0
Wednesday 19 Feb 2014 22:15

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
تحریر: ممتاز ملک 

دو کروڑ بانوے لاکھ کی آبادی اور اکیس لاکھ انچاس ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر مشتمل سعودی عرب دنیا کا تیل پیدا کرنے والا دوسرا اور عرب دنیا کا رقبے کے لحاظ سے بھی دوسرا بڑا ملک ہے۔ اپنے تیرہ صوبوں پر پھیلا ہوا یہ ملک صحرائی و سطح مرتفع کے وسیع و عریض علاقوں میں تیل، گیس، کھجور، انگور اور زعفران کی پیداوار سے شہرت رکھتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے تو اس کا نام حجاز تھا جس پر 1932ء کی آل سعود کے حکومت پر قبضے کے بعد نام سرکاری طور پر سعودی عرب رکھ دیا گیا۔ یوں تو اسلامی ممالک کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم کرنا ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل رہا ہے لیکن سعودی عرب ان چند مسلم ممالک میں سے ایک ہے، جس سے ہمارے ملک کے برادرانہ اور دوستانہ تعلقات بہت زیادہ گہرے چلے آ رہے ہیں، کیونکہ اس میں خدا کی بہت ساری واضح نشانیوں کے ساتھ ساتھ کائنات کی عظیم اور برگزیدہ ہستیوں کی جائے مسکن و مدفن ہیں، جو مسلمانوں کے لئے قلبی و روحانی سکون کا باعث ہیں۔

ماضی میں سعودی عرب کا ایران کے خلاف جنگ میں عراق کا ساتھ دینا، پھر کویت عراق جنگ میں عراق کے خلاف جنگ لڑنا، سویت یونین کے خلاف امریکہ کا ساتھ دینا اور پاکستان میں طالبان کی آبیاری کرنا اور آج تک شدت پسندی میں ملوث تنظیموں کو سالانہ کروڑوں ڈالرز کے فنڈز کی فراہمی ایسے اقدامات ہیں، جن کی بدولت ہم پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت کرنا اس کا وطیرہ رہا ہے، جہاں مصر، لبنان اور عراق سعودی مداخلت کا شکار رہے ہیں وہاں جیسی کرنی ویسی بھرنی کے مترادف آج اسے شام، یمن اور بحرین میں مداخلت مہنگی پڑگئی ہے، جس کی بدولت آج سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز پاکستان کے دورے پر تشریف لائے ہیں۔ 

ہماری عوام کو تو اسلامی بھائی چارے کے جذبے نے نڈھال کر رکھا ہے اور ہم خوش ہوئے جا رہے ہیں کہ ہماری گرتی معیشت کو سہارا دینے ہمارے اسلامی بھائی پہنچ چکے ہیں اور انہوں نے بیس ارب روپے کی رقم کھاد اور توانائی کے شعبے میں مختص بھی کر دی ہے، جبکہ پاکستان سے ہزاروں ایکڑ زرعی زمین بھی تیل کے عوض ٹھیکے پر مانگی جا رہی ہے، جہاں وہ اپنی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح کالونی بنائے گا۔ اس سے اہم اور حساس مسئلہ یہ ہے کے جس وقت سعودی وزیر خارجہ آئے تھے، انہوں نے اٹھائیس ہزار فوجی مانگے تھے، جس سے پاکستان نے انکار کیا تھا جبکہ اب کی بار کم کا مطالبہ کیا گیا ہے یعنی چودہ ہزار جن میں عام فوجیوں کے ساتھ ساتھ ایسے انسٹریکٹررز بھی شامل ہوں گے جو سعودی عرب کی فورسز کو ملک کے داخلی انتشار کو کنڑول کرنے اور گوریلا جنگ کی ٹریننگ دیں گے۔ بدقسمتی سے دنیا اب یہ سمجھتی ہے کے پاکستان ایک سکیورٹی کمپنی ہے، جس سے اپنی حفاظت کے لئے سکیورٹی گارڈز کرائے پر لئے جا سکتے ہیں اور نام نہاد جہاد کے لئے کٹھ پتلی مجاہدین بھی یہاں پر میسر ہیں، جو دنیا کے کسی بھی ملک میں اسلام کا جھنڈا گاڑھ سکتے ہیں۔

سعودی عرب کو سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کے عرب ممالک میں انقلابات کی وجہ سے اس کی حکومت بھی کسی وقت زد میں آسکتی ہے، یمنی حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی اسے اپنے تین جنوبی صوبے جزان، اسیر اور اسماعیلی اکثریتی صوبے نجران سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ اس سے بھی اہم نقطہ یہ ہے کہ بحرینی انقلاب بھی اپنی تکمیل کے آخری مراحل تک پہنچ چکا ہے، تیل و گیس کی دولت سے مالا مال سب سے بڑا خلیج فارس والی سائیڈ کا مشرقی صوبہ قطیف بحرین کے قریب ہے جس کی پچاس فیصد آبادی شیعہ ہے، جہاں پر پچھلے دو تین سالوں سے حکومت مخالف تحریک چل رہی ہے جس میں ہزاروں افراد قید کئے جا چکے ہیں۔ بحرین میں آل خلیفہ کے اقتدار کے ختم ہوتے ہی قطیف بھی اس انقلاب کی زد میں آجائے گا اور ملک کے تیس فیصد بریلوی سنی مسلمان جو کہ سعودی حکومت کی سخت گیر مذہبی سوچ کی حامل سلفی آبادی سے بیزار ہیں، وہ اپنے آپ کو منظم کرتے نظر آتے ہیں۔

آج ہمارے ملک کے سیاسی و خارجی امور پر دسترس رکھنے والے ماہرین کی یہی رائے ہے کہ پاکستان کو ان حالات میں انتہائی دانشمندانہ سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا، جس میں ماضی کی طرح کوئی غلطی نہ دہرائی جائے، جیسا کہ افغانستان میں جہاد کے لئے مجاہدین کو تیار کرنے کے حوالے سے کی گئی تھی اور جس کا آج تک ہماری قوم دہشت گردی کی صورت میں خمیازہ بھگت رہی ہے۔ ہمیں اپنی فوج کو کسی ایسی سرزمین پر نہیں جھونک دینا چاہیئے جس سے دیگر اسلامی ممالک ناراض ہوجائیں اور جس کی بدولت ہمیں ایک اور آگ و خون کی فصل کاٹنی پڑ جائے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عالم اسلام اور اپنے ملکی مفاد کے حصول کی خاطر ہمیں ایسا طرز عمل اپنانا چاہیئے، جس سے کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات متاثر نہ ہوں۔ 
وہ وقت بھی دیکھا ہے تقدیر کی گھڑیوں نے 
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
خبر کا کوڈ : 353452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش