0
Thursday 19 Jun 2014 12:38

میاں برادران، مارشلائی و شاہی مزاج کا امتزاج

میاں برادران، مارشلائی و شاہی مزاج کا امتزاج
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے میرا ایک دوست ماڈل ٹاؤن میں اپنے موٹر سائیکل پر دن دیہاڑے کوئی سامان دینے چلا گیا، ایک جگہ پر جا کر اسے پولیس نے روک لیا اور اس نو گو ایریا میں آنے کی وجہ دریافت کی، اس دوست کے پاس چونکہ سپلائی والا سامان موجود تھا لہذٰا اس نے بتایا کہ یہ سامان دینے آیا ہوں اور یہی کام کرتا ہوں۔ پولیس والوں نے اسے سختی سے اس جگہ سے چلے جانے کا کہا اور واپس بھیج دیا، یہ گلی اصل میں پنجاب کے شہزادے حمزہ شہباز شریف کی رہائش گاہ کو جاتی تھی جنہیں اس وقت پنجاب کا تاجور بنایا گیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو حکومت میں ہیں ایک ایسی حکومت جس نے طالبان سے ساز باز کر کے اقتدار کے ایوان تک رسائی حاصل کی، اگر ان کو بھی پاکستان پیپلز پارٹی، متحد قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرح طالبان کی دھمکیاں ہوتیں تو الیکشن کا نتیجہ اس سے کہیں مختلف ہوتا، چاہے افتخار چوہدری کی عدلیہ جتنے بھی پنکچر لگا لیتی صورتحال یوں نہ ہوتی۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنہیں طالبان نے کھلا چھوڑا ہوا ہے یا جن کے ساتھ کھلی کمٹمنٹ ہے انہیں اس قدر سکیورٹی حاصل کہ دور گلی میں بھی کوئی غیر متعلقہ عام آدمی داخل نہیں ہو سکتا اور جن کی زبانیں اور قلم طالبان کیساتھ جہاد کرتے کرتے عرصہ گذار چکے ہیں انہیں اپنے گھر کے باہر رکھے سکیورٹی بیریئر
لگانے کی اجازت نہیں دی جا رہی آخر اس کا مقصد کیا ہے؟ کہ ایک مکتب کے نمائندہ اور عوامی سطح پر بےانتہا پذیرائی رکھنے والی شخصیت کو اس قدر غیر محفوظ کرنے کی کیا تک بندی ہے۔ حکومتوں کا کام یہ ہے کہ تمام سیاسی و مذہبی گروہوں کے قائدین کو محفوظ بنانے کی تدبیر اور حکمت عملی بنائے نہ کہ ان سے ان کے ذاتی حفاظتی انتظامات بھی چھین لے اور انہیں دہشت گردوں کے سامنے بےدست و پا کر کے چھوڑ دے، اور یہ کہاں لکھا ہے کہ بیرئرز ہٹانے کا بہانہ کر کے سینکڑوں بیگناہوں جن میں بچے، بوڑھے، جوان اور خواتین بھی شامل ہیں انہیں شدید ترین آنسو گیس، اور کلاشنکوف کی گولیوں سے چھلنی کر کے جشن فتح مناؤ، یہ وہی لاہور پولیس نہیں ہے جس پر چند برس پہلے دہشت گردوں نے ناکوں پر دو تین حملے کئے تھے تو ناکے ختم کر کے تھانوں میں گھس گئی تھی، اب یہ کہاں سے اتنی دلیر ہو گئی اور ان کی دلیری کے کیا کہنے کہ ایمرجنسی 1122 کے اہلکار اگر زخمیوں کو اسٹریچرپر اٹھائے جا رہے ہیں تو ان پر بھی لاٹھیاں چلائی جا رہی ہیں، یہ ان کی بہادری کی بہترین مثال ہے۔

بیرئرز اور رکاوٹوں سے یاد آیا، میرا گذر لاہور کی ایک ایسی شاہراہ سے ہوتا ہے جہاں کالعدم جماعت الدعوہ کا مرکز ہے، یہ چوبرجی کا اہم ترین چوک ہے جہاں ٹریفک کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ یہاں ایک کالعدم جماعت نے مرکز القادسیہ کے نام
سے مسجد بنا رکھی ہے اور اس جماعت کے دفاتر اور پریس وغیرہ بھی اندر ہی لگے ہوئے ہیں۔ یہاں پر جماعت کے سربراہ حافط سعید جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے یہاں پر پورے مہینہ میں تراویح پڑھائی جاتی ہیں، یہاں کی صورت حال کافی عرصہ سے مانیٹر کر رہا ہوں۔ جمعہ کے دن اس مرکز کے سامنے سے گزرنے والا روڈ مکمل بند کر دیا جا تا ہے، رمضان شریف میں نماز و تراویح کے اوقات میں بھی یہی صورت حال ہوتی ہے، جبکہ اس مرکز نے کئی فٹ سرکاری جگہ کو گھیر کے ایک بلند و بالا دیوار کھڑی کر کے اپنے اندر شامل کر لیا ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ وہ گروہ ہے جنہوں نے ملک بھر میں عالمی دہشت گرد اسامہ بن لادن کی غائبانہ نماز جنازہ انتہائی عقیدت و گڑگڑا کے پڑھائی تھی، یعنی وہ دہشت گرد جو پاکستان کی افواج و عوام پر حملہ آور ہیں انہیں اس جماعت کی سطح پر کیا مقام دیا جاتا ہے تو پھر ان کو کس سے خطرات ہیں، جس کے باعث عوام کو اذیت میں مبتلا کیا جاتا ہے اور ایک اہم ترین روڈ کو ان کی وجہ سے مستقل بند کر دیا گیا ہے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ جب نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں واجپائی لاہور مینار پاکستان پر آئے تو جماعت اسلامی کے کارکنان پورے پاکستان سے لاہور لائے گئے اور ہندوستان کے ساتھ کشمیریوں کے خون پر سودا بازی کے خلاف احتجاج کیا گیا، اس وقت بھی لاہور
کو بےگناہوں کے خون سے ایسے ہی رنگین کیا گیا تھا جیسے گذشتہ روز پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کے ساتھ کیا گیا ہے، اس وقت بھی کئی جماعتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور سینکڑوں جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندان میں ڈال دیئے گئے تھے، جنہیں بعد ازاں ضمانتوں پر رہائی ملی۔ کسے بھولا ہو گا کہ گذشتہ دور حکومت میں جب مرکز میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور پنجاب میں میاں شہباز شریف تخت لاہور پر قابض تھے تو لوڈشیڈنگ کیخلاف پنجاب میں سرکاری سرپرستی میں شدید ترین احتجاجی مظاہرے کروائے گئے، وزیراعلٰی خود مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ آفس بنا کر "ہینڈفین ڈرامہ" رچاتے رہے اور یہ پراپیگنڈہ کیا کرتے کہ پنجاب کو اندھیروں میں ڈبونے کی سازش کی گئی ہے اب جب مرکز میں بڑے بھائی اقتدار پر متمکن ہیں تو لوڈشیڈنگ سے ان کی گہری دوستی ہو گئی ہے اگر اس کے خلاف کہیں احتجاج ہو جائے تو گولیاں، گیس اور گالیاں دی جاتی ہیں، فیصل آباد کے پاور لومز مزدوروں کیساتھ جو کچھ اس حکومت نے احتجاج کرنے پر کیا وہ گذشتہ روز ہونے والے احتجاج سے صرف اتنا ہی کم تھا کہ اس میں کسی کی جان نہیں گئی تھی، وہاں بھی چادر اور چار دیواری کا تقدس ایسے ہی پائمال کیا گیا تھا جیسے ماڈل ٹاؤن میں کیا گیا ہے۔

اگر ہم موجودہ حکمرانوں کی ہسٹری شیٹ نکالیں تو ایسی کئی اور
مثالیں سامنے آ جائیں گی جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں ان کی سیاسی تربیت کا اثر ہے جو مارشلائی ماحول اور چھتری تلے ہوئی ہے، سونے پہ سہاگہ اب یہ لوگ ایک شاہی خاندان کی دس سالہ میزبانی کا مزہ بھی چکھ آئے ہیں، انہیں اپنے خلاف احتجاج ایسے ہی برا لگتا ہے جیسے سعودی شاہی خاندان کو اپنے خلاف احتجاج موت نظر آتا ہے جبکہ اسی کام کیلئے وہ شام اور ایران میں پیسے خرچ کرنے کیلئے بے تاب دکھائی دیتے ہیں اور ان قوتوں کو بزور پیسہ خریدتے ہیں جو ان ممالک میں اس طرح کے کام کرنے کیلئے تیار ہوتی ہیں، میاں برادران کی سیاسی تربیت اور روحانی وابستگی بہرحال پاکستان کے بد ترین آمر ضیا ء الحق کے زیر سایہ ہوئی ہے، وہی موصوف کے اولین استاد کہے جاتے ہیں، جس کے باعث عوام کا ان کے خلاف باہر نکل آنا انہیں موت نظر آتا ہے، جب سے علامہ طاہر القادری نے پاکستان واپسی کا اعلان کیا ہے حکمرانوں کے ہاتھوں کے طوطے اڑے ہوئے ہیں، ان سے تو اچھے پاکستان پیپلز پارٹی کے حکمران تھے جنہوں نے تمام تر نااہلی کے باوجود طاہر القادری کے احتجاج اور دھرنے کو اسلام آباد میں ہینڈل کیا اور کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہونے دیا۔

لاہو ر ماڈل ٹاؤن سانحہ کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، نہ ہی اتنا بڑا مسئلہ تھا جس سے ایک ہی رات میں نتیجہ لینا ازحد لازم تھا، اس قسم کے
مسائل مذاکرات اور گفت و شنید سے حل ہو جاتے ہیں۔ انتظامیہ کو کس کی شہہ حاصل تھی کہ اس نے آؤ دیکھا نا تاؤ، عوتوں کا خیال کیا اور نہ بوڑھوں کا، بچوں کو بخشا اور نہ ہی زخمیوں کو، بغیر دیکھے اندھا دھند فائرنگ کر دی اور آٹھ قیمتی جانوں کا ضیاع اور سینکڑوں لوگوں کو زخمی کر دیا۔ کسی جمہوری معاشرے میں ایسا ہرگز نہیں ہوتا، جمہوریت میں عوام سڑکوں پر ہی ہوتے ہیں کبھی کسی کا کوئی مطالبہ اور کبھی کسی کو کوئی شکایت، اس سانحہ پر حکمرانوں کی نااہلیت اور تعصب و تنگ نظری ثابت ہو رہی ہے، ایک طرف کالعدم گروہوں کے ساتھ قریبی تعلقات اور انہیں بھرپور وسائل سے مالامال کیا جاتا ہے انہیں جلسے جلوس اور ماحول میں زہر افشانی کی کھلی چھوٹ دی جاتی ہے اور دوسری طرف اپنی حفاظت کا حق بھی چھینا جا رہا ہے، یہ ظلم ہے اور ظلم کی انتہا مٹ جانا ہے دوسری طرف تاریخ بتاتی ہے کہ خون کا بہہ جانا کسی تحریک کی کامیابی کیلئے دوچند ہوتا ہے، جب کسی تحریک میں خون شامل ہو جائے تو پھر اسے کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھا جاتا ہے اس سے دوسرے کارکنان اور قائدین کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ جذبے اور جوش کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ موجودہ حکمرانوں اپنی سابقہ روش پر کاربند ہو کر اپنے پاؤں پر کلہاڑیاں مارنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 393314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش