1
0
Wednesday 18 Jan 2012 13:51

طالبان کے ہاتھوں لوئر کرم بگن سے اغوا ہونے والے قیصر حسین

طالبان کے ہاتھوں لوئر کرم بگن سے اغوا ہونے والے قیصر حسین
طالبان کے ہاتھوں 25 مارچ 2011ء کو لوئر کرم بگن سے اغوا ہونے والے قیصر حسین، ایم ایس سی فزکس، جن کا تعلق پاراچنار کرم ایجنسی کے مضافاتی گاؤں آگرہ سے ہے، دس ماہ گزرنے کے باوجود قیصر حسین کی رہائی نہیں ہوئی، قیصر حسین کے مظلوم والدین اور گھر والوں کی فریاد اور حقائق پہنچانے کے لئے اسلام ٹائمز کی ٹیم نے قیصر حسین کے گاؤں آگرہ، نورگل کلے جا کر انکے والد شبیر حسین سے خصوصی انٹرویو کیا، حقائق پر مبنی یہ انٹرویو قارئین اور متعلقہ حکام کی آنکھیں کھولنے میں معاون ثابت ہو گا۔ اسلام ٹائمز کی ٹیم جب قیصر کے گاؤں کے قریب پہنچی تو قیصر کے ہمسائے ریاض حسین نے مغوی قیصر کے گھر تک رہنمائی کی، اور دوران انٹرویو وہ بھی قیصر کے والد کے ہمراہ بیٹھے رہے،جہاں قیصر کے 65 سالہ ضعیف والد شبیر حسین موجود تھے۔ قیصر کے والد نے اسلام ٹائمز کے سوالات کے جوابات کے ساتھ ساتھ اپنے مشاہدات اور قیصر کی گمشدگی سے اب تک گذشتہ دس ماہ کے دوران اپنے لاڈلے بیٹے کی رہائی کے لئے ہونے والی کوششوں کا ذکر کیا۔ اسلام ٹائمز نے قیصر کے والد شبیر حسین سے کہا کہ ہمیں انٹرویو کے لئے آپ کی ایک تصویر بھی چاہیئے، جس پر قیصر کے والد نے کہا کہ میری تصویر لگانے کی بجائے میرے مغوی بیٹے کی تصویر لگائیں شاید میرے جوان بیٹے کی تصویر دیکھ کر کسی کے دل میں رحم اور قیصر کی رہائی کا خیال آئے۔ جب قیصر کے والد قیصر کی تصویر لائے تو اس کے بعد گھر سے ایک چھوٹے بچے نے آ کر کہا کہ گھر والے کہہ رہے ہیں( شاید قیصر کی والدہ نے کہا ہو) کہ اس تصویر سے موبائل فون یا کسی اور ذریعے سے تصویر لے کر ہمیں یہ تصویر واپس کی جائے، کیونکہ یہی ایک تصویر ہمارے پاس قیصر کی ایک یاد اور آس ہے اور اس تصویر کو دیکھ کر ہم اپنے قیصر کو یاد کرتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے قیصر کے والد سے وعدہ کیا کہ قیصر کی تصویر کو اسکین کرنے کے بعد اوریجنل تصویر قیصر کے گھر والوں کو واپس کی جائے گی۔ اور اسلام ٹائمز نے وعدے کے مطابق ایسا ہی کیا، اب آتے ہیں سوال و جواب کی طرف:

اسلام ٹائمز: شبیر حسین صاحب آپ ہمیں اپنی اولاد کی تعداد اور قیصر کے حوالے سے بتائیے؟ 
مغوی قیصر کے والد شبیر حسین: اللہ کے فضل و کرم سے میرے پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، میرے بیٹوں کی عمریں اور مشاغل اس ترتیب سے ہیں کہ پہلے نمبر پر 24 سالہ بشیر حسین ہیں، جو میرے سب سے بڑے بیٹے ہیں اور میرے ساتھ محنت مزدوری و کھیتی باڑی کرتے ہیں، اس کے بعد مغوی قیصر حسین، جنکی عمر 22 سال ہے اور وہ ایم ایس سی فزکس کرنے کے فورا بعد اپنی قابلیت کی بنا پر پشاور کے ایک پرائیویٹ کالج میں لیکچرار کی نوکری کر رہے تھے اور پشاور سے ایک ہفتے کی چھٹی پر آتے ہوئے بگن لوئر کرم میں اغوا ہوئے۔  اس کے بعد 18 سالہ منیر حسین ہیں جو میٹرک کرنے کے بعد محنت مزدوری کر رہے ہیں، پھر مجتہد حسین جن کی عمر 15 سال ہے اور وہ نویں جماعت کے طالبعلم ہیں، انکے بعد 12 سالہ مدثر حسین ہیں جو ہفتم جماعت کے طالب علم ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: آپ کی مالی و معاشی حالت کیسی ہے اور قیصر کو آپ نے یونیورسٹی کی سطح تک اعلٰی تعلیم دلانے میں کن مشکلات اور تکالیف کا سامنا کیا؟ 
شبیر حسین: قیصر ابتدا ہی سے بہت قابل اور ذہین تھا، اس نے پرائمری سطح تک تعلیم، میر جمال گاؤں کے مضافاتی گورنمنٹ سکول میں حاصل کی۔ اس بات کی تائید مغوی قیصر کے ہمسائے ریاض نے بھی کی اور کہا کہ قیصر جماعت چہارم تک میرا کلاس فیلو تھا اور قیصر کلاس میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرتا تھا جبکہ میں نالائق ہونے کی وجہ سے تعلیم آگے جاری نہیں رکھ سکا۔ قیصر کے والد کے مطابق قیصر نے میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول مالی کلے کرم ایجنسی جبکہ کالج کی سطح تک تعلیم ڈگری کالج پاراچنار سے حاصل کی۔ قیصر کی قابلیت دیکھ کر میں نے قیصر کو اپنی ناگفتہ بہ معاشی حالت کے باوجود اعلی سطح کی تعلیم کے لئے پشاور یونیورسٹی بھیج دیا جہاں اسں نے ایم ایس سی فزکس کیا، اسکو تعلیم دلوانے کے لئے مجھے شب و روز محنت کرنا پڑی، حتی قرض تک لینا پڑا۔ 

اسلام ٹائمز: قیصر کے اغوا کے بارے میں بتائیے؟ 
شبیر حسین: قیصر کو اپنی قابلیت کی بنا پر ایم ایس سی فزکس کرنے کے فورا بعد پشاور کے ایک پرائیوٹ کالج میں لیکچرار کی نوکری مل گئی تھی، چونکہ ٹل پاراچنار روڈ گذشتہ چار سالوں سے طالبان نے مسلسل بند کر رکھی تھی اس لئے قیصر دوران ایم ایس سی بھی تعطیلات ہونے کی وجہ سے گھر نہیں آ سکے تھے، جب مارچ 2011ء میں جب چند ہفتے  ٹریفک کھلی، اسوقت قیصر جس پرائیوٹ کالج میں تھے وہاں ایک ہفتہ تعطیلات ہونے کی وجہ سے قیصر 25 مارچ 2011ء کو پشاور سے پارا چنار کے لئے روانہ ہوئے، لیکن کسی کو کیا پتہ تھا کہ ہمارے دل کا ٹکڑا قیصر اسی دن لوئر کرم بگن پہنچ کر طالبان اور ان کے مقامی ہمدرد قبائل کے ظلم و ستم کا نشانہ بن جائے گا۔ قیصر کے ساتھ مسافر گاڑی میں موجود قیصر کے ایک زخمی دوست نے جو بعد میں رہا ہو کر آیا  ہمیں (قیصر کے گھر والوں ) بتایا کہ جب ہم لوئر کرم بگن پہنچے تو سر اور آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے مسلح طالبان نے پشاور سے پاراچنار جانے والے طوری بنگش اہل تشییع قبائل کی کئی مسافر گاڑیوں، فلائنگ کوچز کو روکا اور اسلحے کے زور پر مسافروں کو دوسری گاڑیوں میں لے گئے، طالبان کی اس بربریت میں بگن کے مقامی اور طالبان کے ہمدرد قبائل کے علاوہ قریبی چیک پوسٹوں پر موجود سکیورٹی فورسز نہ صرف خاموش تماشائی بنے رہے بلکہ طالبان کی طرف سے ظلم و بربریت کے وقت لگائے جانے والے نعرہ تکبیر کے نعروں کے جوابات تک دے رہے تھے، ایسے میں پاراچنار کے جن مسافروں نے طالبان کے ساتھ جانے سے انکار کیا انہیں آتشیں اسلحے سے چھلنی کر دیا گیا، فائرنگ سے بھگڈر مچ گئی اور اس دوران کئی مسافر روڈ سے طالبان کے چنگل سے نکل کر قریبی جھاڑیوں اور مٹی کے ٹیلوں کے پیچھے چلے گئے، قیصر کے اس زخمی دوست کے مطابق اس نے قیصر کو صحیح و سالم حالت میں روڈ کی دوسری سائیڈ پر واقع مٹی کے ٹیلے پر دیکھا تھا، چونکہ طالبان پاراچنار کے مسافروں کو جائے وقوع سے تشدد کا نشانہ بنا کر اپنی ڈبل کیبن گاڑیوں میں ڈال رہے تھے، مسافروں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں جائے وقوع سے  ڈبل کیبن گاڑیوں میں لے جایا جا رہا تھا اس لئے قیصر کے زخمی دوست کے مطابق آخری بار روڈ کے سائیڈ پر واقع ٹیلے پر دیکھنے کے بعد اس نے پھر قیصر کو نہیں دیکھا۔ تاہم آج تک ہم اس امید پر آس لگائے ہیں کہ انشاءاللہ ایک دن قیصر زندہ ہم سے آ ملے گا کیونکہ اب بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیصر زندہ ہے۔ 

اسلام ٹائمز: میڈیا اور اخبارات میں تو یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ مارچ 2011ء میں طالبان اور ان کے مقامی ہمدرد قبائل کے ہاتھوں بگن لوئر کرم سے اغوا ہونے والوں میں سے پاراچنار کے جو مغوی قتل ہونے سے بچ گئے ہیں ان سب کو رہا کر دیا گیا ہے۔ قیصر اب تک کیوں رہا نہ ہو سکا اس کی کیا وجہ ہے؟ 
شبیر حسین: یہی تو ظلم کی انتہا ہے کہ ہمارے مغوی بیٹے کی اب تک گمشدگی اور دس ماہ سے اغوا کی خبر کو عوام کی اکثریت سے چھپایا گیا ہے۔ حکومت، گرینڈ جرگہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے سودے کے مطابق طالبان کو تین کروڑ تاوان دے کر بگن سے اغوا ہونے والے تمام افراد رہا کروایا گیا، لیکن طالبان نے قیصر کے علاوہ تمام مغوی افراد کو رہا کر دیا، جبکہ جائے واردات اور بعد میں پاراچنار کے بارہ قتل ہونے والے مسافروں کے تابوت جن پر شہداء کے نام درج تھے ان میں بھی قیصر کا نام نہیں تھا۔ اس لئے نہ ہی میرا بیٹا شہداء کے تابوتوں میں موجود تھا اور نہ ہی پیینتیس سے زیادہ ذندہ رہا ہونے والے افراد میں، اور یوں گذشتہ دس ماہ سے ہمارے بیٹے کی کوئی خبر نہیں ہے۔ 

اسلام ٹائمز: آپ اور قیصر کے دوست و احباب نے اب تک قیصر کی گمشدگی کے حوالے سے کیا کوششیں کی ہیں اور اپنی آواز کہاں تک پہنچائی ہے، اور آپ حال ہی میں ہونے والے نئے ہونے والے معاہدے سے کس قدر مطمئن ہیں؟ 
شبیر حسین: ہم نے اپنے بیٹے کے حوالے سے ہر ممکن کوشش کی ہے اور جہاں تک رسائی ہو سکتی تھی اپنی آواز پہنچائی ہے۔ چند ماہ پہلے ستمبر و اکتوبر 2011ء میں جب کرم ایجنسی میں گرینڈ جرگہ نیا معاہدہ کرنے جا رہا تھا، تو میرے بڑے بیٹے بشیر حسین، میرے مغوی بیٹے قیصر کے دوست انصار حسین و دیگر احباب نے تمام متعلقہ حکام، جرگہ اراکین، انجمن کے اراکین اور پولٹیکل ایجنٹ کو تحریری درخواستیں تک دیں کہ جب تک قیصر کو رہا نہ کیا جائے اس وقت تک نیا معاہدہ نہ کیا جائے۔ جرگہ اراکین کی اکثریت نے ہمیں یقین دلایا کہ جب تک قیصر رہا نہیں ہو گا ہم نئے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے، لیکن ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کرکے راتوں رات نئے معاہدے پر دستخط کر لئے گئے۔ اور اب یہ کہا جا رہا ہے کہ نیا معاہدہ دراصل مری معاہدے پر عمل درآمد کا نام ہے، اگر یہ مان بھی لیا جائے تو پھر مری معاہدے پر عمل درآمد کے مطابق اہم ترین شرائط میں سے ایک اہم شرط یا شق مغوی افراد کی رہائی ہے، اس لئے قیصر کی رہائی نہ ہونے کی صورت میں اب تک معاہدہ پر عمل درآمد ہوا ہی نہیں۔ 

اسلام ٹائمز: جرگہ ممبران اور انجمن کے علاوہ حکومت اور پولٹیکل ایجنٹ کو بھی آپ لوگوں نے درخواستیں لکھی ہیں اس کا اب تک کیا اثر ہوا؟ 
شبیر حسین: پولٹیکل ایجنٹ نے ہمیں کہا ہے کہ آپ لوگ مجھے وہ جگہ بتائیں جہاں قیصر کو اغوا کرکے چھپایا گیا ہے، تو حکومت و پولٹیکل انتظامیہ قیصر کو رہا کروائے گی، اس طرح کے جملے ہمارے ساتھ ہونے والے ظلم کے ساتھ ساتھ ہمارے زخموں پر نمک پاشی کرنے کے علاوہ اور کیا معنی رکھتے ہیں۔ کیا کسی مغوی پاکستانی شہری کی جگہ معلوم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے یا مغوی فرد کے غمزدہ گھر والوں کی، یہ کیسی حکومت ہے؟ 

اسلام ٹائمز:آپ لوگوں سے قیصر کی رہائی کے حوالے سے کسی نے رابطہ کیا ہو یا قیصر کی رہائی کے بدلے تاوان طلب کیا ہو؟ 
شبیر حسین: ہاں ہم سے کرم ایجنسی اور ضلع ہنگو کے علاقے دوآبہ کے سنگم پر واقع گاؤں تورہ وڑی کے کچھ اہلسنت افراد نے پاراچنار کے بعض مقامی اہل تشیع افراد کی وساطت سے رابطہ کرکے قیصر کی رہائی کے لئے تیرہ لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا تھا اور ہم سے اس امر کا اظہار کیا تھا کہ قیصر بگن لوئر کرم میں طالبان کمانڈر فضل سعید، یا اورکزئی ایجنسی کے علاقے ماموزئی میں طالبان کمانڈر ملا طوفان میں سے کسی ایک کی جیل میں ہیں، اگر تم لوگ تیرہ لاکھ روپے دو تو قیصر کو ہم رہا کروا سکتے ہیں، ہم نے اہنے جگر گوشہ کو رہا کرنے کے لئے اپنے رشتہ داروں اور جاننے والوں سے قرض پر رقم لی لیکن پھر بھی رقم پوری نہ ہو سکی۔ حتی کہ ہماری مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر بعض سرمایہ دار افراد نے ہمیں سود جسے مقامی زبان میں سیکڑہ یا منافع کہتے ہیں، کی شرط پر قرضہ دیا اور ہم نے بہت مشکلوں اور کوششوں سے تیرہ لاکھ روپے جمع کرکے ان افراد کے حوالے کئے، لیکن ان لوگوں نے ہمیں بتایا کہ تم لوگوں نے پیسے اکٹھے کرنے میں دیر کر دی، اسلئے اب طالبان تیرہ لاکھ کی بجائے تیس لاکھ مانگ رہے ہیں۔ ہم نے تیرہ لاکھ جمع کرنے میں اتنے مصائب و مشکلات کا سامنا کیا اس لئے ہم غریب لوگ تیس لاکھ جیسی بڑی اور خطیر رقم کا بندوبست کہاں سے کرتے، اس لئے ہم نے یہ کوشش ترک کر دیں، لیکن حکومت اور جرگہ اراکین اگر آج بھی چاہیں تو قیصر رہا ہو سکتا ہے۔ پہلے تو مارچ 2011ء بگن کے تمام مغویوں کے بدلے تین کروڑ روپے تاوان کی ادائیگی پر قیصر کی رہائی بنتی ہے اور اگر طالبان قیصر کی رہائی پر انکاری ہیں تو پھر جب حکومت نے پہلے طالبان کو تین کروڑ تاوان ادا کیا ہے تو مزید تیس لاکھ کی ادائیگی کرنے میں کیا حرج ہے۔ 

[یہاں اسلام ٹائمز قارئین کی معلومات میں اضافے کے لئے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہے گا وہ یہ کہ: گفتگو میں کرم ایجنسی اور ضلع ہنگو کے علاقے دوآبہ کے سنگم پر واقع گاؤں تورہ وڑی کا ذکر آیا ہے تو بیان کرتے چلیں کہ تورہ وڑی ہزاروں نفوس پر مشتمل ایک ایسا علاقہ ہے جو بیک وقت ضلع ہنگو کا حصہ ہونے کی وجہ سے بندوبستی یا سیٹل علاقے کی سہولیات سے مستفید ہو رہا ہے اور ساتھ ہی دوسری طرف کرم ایجنسی کے ساتھ جبری شامل کیا جانے والا علاقہ غیر، ایف آر ہے۔ جسے بعد میں غیر منطقی طور پر سنٹرل یا وسطی کرم کا سرکاری نام دیا گیا۔  ترقیاتی فنڈر اور ملک کے مختلف تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں پاراچنار اپرکرم کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کے لئے تورہ وڑی سنٹرل کرم یا وسطی کرم کا بھی حصہ ہے۔ یعنی تورہ وڑی کے لوگ ایک ہی ملک میں بیک وقت دو سہولیات، ضلع ہنگو کے ڈومیسائل اور ساتھ ہی سنٹرل کرم یا وسطی کرم کا حصہ ہونے کی وجہ سے قبائل یا کرم ایجنسی کے ڈومیسائل کا فائدہ اٹھا کر اور پاراچنار کرم ایجنسی کے عوام کے حقوق پر سرکاری سرپرستی میں ڈاکہ ڈالتے ہیں۔۔۔۔جو اہلیان پاراچنار طوری بنگش قبائل کے ساتھ سرکاری سرپرستی میں تعصب و ظلم کا واضح ثبوت ہے] 

اسلام ٹائمز: مارچ 2011ء قیصر کے اغوا سے لے کر اب تک دس ماہ گزر چکے ہیں، آپ کو قیصر کی یاد کس وقت زیادہ آتی ہے، قیصر کا اگر کوئی اہم واقعہ یاد ہو تو وہ بھی بیان کیجئے؟ 
شبیر حسین: اپنے جگر گوشے کی ہر وقت یاد آتی ہے، قیصر کی ماں کا تو اپنے بیٹے کی جدائی میں برا حال ہے لیکن جب عید کا موقع ہو یا پھر قیصر کا کوئی دوست آئے، یا کوئی اسکے کے اغوا کی بات چھیڑے تو یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ میرا بیٹا قیصر نہایت فرمان بردار، اطاعت گزار اور خدمت گزار تھا، قیصر مجھے اور ماں کو کہا کرتا تھا کہ  "غربت اور تمام تر مسائل و آلام کے باوجود آپ نے مجھے پڑھایا اس لئے میں بھی کامیاب ہو کر اور اچھی نوکری پا کر اس کا صلہ آپ کی خدمت و اطاعت گزاری کی صورت میں لوٹاؤں گا"۔ 

اسلام ٹائمز: آپ اسلام ٹائمز کی وساطت سے متعلقہ حکام اور اعلی حکومتی عہدیداروں جیسے گورنر، وزیراعظم اور صدر پاکستان سے کیا مطالبہ کرتے ہیں اور اسلام ٹائمز کے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، یا ان سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ 
شبیر حسین: حکومت کی یہ اولین ذمہ داری ہے کہ وہ ہمارے جگر گوشے اور اس ملک کے ایک شہری کو کہ جس نے دورافتادہ قبائلی علاقے کا باشندہ ہونے کے باوجود اپنی قابلیت سے ایم ایس سی تک تعلیم حاصل کی اس کی رہائی کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے، ہم جیسے نظر انداز شدہ غریب اور مظلوم افراد کی آواز اٹھانے پر اسلام ٹائمز کا شکریہ ادا کرنے کے علاوہ اسلام ٹائمز کے قارئین سے میرے بیٹے قیصر کی رہائی کی دعا کی گزارش کرتا ہوں۔
خبر کا کوڈ : 131016
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Hello,
very sad story. May Allah Help him and thanks you people for highlighting this issue.
Regards,
Mujeeb Islamabad
ہماری پیشکش