1
0
Saturday 24 May 2014 20:31
ملت تشیع پر آئی ایس او کے بڑے احسانات ہیں

آئی ایس او شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بابرکت وجود کی برکات میں سے ایک ہے، سید ناصر شیرازی

آئی ایس او شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے بابرکت وجود کی برکات میں سے ایک ہے، سید ناصر شیرازی
سید ناصر عباس شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے سابق مرکزی صدر، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنما اور سیکرٹری سیاسیات ہیں، وہ بین الاقوامی امور کے ماہر اور سیاسی تجزیہ نگار بھی ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور ہائی کورٹ کے وکیل ہیں، سرگودہا میں آئی ایس او کے یوم تاسیس کے موقع پر اسلام ٹائمز نے انکا خصوصی انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: جس زمانے میں آئی ایس او کی تاسیس ہوئی، اسوقت کیمونزم کی یلغار تھی، لیکن کئی مذہبی تنظیمیں موجود تھیں، انکی موجودگی میں شیعہ تشخص کیساتھ طلبہ تنظیم کا قیام ضروری تھا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: اس زمانے میں فقط یہ نہیں تھا کہ پاکستان کی فضا میں کمیونزم کا زور تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ کمیونزم کی طرف رجحان شیعہ کیمونٹی کا تھا اور بالخصوص نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ زیادہ راغب تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذہبی طور پر شیعہ پہچان کے ساتھ، ایک نظریہ اور نظام زندگی کے طور پر کوئی بھی اپنی شناخت نہیں کرواتا تھا، بلکہ خود ملت میں مکتب تشیع کے متعلق بطور نظام، حقیقی طور پر شعور اجاگر نہیں ہوا تھا۔ ہر دو لحاظ سے آئی ایس او کا قیام باعث برکت ثابت ہوا۔ تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے شیعہ طالب علم دین کی طرف راغب ہونا شروع ہوئے، کیمونزم اور لادینیت کی حقیقت ان پر واضح ہوئی، مکتب اہلبیت ﴿ع﴾ کی معرفت پیدا ہوئی اور اسکے اثرات پورے شیعہ معاشرے پر مرتب ہونا شروع ہوئے۔ آئی ایس او اسکا وسیلہ بنی، الحمداللہ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ہاں مذہب اور دین کا تصور چند رسومات تک محدود تھا۔ آئی ایس او نے پاکستان میں مکتب اہلبیت ﴿ع﴾ کو ایک آئیڈیالوجی کے طور پر اجاگر کرنے اور متعارف کروانے میں کردار ادا کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان میں تفاخر کے ساتھ مکتب تشیع کی بنیاد پر اجتماعی اور سیاسی قوت ظہور پذیر ہوئی۔

اسلام ٹائمز: مثال کے طور پر ذکر کریں کہ پاکستان میں مکتب تشیع کے پیروکاروں کے دینی تصورات میں، آئی ایس او کی بدولت کیا تبدیلی رونما ہوئی۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: ایک اجمال کے طور پر پہلے جو صورتحال تھی، اسکا ذکر ہوچکا۔ تشیع کا سب سے اہم مسئلہ یا بحثیت مکتب اساسی نظریہ ہے انتظار فرج، انتظار کا فلسفہ پہلے کچھ اور تھا اب کچھ اور ہے۔ سمجھا یہ جاتا تھا کہ بیٹھیں اور امام ﴿ع﴾ کا انتظار کریں، نہ کہ امام ﴿ع﴾ کے ظہور اور قیام کے لیے کوشش کریں اور اسکی راہ ہموار کریں۔ یہ تصور ہی نہیں تھا کہ مکتب تشیع ایک نظام زندگی ہے، جو انسانیت کی نجات کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ اس بنیادی عقیدے سے متعلق تبدیلی یہ آئی ہے کہ امام ﴿ع﴾ کے پیروکار اپنے آپ کو اس حالت میں لیکر آئیں کہ آپ ﴿ع﴾ کے ظہور میں آسانی اور تعجیل ہو۔ آئی ایس او نے ایسا کلچر متعارف کروایا کہ سوچنے اور سمجھنے کا انداز زیادہ حقیقی اور عملی صورت اختیار کر گیا۔

اسلام ٹائمز: درست ہے کہ مذکورہ فکری تبدیلی آئی ایس او کی برکات میں سے ایک ہے، عملی طور پر تو پاکستان میں غیر اسلامی نظام بھی موجود ہے اور غیر اسلامی ثقافت کے مظاہر بھی نمایاں ہیں، لیکن نعرے عالمی انقلاب کے ہیں، عملی طور پر جو تبدیلی آئی ہے وہ کیا ہے۔؟
ناصر عباس شیرازی: ہمیشہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ انقلاب نعروں کی حد تک محدود ہے، یہ بات کافی ذہنوں میں پائی جاتی ہے کہ امامیہ طلبہ کے جو نعرے ہیں کہ جوانیاں لوٹائیں گے، انقلاب لائیں گے، یہ بات یا دعویٰ بہت بڑا ہے اور کیا یہ ممکن ہے کہ طالب علموں کا مختصر گروہ انقلاب برپا کرسکتا ہے۔ اگر کرسکتا ہے تو پاکستان میں اسکا کوئی نشان کیوں نہیں۔ اگر دقت سے دیکھیں تو آئی ایس او نے ایک سطح کا انقلاب برپا کر دیا ہے، جو انشااللہ امام زمانہ ﴿ع﴾ کے جہانی انقلاب کی کڑی ثابت ہوگا۔ انقلاب سے ایک مراد یہ ہے کہ کسی ملک یا خطے میں ایسا ماحول پیدا ہو جائے کہ وہاں برائی کے امکانات کم سے کم ہوں اور نیکیوں کے اسباب زیادہ سے فراہم ہوں۔ اس کی روشنی میں دیکھیں تو پاکستان میں آئی ایس او نے کم از کم امامیہ طلبہ، جو آئی ایس او سے منسلک ہوتے ہیں، انکے لیے ایسا ماحول تیار کر دیا ہے، جس میں وہ ہر قسم کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور انہیں نیکیوں کے اسباب فراہم کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملت تشیع کیلئے آئی ایس او کی خدمات قابل قدر ہیں، عالم اسلام کیلئے تنظیم نے کیا کردار ادا کیا ہے۔؟

ناصر شیرازی: آئی ایس او کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تنظیم نے ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز بلند کی ہے۔ ان میں سے سب سے اہم مسئلہ، بیت المقدس اور فلسطین ہے۔ اسرائیل کے ناپاک وجود سے انکار اور فلسطینیوں کی حمایت میں تنظیم کی آواز سب سے اونچی رہی ہے۔ میرے پاس جب تنظیم کی مرکزی مسئولیت تھی، اسوقت متحدہ طلبہ محاذ کے اجلاسوں میں جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔ ایک دفعہ اجلاس میں ایک اہلسنت بردار طلبہ تنظیم کے دوست نے مجھے دعوت دیتے ہوئے، آئی ایس او کا تعارف ہی اس انداز میں کروایا کہ اب میں ایسی تنظیم کے سربراہ کو اسٹیج پہ بلا رہا ہوں کہ پاکستان میں جب بھی فلسطین کے حق میں کوئی آواز بلند ہوتی ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ یہ آواز امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی ہی ہوگی۔ اس حوالے سے تنظیم کا کردار بہت نمایاں ہے۔

اسلام ٹائمز: یوم تاسیس کی مناسبت سے تنظیم کے بانی کی حیثیت سے ایک ہستی کا ذکر لازم ہے۔ آئی ایس او کو فکری، نظریاتی اور عملی بنیاد فراہم کرنے میں ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے کردار پر روشنی ڈالیں۔؟
ناصر عباس شیرازی: بلاشبہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے ملت تشیع پاکستان کو اسلام کے حقیقی نظریات اور اسکی انقلابی روح سے متعارف کروایا۔ اگر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نہ ہوتے تو شائد سرزمین پاکستان آئی ایس او جیسی نعمت سے محروم رہتی اور نہ ہی پاکستان میں امام خمینی کے انقلاب اسلامی کو کوئی سفیر ملتا۔ تنظیم کی بنیادوں میں شہید مظلوم، ڈاکٹر محمد علی نقوی کا لہو ہے، یہ اسی لہو کی حرارت ہے کہ تنظیم خط ولایت پر قائم ہے۔ نہ کوئی ان جیسا تھا، نہ کسی نے ایسا کردار ادا کیا، یہ شہید ڈاکٹر کے بابرکت وجود کی تاثیر ہے کہ آئی ایس او کے نوجوان انقلاب اسلامی کو امام زمانہ ﴿ع﴾ کے عالمی انقلاب کا پیش خیمہ سمجھتے ہوئے نظام ولایت فقیہ سے منسلک ہیں۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی پر خدا کی خاص رحمت تھی کہ انہوں نے ایران میں اسلامی انقلاب آنے سے پہلے ہی امام زمانہ ﴿ع﴾ کی عنایات کے مرکز خاص امام راحل، سید روح اللہ الخمینی الاعظم کو پایا، انہیں امام راحل کی شناخت نصیب ہوئی اور شہید ڈاکٹر کی پاکیزہ ذات اس خاص نورانیت اور نور خدا کی کرنوں کے ذریعے پاکستان کے طول عرض کو روشن کرنے کا سبب بنی۔

 اگر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید نہیں  ہوتے تو ممکن ہے پاکستان میں ملت تشیع کی صورتحال میں تبدیلی وقوع پذیر نہ ہوتی، شائد آئی ایس او بھی نہ ہوتی۔ یہ خدا کا خاص لطف اور عنایت ہے ہمارے لیے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسی ہستی نے اس شجرہ طیبہ کی بنیاد رکھی اور شہید علامہ عارف حسین حسینی کی پاکیزہ ذات کے زیر سایہ اسے معنویت اور نورانیت سے مخمور آب و تاب نصیب ہوئی۔ اگر شہداء نہ ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ ہماری نسلیں گمراہی کا شکار رہتیں۔ جس طرح ایران میں اللہ تعالٰی نے ہزاروں نہیں تو کئی سو مجتہدین اور اہل علم ہستیوں میں سے امام خمینی کو منتخب فرمایا، اسی طرح پاکستان میں شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور فرزند سید الشہداء شہید عارف حسین حسینی، اللہ تعالٰی کی خاص عنایات کا مرکز قرار پائے۔

اسلام ٹائمز: تنظیم میں انقلابیت اور انقلابی روح کن اصولوں کی بدولت باقی ہے۔؟
سید ناصر عباس شیرازی: آئی ایس او ہمیشہ سے اسلامی انقلاب کی داعی رہی ہے۔ تنظیم کی انقلابی روح شہداء کا پیغام اور امام خمینی کا راستہ ہے۔ یہ ہیں، راہ امام زمانہ ﴿ع﴾ میں ظلم کیخلاف قیام اور ولایت فقیہ۔ مادیت میں لتھڑے اس زمانے میں، جہاں لوگ دین کو بھی اپنی دنیا حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں، یہاں چالیس سال قبل شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مکتب تشیع کی اساسی خصوصیات میں سے ایک اصول، ظلم ستیزی کی بنیاد پہ، امام خمینی سے الہام حاصل کرتے ہوئے، مردہ باد امریکہ کا نعرہ لگایا۔ دنیا آج جب چالیس گذر گئے ہیں، اس حقیقت کا اعتراف کر رہی ہے کہ امام خمینی اور انکے پیروکاروں نے تار و تاریک ماحول میں جس حقیقت کو شگافتہ فرمایا تھا، وہی درست ہے کہ انسانیت اور بالخصوص مسلمانوں کی مشکلات کی جڑ امریکہ ہے۔ آئی ایس او اس راستے پہ آج بھی قائم ہے۔ امریکی استعمار کی پہچان اور اسکے خلاف قیام کے حوالے سے آئی ایس او کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہم ایک ایسی تحریک کا حصہ ہیں، جو زمانے سے چالیس سال آگے کا وژن بھی رکھتی ہے اور عملی کرنے کا عزم بھی۔

قلب مطہر نازنین امام زمانہ ﴿ع﴾ کو شاد رکھنے کا جو درس ہمیں شہداء نے دیا ہے وہ یہ ہے کہ نائب برحق امام زمان ﴿ع﴾ کو تنہا نہ چھوڑیں، اگر نائب برحق امام زمان ﴿ع﴾ کا قلب مطہر راضی و خوشنود ہے تو یقین رکھیں کہ زمانے کے امام ﴿ع﴾ بھی آپ سے راضی ہیں۔ الحمد اللہ، رہبر معظم سید علی خامنہ ای، آئی ایس او کو اپنی آنکھوں کا نور قرار دیتے ہیں، یہ دلیل ہے کہ آئی ایس او شہداء کے راستے پہ باقی ہے۔ امامیہ طلبہ نے شہدا کے خون کو مرنے نہیں دیا، ضائع نہیں ہونا دیا، بلکہ جس طرح بی بی زینب ﴿س﴾ نے امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو زندہ رکھا، اسی طرح راہ کربلا میں شہید ہونے والے شہداء کے خون کو آئی ایس او ہیشہ زندہ رکھے گی۔ تنظیم کی بقا اسی میں ہے، یہی ہماری آئیڈیالوجی ہے اور کامیابی کا راستہ۔
خبر کا کوڈ : 385842
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Great leader Nasir sherazi shb we slolute and tribute u , we hope too in the supervsison of MWM Insha allah tala very soon our beloevd country will b free _from thses such types of corrupt leader likly nwaz ,zardari
ہماری پیشکش