0
Sunday 8 Jan 2012 01:14

مجھ سے کسی نے استعفٰی نہیں مانگا، صدر زرداری

مجھ سے کسی نے استعفٰی نہیں مانگا، صدر زرداری

اسلام ٹائمز۔ صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے پر لڑیں گے، مجھ سے کسی نے استعفٰی نہیں مانگا، بینظیر بھٹو قتل کیس میں پیش رفت سے متعلق چیف جسٹس سے پوچھا جانا چاہیئے، لوئر کورٹس کے ماتحت ہے، میں نے بینظیر کو پاکستان آنے سے روکا مگر وہ نہ مانیں، میں آج بھی اس بات پر قائم ہوں کہ مجھے بی بی کے قاتلوں کا پتہ ہے۔ مشرف کا ٹرائل اس لئے نہیں کیا کہ اس سے فوج ڈی مورالائز ہوتی۔ ہم نے چوہدریوں سے 1989ء میں بھی دوستی کی کوشش کی تھی۔ جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع دینے کا معاملہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔ اِن خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے سینئر اینکر پرسن حامد میر سے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ پی پی کے نعرے ایک زرداری سب پربھاری پر انہوں نے کہا کہ میں نے پارٹی میں اس نعرے پر پابندی عائد کر دی ہے، میں رات کے چار، چار بجے تک کام کرتا جس کا اثر میری صحت پر پڑا۔

صدرزرداری کا کہنا تھا کہ گڑھی خدا بخش کی تقریر میں بینظیر قتل کیس میں کے حوالے سے چیف جسٹس کو اس لئے کہا کہ کیس لوئر جیوڈیشری میں ہے جو چیف جسٹس کے ماتحت ہیں، اس کیس میں چالان کیوں بدلے جا رہے ہیں یا کیوں ججز تبدیل ہوئے اس کا سوال مجھ سے نہیں کیا جا سکتا۔ صدر کا کہنا تھا کہ وہ سابق وفاقی وزیر حج حامد کاظمی کو بےقصور سمجھتے ہیں، اُن کی ضمانت ہونی چاہیئے۔ بینظیر پر حملے کے وقت انہیں چھوڑ کر بھاگنے والوں کو وزیر بنانے کے حوالے سے کئے گئے سوال پر صدر زرداری نے کہا کہ وہ فرحت اللہ بابر، رحمان ملک اور بابراعوان کو اس کا ذمہ دار نہیں سمجھتے، اصول وہ بھی روالپنڈی میں جلسے کے خلاف تھے مگر کسی اور شخصیت کے کہنے پر بی بی وہاں جلسے کیلئے گئیں تھیں جس کا میں نام نہیں لینا چاہتا۔

میں نے بی بی کو پاکستان آنے سے روکا تھا، میں صرف بیت اللہ محسود کو بےنظیر کا قاتل نہیں سمجھتا، ان کے پیچھے بھی کوئی اور لوگ تھے، کونڈا لیزا رائس کی کتاب میں بھی اس کے کچھ اشارے ملے ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی ہم سے انصاف نہیں کیا۔ بی بی نے مارک سیگل کو ای میل میں کہہ دیا تھا کہ اگر میں ماری گئی تو اس کاذمہ دار پرویز مشرف ہو گا۔ ہم نے مشرف کو گارڈ آف آنر نہیں دیا۔ سب کو مشرف کا ٹرائل کرنا چاہیئے تھا لیکن اس سے فوج ڈی مورالائز ہوتی اس لئے مناسب نہیں سمجھا، میں اس کے جانے کے بہت بعد صدر بنا ہوں، اس کے واپس آنے پر ٹرائل کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ کرے گی۔ 

قاتل لیگ سے اتحاد سے متعلق سوال کے جواب میں صدر نے کہا کہ ہم نے 1989ء میں بھی چوہدریوں سے دوستی کی کوشش کی تھی، یہ آج کی بات نہیں ہے۔ جنرل کیانی کو ایکسٹینشن دینے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال انہوں نے کہا کہ یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے، نوازشریف نے اس حوالے کوئی مشورہ نہیں دیا صرف اعلانات کئے، اس وقت میاں صاحب سے اتنی ملاقاتیں نہیں ہوتی تھیں جتنا آپ سمجھتے تھے۔ اگر وہ اس بات کے مخالف تھے تو سڑکوں پر کیوں نہیں آئے۔ صدر نے چیف جسٹس کے ساتھ ذاتی لڑائی کا تاثر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ این آر او کیس میں سوئس کورٹس کو خط لکھنے کا فیصلہ وزیراعظم نے کرنا ہے اور وہ اس کو مناسب نہیں سمجھتے کسی نے خط لکھنا ہو تو ہمارے بعد لکھ لے۔

ہماری پارٹی اور سی ای سی بھی خط لکھنا نہیں چاہتی۔ بھٹو ریفرنس کیس سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ بےنظیر بھی بھٹو کیس کا ریفرنس بھیجنا چاہتی تھیں لیکن نہ کر سکیں، یہ صرف بی بی کی نہیں پوری پارٹی کی خواہش ہے۔ پی آئی اے واپڈا اور ریلوے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ادارے صرف کمزور ہوئے ہیں تباہ نہیں۔ چارسال میری کردار کشی ہوتی رہی میں چپ رہا۔ انہوں وزیردفاع کو کہا کہ وہ انڈس ایئر لائن کا لائسنس منسوخ کر دیں، ڈاکٹر عاصم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ انہیں واپس اس لئے لیا کہ ان میں سمجھ بوجھ زیادہ ہے۔ صدر زرداری نے کہا کہ ذوالفقارمرزا کو کس نے توڑا یہ میں نہیں جانتا، انسان کو بدلنے میں وقت نہیں لگتا۔ شاہ محمود قریشی کے حوالے سے  انکا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کا وزیراعظم ہونا ہضم نہیں کر سکے۔ نیٹو کی سپلائی لائن بندش، شمسی ایئربیس خالی کرانا اور بون کانفرنس کے بائیکاٹ جیسے فیصلوں کا کریڈٹ پارلیمنٹ کو ملنا چاہیئے۔ انہوں نے ایران کے خلاف جنگ کے تھیٹر، بلوچستان میں بھارتی مداخلت اور طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ میمو گیٹ اسکینڈ ل کے حوالے سے صدر نے کہا کہ اگر کوئی اس میں ذمہ دار ہوتا، فنانشل ٹائمز کے خلاف قانونی کارروائی پاکستان کے مفاد کے خلاف تھی، میں نے یہ موجودہ حکومت، جمہوریت یا پاکستان کے مفاد میں نہیں سمجھا۔ میمو گیٹ اسکینڈل پر پارلیمنٹ زیادہ مقتدر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم پاکستان بااختیار ہیں اُن کے پاس سارے اختیارات ہیں، اُنہیں اگر کوئی چیز تنگ کر رہی ہو تو اُنہیں پوزیشن لینے کا حق حاصل ہے اسی لئے انہوں نے ریاست کے اندر ریاست کا کہا تھا۔ صدر نے کہا کہ میمو گیٹ کے بعد ان سے کسی نے استعفٰی دینے کا نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فوج اور عدلیہ سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ دس سال بعد جب آصفہ آئے گی تو اس وقت تک پاکستان مضبوط ہو گا۔

خبر کا کوڈ : 128414
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش