1
0
Tuesday 13 Aug 2013 16:14

خلیجِ فارس میں اقتدار کی کشمکش

خلیجِ فارس میں اقتدار کی کشمکش
تحریر: سید راشد احد

تیل کی دولت سے مالا مال خلیجِ فارس کے دو اہم ممالک سعودی عرب اور قطر سنی اسلامی دنیا پر اپنی نظریاتی نیز جغرافیائی و سیاسی برتری کے لئے باہم دست و گریباں ہیں۔ دونوں ہی ممالک عرب عوام میں موجود اسلامی معاشرے کی جانب برگشت کے انقلابی تحرک اور جذبے کا استحصال ’’ بہارِ عرب ‘‘ کے عنوان سے اپنی اپنی شہنشاہیت کے حق میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی طرف برگشت کی عوامی خواہش اور آرزو کی کوکھ سے عرب دنیا میں بیداری اسلام کی جس تحریک کا آغاز سال ۲۰۱۱ء کے موسمِ بہار سے ہوا تھا اب اُس نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس کے نتیجے میں نظام کی تبدیلی کا عمل تقریباً حتمی معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ دونوں مذکورہ ممالک عرب دنیا کی بیداری اسلام کی تحریک کو اپنے خاندانی شاہی نظام کے مفادات سے ہم آہنگ کرنے نیز اپنے وضعِ موجود کو باقی رکھنے کے حوالے سے اجتماعی و سیاسی نقطۂ نظر میں اختلاف رکھتے ہیں۔ چنانچہ اس پہلو سے ان دونوں ممالک کے مابین اخوان المسلمین کے تعلق سے جو اختلافِ نظر ہے وہ بالکل ایک دوسرے کے برعکس ہے۔ تصوف پر مبنی روحانیت، سلفی تفکر اور سیاسی اصلاح سے عبارت نصب العین کی علمبردار تحریکِ اخوان المسلمین کا قیام مصر میں ۱۹۲۸ء میں عمل میں آیا۔ اس تحریک کی بانی جنابِ حسن البنّاء تھے جو کہ ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھے لیکن آپ نے اپنے دینی جذبے اور خلوص کی بنیاد پر اس تحریک کو بہت جلد فلسطین، سوڈان، عراق، شام اور دیگر اسلامی ممالک میں پھیلا دیا۔

۱۹۳۹ء تک اخوان المسلمین جس کا مقصد بیرونی طاقتوں کے نفوذ کو ختم کرنا تھا اور مصر میں ایک اسلامی ریاست کا قیام تھا دیکھتے ہی دیکھتے مصر کی عظیم ترین اور موثر ترین اسلامی تنظیم کی شکل اختیار کرگئی۔ اپنے اہداف و مقاصد کی بناء پر یہ تنظیم وقت کی حکومت کی نظر میں بری طرح کھٹکنے لگی۔ چنانچہ حکومتِ وقت نے ۱۹۴۸ء میں اس پر پابندی عائد کردی اور پھر ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو قاہرہ میں حسن البنّاء کو قتل کردیا گیا۔ اس کے باوجود کہ اخوان المسلمین نے شاہ فاروق کے خلاف ’’ فری آفیسرز موومنٹ ‘‘ نامی فوجی گروہ کے ذریعے کی جانے والی جولائی ۱۹۵۲ء کی فوجی بغاوت کا ساتھ دیا پھر بھی ۱۹۵۴ء میں اسے دوبارہ اس الزام کی بنیاد پر کہ اس نے جمال عبدالناصر کے قتل کی ناکام کوشش کی ہے، کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد جمال عبدالناصر نے اخوان کو اپنے ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں اس کے ہزاروں ارکان و ہمدردان خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب خاص طور سے قابلِ ذکر ہے فرار کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور کے ماہر تجزیہ نگار الین گریش (Alain Gresh) کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کو اخوان کی طرف سے اس وقت خطرے کی بُو آنے لگی جب اس نے پہلی خلیجی جنگ کے بعد سے عرب ممالک میں احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا۔

اسلام کی سیاسی فکر کے حوالے سے اخوان اور سعودی عرب میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ اخوان اسلامی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں جس میں حکومت عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہو جب کہ سعودی عرب کی وہابیت زدہ مذہبی ریاست کی بنیاد شاہی خاندان کی بے چوں و چرا اطاعت اور اس سے غیر مشروط وفاداری پر قائم ہے۔ ۹۱-۱۹۹۰ء کی پہلی خلیجی جنگ میں تیونس، سوڈان، یمن اور ترکی کے اخوانی رہنماؤں نے عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کی حمایت کی جب کہ سعودی عرب نے اس جنگ میں مغرب کا ساتھ دیتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جارج ایج ڈبلیو بش کے اتحاد میں شامل رہا۔ سعودی عرب اخوان المسلمین کی طرف سے مصری صدر حسنی مبارک کو برطرف کئے جانے کے اقدام کا بھی شدید مخالف رہاہے۔ ووڈرو وِلسن سنیٹر کے جہاں دیدہ محقق ڈیوڈ اُٹاوے لکھتے ہیں: ’’ ماضی میں سعودی عرب نے اخوان پر یہ الزام لگایا کہ یہ تحریک سعودی برانڈ اسلام جسے وہابیت کے نام سے بھی جانا جاتا ہے کو سیاست زدہ کرنے میں مصروف ہے اور وہابیوں کو سیاسی کارکنوں میں تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ سعودی شہری اسامہ بن لادن اور القاعدہ کی طرف سے انتہاء پسندی کے عمل کو فروغ دیا جانا کہ جس میں خود آلِ سعود کی حکومت کا تختہ الٹ کر سعودی عرب کی حکومت پر قابض ہونے کا منصوبہ شامل تھا اخوان المسلمین کی سیاسی فکر کا ہی مرہونِ منت ہے۔ لہٰذا یہ پس منظر سعودی عرب اور اخوان المسلمین کے مابین موجود کشیدگی کا ایک اہم عامل ہے۔

دوسری جانب سعودی عرب اور قطر کے مابین تعلقات کی تاریخ ہمیشہ سرد مہری سے دوچار رہی ہے سوائے ۲۰۰۷ء تا ۲۰۱۱ء تک کا ایک مختصر سا عرصہ ان کے درمیان صلح کا رہا ہے ان دونوں کے درمیان یمن کے تیل کے مسئلے پر موجود اختلاف میں شدت پیدا ہوتی رہی ہے۔ اختلاف کی دوسری بنیاد اپنی شاہی حکومت کو باقی رکھنے اور دوام بخشنے کے تعلق سے نقطۂ نظر کا فرق ہے۔ قطر کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اپنی شہنشاہیت کو باقی اور قائم رکھنے کے لئے ’’ جمہوری ‘‘ سیاسی اسلامی تحریکوں کو ساتھ لے کر چلا جائے جب کہ سعودیوں کی پالیسی یہ ہے کہ اس طرح کی سیاسی اپوزیشن کا فوراً قلع قمع کردیا جائے۔ ایس راجہ رتنام اسکول آف انٹرنیشنل اسٹیڈیز کے سینئر فیلو جیمس ڈی ڈورزی اپنے اس خیال کا اظہار کرتے ہیں: ’’ سعودی عرب اور قطر کے درمیان جو علاقائی محاذ آرائی ہے وہ بنیادی طور سے اپنی اپنی خاندانی شاہی حکومت کی خود حفاظتی کے تعلق سے دو باہم مختلف حکمتِ عملی کی آئینہ دار ہے۔ دونوں شاہی خاندان اپنے وضعِ موجود کو برقرار رکھنے کے لئے عوامی اجتماعی نفسیات کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کی پالیسی پر کاربند ہیں اور اس کے لئے بے دریغ پیسے بہا رہے ہیں۔ لہٰذا سعودی عرب اپنی حکومت کی بقاء کی خاطر اخوان المسلمین سے مصر اور شام میں قدرے محتاط ہمکاری اور تعاون کی پالیسی پر گامزن ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اخوان کے حوالے سے آلِ سعود کا قلب سخت بے اعتمادی کی کیفیت سے دوچار ہے۔‘‘

قطر نے اپنی حمایت کا پورا وزن اخوان المسلمین کے پلٹرے میں ڈال دیا ہے اور معروف میڈیا نیٹ ورک الجزیرہ کی کل فنڈنگ کی ذمہ داری بھی اپنے سر لئے ہوئے ہے۔ یہ وہی میڈیا نیٹ ورک ہے جس کے متعلق ایلن گریش کہتا ہے کہ یہ مصر میں اخوان المسلمین کا ترجمان ہے اور کسی حد تک تیونس میں بھی۔ قطر شام میں دہشتگردوں کا سب سے بڑا سپلائر ہے۔ اس نے اعلانیہ طور سے سی آئی اے کے زیرِ سرپرستی اسلحوں سے بھرے ۸۵ ہوائی جہاز دوحہ سے انقرہ بھیجے ہیں اور پھر یہ اسلحہ انقرہ سے بذریعہ ٹرک شام روانہ کئے گئے اور مختلف باغی گروہوں کو وہاں تقسیم کئے گئے۔ اس کے بعد شام میں اسلحہ بھیجنے والے ممالک میں دوسرا نمبر سعودی عرب کا ہے جس نے اسلحوں سے بھرے ۳۷ جہاز انقرہ روانہ کئے پھر اس کے بعد زغرب اور کروشیا کا نمبر ہے کہ جنہوں نے ۳۶ فوجی کارگو پروازیں اسلحوں کی فراہمی کی خاطر روانہ کئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار مارچ ۲۰۱۳ ء تک کے ہیں۔

ڈاکٹر ابراہیم کازیرونی اور روب پرنس جیسے معروف تجزیہ نگاروں کے مطابق شام کی حکومت کے خلاف یہ غضبناک جارحیت اس لئے ہے کہ شام ایران اور حزب اللہ لبنان کے خلاف کسی علاقائی متحدہ محاذ کو بننے دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سعودی عرب اور قطر بشار الاسد کی حکومت کو گرانے کے تعلق سے باہم پوری طرح متفق ہیں لیکن ان کے مابین اختلاف اس امر میں ہے کہ بشارالاسد کی حکومت کے بعد کون برسرِ اقتدار آئے؟ قطری حکومت بشارالاسد کے بعد اخوان المسلمین کو برسرِ اقتدار لانا چاہتی ہے جب کہ سعودی حکومت اخوان المسلمین کے ساتھ اپنی پرانی دشمنی کے سبب ایسا نہیں چاہتی ہے۔ اخوان کے مذکورہ اہداف کے پیشِ نظر جن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے یہ بات واضح ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس کی محاذ آرائی فطری ہے کیونکہ امریکہ کے لئے صہیونی حکومت کا تحفظ ہی اس کے سیکورٹی مفادات کے حصول کا اصل ضامن ہے۔ اخوان المسلمین کی پالیسی اس کے اول ڈپٹی چیرمین ڈاکٹر محمد السید حبیب کے بیان سے اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے: ’’ صہیونی حکومت نے سرزمینِ فلسطین، سرزمینِ عرب اور سرزمینِ مسلم پر قبضہ جمالیا ہے۔ کوئی بھی غیرت مند قوم اس چیز کو قبول نہیں کرسکتی ہے کہ اس کی سرزمین یا اس کے وطن پر دوسرے قابض ہوجائیں اور اس کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی جائے۔ قبضے اور جارحیت کے خلاف مزاحمت دینِ اسلام کا تقاضہ ہے اور عالمی قوانین، معاہدات اور روایات بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔ جہاں تک ایسے بیان کا تعلق ہے جو ہولوکاسٹ کو واہمہ قرار دیتے ہیں تو دراصل یہ بیانات سرے سے اس واقعہ کی نفی نہیں کرتے ہیں بلکہ اس واقعہ کے حوالے سے یہودی حضرات جن مبالغہ آرائیوں سے کام لیتے رہے ہیں دراصل ان کی نفی ان بیانات کا اصل ہدف ہے۔‘‘

سعودی عرب اور قطر کے مابین اختلاف کا پایا جانا ایک فطری امر ہے اس لئے کہ ان ممالک کے حکمران کا سارا ہم و غم اپنی اپنی خاندانی شاہی حکومتوں کا تحفظ ہے لیکن اخوان جو اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ایک واضح ہدف رکھتی ہے، جیسا کہ ڈاکٹر محمد السید حبیب کے مذکورہ بالا بیان سے واضح ہے، وہ کس طرح ان دونوں رجعت پسند شاہی حکومتوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئی۔ چنانچہ یہ حقیقت اب تقریباً پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اخوان المسلمین نے اپنے اسلامی اہداف کی تکمیل کے لئے اُس اسلامی قوت کو اپنا فطری حلیف نہیں خیال کیا جسے دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ اسرائیل اور مغرب کی استکباری قوتوں سے عالمِ اسلام کو نجات دلانے کے لئے جو واحد قوت ممد اور معاون ہوسکتی ہے وہ اسلامی جمہوریہ ایران ہے اور خطے کی ایک زبردست مزاحمتی قوت حزب اللہ ہے اگر اخوان کی پالیسی ایران کی پالیسی سے ہم آہنگ ہوتی تو وہ ہرگز بشارالاسد کی حکومت کے حوالے سے مغربی و صہیونی حکومت کے موقف قبول نہیں کرتے۔ لہٰذا ایران اور حزب اللہ سے گہری مفاہمت اور ہمکاری کے بغیر اگر کوئی اسلامی تحریک عالمِ اسلام کو اسرائیل اور عالمی استکباری قوتوں کے پنجۂ خونیں سے نجات دلانا چاہتی ہے تو یہ اُس کے فکر و فہم کا ایک بھیانک قصور ہے اور حقیقت پسندی سے مجرمانہ چشم پوشی ہے۔ چنانچہ مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کے خلاف بیرونی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کی کامیابی دراصل اس کے اسی قصورِ فہم کا نتیجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 292077
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ایران اور حزب اللہ سے گہری مفاہمت اور ہمکاری کے بغیر اگر کوئی اسلامی تحریک عالمِ اسلام کو اسرائیل اور عالمی استکباری قوتوں کے پنجۂ خونیں سے نجات دلانا چاہتی ہے تو یہ اُس کے فکر و فہم کا ایک بھیانک قصور ہے اور حقیقت پسندی سے مجرمانہ چشم پوشی ہے۔
ہماری پیشکش