0
Wednesday 28 May 2014 00:47
بلوچستان میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے

اسٹیبلشمنٹ نے مہاجرین کو مجاہدین سے طالبان بنایا، اب قوم پرستوں کو ختم کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ

بیرونی ممالک کے بلوچستان میں مداخلت کے آج تک ثبوت فراہم نہیں کئے گئے
اسٹیبلشمنٹ نے مہاجرین کو مجاہدین سے طالبان بنایا، اب قوم پرستوں کو ختم کرنیکی کوشش کی جا رہی ہے، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ

ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بلوچستان کے بزرگ قبائلی رہنماء و نیشنل پارٹی کے صدر ہیں۔ آپ نیشنل پارٹی کے سینیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ آپ نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) سے کیا، بعدازاں نیشنل پارٹی سے منسلک ہوئے۔ گذشتہ انتخابات سے قبل ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کو پیپلز پارٹی کی مرکزی حکومت کی جانب سے نگراں وزیراعظم کیلئے بھی نامزد کیا گیا تھا، لیکن آپ نے نگراں وزیراعظم بننے سے معذرت کرلی۔ آپ بلوچوں کے حقوق کیلئے عرصہ دراز سے سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ سے مسئلہ بلوچستان کے حل، گذشتہ دنوں خضدار میں لیویز اہلکاروں پر ہونے والے حملے سمیت صوبے کی مجموعی سیاسی صورتحال کو جاننے کیلئے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے مسئلے کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: بلوچستان کا مسئلہ آج کا نہیں، بلکہ 1948ء سے یہ مسئلہ چلا آ رہا ہے۔ اگر اس صوبے کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں، تو سیاسی طریقے سے اسے حل کرنا ہوگا لیکن اسکے برعکس بلوچستان کے مسئلے کو سیاست کی بجائے بندوق کے زور سے حل کرنے کی بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں۔ جو کبھی کامیاب ہوئی، اور نہ کبھی ہوگی۔ ریاست کو دہشتگردی کا رول ادا نہیں کرنا چاہیئے۔ ریاست کا کام معصوم شہریوں کو قتل کرنے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن اسکے برعکس ریاست مسلسل بلوچستان سمیت پورے ملک میں مذہب، نسل اور علاقے کی بنیاد پر اپنے مفادات کیلئے لوگوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، جو انتہائی قابل مذمت ہے۔ پارلیمنٹ، عدلیہ، سول بیوروکریسی سمیت ہر شعبے میں یہ اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ لہذٰا بلوچستان کا مسئلہ سیاسی اور معاشی ہے۔ آج تک کسی حکومت کے دور میں بلوچستان کے لوگوں کو بنیادی حقوق بھی نہیں دیئے گئے۔ اگر لاشوں کا نام حقوق ہے تو صوبے کی آبادی سے زیادہ یہ حقوق ہمیں دیئے گئے ہیں۔ جب تک بلوچستان کے ساحل وسائل کا مالک بلوچ قوم کو نہیں سمجھا جاتا اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اسٹیبلشمنٹ یا دو نمبر کے نمائندوں کو بلوچ عوام کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ انتخابات سے بعد وزیراعلٰی بلوچستان ایک بلوچ قوم پرست کو چُنا گیا، کیا یہ مثبت پیشرفت نہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: بلوچستان میں کسی قسم کے انتخابات نہیں ہوئے، یہ سارا ڈرامہ ہے۔ خاص طور پر صوبے کے دارالحکومت کوئٹہ سے تو ایک بھی بلوچ اُمیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ بلوچ علاقوں ہی میں اگر بلوچ رہنماء کامیاب نہ ہو، تو آپ اسے انتخابات کیسے کہہ سکتے ہیں۔ کہا تو جا رہا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست حکومت ہے مگر یہ دیکھا جائے کہ اس قوم پرست کو لانے والے بلوچ قوم یا کوئی اور ہے۔ اگر حقیقت میں اس قوم پرست کو بلوچ قوم منتخب کرتی تو شاید ہم تسلیم کرتے اور اگر الیکشن کے نتائج کو دیکھا جائے۔ جن علاقوں میں قوم پرستوں کی اکثریت تھی، وہاں ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے۔ البتہ اسٹیبلشمنٹ کے اثرورسوخ والے علاقوں میں ووٹ ضرور کاسٹ ہوئے ہیں۔ یہ حکومت بلوچ قوم کی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی حکومت ہے۔ یہ حکومت بلوچستان میں جاری آپریشن پر پردہ ڈالنے کے لئے بنائی گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں خضدار میں لیویز پر حملہ کرکے 8 اہلکاروں کو جاں بحق کیا گیا، اسکے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: خضدار میں لیویز اہلکاروں پر حملہ ماضی کے مقابلوں سے قدرے مختلف ہے۔ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کچھ لوگ وڈھ میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ڈکیتی کررہے تھے۔ جس پر لیویز کے اہلکاروں نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران دونوں جانب سے فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو زخمی ہوا تھا۔ بعد میں ڈاکوؤں ڈھونڈنے کے لئے لیویز فورس گئی تھی۔ اگلی صبح یعنی اتوار کو دن دیہاڑے دس سے گیارہ گاڑیوں میں یہی مسلح لوگ آئے۔ جنہوں نے لیویز پر حملہ کیا اور آٹھ لیویز اہلکار اس حملے میں ہلاک اور کچھ زخمی ہوئے۔ حملہ آور وہ لوگ ہیں جو دن دیہاڑے ڈکیتی کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کو مختلف حکومتوں نے قوم پرستی کو ختم کرنے کے لئے پال رکھے ہیں۔ انہی لوگوں کے گھروں کے سائے تلے توتک سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اتنا بااختیار بنا دیا ہے کہ انکو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بلوچستان میں ماضی کے اسی طریقہ کار پر چل رہی ہے۔ جیسے مہاجرین کو مجاہدین اور پھر ان مجاہدین کو طالبان بنایا۔ اب اسی طریقے سے قوم پرست کو ختم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس عمل سے ہم بلوچ قوم پرستی کو ختم کریں گے۔

اسلام ٹائمز: تو لیویز پر اس حملے کے اصل وجہ کیا ہو سکتی ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: یہ لوگ صرف کوشش نہیں بلکہ کافی حد تک اپنی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے ہیں کیونکہ بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر بھی انہی لوگوں کا استعمال کیا گیا اور مسخ شدہ لاشوں میں بھی انہی لوگوں کا ہاتھ ہے۔ اجتماعی قبریں بھی ان کی ذمہ داریوں میں آتی ہیں۔ فورسز پر حملوں کا علیحدگی پسند باقاعدہ اعتراف اور ذمہ داری قبول کرتے ہیں تاہم لیویز چونکہ انہی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے ان پر آج تک ان علیحدگی پسندوں نے حملہ نہیں کیا، لیویز پر حملے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے وجود میں آنے کے بعد جو سوچ پیدا ہو گئی تھی کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے جو بھی پالیساں بنائیں وہ غلط تھیں اور اسٹیبلشمنٹ نے جو مسلح لوگ پال رکھے ہیں اب ان کا خاتمہ ہونا چاہیئے، شاید اسی سوچ کو روکنے کے لئے انہوں نے مقامی لیویز پر حملے کرنا شروع کر دیئے۔

اسلام ٹائمز: لیکن کسی نہ کسی جگہ پر بلوچ قوم پرست مسلح تنظیمیں بھی تو ریاستی تنصیبات پر حملے میں ملوث رہی ہیں، کیا آپ اسے صحیح سمجھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: علیحدگی پسندوں کی سوچ کو صحیح یا غلط قرار نہیں دے سکتا، ان کی اپنی سوچ ہے لیکن ہم جمہوری سیاست کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس جمہوری سیاست میں بھی ماضی قریب میں ہمارے 65 کارکنوں اور رہنماؤں کو قتل کیا گیا ہے۔ اگر علیحدگی پسند حملے کرکے اعتراف کرتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ادارے بھی اس طرح کی حرکت کریں، تو اسٹیٹ اداروں اور علیحدگی پسندوں میں پھر کیا فرق باقی رہے گا۔ ریاست بھی اپنے قانون اور عدالتوں کی دھجیاں اڑا رہی ہے تو علیحدگی پسندوں سے ہم اور آپ کس طرح گلہ کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ مسخ شدہ لاشوں کی بات کر رہے ہیں، یا آپکا اشارہ کسی اور طرف ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: مسخ شدہ لاشوں کے ذمہ داروں سے متعلق ہم سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ کوئی شنوائی تو ہوئی مگر آج تک کسی ذمہ دار کو کٹہرے میں لایا گیا، سزا دی گئی اور نہ ہی ان کی نشاندہی کی گئی۔ اگر مسخ شدہ لاشوں میں ریاست کے ادارے ملوث نہیں ہیں تو حکمرانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ ان میں ملوث ذمہ دار لوگوں کا سراغ لگاتے لیکن آج تک کسی بھی شخص کے پاؤں کے نشانات کو فالو کرنے کی جرأت نہیں کی گئی۔

اسلام ٹائمز: اختر مینگل بھی آپ کی مرکزی سیاست کا حصہ ہیں، کیا آپکو مرکز کی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: ہم روز اول سے ہی جمہوری سیاست کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہم نے پارلیمانی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی۔ ہم سمجھے کہ شاید اب وقت اور حکومت بدل گئی مگر گذشتہ حکومتوں کے اقدامات موجودہ حکومتوں سے کم نہیں رہے اور ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ ایک فیصد بھی حالات نہیں بدلے۔ بہتری کی بجائے مزید بدتری میں اضافہ ہوا ہے اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کا ہم پر دباؤ ہے کہ ہم دوبارہ پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہو جائیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ بلوچستان کے موجودہ حالات میں بیرونی ممالک کی مداخلت پر یقین رکھتے ہیں۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: آج تک افغانستان، امریکہ اور ہندوستان کی مداخلت کے حوالے سے ثبوت پیش نہیں کئے گئے جن پر انگلی اٹھائی جاتی ہے۔ ہمارے حکمران ہر وقت ان کے بلاوے پر یاترا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اب بھی بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہو رہے ہیں۔ اگر واقعی یہ ممالک مداخلت کر رے ہیں تو حکمران کم سے کم ان کی تقریبات میں تو شرکت نہ کرتے۔

اسلام ٹائمز: صوبے کے مستقبل کو آپ کس طرح دیکھتے ہے۔؟
ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ: بلوچستان میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے اور اس کی ابتداء ہو بھی چکی ہے۔ مثلاً صوبے کے بعض علاقوں میں تعلیم کے دورازے بند کئے جا رہے ہیں۔ حکومتی سکول تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نجی سکولوں کو بھی سرکار کی بنائی ہوئی تنظیمیں حملے کرکے بند کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر کوئی تعلیم کے حق میں نکلیں گے تو وہ مخالف لوگوں کا سامنا ضرور کریں گے۔ ایسی صورت میں خانہ جنگی نہیں تو اور کیا ہوگا۔

خبر کا کوڈ : 386902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش