0
Monday 24 Jun 2013 23:00

دہشتگردی کی نئی لہر اور حکومتی ذمہ داریاں

دہشتگردی کی نئی لہر اور حکومتی ذمہ داریاں
تحریر: تصور حسین شہزاد

جمعتہ المبارک کے روز دہشت گردی کی 2 لرزہ خیز وارداتوں نے پورے ملک میں صف ماتم بچھا دی، ایک ہی دن نماز جمعہ کے اوقات میں ملک کے شمالاً جنوباً دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا ہماری سکیورٹی فورسز کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ پشاور کے نواح میں واقع معروف مدرسے میں قائم جامعہ مسجد حسینیہ میں خودکش حملہ ناقص حفاظتی انتظامات کا شاخسانہ ہے۔ خودکش حملہ آور دندناتے ہوئے مسجد کے دروازے پر کھڑے چوکیدار کو فائرنگ کر کے شہید کرتے ہیں، نمازیوں پر گولیاں برساتے مسجد کے منبر تک پہنچ کر خودکش دھماکہ کر کے مسجد میں عبادت کے لئے آنے والوں کو شہید کرتے ہیں اور شہر بھر میں دہشت پھیلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، عین اسی وقت کراچی میں مسجد سے باہر نکلتے ہوئے ایم کیو ایم کے ایم پی اے کو موٹرسائیکل سوار سرعام فائرنگ کر کے ہلاک کرتے اور بآسانی نکل بھاگتے ہیں۔

پاکستان میں نئی جمہوری حکومتوں کے قیام کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے امریکی ڈرونز حملوں کو بہانہ بنا کر دہشت گردی کی جو نئی لہر پیدا کی ہے اس سے پورے ملک میں اضطراب اور تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا، افغان طالبان سے امن مذاکرات کر رہا ہے، تحریک طالبان پاکستان نوازشریف حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش قبول کئے جانے پر یک دم یو ٹرن لے کر اپنی ہی پیشکش سے دستبردار ہو کر ولی الرحمن کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کرتی ہے اور ملک میں دہشت پھیلانے میں سرگرم ہو جاتی ہے۔ ٹی ٹی پی کا یہ رویہ اس بات کا غماض اور ان الزامات کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ عسکریت پسند گروہ پاکستانی دشمنوں کا آلۂ کار ہے جو ہمارے وطن میں بدامنی پیدا کر کے اسے کمزور کرنے کی عالمی سازش کا حصہ ہے۔

اسی لئے وہ خیبرپختونخوا میں ایک ایسی جماعت کی حکومت بننے کے بعد بھی متشدد کارروائیاں کر رہا ہے جس حکومت کے لوگ طالبان سے مذاکرات کے حامی اور انہیں قومی دھارے میں بات چیت کے ذریعے واپس لانے کا نظریہ رکھتے ہیں۔ مگر اب طالبان نے انہی کے اراکین اسمبلی کو نشانہ بنا کر اپنے عزائم واضح کر دیئے ہیں کہ وہ امن کے خواہاں ہیں، نہ ہی وہ کسی قسم کے امن مذاکرات کے لئے تیار ۔ ایسے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کی سبیل پیدا کرنے کی کوششیں کار لاحاصل ہونے میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیئے۔ یہی پاکستان حکومت کے لئے سر دردی ہے۔ ایک طرف خود حکومتی پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے بارے میں تصور پایا جاتا ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں، ارباب بست و کشاد میں سے کئی مبینہ طور پر ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جن کی ان سے گاڑھی چھنتی ہے۔

دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جو دہشت گردی کی ان خوفناک وارداتوں پر انسانی جانوں کے نقصان پر دل گرفتہ بھی ہیں اور غم و غصے میں کھول بھی رہے ہیں، اس دوسرے گروہ کے لوگوں کا خیال ہے کہ بس بہت ہو چکی ہے، اب پاکستانی پارلیمنٹ اور عسکری اداروں کو ان دہشت گردوں کے خلاف نیم دلانہ کارروائیوں کی بجائے واضح اور فیصلہ کن پالیسی وضع کر کے ان کی سرکوبی کے لئے پوری ریاستی طاقت کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا چاہیئے۔ اب اچھے اور برے طالبان کی تخصیص کا وقت گزر چکا، ان اچھوں کا کیا فائدہ جو بروں کی اصلاح کرنے کے قابل نہیں اور نہ ان کا ہاتھ روکنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ’’اچھے‘‘ ملک میں بےگناہ انسانوں اور وہ بھی اپنے دینی بھائیوں کو بےرحمانہ انداز میں ہلاک ہوتے دیکھ کر مذمت تک کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے تو پھر ہمیں ان ’’اچھوں‘‘ کے لئے نرم خو ہونے کی کیا ضرورت ہے؟

بعض تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ہمیں افغان طالبان کے امریکا سے مذاکرات کے عمل کو پاکستانی طالبان سے جدا کر کے دیکھنا چاہیئے۔ ان دانشوروں کی رائے میں افغان طالبان کا تحریک طالبان پاکستان سے کوئی تعلق نہیں اور وہ پاکستان میں بدامنی پھیلانے کے حق میں نہیں، اگر اس بات میں صداقت ہے تو پھر مولانا فضل الرحمن، جنہیں امریکا افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں مفاہمت کروانے کے لئے ذمہ داری سونپنا چاہتا ہے، کو خود وزیراعظم نوازشریف اندرون ملک قیام امن کے لئے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کے لئے کہیں، بالخصوص مولانا سمیع الحق پر زور دیا جائے کہ وہ اپنے اس دعوے کی بنیاد پر کہ ٹی ٹی پی کے اکثر کمانڈرز اور لوگ ان کے شاگرد ہیں، ان کا احترام کرتے ہیں، اور انہیں اپنے باپ کا درجہ دیتے ہیں، میدان میں آئیں اور اپنے زیراثر افراد کو ملک میں بےچینی پیدا کرنے کے واقعات روکنے کے لئے کہیں۔

نوازشریف ان لوگوں کو جنہیں وہ اپنے ساتھ حکومت میں شریک کرنے کے لئے تیار ہیں، اگر عسکریت پسند گروہوں کی مذموم سرگرمیاں روکنے کے لئے اثر و رسوخ استعمال کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتے تو پھر ان کو حکومتی ذمہ داریوں میں شریک کرنے کا مطلب؟ آج خطے کی صورت حال جس تبدیلی کی طرف گامزن ہے اس میں پاکستان کو اپنے مفادات کے لئے ازسرنو پالیسی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا نے القاعدہ کے خاتمے میں طالبان کو مزاحم ہونے اور تعاون نہ کرنے پر افغانستان پر چڑھائی کی تھی۔ آج وہ اسامہ بن لادن کا تذکرہ کئے بغیر ان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آ رہا ہے۔ شام میں اپنے مفادات میں وہ القاعدہ کی حمایت اور سرپرستی کر رہا ہے، اس کے اس دوغلے پن میں ہمارے لئے کئی اسباق پوشیدہ ہیں۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں کو قومی مفادات کے تقاضوں کا ادراک نہیں، کیا وہ پاکستان میں قیام امن کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے؟

ملک میں دہشت گردی کی نئی لہر، جس طریقے سے جنم لے رہی ہے اس میں اسلام آباد، لاہور سمیت کئی بڑے شہر خطرے کی زد میں ہیں۔ خفیہ ایجنسیاں ان کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہیں تو پھر ان کے تدارک کیلئے اقدامات کرنے میں تامل کیوں برتا جا رہا ہے؟ عوام حکومت کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں جسے ابھی اقتدار سنبھالے چند دن ہوئے ہیں مگر ملکی سلامتی کے ذمہ دار ادارے تو کئی دہائیوں سے ان عناصر سے برسرپیکار ہیں جو اس بدامنی اور اضطراب کے مجرم ہیں، انہیں تو چاہیئے کہ وہ حکومت کی صحیح سمت میں رہنمائی کریں اور کسی ایسے فیصلے پر پہنچنے میں مدد دیں جو ملک و قوم کے مفادمیں ہو۔ وزیراعظم نوازشریف حکومت سنبھالتے ہی مسائل کے جس گرداب میں گھر چکے ہیں اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ان پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کیلئے قومی سطح پر مفاہمتی پالیسی کا دائرہ کار وسیع کیا جائے اور پاکستان کے عوام کو حالت اضطراب سے نکالنے اور ذہنی پریشانیوں سے نجات دلانے کیلئے فوری طور پر مثبت اور غلطیوں سے مبرا اقدامات کئے جائیں۔ اس ضمن میں قومی سلامتی کے ضامن اداروں کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے مگر اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و تدبر کی روشنی میں کہ قوم جس حالت امتحان میں ہے اس میں اسے کامیابی کے ساتھ نکالنے کیلئے جوش سے زیادہ ہوش مندی کی ضرورت ہے!
خبر کا کوڈ : 276220
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش