0
Sunday 15 Sep 2013 18:33

شام کے سخت حالات گزر چکے، مخالفین کا منظم محاذ کمزور پڑچکا ہے، ڈاکٹر سعد اللہ زارعی

شام کے سخت حالات گزر چکے، مخالفین کا منظم محاذ کمزور پڑچکا ہے، ڈاکٹر سعد اللہ زارعی
ڈاکٹر سعداللہ زارعی اسٹرٹیجک اسٹڈیز انسٹی ٹیوٹ ایران کے سربراہ اور طباطبائی اسلامی یونیورسیٹی کے پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران کے صف اول کے صحافیوں میں شامل ہیں۔ آپ نے پولیٹیکل سائنس میں اوپن یونیورسیٹی تہران سے ماسٹر ڈگری حاصل کی اور ایران کی سب سے اعلٰی یونیورسیٹی قومی دفاعی یونیورسیٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ مختلف موضوعات پر آپ کی پانچ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب گذشتہ بیس سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں اور اس بات کو بہت پسند کرتے ہیں کہ اُن کا تعارف بطور صحافی کروایا جائے، آپ اس وقت بھی بطور ایڈیٹر روزنامہ کیھان کے ایڈیٹوریل بورڈ کے سربراہ ہیں، نیز آپ بین الاقوامی معاملات خاص طور پر جہان اسلام پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ آپ کے ایک ہزار آرٹیکلز اب تک شائع ہوچکے ہیں۔ آپ ایک اخبار کے بانی ہونے کے علاوہ میگزین اور پانچ ویب سائٹس کے بانی ہیں، ایران کی پچاس اعلٰی میڈیا شخصیات کے اُستادوں میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ اسلام ٹائمز نے شام اور دیگر چند موضوعات پر ایرانی صحافی کا انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔

اسلام ٹائمز۔ آپ نے ایک حالیہ مذاکرہ میں کہا کہ علمائے جہان اسلام ایک پلیٹ فارم بنالیں تو مسلمانوں کے مسائل کم ہوسکتے ہیں، اس پر روشنی ڈالیں۔؟
ڈاکٹر سعد اللہ زارعی: میری مراد یہ تھی کہ جید اسلامی علماء، دانشور، پروفیسرز اور معاشرے کے بااثر لوگ مل کر ایک کونسل تشکیل دیں۔ اس کونسل کا معاشرے میں یہ کام ہو کہ وہ اپنے ملک کے پیچیدہ مسائل کے بارے میں مل بیٹھ کر غور کرے اور اپنا موقف پیش کرے۔ فرض کریں یہ کونسل اگر پاکستان میں ہوگی تو وہ اپنے ملک کے مسائل کے ساتھ ساتھ جہان اسلام کے مسائل کا جائزہ بھی لے گی۔ اسی طرح یہ کونسل ہر ملک میں بنے اور ان کا آپس میں رابطہ ہونا چاہیے۔ تمام اسلامی ممالک میں یہ شوریٰ یا کونسل تشکیل پائے، جسمیں اس ملک کے جید لوگ ہوں اور وہ اپنے علاقے اور عالم اسلام کے مسائل میں فیصلہ کن کردار رکھتے ہوں۔ جب بھی جہان اسلام کو کوئی مشکل درپیش ہو تو اس موقع پر ایک مشترکہ ردعمل اور مشترکہ موقف سامنے آئے۔ اس طرح ہم مسلمانوں کی مشکلات کافی حد تک کم ہوجائیں گی۔ ایک شعبہ اس میں میڈیا کا بھی رکھ لیا جائے، جس میں میڈیا کے لوگ سرگرم کردار ادا کریں۔ میڈیا کے وہ افراد جو معاشرے میں لوگوں کی رائے بنانے کے سلسلہ میں اثرانداز ہوتے ہیں، چونکہ ایک رائے بنانے میں میڈیا کے اکابرین کا بھی بہت اہم کردار ہے۔

جو شوریٰ تشکیل پائے گی، اس کی ایک بنیادی ذمہ داری یہ ہوگی کہ وہ حقیقی اسلامی تمدن اور حقیقی اسلامی فکر دنیا تک پہنچانے کی ذمہ دار ہوگی، اس شوریٰ کی تشکیل تمام جہان اسلام کے لئے قابل قبول چیز ہے۔ اس سلسلہ میں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جب یہ کونسل کسی بھی مسئلہ میں اپنا موقف دے گی تو یہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ موقف ہوگا۔ کسی بھی جنگ اور مسئلہ کے تدارک کے سلسلہ میں اس کونسل کا کردار اہم ہوگا۔ یہ کونسل یا شوریٰ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہوگی۔ جس طرح کہ شام میں ہونے والے مظالم کے سلسلہ میں رائے عامہ ایک بہت بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آئی ہے۔ یہ شوریٰ اسلامی ممالک کے مفادات کا دفاع کرے گی۔ اسلامی ممالک کی ترقی اور پیش رفت کے سلسلہ میں کردار ادا کرے گی۔ اسلامی دنیا کی مشکلات کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی۔ ہر قسم کے بیرونی حملوں کو دفع کرنے میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرے گی۔ جارحیت اور دھمکیوں کا سدباب کرے گی۔ اس کے علاوہ امت کے گوناگوں مسائل کے سلسلہ میں مسلمانوں کو متحد کرکے دنیا کے سامنے مشترکہ اور واضح موقف پیش کرے گی۔

اسلام ٹائمز: امام راحل امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے نظریات میں آزاد خارجہ پالیسی کے خدوخال کیا تھے۔؟
ڈاکٹر سعد اللہ زارعی: امام خمینی کے نظریات میں آزاد خارجہ پالیسی کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ مغربی استکباری طاقتوں کے اثر سے مسلمانوں کو دور رہنا چاہیے۔ یہ طاقتیں مسلمانوں کو اپنا دست نگر اور غلام بنانا چاہتی ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو سیاسی، ثقافتی، علمی، فوجی، صنعتی، امن و امان کی صورتحال اور کسی بھی میدان میں استعماری تسلط کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ امام خمینی (رہ) کے افکار میں چند بنیادی خصوصیات شامل تھیں۔ نمبر ایک مسلمان ایک دوسرے کی مدد کریں۔ مسلمان ایک دوسرے کی سرزمینوں کا دفاع کریں۔ اگر کسی ایک پر استعمار حملہ آور ہو تو تمام مل کر اس کا دفاع کریں۔ دوسرے مسلمانوں کی حیثیت کو باقی رکھنے اور ان کے ملک کو استعماری اور دیگر حملوں سے بچانے کے لئے اقدامات کرے اور ایک اسلامی ملک دوسرے ممالک کی ترقی کے لئے بھی کردار ادا کرے۔ حضرت امام خمینی (رہ) کی آزاد خارجہ پالیسی میں دو چیزیں بہت اہم ہیں۔ اگلا نکتہ سلبی ہے کہ ہر قسم کی استکباری قوت جو مسلمانوں کو زیر کرنا چاہے اسکی نفی کی جائے۔ اس کا دوسرا حصہ ایجابی یہ ہے کہ ہر مسلمان ملک دوسرے مسلمان ملک کے ساتھ تعاون کرے۔ یعنی تمام مسلمان، اپنے بھائی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کے سلسلہ میں تگ و دو کریں۔ یہ دو سلبی اور ایجابی پہلو امام راحل (رہ) کے نظریات کا حصہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: امام خمینی (رہ) کے سیاسی طرز فکر کی جدید زمانے سے ہم آہنگی کیسے ممکن ہے۔؟

ڈاکٹر سعد اللہ زارعی: امام خمینی (رہ) کے پیش نظر ایک آزاد سیاست خارجہ تھی، جسے آزاد اسلامی سیاست خارجہ لکھا جائے، اور یہ ایک ایسی سیاست ہے جس کے اصول کبھی بھی بدلتے نہیں، چاہے جتنا بھی زمانہ گزر جائے۔ اس کا پہلا اصول جو امام راحل (رہ) نے بتایا، قرآن نے بھی وہی بتایا ہے۔ کفار کو مسلمانوں پر تسلط کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ "ولن یجعل اللہ للکافرین علی المومنین سبیلا" ہزار سال بھی گزر جائیں، قرآن کا یہ اصول زندہ رہے گا۔ امام خمینی (رہ) نے بھی اسی اصول کی ترویج کی ہے کہ اللہ کبھی بھی کافروں کو مسلمانوں پر مسلط نہیں ہونے دے گا۔ دوسرا اصول کہ مسلمان آپس میں تعاون کریں، ایک دوسرے کے غمخوار ہوں، ایک دوسرے کے غم کو بانٹیں، مسلمان ایکدوسرے سے تعاون کریں اور یہ تعاون بین الاقوامی تعاون میں تبدیل ہوجائے۔ بعض علماء کا اعتقاد تھا کہ وحدت اور اتحاد، تعاون کے ذریعہ ممکن نہیں ہے۔ لیکن حضرت امام خمینی (رہ) کا یہ اعتقاد تھا کہ اس سے یہ ممکن ہے۔ مسلمان آپس میں اکٹھے ہو جائیں، وحدت ایجاد کریں اور ایکدوسرے سے تعاون کریں۔ آپ کا اعتقاد تھا کہ مسلمانوں میں اتحاد ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: حزب اللہ کی اسرائیل کے خلاف 33 روزہ جنگ میں کامیابی کا کیا راز ہے۔؟

ڈاکٹر سعد اللہ زارعی: ان کی کامیابی کا راز اللہ تعالٰی پر اعتقاد تھا، حزب اللہ کی فوجوں نے اس جنگ میں اسلامی دعاؤں سے استفادہ کیا، مخصوصاً جوشن صغیر کا وہ مسلسل ورد اور زمزمہ کرتے تھے۔ ہر روز وہ اللہ تعالٰی کے حضور گریہ کرتے تھے۔ کبھی بھی ان کے اعتقاد میں کمی واقع نہیں ہوئی، ان کا اعتقاد تھا کہ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ دشمن کے مقابلے میں بند باندھا جائے۔ انہوں نے اس اعتقاد میں کبھی بھی کمی نہیں آنے دی۔ وہ اس اعتقاد سے میدان میں سرگرم تھے کہ اللہ تعالٰی انہیں ہر حالت میں دشمن پر فتح دے گا۔ دوسرے انہوں نے اپنے پاس موجود امکانات اور ذرائع کا صحیح استعمال کیا۔ انہوں نے صحیح فوجی ٹیکٹیک سے کام لیا اور تینتیس روزہ جنگ کے دوران وہ حزب اللہ کے قائد کے ٹیلی فونک پیغام سے غافل نہیں رہے۔ وہ آپس میں رابطہ رکھے ہوئے تھے۔

اسلام ٹائمز: شام کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں مستقبل کے بارے میں کیا پیشن گوئی کریں گے۔؟

ڈاکٹر سعد اللہ زارعی: شام کے سخت حالات گزر چکے ہیں، مخالفین کا منظم محاذ کمزور پڑ چکا ہے۔ ان کا ارادہ تھا کہ ہم جلد شام کو ختم کر دیں گے۔ وہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ 2013ء میں گرمی ختم ہونے تک استعماری طاقتوں امریکہ، اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب نے اس مسئلہ میں سنگین قسم کا دباؤ ڈالا۔ اس دوران القاعدہ حساس علاقوں میں تسلط حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا، لیکن آج مغربی طاقتوں کے اتحاد کی کوئی خبر نہیں ہے۔ اس کی بڑی وجہ عربی ممالک کی صفوں میں پیدا ہونے والا اختلاف ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب اور قطر کا اختلاف، مصر اور تیونس والے سعودی عرب کے ساتھ نہیں ہیں۔ ترکی جو شام کے مخالف ایک محاذ تھا، اس میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ میں پورے وسوخ کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مخالفین جن میں امریکہ، یورپی ممالک، سعودی عرب، ترکی اور بشار الاسد کے مسلح مخالفین کے پاس اس کے سواء کوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ شام کی حکومت کے ساتھ اس بات پر متفق ہوجائیں کہ بشار الاسد کی حکومت آزادانہ انتخابات کروائے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان انتخابات میں بشار الاسد کی حکومت کامیاب ہو جائے گی۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ انتخابات کو بھی مانیں اور بعد ازاں بشار الاسد کی کامیابی کو بھی مانیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی موت کو ہی قبول کر لیں، اپنی نابودی کو بشار الاسد کے مخالفین قبول کر لیں۔ تو لہذا میں امید رکھتا ہوں کہ آج وہاں جو ناامن اور کشیدہ حالات ہیں، وہ صدارتی انتخاب تک اسی طرح جاری رہیں گے۔
خبر کا کوڈ : 301996
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش