کے مطابق جیش محمد کے ساتھ ان کی کئی جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں، جبکہ عصمت اللہ معاویہ پاکستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی دہشت گردی کی بڑی وارداتوں میں بھی ملوث بتایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر لشکر جھنگوی، جنداللہ، TTP، غازی فورس، جنودالحفصہ اور کئی دیگر ناموں سے کام کرنے والے یہ سب گروپ القاعدہ ہی کے زیر کمان ہیں۔ یاد رہے کہ انہی دہشت گردوں نے اس ایریا میں گذشتہ برس چلاس اور لولو سر میں شیعہ مسافروں کو نشانہ بنایا تھا، اس وقت بھی یہ سب نام سامنے آئے تھے، مگر کسی نے ان پر ہاتھ نہیں ڈا لا تھا، جس سے ان کے حوصلے بلند ہونا فطری عمل تھا۔
 
کراچی میں بھی ہر دن معصوم بے گناہ شہری دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں، ہر روز کوئی نہ کوئی شیعہ شخصیت اور قومی کارکن کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔ 26 جون کو ایک شیعہ جج جسٹس مقبول باقر کے کانوائے پر حملہ کیا گیا، جس میں پولیس اور رینجرز کے نو اہلکار شہید اور جسٹس مقبول باقر سمیت کئی شہری شدید زخمی ہوئے، جبکہ لاہور میں بھی ایک واردات میں سابق ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خواجہ حارث جن کا تعلق بھی مکتب تشیع سے ہے، کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جو خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ اس سے قبل بھی لاہور میں ایک شیعہ وکیل شاکر رضوی کو شہید اور ایک اور وکیل کو گولیاں ماری گئی تھیں۔ بھکر میں بھی ایک شیعہ شہری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ دہشت گرد تمام شہروں میں اپنے ٹارگٹس کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں اور ہر جگہ نیٹ ورک بنائے ہوئے ہیں۔ کوئٹہ، کراچی، پشاور، چلاس، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کی تازہ کارروائیوں نے عوام و خواص کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ہر شخص یہ کہہ رہا ہے کہ مرکز اور kpk میں طالبان کے پسندیدہ حکمران اقتدار کے ایوانوں میں براجمان ہیں، طالبان سے مفاہمت کے نتیجہ میں بر سر اقتدار آنے والے نئے حکمرانوں کا تخریب کاری و دہشت گردی کی بدترین لہر میں انداز و رویہ بے حد افسوسناک محسوس ہوا۔ جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ امریکہ اس خطے سے جاتے جاتے جدید ترین اسلحہ، اربوں ڈالرز کا گولہ بارود اور گذشتہ 12،10 برسوں میں اپنے پیدا کردہ دہشت گرد اور جہادی مزاج کے پاکستان سمیت دنیا بھر سے اکٹھے ہونے والے ہزاروں نوجوان جنھیں بندوق چلانے اور بم بنانے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا،تحفہ میں دے کر جا رہا ہے، یہ مسلح گروہ دونوں ممالک بلکہ خطے کے دیگر ممالک کے لئے بھی درد سر بن جائیں گے۔
 
ہمارے حکمران تو بدلتے رہتے ہیں، بندوق اٹھانے والے گذشتہ 33 برسوں سے نہیں بدلے۔ ان کا نظریہ بدلا ہے اور نہ اہداف۔۔۔ عالمی غلبہ اسلام و جہانی طالبانی حکومت بذریعہ نام نہاد جہاد ان کا نظریہ ہے، اس سے کم پر وہ بات ہی نہیں کرتے، اگر آپ نے ان سے مذاکرات کرنے ہیں تو سابقہ مذاکرات کی فائلز کو ہی دیکھ لینا کافی ہوگا۔ سوات، وزیرستان میں کتنی بار معاہدے ہوئے ہیں اور ٹوٹے ہیں؟ ہمارے خیال میں آج تک اس ملک میں صحیح معنوں میں ان دہشتگردوں سے کسی نے نمٹا ہی نہیں، یہ ہمیشہ سرکاری اداروں کی چھتری تلے پلے، بڑھے اور پروان چڑھے ہیں، ان کی اساس و بنیاد سے لیکر پھلنے پھولنے تک جو عناصر ترکیبی استعمال ہوئے، ان کی روشنی میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ مذاکرات کا کھیل خود فریبی ہے یا دھوکہ دہی، سانس لینا ہے یا سانس لینے کا موقعہ فراہم کرنا۔ اس سے حاصل کچھ نہیں ہوگا، کچھ ہاتھ میں نہ آئے گا، اس لئے کہ جب تک حکمران، ایجنسیز اور عدلیہ سمیت دیگر ذمہ دار ادارے بے حسی سے باہر نہ نکلیں گے اور ڈنگ ٹپاؤ پالیسی کے بجائے ملک و قوم کے ساتھ اخلاص کا مظاہرہ نہ کریں گے یہ بیل منڈھے نہ چڑھے گی۔ رہا سوال ایک قوم کے حوالے سے ایسے حالات میں اپنی آواز کو بلند کرنے اور حکمرانوں کی گوشمالی کرنے کے حوالے سے تو عرض ہے کہ
امیرِ شہر سے اونچے سروں میں بات کرو
امیر ِ شہر کو اونچا سنائی دیتا ہے
خبر کا کوڈ : 282165
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش