1
0
Monday 16 Jul 2012 00:24

اہل تشیع کے امام بارگاہوں اور اہلسنت کی مساجد پر حملے کرنیوالے ایک ہی ہیں، حافظ حسین احمد

اہل تشیع کے امام بارگاہوں اور اہلسنت کی مساجد پر حملے کرنیوالے ایک ہی ہیں، حافظ حسین احمد
حافط حسین احمد کا تعلق جمعیت علمائے اسلام (ف) سے ہے، چار بار رکن پارلیمنٹ منتخب ہوچکے ہیں۔ 1988ء میں جب وہ پہلی بار ایم این اے منتخب ہوئے تھے تو قومی اسمبلی میں جے یو آئی کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بھی تھے۔ وہ حافظ قرآن ہیں اور درس نظامی کی ڈگری بھی لے رکھی ہے۔ اپنی حاضر جوابی اور محفل کو زعفران زار والے جملوں کے حوالے شہرت رکھتے ہیں۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کے علاوہ نائب صدر بھی رہ چکے ہیں، اپنے فیصلوں پر قائم رہنا اور بے باک انداز بات کرنا حافظ حسین احمد کا خاصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ایشو اور حقوق نسواں بل کی منظوری پر پارٹی نے اجتماعی استعفٰی نہ دیا تو حافظ حسین احمد علم بغاوت بلند کرتے ہوئے اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ آپ اس وقت ملی یکجہتی کونسل میں جنرل سیکرٹری کی ذمہ داریاں بھی انجام دے رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اُن سے بلوچستان کی صورتحال، ملک میں جاری فرقہ واریت کے واقعات سمیت ملکی و بین الاقوامی صورتحال پر ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کیلئے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں کئی برسوں سے قتل و غارت جاری ہے، آئے روز لاشیں گر رہی ہیں، قانون کی عمل داری کہیں نظر نہیں آتی، بلوچستان کا اصل مسئلہ ہے کیا۔؟

حافظ حسین احمد: سب سے پہلے آپ اور آپ کے ادارے کا مشکور ہوں کہ ہماری اس کمزور آواز کو پوری دنیا تک پہنچانے کی مخلصانہ کوشش کی ہے۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔ مجھے تو پولیٹیکل ورکر کی حیثیت سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ملک کے 45 فیصد حصے کا جب بھی ذکر کیا جاتا ہے تو یہی کہا جاتا ہے کہ یہ بلوچستان کا مسئلہ ہے یا یہ کہا جاتا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے۔ کیا بلوچستان پاکستان کا حصہ نہیں۔ اگر ہم اسے بلوچستان کا مسئلہ کہتے رہے گے تو قیامت تک یہ مسئلہ الجھتا رہے گا اور حل نہیں ہوگا، جس دن ہم نے اسے پاکستان کا مسئلہ سمجھ کر اسے حل کرنے کی مخلصانہ کوشش کی، اس دن یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔

میں ایک سوال کرتا ہوں کہ کیا اس وقت پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ سوئس عدالتوں کو خط لکھیں، توہین عدالت کے نوٹسز، ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنا مسئلہ ہے، کیا یہ پاکستان کے مسائل ہیں، پاکستان کا اتنا بڑا حصہ جو آتش فشاں کے دھانے پر ہے وہ پاکستان کا مسئلہ نہیں اور اسے ہم صرف کہتے ہیں کہ یہ بلوچستان کا مسئلہ ہے۔ تو پاکستان کہاں گیا؟ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ مسئلہ پاکستان کا ہی ہے اور پاکستان کی وجہ سے ہی یہ مسئلہ مزید الجھا ہے۔ جب پاکستان بنا تو ریاست قلات اس کا حصہ نہیں بنی، ہندوستان کا حصہ نہیں بنی۔ 18 مارچ 1948ء کو ایک معاہدہ ہوا، تب یہ پاکستان کا حصہ بنی اور آج تک 18کروڑ عوام میں سے کسی کو اس کی اصلیت کا علم نہیں اور نہ ہی اس کے بارے میں زبان کھولی جاتی ہے کہ یہ قلات ایک ریاست تھی اور قلات ریاست کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ بھی 18 مارچ 1948ء کو ہوا، وہ معاہدہ کیا تھا، اس کے نکات کیا تھے۔

اسلام ٹائمز: اس معاہدے کے نکات کیا تھے اور آپ کیا سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی محرومیاں کیا ہیں اور ان کا ازالہ کس طریقہ سے کیا جاسکتا ہے۔؟

حافظ حسین احمد: دیکھیں ہمارے پاس دستور موجود ہے۔ یہ آئین کس نے بنایا، اس کے آرٹیکل 156، 155، 157 اگر آپ دیکھیں تو اس میں ایک ہی بات درج ہے کہ جس صوبے میں سے جو قدرتی وسائل نکلتے ہیں وہ سب سے پہلے اسی صوبے کا حق ہیں۔ یہ اصول 1973ء میں بنا اور آج 2012ء ہے اور اب تک اس شق پر ایک فیصد بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ جہاں پر اب گیس کی لوڈشیڈنگ شروع ہوئی، لیکن ہمارے ہاں 30 اضلاع ہیں جن میں 27 اضلاع میں گیس کی لوڈشیڈنگ نہیں ہو رہی۔ گیس وہاں سے نکلتی ہے۔ 27 اضلاع میں اس لیے لوڈشیڈنگ نہیں، کیونکہ وہاں پر گیس ہی موجود نہیں۔ 

جہاں سے گیس نکلتی ہے اور پاکستان کے کونے کونے تک پہنچتی ہے، اسلام آباد کے بنگلوں میں، ان کے کچن گرم ہیں، ان کی فیکٹریاں چل رہی ہیں، خیبر پختونخوا کے کونے کونے تک گیس پہنچی، لیکن بلوچوں کا قصور کیا ہے وہ تو بتائیں۔ گیس سوئی کے نام سے ہی مشہور ہوئی، وہ گیس سوئی گاؤں کے اندر موجود ہے، لیکن وہاں کے باسیوں کے پاس نہیں۔ اب پھر بھی کہا جائے کہ یہ بلوچستان کا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ پاکستان کا ہے اور صرف نفاق کی وجہ سے یہ بات یہاں تک پہنچی ہے۔ 

وجہ صرف یہی ہے کہ وہاں پر پیپلزپارٹی کی حکومت نہیں اور 1970ء میں تو پیپلزپارٹی کا ایک فرد وہاں کامیاب نہیں ہوا تھا، صوبائی اسمبلی میں اور نہ ہی قومی اسمبلی میں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہاں کی اسمبلی توڑ دی گئی، باقی حکومت کو ختم کیا گیا۔ وہاں پر نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومتیں تھیں، ان حکومتوں کو ختم کیا گیا اور ان پر غداری کے مقدمات درج کیے گئے۔
 ANP پر غداری کا مقدمہ کرنے والی پیپلزپارٹی تھی کہ یہ ملک کے غدار ہیں، پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے۔ 

آج پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور ANP کہتی ہے کہ جو پاکستان کا دوہرا شہری ہوگا وہ یہاں رکن نہ بنے اور پیپلزپارٹی کہتی ہے کہ نہیں شہریت جہاں کی بھی ہو، جتنی بھی ہوں، وہ پاکستان کا وزیراعظم بھی رہ سکتا ہے، صدر بھی بن سکتا ہے، جس کو غدار کہا گیا تھا وہ تو پاکستان کی بات کر رہے ہیں، آئین کی بات کر رہے ہیں اور جو محب وطن جماعت کہلاتی تھی وہ آج دوہری شہریت کی بات کرتے ہیں۔ اس لئے میں گزارش کرتا ہوں کہ جو بنیادی طور پر مسئلہ ہے وہ پاکستان کا مسئلہ ہے۔ اس کی وجہ پاکستان ہے، وفاق ہے، اس کہ وجہ اسلام آباد میں اسٹیبلشمنٹ ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکیں، آئے روز پنجابیوں کا قتل عام، کیا یہ چیزیں مسئلہ کا حل ہیں۔؟

حافظ حسین احمد: اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ قتل عام پاکستان میں کہاں نہیں ہو رہا ہے،؟ کیا کراچی میں نہیں ہو رہا۔؟ کیا ڈرون حملے نہیں ہو رہے،؟ قبائلی علاقوں میں قتل و غارت نہیں ہو رہی۔؟ بلوچستان کی بات وہ لوگ کرتے ہیں جو کسی انتہاء کو پہنچتے ہیں۔ ہمیں دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا اور اب ہمیں دیوار میں چن دیا گیا ہے۔ اب دیکھ لیں کہ ایک ہفتے سے چیف جسٹس صاحب کوئٹہ بیٹھے ہیں اور آئی جی حاضر نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس صاحب وہاں پر انصاف دلانے بیٹھے ہیں اور چیف منسٹر صاحب بلوچستان ہاؤس اسلام آباد میں بیٹھے ہیں۔ 

چار سال میں چیف منسٹر چند دنوں کے لیے وہاں جاتے، پہلے صرف اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آیا کرتے تھے، لیکن اب انہوں نے یہاں ڈیرے ڈال لیے ہیں، اسی طرح گورنر کی رٹ ہے۔ اب جو ہم آپ کے پاس بیٹھ کر بات کر رہے ہیں، بریکنگ نیوز چل رہی ہے کہ مضافات میں 16 میٹر پر بم دھماکہ ہوا، فائرنگ ہوئی، سیاسی جماعت کا جلسہ ہو رہا تھا، مزدوروں کو قتل کیا گیا، آٹھ کو کل قتل کیا گیا، یہ صورتحال ہے، سپریم کورٹ کا اجلاس وہاں ہو رہا ہے اور چیف جسٹس صاحب وہاں موجود ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف منسٹر صاحب اسلام آباد میں کیا کر رہے ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: صدر آصف علی زرداری نے حلف اٹھاتے ہی بلوچ قوم سے معافی مانگی، اب مشرف کے ناکردہ گناہوں کی سزا باقیوں کو کیوں ملے۔؟

حافظ حسین احمد: چار سال سے صدر زرداری آیا ہے اور اس نے معافی تو مانگی ہے، لیکن کیا ایک دن بھی یا ایک گھنٹہ بھی اس نے بلوچستان کے حوالے سے کوئی کوشش کی۔؟ پارلیمنٹ موجود ہے لیکن کس لئے، فقط ایک شخص کے اثاثے بچانے کیلئے، آخر کیوں؟؟؟ بلوچستان کے مسئلے پر یہ دلچسپی کیوں نہیں لیتے۔؟ پوری کی پوری پارلیمنٹ پاکستان کے آدھے حصے کی حفاظت اور امن کے بارے میں کیوں خاموش ہے۔؟ کیا ہم سے بنگلہ دیش الگ نہیں ہوا اور آزاد نہیں ہوا۔ خدارا ! خدارا! توہین عدالت اور خط لکھنے نہ لکھنے کی بجائے پہلے ملک کو تو بچائیں اور بلوچستان کے بارے میں کچھ سوچیں۔

اگر پوری کی پوری پارلیمنٹ بلوچستان میں جاکر بیٹھ جائے، اگر صدر جا کر بیٹھ جائے اور ناراض لوگوں سے پوچھے کہ آپ کی کیا مشکلات ہیں تو میں نہیں سمجھتا کہ یہ مسئلہ حل نہ ہوسکے، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی مجرم ہے، غدار ہے، اسے سزا دی جائے۔ آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو بتائیں کہ لاپتہ افراد کا کیا معاملہ ہے۔؟ پھر ایجنسیاں لوگوں کو اٹھا کیوں لیتی ہیں۔؟ پھر سال دو سال تک ان کو تشدد کا نشانہ بناتی ہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایف سی کے ہیڈ کو سپریم کورٹ نے بلایا اور کہا کہ تین فلاں بندوں کو تم نے کل ہر حال میں پیش کرنا ہے۔ 

11 بجے ان کی پیشی تھی، 8 بجے ان کی لاشیں کوئٹہ کی سڑکوں پر ملیں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ انہوں نے ہماری بات کو اس انداز میں تسلیم کیا ہے۔ پس انصاف نظر نہیں آتا ہے۔ ایک بندہ لاپتہ ہوتا ہے، اس کے پورے خاندان کو ٹرائل کیا جاتا ہے، اس کے پورے خاندان کو اٹھا لیا جاتا ہے اور ان کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر چند دن پہلے ایک آدمی جو اپنے مسائل کے حوالے سے انتہاء پسندی کی طرف جا رہا تھا، اس کے پورے خاندان کو اس گروپ میں انہوں نے ڈال دیا، بلکہ پورے قبیلے کو ہی اس گروہ میں شمار کرنے لگے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی گھر، کوئی محلہ، کوئی قصبہ ایسا نہیں، جہاں لاشیں نہ پہنچی ہوں، جہاں پر لوگوں پر تشدد نہ کیا گیا ہو۔

اسلام ٹائمز: میرا پھر وہی سوال ہے کہ آخر لاشیں کون گرا رہا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے کہاں سوئے ہوئے ہیں، ایجنسیاں کہاں ہیں۔؟ آئے روز لاشیں گرنے کا سلسلہ کیوں بند نہیں ہوتا، ذمہ دار کون ہے۔؟

حافظ حسین احمد: ہم کہتے ہیں کہ ایک شخص بیٹھا ہے اور وہ آئین کی بات کرتا ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتا ہے، وہ اپنے آپ کو بلوچ کہتا ہے اور آکر سیاسی معافی مانگی اور اب معافی کے بعد جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ تو کئی گنا اس سے بھی زیادہ ہے جو معافی سے پہلے تھی۔ پہلے لوگ اغواء ہوتے تھے، لیکن مسخ شدہ لاشیں سڑکوں پر پھینکی نہیں جاتی تھیں، مگر اب تو یہ معاملہ روز کا معمول بن چکا ہے۔ 

سوال یہ ہے کہ ملک کا سپریم کمانڈر موجود ہے، وزیراعظم ہیں، کہتے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے، اگر جمہوریت ہے تو ہمارے ساتھ یہ کھیل کیوں کھیلا جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھ اس حد تک آمریت کے ادوار میں نہیں ہوا، جو اب جمہوریت کے دور میں بلوچستان میں ہو رہا ہے۔ صوبائی حکومت ان کی، وفاقی حکومت بھی ان کی، مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ قانون کی رٹ کہاں موجود ہے۔؟ ہم کہتے ہیں کہ میرے دکھوں کا مداوا کیسے ہوگا۔ 

اب ایک نوجوان ہے جس کو انصاف نہیں ملتا، اس کے باپ کو اٹھایا جاتا ہے اور اس کو قتل کیا جاتا ہے، اس کی مسخ شدہ لاش پھینک دی جاتی ہے، اس کے بھائیوں کو اٹھایا جاتا ہے، تو وہ کیا کرے گا، وہ تمہارے راگ الانپتا رہے گا۔ ظاہر ہے اس نے اپنی جان بچانی ہے، وہ پہاڑوں پر جائے گا۔ جب وہ پہاڑوں پر جائے گا تو تم اس کے پیچھے جاؤ گے تو فساد برپا ہوگا۔ یہ ہمارے ساتھ پہلی بار نہیں۔ یہ پانچ سال ہو چکے ہیں، جو ہمارے ساتھ ایسا سلوک روا رکھا گیا ہے۔ میں نہیں کہہ رہا، یہ بیان چیف جسٹس صاحب نے کل دیا ہے۔ ایک عشائیہ میں انہوں نے یہ بات کہی۔

اسلام ٹائمز: حافظ صاحب، چیف جسٹس نے تو یہ بھی کہا ہے کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کو غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے، جو اس قتل و غارت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔؟

حافظ حسین احمد: غیر ملکی کون۔؟؟ کون فنڈنگ کر رہا ہے۔؟ کیا آپ کی مراد بھارت ہے، جس کی دوستی کا دم بھرتے ہو، افغانستان ہے جس کے لیے اپنے ملک کو دہشتگردی کی آگ میں جھونک دیا ہے۔ میرے بھائی! جو آپ کے ملک کو توڑ رہا ہے، آپ اس کے لیے نیٹو سپلائی بحال کر رہے ہو۔ وہ امریکہ جو آپ کے ملک کو توڑنے کے لیے فنڈنگ کر رہا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ پارلیمنٹ کے اندر آکر کہتا ہے کہ ہمارے ملک کو فلاں فلاں توڑنے والے ہیں، تو جو توڑنے والے ہوتے ہیں وہ دشمن ہوتے ہیں، نہ کہ دوست۔

اسلام ٹائمز: مولانا حسن جان سمیت آپ کی تنظیم کی اہم شخصیات کو کوئٹہ میں مارا گیا؟ کس کا ہاتھ ملوث دیکھتے ہیں۔؟

حافظ حسین احمد: ہم کہتے ہیں کہ یہ بلیک واٹر ہے اور سارے حملے ایک ہی جانب سے ہو رہے ہیں، کیا یہ اسلام آباد میں پکڑے نہیں گئے۔؟ کیا طالبان کے حلیے میں وہ پھر نہیں رہے تھے، کیا پولیس انہیں گرفتار کرکے تھانے نہیں لے گئی تھی؟ کیا میڈیا نے اسے نہیں دکھایا۔؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک نے اس کو قبول کیا اور بعد ازاں اس کو رہا کر دیا اور آئی جی نے کہا کہ میرا اختیار ہے۔ کیا ریمنڈ ڈیوس نے قتل عام نہیں کیا، کیا اس کو رہا نہیں کرایا گیا۔ 

جب ہم نے ان سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تو بجائے وہ ہم سے معافی مانگتے، ہم نے ان سے معافی مانگ لی۔ کیا ہیلری کلنٹن نے نہیں کہا کہ دونوں ممالک کی جانب سے غلطیاں ہوئی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اگر فنڈنگ باہر سے ہو رہی ہے اور 56 ایکٹر (امریکی سفارتخانہ کیلئے دی گئی اراضی) اسلام آباد میں امریکہ کے لیے نو منزلہ عمارت کے لیے جگہ دی جاتی ہے اور جس میں حسین حقانی بھی ملوث ہے، اس وقت بلیک واٹر بھی یہاں موجود تھی، اب بھی موجود ہے، ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ہی نشانے اور ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہے۔ کبھی اس کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جاتا ہے، کبھی اس کو علیحدگی پسندی کا رنگ دیا جاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: ملک میں جاری فرقہ واریت میں کون لوگ اور گروہ ملوث دیکھتے ہیں، اور ان کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔؟

حافظ حسین احمد: اس ایشو پر میرا ایک سوال ہے کہ فرقہ واریت میں اپنا ہے یا پرایا ہے، اُسے  قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لایا جاتا؟ آپ کراچی میں کوئی ایک جگہ تو دیکھائیں، جہاں درجنوں کے حساب سے لوگ قتل نہ کیے گئے ہوں۔ وہاں وفاقی حکومت نہیں، صوبائی حکومت نہیں، تینوں حکومتیں ایک دوسرے کو قاتل کہتی ہیں اور تینوں سچ کہتے ہیں۔ اسلام آباد میں پوش سیکٹر ہیں جس میں بڑے بڑے بنگلے ہیں، کیا وہاں سڑک بند نہیں کی گئی، کیا وہاں پر ڈبل دیوار کھڑی نہیں کی گئی؟ یہاں پر کون رہ رہے ہیں، جو سفارتکار نہیں اور سفارتی ایریا میں نہیں ہیں۔ 

کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں اس طرح کے ہزاروں کی تعداد میں بنگلے دیئے گئے اور کئی کئی سال کے کرایے ایڈوانس میں دیئے گئے۔ یہ کون لوگ ہیں اور کس کے کہنے پر یہ یہاں قیام پذیر ہیں اور ان کا یہاں پر کیا مقصد ہے؟ کیا یہ لوگ آپ کے پابند ہیں یا کیا سفارتکاری کے یہی آداب ہیں۔؟ اب پھر بھی پوچھا جائے کہ فرقہ واریت اور قتل میں کون لوگ ملوث ہیں تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔

بنیادی طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں پر فرقہ واریت کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جاتا ہے۔ 1990ء کی دہائی میں، میں کراچی میں تھا، شاہ فیصل میں جامعہ فاروقیہ ہے اور اس کے ساتھ ہی امام بارگاہ ہے۔ جامعہ فاروقیہ کی جانب سے ایک ٹیکسی آتی ہے اور اس میں سوار افراد جامعہ فاروقیہ پر فائرنگ کرتے ہیں، کچھ آدمی زخمی ہوتے ہیں اور گرتے ہیں، وہاں پر جو لڑکے کھڑے تھے، انہوں نے اس گاڑی کا نمبر نوٹ کیا۔ ٹھیک دس منٹ بعد امام بارگاہ پر فائرنگ ہوتی ہے، کچھ افراد زخمی ہوتے ہیں اور وہ بھی ٹیکسی کا نمبر نوٹ کرتے ہیں۔ دونوں جانب سے افراد تھانے پہنچے ہیں اور رپورٹ درج کراتے ہیں تو دونوں جانب سے ایک ہی ٹیکسی نمبر پیش کیا جاتا ہے۔

یعنی ایک ہی ٹیکسی سے سنی مدرسے پر فائر ہوا اور ٹھیک دس منٹ بعد اسی ٹیکسی سے امام بارگاہ پر فائر ہو رہا ہے، تاکہ امام بارگاہ والے لوگ سمجھیں کہ ان پر سنیوں نے حملہ کیا ہے اور مدرسے والے لوگ سمجھیں کہ ان پر شیعوں نے حملہ کیا ہے۔ دونوں نے آکر رپورٹ درج کرائی کہ امام بارگاہ والوں نے مدرسے پر حملہ کیا اور امام بارگاہ والوں نے رپورٹ درج کرائی کہ مدرسے والوں نے امام بارگاہ پر حملہ کیا۔ جب دیکھا کہ جس ٹیکسی سے فائرنگ ہوئی وہ ایک ہی نمبر کی ٹیکسی ہے اور ایک ہی ٹیکسی سے امام بارگاہ اور مدرسہ پر فائرنگ ہوئی تو پتہ چلا کہ یہ کوئی اور ہی کہانی ہے۔ (جاری ہے)

نوٹ: 
انٹرویو تفصیلی ہونے کے باعث اس انٹرویو کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، انٹرویو کے اگلے حصہ میں حافط حسین احمد کی زبانی بتائیں گے کہ عرب ممالک پر کون قابض ہے۔؟ اور کون کرتا ہے انہیں سپورٹ، کس نے کیے امریکہ میں اثاثے جمع اور کون ہوا خیانت کا مرتکب، جے یو آئی ف دفاع پاکستان کونسل کا حصہ کیوں نہ بن سکی، کیا ملی یکجہتی کونسل فرقہ واریت پر کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو جائے گی؟ یہ سب کچھ اور بہت کچھ انٹرویو کے اگلے حصے میں پیش کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 179399
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سلام ... بهت زبردست انڻرویو هے.....
لکن هم دوسرے حصے کے انتظار مین تهک گیے....
کهان هے دوسرا حصه؟
ہماری پیشکش