0
Tuesday 8 Feb 2011 01:17

جمال الدین افغانی سے جمال مبارک تک

جمال الدین افغانی سے جمال مبارک تک
تحریر:ڈاکٹر آر اے سید
مصر کی موجودہ صورتحال اور عوامی تحریک کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جا کر ختم ہو گی ابھی اس پر کچھ کہنا یا لکھنا قبل از وقت ہو گا۔ آج التحریر اسکوائر میں لگنے والے نعرے کیا جذباتی اور فوری ردعمل ہے یا اسکی بنیادیں کہیں اور جا کر وصل ہیں۔ قدیم تاریخ و تہذیب کا گہوارہ مصر، جہاں اس وقت بھی عرب ملکوں کے مقابلے میں تعلیم کی شرح کافی بہتر ہے، ایسا ملک جہاں اہلسنت مکتب کی سب سے بڑی درسگاہ جامعہ الازھر موجود ہے اور جسکی جغرافیائی صورتحال اتنی اہم ہے کہ اس ملک پر قبضے کی خواہش تمام استعماری قوتوں کی دیرینہ خواہش رہی ہے۔ نہر سویز کی مالکیت اور اسرائیل جیسی غاصب رژیم کا ہمسایہ ہونا خود ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسکی بنیاد پر مصری عوام کی ذمہ داری دوسرے مسلمان عوام بالخصوص عرب ممالک کے حوالے سے بہت زیادہ ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں پر جمال الدین افغانی، عبدہ اور حسن البناء جیسی شخصیات گزری ہوں، جنکے علمی و تبلیغی اثرات عرب کی حدود کو عبور کرتے ہوئے ایشیا و افریقہ تک پھیلے ہوئے ہیں اس ملک کے عوام پر بھی یقیناً اثرانداز ہوئے ہوں گے۔ فکری بنیادوں پر اگر جمال الدین، محمد عبدہ اور حسن البناء جیسے افراد نے کام کیا تو دوسری طرف سیاسی میدان بالخصوص اسرائیل دشمنی میں جمال عبدالناصر کا نام بھی مصری عوام حتٰی عرب ممالک کیلئے ایک ہیرو کا درجہ رکھتا تھا۔ حالات اتنے سازگار اور تقاضے اتنے زیادہ، اسکے باوجود اس ملک پر حسنی مبارک کی صورت میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کا تیس سال سے زائد عرصے تک قائم دائم رہنا سمجھ میں نہیں آتا۔ تاہم دوسری طرف ہم عالمی سیاست میں مشرق وسطی کا کردار اور اسکی اہمیت دیکھتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امریکہ نے غاصب صہیونیستی حکومت کے دفاع کیلئے مصر پر اپنے مہرے کو مسلط کر رکھا ہے اور اسکی فوجی، مالی اور سیاسی مدد ہی ہے جس نے اس ڈکٹیٹر کو مصر پر حکومت کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ حسنی مبارک نے جس انداز سے گذشتہ تین صدارتی انتخابات جیتے ہیں وہ ایک کھلے اور واضح مذاق اور جمہوریت کا مذاق اڑانے کے علاوہ کچھ نہ تھے۔ اب جبکہ تیونس کے بعد مصری عوام میں بھی تبدیلی آئی ہے تو مصر میں چلنے والی حالیہ عوامی تحریک اور مصر میں روز بروز بڑھتے ہوئے حالیہ بحران نے غاصب صہیونی حکومت کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور وہ بری طرح بوکھلا گئے ہیں۔ صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے مصر کے حالیہ بحران کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم حسنی مبارک کی حمایت کے حوالے سے پوری سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں۔ صہیونی صدر نے بھی اپنی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل پر حسنی مبارک کے بہت زیادہ احسان ہیں۔
حسنی مبارک گذشتہ تیس سالوں سے مصر کی حکومت پر مسلط ہیں اور انہوں نے اپنے دور اقتدار میں صہیونی حکومت کو کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ مصر نے 1979 میں کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ذریعے عربوں اور مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور فلسطینی عوام کو غاصب صہیونی حکومت کے مقابلے میں تن و تنہا چھوڑ دیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد بھی صہیونی حکومت کی سازباز مذاکرات کی سازشوں میں مصر نے ہمیشہ اسرائیل کا ساتھ دیا۔ غزہ کے محاصرے کا مسئلہ ہو یا غزہ پر مسلط کی گئی صہیونی حکومت کی بائیس روزہ جنگ، حسنی مبارک اور اسکی حکومت اسرائیل کے شانہ بشانہ رہی۔ اسی طرح مصر سے غزہ جانے والی اہم گذرگاہوں کو بند کر کے فلسطینیوں کیلئے مزید مشکلات کھڑی کرنے میں بھی حسنی مبارک کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
حسنی مبارک مصر کی چالیس فیصد گیس صہیونی حکومت کو دیتا تھا اور صہیونی کالونیوں کی تعمیر میں بھی انکا ہم فکر تھا۔ البتہ اس میں امریکہ کے کردار کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ حسنی مبارک اور اسکی حکومت خطے میں صہیونی حکومت کی سب سے بڑی حامی تھی جبکہ مصری عوام غاصب صہیونی حکومت کو ایک لمحہ کیلئے بھی قبول کرنے پر تیار نہ تھے۔ یہی وجہ ہے اب جبکہ مصری عوام نے حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف قیام شروع کر رکھا ہے اور حسنی مبارک کے فرار کے امکانات روشن ہو چکے ہیں، مصر کی موجودہ صورتحال پر پر غاصب صہیونی حکومت کو سخت تشویش ہے کیونکہ مصر میں آنے والی موجودہ تبدیلی مصر اسرائیل تعلقات کو کبھی بھی پہلے والی سطح پر نہیں لا سکتی۔
مصر کی موجودہ عوامی تحریک بے شک اپنے جوبن پر ہے اور حسنی مبارک کے دن بھی گنے جا چکے ہیں لیکن اصل مسئلہ حسنی مبارک کے بعد کا ہے۔ مصر میں گذشتہ تقریباً نصف صدی سے ڈکٹیٹرشپ رہی ہے۔ کبھی عرب نیشنلزم کے نام پر اور کبھی ترقی کے نام پر۔ اس سارے عرصے میں مصر میں کوئی مضبوط سیاسی نظام تشکیل نہ پا سکا۔ اخوان المسلمون کے نام سے ایک مذہبی جماعت سرگرم عمل رہی، لیکن اسکے خلاف بھی اس طرح کا جبر و تشدد روا رکھا گیا کہ وہ بھی ملک کے اندر سیاسی نیٹ ورک یا متبادل حکومت سازی کیلئے مضبوط کیڈر نہیں بنا سکے۔ اخوان المسلمون کا بھی جماعت اسلامی پاکستان کی طرح تنظیمی اور تربیتی ڈھانچہ ہے۔ اس میں کسی کے ذریعے حکومت کرنے کی صلاحیت تو ہے لیکن خود آگے بڑھ کر حکومت لینے اور حکومت کرنے کا حوصلہ، جذبہ اور عزم با لجزم نہیں ہے۔
مصر میں نو آبادیاتی نظام سے قومی ریاست کی طرف پیش قدمی کا عمل فوجی قیادت کے زیرکمان آگے بڑھا اور اسکے بعد کسی ایسی عوامی طاقت کو منظم نہیں ہونے دیا گیا جو انتقال اقتدار کے عمل میں حصہ داری کا دعوی بھی کر سکے۔ مصر کی پوری قومی ریاست کا اسٹرکچر میڈ ان آرمی )فوج کا بنایا ہوا( ہے۔ مصر کی موجودہ تحریک میں فوج ابھی تک اس طرح میدان میں نہیں آئی ہے جس طرح توقع کی جا رہی تھی۔ اسکی ایک وجہ تو تیونس کا تجربہ ہے جبکہ دوسری اہم بات یہ بھی کہی جا رہی ہے کہ حسنی مبارک کی اصل قوت روایتی مصری فوج نہیں ہے بلکہ اس فوج کے علاوہ حسنی مبارک نے ہزاروں کی تعداد میں خصوصی فوجی دستے بھی بنائے ہوئے ہیں جس کے بل بوتے پر وہ ابھی تک صدارتی محل میں براجمان ہے۔ 
مصر میں اس طرح کے خصوصی دستوں کے سخت ترین اقدامات کے باوجود تبدیلی آنا ضروری ہے لیکن متبادل کے طور پر عمر سلیمان، محمد البرادعی، چیف آف آرمڈ سروسز لیفٹننٹ جنرل سمیع عنان یا پاکستان کی طرح کسی معین قریشی اور شوکت عزیز کا اقتدار میں آنا بعید از قیاس نہیں۔ مذہبی قوتوں کے پاس اسٹریٹ پاور تو نظر آ رہی ہے لیکن حکومت سازی اور حکمرانی کرنے کیلئے موثر قیادت نظر نہیں آ رہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سید جمال الدین افغانی کے انقلابی افکار سے متاثرہ اور جمال عبدالناصر کی قوم پرستی کے رومان پرستی کا شکار مصری قوم "جمال مبارک" ابن حسنی مبارک جیسے افراد کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے۔
مصری عوام نے جلد بلکہ بہت جلد اسکا فیصلہ کرنا ہے وگرنہ بقول شاعر:
"لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی"

خبر کا کوڈ : 53700
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش