0
Tuesday 8 Jul 2014 00:09

معدنی وسائل کے استعمال اور آئین کی روح سے پاکستان، بلوچستان کا مقروض ہے، عبیداللہ جان بابت

معدنی وسائل کے استعمال اور آئین کی روح سے پاکستان، بلوچستان کا مقروض ہے، عبیداللہ جان بابت
عبیداللہ جان بابت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنماء و صوبہ بلوچستان کے وزیر جنگلات ہیں۔ آپ بلوچستان کے شہر لورلائی میں پیدا ہوئے اور گذشتہ سال مئی 2013ء کے انتخابات میں اپنے حلقے سے صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ صوبہ بلوچستان میں مخلوط حکومت کی ایک سالہ حکومتی کارکردگی، بلوچوں کے مسائل اور ملک کو درپیش دیگر مسائل کے حل کے سلسلے میں ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے نہایت مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومتی معاملات کو چلانے میں کس طرح کی مشکلات پیش آ رہی ہیں۔؟
عبیداللہ جان بابت: پاکستان ہر لحاظ سے بہترین ملک ہے۔ یہاں کا موسم، زمین، آب و ہوا یعنی ہر چیز دنیا کے بہترین ممالک میں شمار ہوتی ہے لیکن اس ملک کا المیہ ہی یہی رہا ہے کہ یہاں پر کبھی بھی جمہوریت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا۔ اس وقت یہ ملک جلنے اور چلنے کے دوراہے پر کھڑا ہے، اگر ہم نے غلطی کی تو اس ملک کو جلا دینگے۔ ساری دنیا میں ایک جمہوری نظام چل رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اس جمہوری نظام کو چلنے نہیں دیا گیا۔ ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئی ہیں لیکن اب فوج، پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا سب کو ایک ضابطہ اخلاق کیساتھ اکھٹے چلنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: گزشتہ چند عرصے سے سول اور ملٹری لیڈر شپ کے درمیان تناؤ کی اصل وجہ کیا ہے۔؟
عبیداللہ جان بابت: اصل میں میڈیا ہر چیز کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ جب سپریم کورٹ نے مشرف صاحب کو چارج کیا۔ میں نے اس دن کو پاکستان کی تاریخ میں چار اہم دنوں کیساتھ تشبیہ دی۔ سب سے پہلا دن وہ جب پاکستان بنا۔ دوسرا دن جب اس ملک کو آئین ملا۔ تیسرا دن وہ جب ملک میں اٹھارویں ترمیم تسلیم ہوئی۔ چوتھا یہ کہ ایک جنرل کو سپریم کورٹ میں پیش کیا گیا۔ اب پچھلی مرتبہ جنرل راحیل شریف نے ایس ایس جی کمانڈو کے ونگ سے خطاب میں کہا کہ ہم اپنے ادارے کی ہر لحاظ سے بھرپور حفاظت کرینگے لیکن میڈیا نے اسے ایک اور انداز میں لیا۔ لہذا ذاتی طور پر میں یہی سمجھتا ہوں کہ فوج اور سیاسی لیڈرشپ میں کوئی تناؤ نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: حامد میر پر حملے کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے۔؟
عبیداللہ جان بابت: حامد میر نے کہا تھا کہ اگر مجھ پر حملہ ہوا تو اسکی ذمہ دار آئی ایس آئی ہو گی۔ یہ صرف ایک الزام کی حد تک تھا لیکن بعد ازاں جس انداز میں چند گھنٹوں تک میڈیا ہاوس نے ادارے کیخلاف مہم چلائی، وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہمیں میڈیا کی آزادی بڑی مشکلات کے بعد ملی ہے۔ انسانوں‌ سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن اسکا مطلب یہ نہیں کہ ادارے آپس میں الجھ جائیں۔ پاکستان پہلے سے اس قدر گھمبیر مسائل میں گھرا ہوا ہے، لہذا مزید ہمیں غلطیاں نہیں کرنی چاہیئیں۔

اسلام ٹائمز: محمود خان اچکزئی نے اسمبلی سے خطاب میں‌ کیوں کہا کہ ملک میں ٹیکنوکریٹس کی حکومت آ رہی ہے۔؟
عبیداللہ جان بابت: پارلیمنٹ میں عمران خان کے تیس ارکان موجود ہیں۔ ایک بھائی کی حیثیت سے میری تجویز یہ ہے کہ اگر آپ کو انتخابی اصلاحات چاہیئیں تو یہ نہ صرف آپکی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ آئندہ انتخابات مزید صاف و شفاف طریقے سے ہوں لیکن اگر آپ اسلام آباد میں ہزاروں کی تعداد میں افراد کو وہاں پر جمع کرینگے تو ساری حکومتی مشینری بند ہو جائے گی۔ حالات پہلے سے خراب ہیں اور ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر طاہر القادری صاحب کو نظام میں تبدیلی چاہیئے تو اسکا بہترین راستہ پارلیمنٹ ہے۔ انہیں چاہیئے کہ انتخابات کے ذریعے پوری ملک کی تقدیر بدل دیں لیکن دونوں جماعتوں کے طریقہ کار میں تبدیلی آنی ہوگی۔ سڑکوں پر اس طرح کے ہنگامے نہیں ہونے چاہیئیں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کا الزام ہے کہ گذشتہ انتخابات میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور الیکشن کمیشن کے ممبران نے دھاندلی کی۔ کیا اس بات میں صداقت ہیں۔؟
عبیداللہ جان بابت: پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے ہیں ہر شخص نے ذاتی اعتبار سے دھاندلی کی ہے۔ کبھی کبھار تو امریکہ میں بھی ایسی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن کسی ادارے کو باقاعدہ نشانہ بنانا میرے خیال میں ٹھیک نہیں ہے۔ بالکل دھاندلی ہوئی ہو گی لیکن اس طرح منظم انداز میں الیکشن کمیشن یا کوئی اور اس میں ملوث نہیں ہو سکتا۔

اسلام ٹائمز: پچھلی حکومتوں کی بہ نسبت آپکے آنے سے بلوچستان میں کیا فرق پڑا۔؟
عبیداللہ جان بابت: قائداعظم محمد علی جناح آخری دم تک یونائیٹڈ انڈیا کیلئے کام کرتے رہے۔ انکی رائے یہی تھی کہ چونکہ جمہوریت میں اکثریت کی رائے غالب ہوتی ہیں۔ لہذٰا مسلمانوں کیلئے آئینی حقوق چاہیئیں لیکن کانگریس کے رہنماء نہرو نے ایک پریس کانفرنس کے ذریعے انکا اعتماد ختم کر دیا اور انڈیا ٹوٹ گیا۔ پھر ہم بھی بنگالیوں کو آئینی حقوق نہ دے سکے تو ہمارا ملک ٹوٹا۔ اب بھی میں کہتا ہوں کہ بلوچ، پشتون، سرائیکی، سندھی پنجابی سمیت جو بھی ہوں، انکے حقوق دیئے جائیں کہ آپکے وسائل پر آپکے بچوں کا حق مقدم ہے۔ ہمارے وزیراعلٰی ڈاکٹر مالک صاحب ہر دن یہی بات کہتے ہیں کہ بلوچوں کی مسخ شدہ لاشیں اور جبری گمشدگیوں میں کمی لائی جائے اور اس میں واضح حد تک کمی بھی آئی ہے۔ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ جہاں سے بھی گیس نکلتی ہے وہاں کے لوگوں کو آپ نے مرآعات دینی ہونگی۔ 1965ء سے سوئی گیس نکالی جا رہی ہے اب سارے ذخائر ختم ہو گئے۔ آپ نے بلوچ اور پشتون علاقے کو گیس نہیں دی یہ آئین کیلئے آپکا احترام ہے۔ آئینی طور پر میں یہ کہونگا کہ پاکستان، بلوچستان کا مقروض ہے، ہر گھر کو گیس سپلائی کرنے کا۔

اسلام ٹائمز: آپ مرکز میں اور صوبے میں نواز شریف کیساتھ اکھٹے ہیں، لیکن اگر آپ بھی لوگوں کو آئینی حقوق نہیں دے سکے تو کون دیگا۔؟
عبیداللہ جان بابت: ہمارا اور میاں‌ محمد نواز شریف صاحب کا رشتہ جمہوریت کا ہے۔ ہم اکھٹے سارا دن ایک دوسرے کیساتھ بیٹھے رہتے ہیں اور ہماری کوشش یہی ہوتی ہیں کہ اپنے عوام کی مشکلات کو حل کر سکے۔ کافی حد تک ہمارے مسائل حل بھی ہو رہے ہیں۔ میں بالکل مطمئن ہوں کہ میاں صاحب بتدریج زیادہ جمہوریت کی طرف آگے چلیں گے۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف صاحب بلوچستان میں اپنا وقت کیوں صرف کرنا نہیں چاہتے۔؟
عبیداللہ جان بابت: میرے خیال میں نواز شریف صاحب تو اپنے گھر بھی نہیں جاتے سارا وقت کام میں گزارتے ہیں۔ اسی طرح دیگر رہنماؤں کی بہ نسبت نواز شریف نے زیادہ وقت بلوچستان کو دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: 2014ء میں امریکی انخلاء کے بعد خطے کے کیا حالات ہونگے۔؟
عبیداللہ جان بابت: امریکہ ہم سے ناراضگی سے بڑھ کر بھی ناراض ہے۔ افغانستان سے جانے کے بعد امریکہ وہاں اپنے سات آٹھ اڈے چھوڑ کر جا رہا ہے۔ ابھی ان حالات میں ہمیں نہایت پھونک پھونک کر قدم رکھنے ہونگے۔ ہمارے ہاں لڑائیاں شروع ہیں۔ فاٹا میں ہمارے ہزاروں فوجی شہید ہوئے۔ اسی طرح مخالف سمت کے بھی مارے گئے ہیں۔ اب جو طالبان افغانستان میں ہیں انکی خدمات بھی لی جا سکتی ہیں۔ ان طالبان کے فاٹا کے طالبان کیساتھ گہرے رشتے ہیں۔ ان کے ذریعے افغانستان میں اپنے مفادات کی حفاظت کرنی چاہیئے۔ اب بھی پاکستان میں ایسے گروہ ہیں جنہیں پاکستان سپورٹ کرتا ہے۔ ہمیں ان گروہوں کے ذریعے افغانستان میں طالبان کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم افغانستان میں مشترکہ امن چاہتے ہیں۔ میرے سامنے کرزئی صاحب نے کہا تھا کہ ہم پاکستان کیخلاف اپنی سرزمین پر استعمال نہیں ہونے دینگے۔ اگر پاکستان اپنی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہیں ہونے دے۔

اسلام ٹائمز: ان سارے مسائل کا حل نکالنے کیلئے سول اور ملڑی لیڈر شپ کیوں اکھٹی نہیں بیٹھتی۔؟
عبیداللہ جان بابت: ان دونوں کو اکھٹے بیٹھنا ہوگا۔ خدانخواستہ اگر یہاں بھی لیبیا یا عراق کی سی صورتحال ہو گئی تو کوئی بھی نہیں رہے گا۔ ہمیں افغانستان میں امن لانا ہو گا۔ اسکے علاوہ پاکستان میں تمام ممالک کی پراکسی وار کو ختم کرنا ہو گا۔ ایک چھوٹی سی بھی چنگاری دھماکہ کرسکتی ہے۔ ہمیں ماضی کی تلخیوں کو بھولنا ہوگا۔ پرائیوٹ آرمی کو ختم کرنا ہو گا۔ 65ء کی جنگ میں ہمارے اتنے جوان شہید نہیں ہوئے جبکہ ان چند سالوں میں پچاس ہزار سے زائد پاکستانی شہید ہو چکے ہیں۔ لہذٰا ہمارا ملک مزید اس کشت و خون کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
خبر کا کوڈ : 397958
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش