0
Thursday 10 May 2012 00:09

بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں کوئی الیکشن قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، سید علی گیلانی

بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں کوئی الیکشن قابل اعتبار نہیں ہو سکتا، سید علی گیلانی
اسلام ٹائمز۔ کشمیری حریت پسند رہنماء سید علی شاہ گیلانی نے مقامی وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”لالچوک میں جلسے کی اجازت دیں تو فیصلہ ہو جائیگا کہ عوام کا نمائندہ کون ہے؟‘‘ انہوں نے عمر عبداللہ کو سیکرٹی حصار میں بڑی بڑی باتیں کرنے کا طعنہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ نمائندگی ثابت کرنے کا مطالبہ گاندھی نہ منڈیلا سے کیا گیا اور نہ آن سان سوچی سے کیا جاتا ہے، اپنے بیان میں حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی نے کہا ہے کہ آزادی پسندوں کو اپنا نمائندہ کردار ثابت کرانے کی ضرورت نہیں ہے اور کشمیری عوام نے سو بار لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر انہیں اپنا بھرپور منڈیٹ عطا کیا ہے کہ وہ اس قوم کی امنگوں اور آرزووں کے اصل ترجمان ہیں، انہوں نے کہا کہ بھارت کی ساڑھے سات لاکھ افواج کی موجودگی میں جموں کشمیر میں کسی بھی الیکشن کی کوئی اعتباریت نہیں ہے اور عمر عبداﷲ اگر آزادی پسندوں کے نمائندہ کردار کو پرکھنا چاہتے ہیں تو انہیں حریت کو لالچوک میں ایک عوامی جلسہ بُلانے کی اجازت دینی چاہیے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوجائے۔ 

حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین نے کہا کہ وزیر اعلیٰ عمرعبداﷲ بھارتی فوج اور ریاستی پولیس کی بیساکھیوں کے سہارے حکومت کرتے ہیں اور سیکورٹی حصار سے باہر نکل کر ان کا ایڈرس تک ملنا بھی مشکل ہوجائے گا، ان کے مطابق عمرعبداﷲ نے کہا ہے کہ بندوق سے آج تک کوئی مسئلہ حل ہوا ہے اور نہ ہوگا، لیکن انہوں نے بھارت کی ساڑھے سات لاکھ بندوقوں کے بارے میں کوئی رائے زنی نہیں کی ہے کہ آخر ان کا یہاں کیا کام ہے اور وہ کیوں نہتے شہریوں پر مسلط رکھے گئے ہیں؟ سید علی شاہ گیلانی نے کہا کہ جموں کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ فوجی جماو والا خطہ ہے اور اس ریاست کی سول آبادیوں میں سینکڑوں فوجی چھاونیاں قائم ہیں، جن میں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج اور نیم فوجی فورسز تعینات ہیں، اس صورتحال میں یہاں عالمی قوانین کے مطابق انتخابات کی کوئی اعتباریت ہی نہیں ہے اور الیکشن ڈرامے میں سو فیصد ووٹ بھی ڈالے جائیں تو اس کو پھر بھی ایک جمہوری عمل کا نام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
 
مختلف ممالک کی آزادی کیلئے لڑی گئی جنگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے گیلانی نے کہا کہ جو لوگ اپنی قوم کی امنگوں اور قربانیوں کے ترجمان ہوتے ہیں، انہیں اپنا نمائندہ کردار ثابت کرانے کی کوئی حاجت نہیں ہوتی۔ ایسا مطالبہ نہ گاندھی جی سے کیا گیا تھا، نہ نیلسن منڈیلا سے کیا گیا اور نہ آن سان سوچی سے کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام نے اس سلسلے میں ایک نہیں، بلکہ متعدد بار اپنا فیصلہ سُنادیا ہے اور ماضی قریب میں 2008ء اور 2010ء میں لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آکر انہوں نے عمر عبداﷲ اور پوری دنیا کو اپنے اندرون کے بارے میں باخبر کرایا ہے، حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین نے عمر عبداﷲ کو چلینج کیا کہ وہ اگر عوامی نمائندوں کی پہچان کرانے کے شوقین ہیں تو انہیں میری نظربندی ختم کراکے حریت کانفرنس کو لالچوک میں ایک جلسہ بلانے کی اجازت دینی چاہیے، جس سے فیصلہ ہوجائے کہ لوگوں کی نمائندگی کون کرتا ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ موصوف کا فوج اور پولیس کے نرغے میں رہ کر بڑی بڑی باتیں کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا ہے، وہ لوگوں کے نمائندے ہیں تو سیکورٹی حصار سے باہر نکل کر عوامی جلسے کرکے دکھائیں۔ سید علی شاہ گیلانی نے مزید کہا کہ عمر عبداﷲ کے سر سے فوج اور پولیس کا سایہ ہٹا لیا جائے تو انہیں سونوار سے سیکرٹریٹ تک آنے میں دشواری پیش آئے گی اور لوگ انہیں اُن کی اصل وقعت سمجھائیں گے، سید علی گیلانی نے عمر عبداﷲ کے اس بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا ہے کہ بندوق سے آج تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ عمر عبداﷲ آخر کس بندوق کی بات کرتے ہیں، انہیں بتا دینا چاہیے کہ بھارت کی ساڑھے سات لاکھ بندوقوں کے بارے میں اُن کی کیا رائے ہے؟ اور کشمیر پولیس کی ایک لاکھ بندوقوں کو وہ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ 

حریت رہنماء کا کہنا ہے کہ عمر عبداﷲ اپنے دہلی کے آقاوں کو یہ بات سمجھائیں کہ بندوق کشمیر تنازعے کا حل نہیں، سینکڑوں لوگوں کو کالے قوانین کے تحت جیلوں میں رکھا گیا ہے اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ بھی برابر جاری ہے، حریت کانفرنس (گ) کے چیرمین نے کہا کہ کشمیری عوام ہمیشہ اس تنازعے کے پُرامن حل کے متمنی رہے ہیں، لیکن یہ بھارتی حکمران اور اُس کی افسر شاہی ہے جو اس خالص سیاسی اور انسانی مسئلے کو بندوق کے ذریعے سے حل کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 160446
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش