0
Monday 13 Feb 2012 00:46

اغوا برائے تاوان کے بعض گروپس کے سربراہ صوبائی وزراء ہیں، دفاعی حکام

اغوا برائے تاوان کے بعض گروپس کے سربراہ صوبائی وزراء ہیں، دفاعی حکام

اسلام ٹائمز۔ اسلام آباد 2012ء کے دوران سکیورٹی فورسز پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ صوبے میں اغواءکار چوری کے واقعات میں بااثر شخصیات ملوث ہیں۔ لیویز فورس کے بیشتر اہلکار عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے علاوہ کسی نے آج تک کھل کر عسکریت پسندوں کی مخالفت کی جرات نہیں کی۔ صوبہ کے 30 میں سے صرف 5 اضلاع میں حالات خراب ہیں۔ کوئی سکیورٹی ادارہ بلوچستان میں لوگوں کے اغواء اور قتل میں ملوث نہیں۔ قومی سلامتی کے اداروں کو منظم پروپیگنڈہ سے بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بلوچستان میں اب جنداللہ کا کوئی وجود نہیں۔ صوبے اور عوام کی ترقی کیلئے کچھی کینال سمیت بڑے ترقیاتی منصوبے فوری مکمل کئے جائیں۔ بلوچ نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار دے کر مرکزی دھارے میں شامل کیا جانا چاہیئے۔ 

ہفتہ کو یہاں ذمہ دار ذرائع نے بلوچستان کی صورتحال مسائل کی وجوہات اور سکیورٹی اداروں پر لگائے جانیوالے الزامات کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ بلوچستان کا معاملہ صرف مقامی نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے، بلوچستان کی موجودہ صورتحال سیاسی خلاء کی وجہ سے بنی ہے۔ عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ بلوچستان سے فوج کی واپسی کے بعد سیاسی عمل سے جو خلا پورا کیا جانا چاہیئے تھا وہ نہیں کیا گیا۔ 

ذرائع نے کہا کہ سکیورٹی اداروں کو بہت زیادہ دباﺅ کا سامنا ہے اہلکار نہ تو زیادہ تعلیم یافتہ اور نہ ہی تربیت یافتہ ہیں۔ 65 فیصد اہلکار انڈر میٹرک ہیں۔ سکیورٹی اداروں کو مسلسل منظم پروپیگنڈہ کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ اس نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے۔ صوبائی حکومت کی طرف سے وفاقی حکومت کو بھی شکایات کی جا چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغانستان کے اندر تربیتی کیمپوں سے لوگوں کو تربیت دینے کے بعد فنڈز اور اسلحہ دے کر بلوچستان بھجوایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت براہمداغ بگٹی، ہربیار مری۔ جاوید مینگل اور ڈاکٹر اللہ نذر شرپسندوں کے چار گروپوں کی قیادت کر رہے ہیں ان میں سے براہمداغ بگٹی، ہربیار مری اور جاوید مینگل یورپ اور برطانیہ میں ہیں جبکہ ڈاکٹر اللہ نذر خضدار کے پہاڑوں سے سرگرم عمل ہے۔
بلوچستان کے تمام مسائل کی جڑ افغانستان میں ہے۔ ماضی میں کئے گئے غلط سیاسی فیصلے بھی صورتحال کو خراب کرنے کا باعث بنے ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ بلوچستان میں مری اور لونی قبائل کے معاہدہ کے نتیجہ میں چمالانگ کے کوئلہ کی کانوں میں 2006ء سے کام ہو رہا ہے۔ جس سے 75 ہزار لوگوں کو روزگار مل رہا ہے لیکن خیر بخش مری اور میر بیار مری نے ہر ممکن طور پر اس کو روکنے کی کوشش کی۔ ذرائع کے مطابق 2011ء میں بلوچستان میں دہشت گردی کے 1476ء واقعات ہوئے جن میں سے 36 بم حملے، 68 دھماکے اور 134 گیس تنصیبات پر حملے شامل ہیں۔ 2011ء میں ریلوے ٹریک پر 116، بجلی کی تنصیبات پر 20 حملے کئے گئے۔

عسکری ذرائع کے مطابق 2011ء میں 117 راکٹ فائر اور 215 بارودی سرنگوں کے دھماکے ہوئے ہیں۔ 2011ء میں 291 افراد کو اغواء کیا گیا۔ گزشتہ ماہ میں 38 اہلکاروں کو شہید کیا گیا ہے۔ 2012ء میں ایف سی پر حملوں میں تیزی آئی ہے۔ ذرائع کے مطابق قانون نافذ کرنے والے ادارے نہ صرف ترقیاتی منصوبوں بلکہ گیس، بجلی کی تنصیبات، ریلوے ٹریک کو بھی سکیورٹی فراہم کرتے ہیں جبکہ اسے صوبہ کی دیگر سکیورٹی اور دیگر فورسز کا کوئی تعاون نہیں۔ حتیٰ کہ کوئٹہ میں بھی زیادہ تر سکیورٹی کی ذمہ داری ایف سی کے پاس ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تربت اور مکران کا وہ علاقہ جو پہلے انتہائی محفوظ تھا وہاں پر سرگرم عمل ڈاکٹر اللہ نذر جو کہ سابق طالب علم رہنما ہے وہاں پر دہشت گردی سے خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے اور جو بھی مخالفت کرتا ہے اسے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر کو بھارتی خفیہ ادارے فنڈز اور اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔ 

سکیورٹی ذرائع نے کہا کہ وفاقی حکومت سے صوبے کو اربوں کے بے تحاشا ترقیاتی فنڈز مل رہے ہیں اور ہر رکن صوبائی اسمبلی کو سالانہ 25 کروڑ ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹرز کے فنڈز اس سے علیحدہ ہیں لیکن صوبے میں ان فنڈز سے ترقی کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ سابق دور میں تمام بی ایریا ختم کر دیئے گئے۔ موجودہ حکومت نے یہ فیصلہ واپس لے لیا جس کے نتیجہ میں آج تقریباً 6 سے 7 فیصد اے ایریا اور باقی 93 فیصد بی ایریا ہے۔ بی ایریا کو لیویز کنٹرول کرتی ہے جس کی کوئی تربیت نہیں۔ لیویز فورس کے بیشتر اہلکار عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق صوبہ کے سیاسی لوگوں کو عوامی مسائل سے قطعی طور پر کوئی دلچسپی نہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے علاوہ کوئی اور کھل کر عسکریت پسندوں کی مخالفت کرنے کی جرات نہیں کرتا۔ ذرائع نے کہا کہ ناراض بلوچوں کو رضامند کرنے کی 6 ماہ قبل آنیوالی تجویز پر اب تک کوئی عملی کام نہیں کیا گیا اور نہ ہی صوبہ میں عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ صوبہ کے 70 فیصد سکول بند پڑے ہیں۔ ہسپتالوں میں نہ تو ڈاکٹر اور نہ ہی ادویات ہیں۔ بیشتر اضلاع میں ڈپٹی کمشنر تو ہیں تحصیلوں میں اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر افسران نہیں ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق صوبہ میں اغواءکار چوری کی وارداتوں میں بااثر لوگ ملوث ہیں اور جب سکیورٹی ادارے ان کیخلاف کارروائی کرتے ہیں تو میڈیا اور سیاسی رہنماﺅں کے ذریعے ان کیخلاف بھرپور پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی جاتی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ صوبہ کے 30 میں سے صرف 5 اضلاع میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ ان اضلاع میں کوئٹہ، تربت، سبی، ڈیرہ بگٹی اور خضدار شامل ہیں۔ باقی تمام اضلاع میں کسی طرح کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 

ذرائع نے بتایا کہ ہربیار مری کے گروپ میں تاجک بھی شامل ہیں جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ ان میں ایک نمایاں نام اسلم اچھو کا ہے جو زیارت میں 14 ایف سی اہلکاروں کو مارنے میں ملوث ہے اور اس نے لاہور، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں میں کارروائیوں کی دھمکی دی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سکیورٹی اداروں کے 2011ء میں 78 جواں جاں بحق ہوئے جبکہ صرف گزشتہ ماہ جنوری میں 38 جوان جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی عناصر بھی ملوث ہیں اس علاقے میں امریکہ کے علاوہ بھارت، خلیجی ممالک اور یورپی ممالک کے مفادات ہیں اور وہ اپنے مفادات کیلئے گیم کر رہے ہیں۔ بعض یورپی ممالک کی حمایت سے ان عسکریت پسندوں نے اپنے دفاتر یورپی ممالک میں قائم کر لئے ہیں اور صورتحال کی خرابی میں ان تمام قوتوں کے مفادات اور ہاتھ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 

ذرائع نے سکیورٹی اداروں پر بلوچستان میں لوگوں کو اغواء اور قتل کرنے کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان الزامات کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔ کوئی سکیورٹی ادارہ اس میں ملوث نہیں ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان سے لاپتہ افراد کی فہرست جو کہ پہلے ایک ہزار سے زائد تھی اب سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف 46 رہ گئی ہے لیکن اس کی بنیاد پر قومی سلامتی کے اداروں کیخلاف منظم پروپیگنڈہ کر کے ان کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ صوبے کے معاملات کی درستگی کیلئے سیاسی حکمت عملی کی ضرورت ہے جو کہ اس وقت نہیں ہے۔ صوبہ میں صاف شفاف اور ساکھ والے الیکشن جس میں تمام عناصر جنہوں نے ماضی میں انتخابات کا بائیکاٹ کیا وہ سب لوگ حصہ لیں ان انتخابات میں سے منتخب قیادت صوبے کے مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ 

ذرائع نے امریکی ایوان نمائندگان کی سب کمیٹی میں بلوچستان کے بارے میں سماعت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس میں وہی لوگ ملوث ہیں جو سالہا سال سے پاکستان اور بلوچستان کیخلاف سازش کر رہے ہیں۔ ذرائع نے کہا کہ بلوچستان میں اب جنداللہ کا کوئی وجود نہیں اور نہ ہی چھ سات ماہ سے ایران کی طرف سے کوئی شکایت آئی ہے۔ ذرائع نے کہا کہ بلوچستان میں ماضی میں کی جانیوالی غلطیوں اور فوجی آپریشنوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ صوبے میں زیادہ سے زیادہ تعلیمی اور روزگار کے مواقع فراہم ہونا چاہئیں اور کچھی کینال، گوادر تا خضدار، رتو ڈیرو شاہراہ سمیت کئی زیرالتواء ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کی ضرورت ہے جن سے لاکھوں لوگوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ 

ذرائع نے کہا کہ سیاسی عمل میں اپنے لوگوں کو شامل کر کے بین الاقوامی طاقتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ عام آدمی کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا کر کے اسے فوائد دینا ہوں گے۔ لیگل فریم ورک میں تبدیلی لانا ہو گی تاکہ اس سے صوبے اور صوبے کے عوام کو فائدہ پہنچے۔ زراعت کے شعبہ میں ترقی کیلئے زیادہ سے زیادہ رقبہ کو قابل کاشت بنانا اور لینڈ ریفارمز کرنا ہوں گی۔ ذرائع نے کہا کہ صوبے میں قانون کی مکمل عملداری اور جو بھی کریمنل ہو چاہے وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو اس کو اگر سزا ملے گی تو حالات میں بہتری آئے گی۔ ذرائع نے کہا کہ صوبے کے عوام کو اعتماد اور حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ سوسائٹی، سیاستدان اور ادارے جب مشترکہ طو رپر اس جانب بڑھیں گے تو کوئی سازش کامیاب نہیں ہو گی۔

خبر کا کوڈ : 137101
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش