1
0
Thursday 15 Aug 2013 01:12

امریکی سیاست اور جنون آمیز رویے

امریکی سیاست اور جنون آمیز رویے
اسلام ٹائمز- جرمن تجزیہ نگار کلاوس برنک باور اخبار اشپگل آن لائن میں امریکہ کے بارے میں لکھتا ہے:
"امریکہ بیمار ہے۔ نائن الیون کے حادثات نے اس کے بدن پر لاعلاج زخم لگائے اور آج 12 برس گزر جانے کے باوجود ان زخموں کے نشان واضح طور پر دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن ہم صرف ابھی یہ جان سکتے ہیں کہ اس کی بیماری کس حد تک خطرناک ہے۔ امریکی جاسوسی ایجنسی این ایس اے کی جانب سے انجام پانے والی جاسوسی سرگرمیاں صرف دنیا بھر کے کروڑوں افراد کے ٹیلیفونک مکالمات اور ڈیجیٹل ڈیٹا کی جاسوسی پر مشتمل نہ تھیں۔ عالمی سطح پر جاسوسی سے متعلق امریکہ کی حالیہ رسوائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ ایک ایسے پاگل میں تبدیل ہو چکا ہے جس کا رویہ انتہائی شدت پسندانہ اور جارحانہ ہو چکا ہے۔ امریکہ کے اقدامات مکمل طور پر غیرعاقلانہ اور انتہائی خطرناک ہو چکے ہیں"۔
 
یہاں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسیوں کے بارے میں صرف کلاوس برنک باور ہی وہ واحد سیاسی تجزیہ نگار نہیں جو ایسی رائے رکھتے ہیں۔ سی آئے اے کے مفرور ایجنٹ ایڈورڈ اسنوڈن کی جانب سے امریکی جاسوسی سرگرمیوں کو فاش کئے جانے کے بعد امریکی اور یورپی میڈیا سے وابستہ برنک باور جیسے سیاسی تجزیہ نگاروں کیلئے حقیقت پسندی کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں بچا۔ اس حقیقت پسندی کا مطلب امریکی رویے کا بغور مطالعہ اور اس کے بارے میں صحیح فیصلہ کرنا ہے۔ یہ مطالعہ اور قضاوت صرف امریکہ کی جاسوسی سرگرمیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ نائن الیون کے حادثات کے بعد امریکہ کی جانب سے اپنائی جانے والی کلی خارجہ پالیسی بھی اس میں شامل ہے۔ 
 
اس مطالعے اور ججمنٹ کا بنیادی نکتہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ کے مفاہیم کا ازسر نو جائزہ لینا ہے۔ امریکہ نے 11 ستمبر کو انجام پانے والے دہشت گردانہ اقدامات کا بہانہ بناتے ہوئے "دہشت گردی کے خلاف جنگ" یا وار اگینسٹ ٹیرر کا آغاز کیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نائن الیون کی تیرہویں سالگرہ کے آستانے پر میڈیا میں اس تجدیدنظر کا وقت آن پہنچا ہے۔ 
 
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے تجزیہ نگار نکولس کریسٹوف نے دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ جیسے موضوعات کو ان کی اہمیت کی خاطر اپنی کاوش کا نشانہ بنایا ہے۔ اس نے سب سے پہلے بعض ارقام و اعداد کی جانب اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ 2005ء سے لے کر اب تک تقریبا 23 امریکی شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے ہیں جن میں سے اکثر کو امریکہ سے باہر قتل کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس امریکی تجزیہ نگار نے ایک انتہائی دلچسپ موازنہ انجام دیا ہے اور لکھتا ہے کہ اسی مدت میں ان امریکی شہریوں کی تعداد جو روزمرہ حوادث جیسے کسی چیز کے اپنے اوپر گرنے یا دوسرے حادثات کی وجہ سے ہلاکت کا شکار ہوئے ہیں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد سے کئی گنا زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایسے امریکی شہری جو اس مدت میں سیڑھیوں سے گر کر ہلاک ہوئے ہیں دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد سے 15 گنا زیادہ ہے۔ 
 
نکولس کریسٹوف کا لہجہ انتہائی تمسخر آمیز ہے کیونکہ اس نے نہ صرف ٹیلی ویژن گرنے سے ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں کا دہشت گردی میں ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں سے موازنہ انجام دیا ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کیا ہے کہ ٹیلی ویژن گرنے سے ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں کی اہمیت دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے امریکی شہریوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اس نے اپنی تحقیقات کی بنیاد اعداد و ارقام اور روزمرہ حوادث اور اس کے نتیجے میں مرنے والے افراد پر رکھی ہے۔ 
 
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردانہ اقدامات کا نشانہ بننے والے امریکی شہریوں کی تعداد اس قدر کم ہونے کے باوجود اور ان میں سے بھی اکثر افراد کا امریکہ سے باہر دہشت گردانہ اقدامات کا نشانہ بننے کے باوجود امریکی حکومت نے 2001ء سے لے کر اب تک بیرونی سطح پر فوجی امور اور اندرونی سطح پر سیکورٹی امور پر 8 ارب ڈالر سے زیادہ کی خطیر رقم کیوں خرچ کر ڈالی ہے؟
 
کریسٹوف کی تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی معاشرے کیلئے دہشت گردی کا نشانہ بننے والے افراد کی تعداد اس قدر کم اہمیت اور ناچیز ہے کہ اسے اتنے بڑے پیمانے پر انجام پانے والے اخراجات کا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ امریکی شہریوں کو درپیش حقیقی خطرے سے متعلق ایک اور اہم موضوع یہ ہے کہ امریکی شہریوں کو درپیش اصلی خطرہ امریکہ میں ذاتی اسلحہ رکھنے کی آزادی ہے نہ کہ دہشت گردی۔ امریکہ میں ذاتی اسلحہ کی آزادی کے نتیجے میں قتل ہونے والے افراد کی تعداد انتہائی زیادہ ہے۔ اس ملک میں ہر سال تقریبا 30 ہزار افراد آتشین اسلحہ سے قتل کئے جاتے ہیں۔ صورتحال اس قدر گھمبیر ہو چکی ہے کہ ایک امریکی بچہ دنیا کے دوسرے صنعتی ممالک میں بسنے والے بچوں کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ گولی کا نشانہ بننے کے خطرے سے روبرو ہے۔ امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کو درپیش اس عظیم خطرے سے مقابلے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے سنگین جانی نقصان کو روکنے کیلئے کیا اقدامات انجام دیئے ہیں؟ 
 
نکولس کریسٹوف لکھتا ہے:
"جب بھی اس عظیم خطرے سے مقابلے کا موقع آتا ہے صدر براک اوباما اور امریکی کانگریس انتہائی سستی اور کام چوری کا مظاہرہ کرتے ہیں بلکہ اگر دقیق انداز میں دیکھیں تو وہ کوئی کام انجام نہیں دیتے۔ وہ اکا دکا اور جب بھی کوئی ناگوار حادثہ رونما ہوتا ہے اور ایک مجرمانہ فعل انجام پاتا ہے اس خطرے کے بارے میں اظہارنظر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن اسلحے کی لابی کو ایک لاعلاج بیماری لگ چکی ہے اور وہ اسلحے کو شخصی دفاع کیلئے انتہائی ضروری قرار دیتی ہے"۔ 
 
امریکی حکومت نے اس خطرے کا مقابلہ کرنے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی نقصانات کو روکنے کیلئے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا اور القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیم کا واویلا مچایا تاکہ مسلم ممالک پر استعماری انداز میں جارحانہ اقدامات کا بہانہ فراہم کر سکے۔ گذشتہ ایک عشرے سے جاری امریکہ کی جانب سے یہ فوج کشی صرف افغانستان اور عراق پر فوجی حملوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مختلف جیل اسکینڈلز جیسے ابوغریب اور گوانٹانامو بے جیلز اور اس کے بعد ڈرون حملات کا سلسلہ شروع ہو گیا جو اس جنگ کے بھیانک نتائج میں شمار ہوتے ہیں۔ 
 
گوانٹانامو بے میں قید افراد کو 11 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک وہ بغیر کسی جرم اور بغیر کسی عدالتی حکم کے حبس بے جا میں ہیں۔ اب تک دنیا کی کوئی طاقت امریکی حکومت کو اس بات پر مجبور نہیں کر سکی کہ اس مسئلے پر دنیا کو جواب دیں۔ بالکل اسی طرح جسیے دنیا کے مختلف مقامات پر ڈرون حملوں کے بارے میں بھی امریکی حکومت دنیا کی کسی حکومت یا بین الاقوامی ادارے کو جوابدہ نظر نہیں آتی۔ دنیا کے مختلف ممالک اور بین الاقوامی اداروں کے خلاف امریکی جاسوسی سرگرمیوں کا انکشاف بھی امریکی حکومت کے اسی رویے کا نشاندہی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ 
 
جرمن تجزیہ نگار کلاوس برنک باور حال ہی میں منظرعام پر آنے والے امریکی جاسوسی اسکینڈل میں امریکی حکومت کے کردار کو ایک ایسی بدمست طاقت کے فعل سے تشبیہ کرتا ہے جو خود کو تمام بین الاقوامی قوانین سے ماوراء تصور کرتی ہے۔ برنک باور ایک انتہائی دلچسپ نکتے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"اگر جرج بش امریکی صدر ہوتا تو اس امریکی اقدام کی کوئی مناسب توجیہ پیش کی جا سکتی تھی کیونکہ اس سے ہمیں اس کے علاوہ کوئی توقع نہ تھی لیکن صدر براک اوباما کیلئے ایسے اقدام کی کوئی توجیہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ان کا یہ اقدام انتہائی مایوس کن ہے"۔ 
 
بہرحال امریکہ حتی صدر اوباما کی حکومت میں بھی ایسے اقدامات کا مرتکب ہوا ہے جس کی بابت اشپگل آن لائن اور نیویارک ٹائمز جیسے اخبارات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ یہ اقدامات غیرمنطقی اور مذموم ہیں۔ ان واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرمنطقی اور جنون آمیز رویہ امریکی فطرت کا حصہ بن چکا ہے اور امریکی صدر کی شخصیت کا اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان اقدامات کی حقیقی وجہ وہ جنون اور پاگل پن ہے جو امریکی سیاست میں گہری جڑیں پکڑ چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 292511
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

VERY NICE
ہماری پیشکش